کتاب الہی میں وارد فتح ونصرت کی آیتوں پر غوروفکر

سيف الرحمن التيمي
1443/08/09 - 2022/03/12 06:12AM

کتاب الہی میں وارد فتح ونصرت کی آیتوں پر غوروفکر

تالیف: فضیلۃ الشیخ ابراہیم بن محمد الہلالی

 

تمام تعریفات اس اللہ کے لیے ہیں جس نے وعدہ کیا  تو سچ کر دکھایا، نوازا  تو بے  پناہ نوازا، اس کی رحمت کشادہ اور   اس کے فضل واحسان بے شمار  ہیں، اللہ کا درود وسلام نازل ہو نبی امی محمد بن عبد اللہ اور آپ کے آل واصحاب پر ۔

حمد وصلاۃ کے بعد:

روئے زمین کےمختلف گوشوں میں مسلمانوں کے جو موجودہ حالات ہیں، انہیں   ذلت ومسکنت درپیش ہے،  ان کے حقوق سلب ہوچکے ہیں،  دشمنوں کا ان پر غلبہ او رتسلط ہے اور ان کا خون ارزاں ہوچکا ہے، ان حالات پر جو شخص بصیرت کی نگاہ ڈالتا ہے اس  کے ذہن میں ان کمزور وبے بس مسلمانوں  کی یاد تازہ ہوجاتی ہے جن کے حالات  بھی اس وقت اسی طرح تھے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عہد مکی میں اپنی دعوت کا آغاز کیا تھا۔ اس یکسانیت سے میری مراد یہ ہے کہ دونوں جماعتوں کو درپیش حالات میں یکسانیت پائی جاتی ہے،  ورنہ دونوں میں فرق پایا جاتا ہے، ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اندر ایمان ویقین اور عمل صالح کا اتنا وافر مقدار موجود تھا کہ اس کے سامنے  مصیبت ان کے لیے ہیچ ہوگئی او روہ فتنوں کے سامنے سینہ سپر ثابت قدم رہے، برخلاف موجودہ دور کے مسلمانوں کے، وہ اپنے دین کے معاملہ میں کوتاہی کے شکار ہیں،انہوں نے اپنے میراث کو فراموش کردیا اور  اپنا تشخص بھول گئے، جس کی وجہ سے  ان کی مصیبت مزید بڑھ گئی او روہ دنیا میں ہلاکت وتباہی سے دوچار ہوئے، اللہ بلند وبرتر او رقادر مطلق سے ہم دعا گو ہیں کہ اپنے فضل وکرم سے ہمیں اور تمام مسلمانوں کو آخرت کی ہلاکت وتباہی سے  محفوظ رکھے، یقینا وہ بڑا سخی وفیاض اور کریم ومہربان ہے۔

انہی وجوہات کے پیش نظر ہم پر یہ واجب ہے کہ ہم عبرت وموعظت حاصل کریں اور بار بار ان کے حالات پر اور اس اسلوب پر غور کریں جس کے ذریعہ اللہ پاک نے انہیں خطا ب فرمایا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی رہنمائی فرمائی تاکہ ہم موجودہ  گمراہی اور ضلالت سے نجات کی راہ جان سکیں، اسی لیے میں نے یہ ارادہ کیا کہ اپنے آپ کو اور اپنے بھائیوں کو کتاب الہی میں وارد فتح ونصرت کی آیتوں پر غور وفکر کی تذکیر کرائی جائے تاکہ ہماری ہمت کو پرواز ملے، شکست وہزیمت کے بادل چھٹ جائیں اور ہم اپنے حالات پر  اس پر امید شخص کی طرح نظر ڈالیں جو علم اس لیے حاصل کرتا ہے تاکہ اس پر عمل کرے، رفعت وبلندی اور عزت وسرخروئی کی راہ پر چلتے ہوئے ترقی کے منازل طے کرے، اس قدر نا امید نہ ہو کہ گال پر ہاتھ رکھ کر بیٹھا رہے اور  قسمت کو کوستا رہے اوراپنی زندگی اور ذات کو ملامت کرتا رہے، کائنات  جاری وساری ہے، جو اس کے ساتھ آگے بڑھتا ہے وہ آگے بڑھ جاتا ہے اور جو پیچھے رہتا ہے اسے یہ دنیا پیچھے رہنے والوں کے ساتھ چھوڑ کر آگے بڑھ جاتی ہے، اور انہیں بھی اسی طرح کہا جائے گا جس طرح ان سے پہلے کے لوگوں کو کہاگیا: ﴿ إنكم رضيتم بالقعود أول مرةٍ فاقعدوا مع الخالفين ﴾ [ التوبة 83]

