تقدیر پر ایمان لانے کا معنی ومطلب
سيف الرحمن التيمي
موضوع الخطبة :معنى الإيمان بالقدر
الخطيب : فضيلة الشيخ ماجد بن سليمان الرسي/ حفظه الله
لغة الترجمة : الأردو
المترجم :سيف الرحمن التيمي((@Ghiras_4T
موضوع:
تقدیر پر ایمان لانے کا معنی ومطلب
پہلا خطبہ:
الحمد لله العلي الأعلى، الذي خلق فسوى، والذي قدّر فهدى، وَأَشْهَدُ أَنْ لَا إلـٰه إِلَّا اللَّهُ وحده لا شريك له، له الحمد في الآخرة والأولى، وأشهد أن محمدًا عبدُ الله ورسوله، بلّغ الرسالة، وأدى الأمانة، ونصح الأمة، وكشف الغمة، صلى الله عليه وعلى آله وأصحابه ومن سار على نهجهم واقتفى، وسلَّم تسليمًا كثيرًا.
حمد وثنا کے بعد!
اے مسلمانو! اللہ تعالی سے ڈرو اور اس کی تعظیم بجا لاؤ، اس کی اطاعت کرو اور نافرمانی سے بچتے رہو، اطاعت کے کاموں کو انجام دینے اور معاصی اور بد اعمالیوں سے بچنے پر صبر کرو ، جان رکھو کہ تقدیر پر ایمان لانا ایمان کا ایک ایسا رکن ہے جس کو بروئے عمل لائے بغیر ایمان درست نہیں ہوسکتا،تقدیر کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے علمِ سابق اور حکمت کے تقاضوں کے مطابق کائنات کی تقدیر مقرر فرمائی۔
۱-اللہ کے بندو! تقدیر پر ایمان لانے میں چار امور شامل ہیں: علم، کتابت، مشیئت اور تخلیق پر ایمان لانا،علم پر ایمان لانے سے مراد یہ ہے کہ: اس بات پر ایمان لایا جائے کہ اللہ تعالی ہر چیز سے اجمالی اور تفصیلی طور پر ازل سے ابد تک واقف ہے، خواہ اس کا تعلق اس کے افعال سے ہو جیسےزندگی وموت دینا اور بارش نازل کرنا، یا اس کاتعلق بندوں کے اعمال سے ہو، جیسے ان کی باتیں اور ان کے کام، ان تمام امورسے اللہ تعالی باخبر ہے، اس کی دلیل اللہ تعالی کا یہ ارشاد گرامی ہے:﴿وكان الله بكل شيء عليما﴾
ترجمہ:الله تعالی ہر چیز کا (بخوبی) جاننے والا ہے۔
نیز فرمان باری تعالی ہے:﴿وعنده مفاتح الغيب لا يعلمها إلا هو ويعلم ما في البر والبحر وما تسقط من ورقة إلا يعلمها ولا حبة في ظلمات الأرض ولا رطب ولا يابس إلا في كتاب مبين﴾
ترجمہ:اللہ تعالی ہی کے پاس ہیں غیب کی کنجیاں، (خزانے) انکو کوئی نہیں جانتا بجز اللہ کے ۔ اور وہ تمام چیزوں کو جانتا ہے جو کچھ خشکی میں ہیں اور کچھ دریاؤں میں ہیں اور کوئی پتا نہیں گرتا مگر وہ اس کو بھی جانتا ہے اور کوئی دانہ زمین کے تاریک حصوں میں نہیں پڑتا اور نہ کوئی تر اور نہ کوئی خشک چیز گرتی ہے مگر یہ سب کتاب مبین میں ہیں۔
