ہجرت نبویہ سے ماخوذ سولہ دروس وفوائد
سيف الرحمن التيمي
موضوع الخطبة : ستة عشر درسا من الهجرة النبوية
الخطيب : فضيلة الشيخ ماجد بن سليمان الرسي/ حفظه الله
لغة الترجمة : الأردو
المترجم :سيف الرحمن التيمي((@Ghiras_4T
موضوع:
ہجرت نبویہ سے ماخوذ سولہ (۱۶ ) دروس وفوائد
پہلا خطبہ:
إن الحمد لله نحمده ، ونستعينه، ونعوذ بالله من شرور أنفسنا ومن سيئات أعمالنا، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أن محمدا عبده ورسوله.
(يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ)
(يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا)
(يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا)
حمد وثنا کے بعد!
اے مسلمانو! اللہ تعالی سے ڈرو اور اس کاخوف اپنے ذہن ودل میں زندہ رکھو، اس کی اطاعت کرو اور اس کی نافرمانی سے بچتے رہو، یہ جان رکھو کہ اللہ تعالی نے اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو رسولوں کے گز ر جانے کے ایک مدت بعد مبعوث فرمایا، جبکہ روئے زمین پر بت پرستی کا رواج ہوچکا تھا، جس میں سب سے بہترین بقعہ ارضی مکہ بھی شامل تھا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قریبی رشتہ داروں کو اسلام کی دعوت دی، ان میں سے بہت کم لوگوں نے آپ کی دعوت قبول کی، اکثر نے اسے رد کردیا ، یہ دعوت چوری چھپے جاری رہی، کفار قریش اس سے بے پرواہ تھے، لیکن جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوتِ اسلام کا اعلان کیا ، کفار کے معبودوں کا نقص بیان کیا اور ان کی مذمت ظاہر کی تو ان کے دلوں میں اپنے معبودوں کی حفاظت او ران کے تئیں تعصب (کا چراغ روشن ہوگیا) اور ان مشرکوں کی روش یکسر بدل گئی، چنانچہ انہوں نے آپ کو (اپنی دعوت سے باز رکھنے کے لیے ) مال کا جھانسا دیا کہ آپ سب سے بڑے مال دار ہوجائیں گے، شادی کے نام پر ورغلایا کہ آپ کی شادی قریش کی سب سے حسین وجمیل عورت سے ہوجائے گی، آپ کو یہ پیش کش کی کہ وہ آپ کو اپنا بادشاہ بنالیں گے، آپ کو یہ اختیار بھی دیا کہ آپ ان کے معبودوں کی ایک سال عبادت کریں اور وہ ایک سال آپ کے معبود کی عبادت کریں گے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تمام پیش کش کو ٹھکرا دیا، (ودوا لو تدهن فيدهنون) (یعنی: وہ تو چاہتے ہیں کہ تو ذرا ڈھیلا ہو تو یہ بھی ڈھیلے پڑ جائیں)، انہوں نے آپ کے ایسے پیروکاروں کو ستایا اور سزا دیا جن کا (معاشرے میں) نہ رسوخ تھا اور نہ انہیں خاندان وقبیلے کی پشت پناہی حاصل تھی، انہیں بہت دردناک عذاب سے دوچار کیا ، تاکہ وہ مجبور ہوکر شرک کی طرف لوٹ جائیں او ران کے علاوہ جو لوگ اپنے دلوں میں قبولِ اسلام کا ارادہ رکھتے ہیں، وہ ان کی سزا سے خائف وہراساں ہوجائیں۔
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ آپ کے صحابہ سخت آزمائش کے شکار ہیں اور آپ ان کی نصرت وحمایت سے بھی قاصر ہیں ، تو آپ نے انہیں ملکِ حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت دی، چنانچہ صحابہ کرام نے دو دفعہ حبشہ کی طرف ہجرت کیا، پہلی دفعہ سنہ پانچ بعثت نبوی میں اور دوسری دفعہ سنہ دس بعثت نبوی میں، اس کے بعد صحابہ کرام نے مدینہ کی جانب ہجرت کی ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی ہجرت کرکے ان صحابہ سے جاملے، تاکہ اسلام کی نشر واشاعت اور امن وسکون کے ساتھ اللہ کی عباد ت کا مشن کامیاب ہوسکے۔