ترجمہ: تم نے پہلی مرتبہ ہی بیٹھ رہنے کو پسند کیا تھا ، تم پیچھے رہ جانے والوں میں ہی بیٹھ رہو۔

آج ان شاء اللہ  ہماری گفتگو کاموضوع  ہوگا: فتح ونصرت کی آیتوں پر غوروفکر، آیتوں کے انتخاب میں سورتوں کی ترتیب ملحوظ رکھی گئی ہے ، نہ کہ نزول اور حادثات کی ترتیب ۔

غور وفکر کا یہ پہلا سلسلہ    سورۃ البقرۃ کی اس آیت سے متعلق ہے جس میں اللہ تعالی فرماتا ہے:

﴿ أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَأْتِكُمْ مَثَلُ الَّذِينَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ مَسَّتْهُمُ الْبَأْسَاءُ وَالضَّرَّاءُ وَزُلْزِلُوا حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ مَتَى نَصْرُ اللَّهِ أَلا إِنَّ نَصْرَ اللَّهِ قَرِيبٌ (214) ﴾

ترجمہ:کیا تم یہ گمان کئے بیٹھے ہو کہ جنت میں چلے جاؤگے حالانکہ اب تک تم پر وہ حالات نہیں آئے جو تم سے اگلے لوگوں پر آئے تھے ۔انہیں بیماریاں اور مصیبتیں پہنچیں اور وہ یہاں تک جھنجھوڑے گئے کہ رسول اور اس کے ساتھ ایمان والے کہنے لگے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی؟ سن رکھو کہ اللہ کی مدد قریب ہی ہے۔

امام ابن کثیر اس آیت کی تفسیر میں رقم طراز ہیں:

اللہ تعالی فرماتا  ہے: (کیا تم یہ گمان کئے بیٹھے ہو کہ جنت میں چلے جاؤگے) اس سے قبل کہ تمہاری آزمائش ہو اور تمہارا امتحان لیا جائے، جیسا کہ تم سے قبل کی امتوں کے ساتھ ہوا، اسی لیے اللہ نے فرمایا: (حالانکہ اب تک تم پر وہ حالات نہیں آئے جو تم سے اگلے لوگوں پر آئے تھے ۔انہیں بیماریاں اور مصیبتیں پہنچیں) ، یعنی انہیں بیماریاں ، تکلیفیں اور مصیبتیں  پہنچیں۔

ابن مسعود ، ابن عباس، ابو العالیۃ، مجاہد ، سعید بن جبیر ، مُرّۃ الہمدانی ، حسن ، قتادۃ، ضحاک ، ربیع ، سدی اور مقاتل بن حیان فرماتے ہیں: (البأساء) سے مراد فقیری ہے  اور ابن عباس فرماتے ہیں: (الضرّاء) سے مراد  بیماری ہے۔

(اور جھنجھوڑے گئے) یعنی دشمنوں کے خوف  نے انہیں سخت انداز میں جھنجھوڑ دیا اور وہ  بڑی آزمائش سے دوچار ہوئے، جیسا کہ صحیح حدیث میں آیا ہے ، خبّاب بن ارت فرماتے ہیں: ہم نے عرض کیا: آپ ہمارےلیے مدد کیوں نہیں مانگتے؟آپ اللہ سے ہمارے لیے دعا کیوں نہیں کرتے؟آپ نے فرمایا: "تم لوگوں سے پہلے کچھ لوگ ایسے ہوئے ہیں کہ ان کے سر پر آرا  رکھ کر  سر تا پا   ان کے دوٹکڑے کردیے جاتے لیکن اس قدر سختی ان کو دین سے برگشتہ نہ کرتی تھی۔ پھر ان کے گوشت کے نیچے ہڈی اور پٹھوں پر لوہے کی کنگھیاں کھینچ دی جاتیں تھیں، لیکن یہ اذیت بھی انہیں ان کے دین سے نہ پھیر سکی۔ اللہ کی قسم!یہ دین ضرور مکمل ہوگا، اس حدتک کہ اگر کوئی مسافر صنعاء سے حضر موت کا سفر کرے گا تو اسے اللہ کے سوا کسی کا ڈر نہ ہوگا اور نہ کوئی اپنی بکریوں کے لیے بھیڑیے کا خوف کرے گا مگر تم لوگ جلدی کرتے ہو"۔