۲-اے مومنو! تقدیر پر ایمان لانے کا دوسرا رکن کتاب پر ایمان لانا ہے، یعنی اس بات پر ایمان لانا کہ قیامت تک واقع ہونے والی ہر چیز کی تقدیر اللہ تعالی نے لوح محفوظ میںتحریر فرمایا ، یہ اللہ نے آسمان وزمین کی تخلیق سے پچاس ہزار سال پہلے لکھا، تقدیر کو لکھنے کی دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے:﴿قل لن يصيبنا إلا ما كتب الله لنا﴾
ترجمہ:آپ کہہ دیجئے کہ ہمیں سوائے اللہ کے ہمارے حق میں لکھے ہوئے کہ کوئی چیز پہنچ ہی نہیں سکتی۔
اور یہ فرمان الہی بھی اس کی دلیل ہے:﴿ما أصاب من مصيبة في الأرض ولا في أنفسكم إلا في كتاب من قبل أن نبرأها﴾
ترجمہ: نہ کوئی مصیبت دنیا میں آتی ہے ، نہ (خاص) تمہاری جانوں میں، مگر اس سے پہلے کہ ہم اس کو پیدا کریں وہ ایک خاص کتاب میں لکھی ہوئی ہے۔
یعنی : اس سے پہلے کہ ہم مخلوق کو پیدا کرتے۔
عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ : میں نے رسول اللہ کو فرماتے ہوئے سنا:" اللہ تعالی نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے سے پچاس ہزا سال پہلے مخلوقات کی تقدیریں تحریر فرمادی تھی"([1])۔
اور عبادۃ بن الصامت نبی سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا: "سب سے پہلی چیز جو اللہ نے پیدا فرمائی وہ قلم تھی۔پھر اس سے فرمایا کہ لکھو، اس نے کہا: اے میرے رب! کیا لکھوں؟ اللہ تعالی نے فرمایا: قیامت قائم ہونے تک ہر ہر چیز کی تقدیر لکھ"۔پھر عبادۃ نے اپنے بیٹے سے کہا: اے میرے بیٹے! بے شک میں نے رسول اللہ سے سنا ہے آپ فرماتے تھے: "جو شخص اس کے سوا (کسی اور عقیدے) پر مر گیا وہ مجھ ميں سے نہیں "([2])۔
۳-اے مسلمانو! تقدیر پر ایمان لانے کا تیسرا رکن مشیئت پر ایمان لانا ہے، اس کے معنی یہ ہیں کہ اس کائنات میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ اللہ تعالی کی مشیئت سے ہورہا ہے، یعنی اس کی اجازتِ کونیہ سے ، خواہ اس کا تعلق اللہ کے افعال سے ہو جیسے زندگی وموت دینا اور امور کائنات کی تدبیر کرنا، یا اس کا تعلق مخلوق کے اعمال سے ہو، جیسے آنا اور جانا، کچھ کرنا اور چھوڑنا، اطاعت اور نافرمانی، اور ان کے علاوہ بندوں کے وہ تمام اعمال جن کو شمار میں لاناممکن نہیں۔اللہ تعالی اپنے افعال کے تعلق سے ارشاد فرماتا ہے:﴿وَرَبُّكَ يَخْلُقُ مَا يَشَـاء وَيَخْتَارُ﴾
ترجمہ: آپ کا رب جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے چن لیتا ہے۔
نیز فرمایا: ﴿وَيَفْعَلُ اللَّهُ مَا يَشَاء﴾.