اے مسلمانو! ہجرت نبویہ میں غور کرنے والے کو اس کے اندر بہت سی حکمتیں نظر آتی ہیں اور وہ اس سے بیش بہا فوائد اور دروس حاصل کرتا ہے،ایسے ہی چند دروس ذیل میں ذکر کئے جارہے ہیں:
۱-اللہ کی راہ میں مال ، وطن اور رشتہ داروں کی قربانی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ سے رخصت ہونے لگے تو آپ نے مکہ کی طرف رخ کرکے فرمایا: قسم اللہ کی ! بلا شبہ تو اللہ کی سرزمین میں سب سے بہتر ہے اور اللہ کی زمینوں میں اللہ کے نزدیک سب سے محبوب سرزمین ہے ، اگر مجھے تجھ سے نہ نکالا جاتا تو میں نہ نکلتا([1])۔
۲-ہجرت کے واقعہ سے ایک درس یہ بھی حاصل ہوتا ہے کہ جس شخص کے لیے کسی جگہ پر دعوت کی راہ بند کردی جائے ، اسے چاہئے کہ کسی دوسری جگہ منتقل ہوجائے جہاں وہ دعوت کا کام جاری رکھ سکے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب قریش کی ہدایت سے مایوس ہوگئے تو آپ نے مدینہ کا رخ کرلیا تاکہ وہاں دعوت الى اللہ کا کام جاری وساری رکھ سکیں۔
۳-ہجرت نبویہ کے واقعہ سے ایک درس یہ بھی حاصل ہوتا ہے کہ ابتلاء وآزمائش کی جو سنتِ الہی رہی ہے ، وہ یہاں نمایاں ہے، کیوں کہ جنت نہایت قیمتی شیء ہے، جو جسمانی راحت سے حاصل نہیں ہوسکتی، بلکہ اطاعتِ الہی کی خاطر جد وجہد کرنے اور اس راہ میں آنے والی مشقتوں پر صبر کرنےسے حاصل ہوتی ہے: (أم حسبتم أن تدخلوا الجنة ولما يعلم الله الذين جاهدوا منكم ويعلم الصابرين)
ترجمہ: کیا تم یہ سمجھ بیٹھے ہو کہ تم جنت میں چلے جاؤگے حالانکہ اب تک اللہ تعالی نے یہ ظاہر نہیں کیا کہ تم میں سے جہاد کرنے والے کون ہیں اور صبر کرنے والے کون ہیں۔
اللہ عزوجل کے لیے یہ نہایت آسان بات تھی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہر قسم کی تکلیف واذیت کو دور کردیتے اور پل بھر میں آپ کو مکہ سے مدینہ منتقل کردیتے جیسے اللہ نے آپ کو اسراء ومعراج کی رات ایک لمحے میں براق سواری پر مکہ سے بیت المقدس منتقل کردیا، لیکن اللہ نے آپ کو آزمائش سے دوچار کرنا چاہا تاکہ آپ اپنی قوم اور بعد میں آنے والی قوموں کے لیے اسوہ ونمونہ بن سکیں، دین کی پاسداری اور صدق وراستی کی پہچان ہوسکے ، اللہ کے نزدیک آپ کا اجروثواب دوبالا ہوجائے اور دعاۃ الی اللہ کو آپ سے یہ سیکھ مل سکے کہ دعوت کی نشر واشاعت میں جن اذیتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، ان پر کیسے صبر کرناہے۔
۴-ہجرت کے واقعہ سے ہمیں یہ درس بھی حاصل ہوتا ہے کہ حسی اور ظاہری اسباب بھی اختیار کرنے چاہئے ، یہ اس سے ظاہر ہوتاہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے (ہجرت کے لیے) مکمل طور پر حسی تیاری کی، سب سے اہم بات یہ کہ جب تک اللہ تعالی نے اجازت نہ دی ، تب تک آپ نے ہجرت نہیں کی، نیز ایک امانت دار ہم سفر منتخب کیا جوکہ ابو بکر رضی اللہ عنہ ہیں، عبد اللہ بن ابی بکر کا تعاون حاصل کیا تاکہ وہ آپ کو قریش کی خبریں پہنچایا کریں، ابوبکر رضی اللہ عنہ کے غلام عامر بن فہیرہ کی مدد بھی حاصل کی کہ وہ آپ دونوں کو دودھ پہنچایا کریں، وہ ابو بکر رضی اللہ عنہ کی بکریاں چرایا کرتے تھے، اسی طرح آپ نے راستے کی رہنمائی کے لیے عبد اللہ بن اریقط اللیثی کا بھی تعاون حاصل کیا ، حالانکہ وہ مشرک تھا، لیکن وہ امانت دار اور راستوں کا ماہر تھا۔