اللہ تعالی نے فرمایا: { الم* أَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ يُتْرَكُوا أَنْ يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لا يُفْتَنُونَ* وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَلَيَعْلَمَنَّ اللَّهُ الَّذِينَ صَدَقُوا وَلَيَعْلَمَنَّ الْكَاذِبِينَ } [العنكبوت: 1 -3]

ترجمہ: الم * کیا لوگوں نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ ان کے صرف اس دعوے پر کہ ہم ایمان ﻻئے ہیں ہم انہیں بغیر آزمائے ہوئے ہی چھوڑ دیں گے؟ * ان سے اگلوں کو بھی ہم نے خوب جانچا۔ یقیناً اللہ تعالیٰ انہیں بھی جان لے گا جو سچ کہتے ہیں اور انہیں بھی معلوم کرلے گا جو جھوٹے ہیں۔

 اس آزمائش اور امتحان کا ایک وافر حصہ صحابہ کرام کو جنگ احزاب کے دن لاحق ہوا، جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:

{ إِذْ جَاءُوكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ وَإِذْ زَاغَتِ الأبْصَارُ وَبَلَغَتِ الْقُلُوبُ الْحَنَاجِرَ وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا* هُنَالِكَ ابْتُلِيَ الْمُؤْمِنُونَ وَزُلْزِلُوا زِلْزَالا شَدِيدًا* وَإِذْ يَقُولُ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ مَا وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ إِلا غُرُورًا } [ الأحزاب 10و11 ]

ترجمہ: جب کہ (دشمن) تمہارے پاس اوپر سے اور نیچے سے چڑھ آئے اور جب کہ آنکھیں پتھرا گئیں اور کلیجے منھ کو آگئے اور تم اللہ تعالیٰ کی نسبت طرح طرح کے گمان کرنے لگے۔یہیں مومن آزمائے گئے اور پوری طرح وه جھنجھوڑ دیئے گئے۔

جب ہرقل نے ابو سفیان سے پوچھا: کیا تم نے اس سے یا اس نے تم سے کبھی کوئی جنگ کی ہے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں!اس نے کہا: تو پھر وہ جنگ کیسی رہی؟  انہوں   نے کہا: لڑائی میں کبھی ایک گروہ کی فتح نہیں ہوئی بلکہ کبھی وہ ہمیں مغلوب کر لیتے ہیں اور کبھی ہم ان پر غلبہ پا لیتے۔اس  نے کہا: رسول اسی طرح آزمائے جاتے ہیں، پھر   آخر کار کامیابی انہیں ہی ملتی ہے۔

اللہ  کا  فرمان ہے : (تم پر وہ حالات نہیں آئے جو تم سے اگلے لوگوں پر آئے تھے )۔ یعنی :   ان کے طریقے  ۔ جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا: { فَأَهْلَكْنَا أَشَدَّ مِنْهُمْ بَطْشًا وَمَضَى مَثَلُ الأوَّلِينَ } [الزخرف: 8] .

ترجمہ: ہم نے ان سے زیادہ زور آوروں کو تباہ کرڈالا اور اگلوں کی مثال گزر چکی ہے۔

اللہ تعالی نے فرمایا : (انہیں بیماریاں اور مصیبتیں پہنچیں اور وہ یہاں تک جھنجھوڑے گئے کہ رسول اور اس کے ساتھ ایمان والے کہنے لگے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی؟)۔ یعنی : وہ اپنے دشمنوں پر فتح ونصرت کا مطالبہ کرنے لگے اور  تنگ حالی و پریشانی کے وقت دعا کرنے لگے کہ  جلد سے جلد فراخی اور نجات  ملے ،  اللہ تعالی نے فرمایا:  (سن رکھو کہ اللہ کی مدد قریب ہی ہے)۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: { فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا } [ الشرح: 5، 6].