ترجمہ: اللہ جو چاہے کر گزرے۔
اور اللہ تعالی نے مخلوق کے افعال کے متعلق فرمایا:﴿وَلَوْ شَاء اللَّه لَسَلَّطَهُمْ عَلَيْكُمْ فَلَقَاتَلُوكُمْ﴾
ترجمہ:اگر اللہ تعالی چاہتا تو انہیں تم پر مسلط کردیتا اور وہ تم سے یقیناً جنگ کرتے۔
چنانچہ جنگ وقتال جو بندہ کے اعمال میں سے ہے، وہ بھی اللہ کی مشیئت کے بغیر واقع نہیں ہوتا، اللہ تعالی کافرمان ہے:﴿وَلَوْ شَاء رَبُّكَ مَا فَعَلُوهُ فَذَرْهُمْ وَمَا يَفْتَرُونَ﴾
ترجمہ: اگر اللہ تعالی چاہتا تو یہ ایسے کام نہ کرسکتے ، سو ان لوگوں کو اور جو کچھ یہ افترا پردازی کرر ہے ہیں اس کو آپ رہنے دیجئے۔
اور فرمایا کہ:﴿ولو شاء الله ما أشركوا﴾
ترجمہ: اگر اللہ تعالی کو منظور ہوتا تو یہ شرک نہ کرتے۔
معلوم ہوا کہ اس کائنات میں کوئی چیز اللہ تعالی کی مشیئت کے بغیر واقع نہیں ہوتی، خواہ اس کا تعلق اللہ کے افعال سے ہو یا بندوں کے افعال سے ، کیوں کہ یہ کائنات اللہ کی ملکیت ہے، اس لئے اس کی ملکیت میں وہی ہوگا جو وہ چاہے گاا ور جس کی وہ اجازت دے گا، اگر کوئی چیز اس کی اجازت کے بغیر واقع ہوتی تو اس کی ملکیت ناقص ہوتی ، اللہ تعالی اس سے بلند وبرتر ہے۔
۴-اے مسلمانو! تقدیر پر ایمان لانے کا تیسرا رکن ہے تخلیق، یعنی اس بات پر ایمان لانا کہ پوری کائنات کو اس کی تمام تر ذوات و صفات اور افعال کے ساتھ اللہ تعالی نے عدم سے وجود میں لایا، اللہ تعالی کا ارشاد ہے:﴿اللَّهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ﴾
ترجمہ: اللہ ہی تمام چیزوں کا خالق ہے۔
اللہ تعالی فرماتا ہے: ﴿وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ فَقَدَّرَهُ تَقْدِيرًا﴾
ترجمہ: ہر چیز کو اس نے پیدا کرکے ایک مناسب اندازہ ٹھہرا دیا ہے۔
اور یہ کہ : ﴿إنا كل شيء خلقناهبقدر﴾ .
ترجمہ:بے شک ہم نے ہر چیز کو ایک (مقررہ) اندازے پر پیدا کیا ہے۔
· اللہ کے بندو! یہ چار امور جن کا ذکر ہوا، وہ تقدیر پر ایمان لانے کے ارکان ہیں، جس نے انہیں سمجھ کر بروئے عمل لایا، اس نے تقدیر پر ایمان لایا۔
· اللہ تعالی مجھے اور آپ کو قرآن کی برکت سے بہرہ ور فرمائے، مجھے اور آپ کو اس کی آیتوں اور حکمت پر مبنی نصیحت سے فائدہ پہنچائے، میں اپنی یہ بات کہتے ہوئے اللہ سے اپنے لئے اور آپ سب کے لئے مغفرت طلب کرتا ہوں، آپ بھی اس سے مغفرت طلب کریں، یقینا وہ خوب معاف کرنے والا بڑا مہربان ہے۔
دوسرا خطبہ:
الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده.
حمد وصلاۃ کے بعد!
اللہ کے بندو! آپ اللہ کا تقوی اختیار کریں اور جان رکھیں کہ اللہ کی تقدیر کی تین قسمیں ہیں:
۱-پہلی تقدیر: جو اللہ نے آسمان زمین کی تخلیق سے پچاس ہزار سال قبل مقدر فرمائی جب اللہ تعالی نے قلم کو پیدا کیا تو اس سے کہا: قیامت قائم ہونے تک ہر ہر چیز کی تقدیر لکھ([3])۔
دوسری تقدیر: عمری تقدیر، یہ اس وقت لکھی جاتی ہے جب رحم مادر میں نطفہ کی تخلیق ہوتی ہے ، اس وقت یہ لکھا جاتا ہے کہ وہ لڑکا ہوگا یا لڑکی، اس کی عمر اور اس کے اعمال ، سعادت وبد بختی، روزی اور ہر وہ چیز لکھی جاتی ہے جو اس کے ساتھ دنیا میں پیش آنی والی ہے، پھر اس میں کوئی کمی بیشی نہیں ہوتی، ا س کی دلیل عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے، وہ کہتے ہیں کہ: رسول اللہ نے ہمیں بتایا جوکہ صادق ومصدوق ہیں: "تم میں سے ہر ایک کی پیدائش اس کی ماں کے پیٹ میں مکمل ہوجاتی ہے۔چالیس دن تک نطفہ رہتا ہے، پھر اتنے ہی وقت تک منجمد خون کی شکل اختیار کرتا ہے، پھر اتنے ہی روز تک گوشت کا لوتھڑا رہتا ہے۔اس کے بعد اللہ تعالی ایک فرشتہ بھیجتا ہے، اور اسے چار باتوں کا حکم دیا جاتا ہے اور اسے کہا جاتا ہے کہ اس کا عمل، اس کا رزق اور اس کی عمر لکھ دے اور یہ بھی لکھ دے کہ بد بخت یا نیک بخت، اس کے بعد اس میں روح پھونک دی جاتی ہے ..."([4])۔
۳-سالانہ تقدیر، یہ ہر سال رمضان کے آخری عشرہ میں شب قدر کی رات میں لکھی جاتی ہے، اس میں آنے والے ایک سال کی تقدیر مقدر کی جاتی ہے، اس کی دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے:﴿إنا أنزلناه في ليلة مباركة إنا كنا منذرين * فيها يفرق كل أمر حكيم * أمراً من عندنا إنا كنا مرسلين﴾.
ترجمہ: یقیناً ہم نے اسے بابرکت رات میں اتارا ہے بے شک ہم ڈرانے والے ہیں۔اسی رات میں ہر ایک مضبوط کام کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ہمارے پاس سے حکم ہوکر ہم ہی ہیں رسول بناکر بھیجنے والے۔
شیخ عبد الرحمن بن ناصر سعدی رحمہ اللہ نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے:یعنی ہر وہ تقدیری اور شرعی حکم تفصیل کے ساتھ نمایاں کرکے لکھا جاتا ہے جس کا حکم اللہ تعالی نے دیا ہے، شب قدر میں لکھی جانے والی یہ نمایاں تقدیر ان تحریروں میں سے ایک ہے جنہیں لکھا جاتا اور نمایاں کیا جاتا ہے، چنانچہ یہ تحریر بھی اس پہلی تحریر کے مطابق وموافق ہی ہوتی ہے جس میں اللہ نے تمام مخلوق کی تقدیریں، ان کی زندگیاں، روزیاں، اعمال اور احوال تحریر فرمائے ہیں۔انتہی
· اللہ کے بندو! آپ جان رکھیں _اللہ آپ کے ساتھ رحم وکرم کا معاملہ فرمائے_ کہ تقدیر پر ایمان لانے کا مطلب یہ نہیں کہ بندہ اپنے اعمال میں مجبور ہے، خواہ وہ اعمال اچھے ہوں یا برے، کیوں کہ اللہ تعالی نے بندہ کو مشیئت اور قدرت سے نوازا ہے، اسے حق وباطل میں تمیز کرنے کے لئے عقل عطا کیا ہے، جس کے ذریعہ وہ نجات کے طریقوں کو اختیار کرے اور ہلاکت کے راستوں سے باز رہے۔اللہ نے اسے عدل کا ، بھلائی کا اور قرابت داروں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیا ہے، بے حیائی کے کاموں، نا شائستہ حرکتوں اور ظلم وزیادتی سے روکا ہے، اس بنا پر معاملہ خود بندہ کی طرف لوٹتا ہے، چاہے تو شکر بجالائے اور چاہے تو کفر کرے، چاہے تو راہ مستقیم پر قائم رہے اور چاہے تو گمراہی کا راستہ اختیا رکرے، چاہے تو اطاعت کرے اور چاہے تو نافرمانی پر اتر آئے، پھر اللہ تعالی قیامت کے دن اس کا محاسبہ کرے گا اس عمل پر جسے اس نے اختیا ر کیا اور انجام دیا ، اگر عمل اچھا ہوگا تو بدلہ بھی اچھا ملے گا اور اگر عمل برا ہوگا تو بدلہ بھی برا ملے گا، اللہ تعالی نے بندہ کی مشیئت کو ثابت کرتے ہوئے فرمایا: ﴿فَمَن شَاء اتَّخَذَ إِلَى رَبِّهِ مَآبًا﴾
ترجمہ: جو چاہے اپنے رب کے پاس (نیک اعمال کرکے) ٹھکانا بنالے۔
نیز اللہ تعالی نے فرمایا: ﴿فمن شاء فليؤمن ومن شاء فليكفر﴾،
ترجمہ: اب جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر کرے۔
اللہ تعالی کا مزید ارشاد ہے:﴿فَأتُواْ حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ﴾.