ترجمہ:  یقینا مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔بے شک مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔

جس قدر سختی اور پریشانی ہوتی ہے اسی کے بقدر فتح ونصرت بھی ملتی ہے، اسی لیے اللہ نے فرمایا: (سن رکھو کہ اللہ کی مدد قریب ہی ہے)۔

ابو رَزین کی حدیث میں آیا ہے: (تمہارے رب کو اپنے بندوں کی مایوسی پر تعجب ہوتا ہے، جبکہ اللہ کی مدد ان سے قریب ہوتی ہے، اللہ تعالی انہیں مایوس دیکھتا ہے تو ہنس پڑتا ہے، وہ جانتا ہے کہ ان کی فراخی وکشادگی قریب ہے)۔

شیخ عبد الرحمن سعدی رحمہ اللہ نے اس آیت کی تفسیر میں بڑی عمدہ بات کہی ہے، ہمیں اسے سمجھنا چاہئے، میں آپ کے سامنے ان کی عبارت نقل کر رہا ہوں : (اللہ تبارک وتعالی خبر دے رہا ہے کہ وہ اپنے بندوں کو فرحت ومسرت اور تنگی ومشقت کے ذریعہ ضرور آزماتا ہے،  جیسا کہ اس نے گزشتہ اقوام کے ساتھ کیا، یہ اس کی جاری وساری سنت اور طریقہ ہےجس میں کوئی تبدیلی نہیں آسکتی کہ جو شخص اس کے دین اور شریعت پر عمل پیرا ہوتا ہے اسے اللہ تعالی ضرور آزماتا ہے،  اگر وہ اللہ کے حکم پر صبر وشکیبائی کے ساتھ  قائم رہا اور اس راہ میں درپیش مصائب ومشکلات کی پرواہ نہیں کی، تو وہ سچا ہے جو کامل سعادت  اور آلہ سیادت سے سرفراز ہوا۔

لیکن جو شخص لوگوں  کے فتنہ اور  آزمائش کو اللہ کا عذاب شمار کرتا ہے، بایں طور کہ مصائب ومشکلات اسے اپنے مقصد سے روک دیتے ہیں، فتنوں سے ہار مان کر وہ اپنے مقصد سے برگشتہ ہوجاتا ہے،  تو وہ  دعوی ایمان میں جھوٹا ہے، کیوں کہ ایمان صرف آرائش اور آرزواور زبانی دعووں کا نام نہیں ہے ، بلکہ اس کے اعمال اس دعوی کو یا تو سچ ثابت کرتے ہیں یا جھوٹ۔

سابقہ قوموں  پر وہ حالات  آئے جن کا ذکر اللہ نے فرمایا:  { مَسَّتْهُمُ الْبَأْسَاءُ } یعنی: انہیں فقیری ومحتاجگی لاحق ہوئی۔{ وَالضَّرَّاءُ }  یعنی : انہیں جسمانی بیماریاں لاحق ہوئیں۔{ وَزُلْزِلُوا } یعنی: مختلف قسم کے خوف سے جھنجھوڑے گئے جیسے قتل کی دھمکی ، جلا وطنی، مال ودولت   کا لٹ جانا، احباب کا قتل ہوجانا، اور مختلف قسم کے مصائب سے دوچار ہونا، یہاں تک کہ ان کی حالت اتنی دیگر گوں ہوگئی کہ اللہ کی نصرت انہیں دور نظر آنے لگی، حالانکہ انہیں نصرت الہی پر کامل یقین تھا۔

لیکن حالت کی شدت اور تنگی  سے مجبور ہوکر: (رسول اور اس کے ساتھ کے   ایمان والے کہنے لگے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی؟ )۔

جب سختی اور تنگی آتی ہے تو اس کے بعد فراخی وآسانی بھی آتی ہے،  جس قدر تنگی ہوتی ہے اسی قدر کشادگی بھی ملتی ہے، اللہ تعالی فرماتا ہے: (سن  رکھو  کہ اللہ کی مدد قریب ہی ہے)۔اسی طرح ہر وہ شخص جو حق پر قائم رہتا ہے وہ آزمائش سے دوچار ہوتا ہے۔