ترجمہ: اپنی کھیتیوں میں جس طرح چاہو آؤ ۔
· آپیہ بھی جان رکھیں-اللہآپکےساتھرحمکامعاملہکرے-کہاللہنےآپکوایکبہتبڑےعملکاحکمدیاہے،اللہفرماتاہے: (إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا)
ترجمہ:اللہتعالیاوراسکےفرشتےاسنبیپررحمتبھیجتےہیں،اےایمانوالو!تم(بھی)انپردرودبھیجواورخوبسلام(بھی)بھیجتےرہاکرو۔
· اےاللہتواپنےبندےاوررسولمحمدپررحمتوسلامتیبھیج،توان کےخلفاء،تابعینعظاماورقیامتتکاخلاص کےساتھان کیاتباعکرنےوالوںسےراضیہوجا۔
· اے اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو عزت وسربلندی عطا فرما،شرک اور مشرکین کو ذلیل وخوار کر، اور اپنے دین کی حفاظت فرما،اے اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو عزت وسربلندی عطا فرما،شرک اور مشرکین کو ذلیل وخوار کر، تواپنے اور دین اسلام کے دشمنوں کو نیست ونابود کردے،اور اپنے موحد بندوں کی مدد فرما ۔
· اے اللہ! ہمیں اپنے ملکوں میں امن وسکون کی زندگی عطا کر، اے اللہ! ہمارے اماموں اور ہمارے حاکموں کی اصلاح فرما،انہیں ہدایت کی رہنمائی کرنےوالا اور ہدایت پر چلنے والا بنا۔
· اے اللہ! تمام مسلم حکمرانو ں کو اپنی کتاب کو نافذ کرنے، اپنے دین کوسربلند کرنے کی توفیق دےاور انہیں اپنے ماتحتوں کے لیے باعث رحمت بنا۔
· اے اللہ! ہم تجھ سے دنیا و آخرت کی ساری بھلائی کی دعا مانگتے ہیں جو ہم کو معلوم ہے اور جو نہیں معلوم، اور ہم تیری پناہ چاہتے ہیں دنیا اور آخرت کی تمام برائیوں سے جو ہم کو معلوم ہیں اور جو معلوم نہیں۔
· اے اللہ! ہم تیری پناہ چاہتے ہیں تیری نعمت کے زوال سے ، تیری عافیت کے ہٹ جانے سے ، تیری ناگہانی سزا سے اور تیری ہر طرح کی ناراضی سے۔
· اے ہمارے پروردگار! ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لا چکے ہیں اور ایمان داروں کی طرف سے ہمارے دل میں کینہ (اور دشمنی) نہ ڈال۔اے ہمارے رب! بے شک تو شفقت ومہربانی کرنے والا ہے۔
· اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں نیکی دے اور آخرت میں بھی بھلائی عطا فرما اور ہمیں عذاب جہنم سے نجات بخش۔
· سبحان ربنا رب العزة عما يصفون وسلام على المرسلين والحمد لله رب العالمين.
از قلم:
ماجد بن سلیمان الرسی
۱۳صفر ۱۴۴۳ھ
مترجم:
سیف الرحمن تیمی
([1]) اسے مسلم (۲۶۵۳) نے روایت کیا ہے۔
([2]) اسے ابوداود (۴۷۰۰) ‘ ترمذی (۳۳۱۹) نے روایت کیا ہے اور مذکورہ الفاظ ابوداود کے روایت کردہ ہیں‘ اور اسے البانی رحمہ اللہ نے صحیح کہا ہے۔
([3]) اس حدیث کا حوالہ گزر چکا ہے۔
([4]) اسے بخاری (۳۲۰۸) اور مسلم (۲۶۴۳) نے روایت کیا ہے۔