جب جب اسے سختی ودشواری کا سامنا ہوتا ہے، اگر وہ اس پر صبر واستقامت سے  کام لیتا ہے تو آزمائش اس کے لیے نوازش بن جاتی ہے، مشقت راحت میں تبدیل ہوجاتی ہے، اس کے بعد دشمنوں پر فتح ملتی ہے اور دل میں جو بیماری ہوتی ہے اس سے شفایابی ملتی ہے۔یہ آیت اللہ کے اس فرمان کی مانند ہے: { أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جَاهَدُوا مِنْكُمْ وَيَعْلَمَ الصَّابِرِينَ } ))

ترجمہ: کیا تم یہ سمجھ بیٹھے ہو کہ تم جنت میں چلے جاؤگے حالانکہ اب تک اللہ تعالی نے یہ ظاہر نہیں کیا کہ تم میں سے جہاد کرنے والے کون  ہیں اور صبر کرنے والے کون ہیں۔         انتہی کلامہ

کیا آج کے مسلمان اس درس کو سمجھ رہے ہیں، وہ اپنے دشمن کے مقابلے میں صبر وشکیبائی سے کام لیتے ہیں اور اپنی مایوسی کا مقابلہ    (درست انداز میں) کرتے ہیں،  اللہ کے اس حکم پر عمل کرتے ہیں جو اللہ نے اپنے نبی اور ان کے صحابہ کو دیا کہ وہ صبر کریں اور بہترین انجام کا انتظار کرتے رہیں، جیسا کہ اللہ عزیز وبرتر  فرماتا ہے: ﴿ تِلْكَ مِنْ أَنْبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهَا إِلَيْكَ مَا كُنْتَ تَعْلَمُهَا أَنْتَ وَلَا قَوْمُكَ مِنْ قَبْلِ هَذَا فَاصْبِرْ إِنَّ الْعَاقِبَةَ لِلْمُتَّقِينَ ﴾ [ هود 49].

ترجمہ: یہ خبریں غیب کی خبروں میں سے ہیں جن کی وحی ہم آپ کی طرف کرتے ہیں انہیں اس سے پہلے آپ جانتے تھے اور نہ آپ کی قوم، اس لئے آپ صبر کرتے رہیئے (یقین مانیئے) کہ انجام کار پرہیزگاروں کے لئے ہی ہے۔

کتاب الہی کی صرف ایک  آیت سے متعلق یہ  ایمان افروز باتیں   انتہائی خوبصورت اور عمدہ   ہیں،  تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ  جو شخص قرآن میں وارد نصرت وفتح کی تمام آیتوں پر تدبر سے کام لے گا، اس کے دل میں اللہ پر بھروسہ اور اعتماد اور رب تعالی کے تئیں حسن ظن اس قدر گھر کر جائے گا  کہ وہ  دائیں بائیں دیکھے بغیر اللہ کی راہ پر گامزن رہے گا، مصائب ومشکلات اس کے لیے صدق نیک اور صحیح راہ  کی علامت بن جائیں گے، جیسا کہ ایک  سلف علیہ رحمۃ اللہ کا قول ہے: (اگر ہم آزمائش سے دوچار نہ  ہوتے  تو ہمیں اپنی راہ کے بارے میں شک ہوجاتا )۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ فتنہ وآزمائش کی تمنا کر تے تھے بلکہ یہ سوچ کر  آزمائش  اور مصائب کے وقت اپنے نفس کو تسلی دلاتے تھے۔

آج کے درس میں اتنی ہی بات میسر ہوسکی، اللہ بلند وقادر سے امید ہے کہ  ہمیں اگلی ملاقات میں نصرت وفتح کی دوسری آیت پر  بھی غور وفکر کرنے کی توفیق عطا فرمائے گا ، ان شاء اللہ۔

والله أعلم وصلى الله على نبينا محمد وعلى آله وصحبه أجمعين.

 

 

Attachments

1647065526_کتاب الہی میں وارد فتح ونصرت کی آیتوں پر غوروفکر.pdf

views 757 | Comments 0