اسباب اختیار کرنے کی ایک مثال یہ ہے کہ آپ نے ایسا راستہ منتخب کیا جو نامانوس تھا تاکہ مشرکوں کی آنکھ میں دھول ڈاسکیں۔
اسباب اختیار کرنے کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ مکہ کے جنوب میں واقع غار ثور کے اندر آپ تین رات تک روپوش رہے۔
نیز آپ اس وقت تک غار سے نکل کر مدینہ کی طرف روانہ نہیں ہوئے جب تک کہ مشرکوں نے آپ کا پیچھا کرنا چھوڑ نہ دیا۔
اسباب اختیار کرنے کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ آپ نے اپنی ہجرت کا معاملہ راز میں رکھا اور صرف ان لوگوں کو ہی اس کی خبر دی جن کو بتانا نہایت ناگزیر تھا ، (یہ وہ لوگ ہیں جن سے آپ نے تعاون حاصل کیا) اور ان کا ذکر گز رچکا ہے۔
یہ وہ دس امور ہیں جن سے منصوبہ بندی کی اہمیت اور اسباب اختیار کرنے سے متعلق سیرت نبویہ کا اسوہ ونمونہ اجاگر ہوتا ہے۔
۵-ہجرت نبویہ سے ہمیں یہ درس بھی حاصل ہوتاہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف مذکورہ بالا ظاہری او رحسی اسباب پر ہی اعتماد وبھروسہ نہ کیا، بلکہ آپ کے دل میں توکل صرف اللہ عزوجل پر تھا، اس کی دلیل یہ ہے کہ مشرکین جب غار کے پاس پہنچے تو ابوبکر نے کہا: اللہ کے رسول! اگر ان میں سے کسی نے اپنے پیروں کی طرف نظر کی تو وہ نیچے ہمیں دیکھ لے گا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابو بکر ! تمہارا ان دو کے بارے میں کیا گمان ہے جن کے ساتھ تیسرا اللہ ہے "(انہیں کوئی ضرر نہیں پہنچ سکتا)([2])۔
اللہ تعالی نے سچ فرمایا :
ترجمہ: اگر تم ان کی مدد نہ کرو تو اللہ ہی نے ان کی مدد کی اس وقت جب کہ انہیں کافروں نے نکال دیا تھا، دو میں سے دوسرا جبکہ وہ دونوں غار میں تھے جب یہ اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھے کہ غم نہ کر اللہ ہمارے ساتھ ہے ۔جناب باری نے اپنی طرف سے تسکین اس پر نازل فرما کر ان لشکروں سے اس کی مدد کی جنہیں تم نے دیکھا ہی نہیں، اس نے کافروں کی بات پست کر دی او ر بلند وعزیز تو اللہ کا کلمہ ہی ہے ، اللہ غالب حکمت والا ہے۔
ہجرت کے راستے میں سراقہ بن مالک اپنے گھوڑے پر سوار ہوکر آپ کا تعاقب کرتا ہوا آپ سے قریب جا پہنچا، ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! آخر یہ تلاش ہمیں آہی ملی ، آپ نے فرمایا: غم نہ کر، اللہ ہمارے ساتھ ہے([3])۔
۶-ہجرت نبویہ سے ہمیں یہ بھی درس ملتاہے کہ دعوت کی نشر واشاعت کی راہ میں صبر واستقامت پر قائم رہنا واجب ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے ذریعہ اپنی امت کو یہ تعلیم دی کہ باطل پرستوں کے سامنے ثابت قدم رہنا چاہئے خواہ وہ ترش رو ہی کیوں نہ ہوں، بسا اوقات مومنوں کو آزمائش اور کافروں کو فتنہ میں مبتلا کرنے کے لیے باطل کو غلبہ اور اس کے متبعین کو تسلط حاصل ہوتا ہے، لیکن بہتر انجام قطعی طو رپر ان کا ہی ہوتا ہے جو ایمان اور صبر پر قائم رہتے ہیں (وكان حقا علينا نصر المؤمنين)
ترجمہ: ہم پر مومنوں کی مدد کرنا لازم ہے۔
۷-ہجرت نبویہ سے ہمیں یہ درس بھی حاصل ہوتا ہے کہ اس بات پر یقین رکھنا چاہئے کہ بہتر انجام متقیوں کے لیے ہی ہے، جو شخص ہجرت نبویہ میں غور کرے گا اسے بظاہر ایسا معلوم ہوگا کہ دعوت انجام کار زوال اور اضمحلال کا شکار ہوجائے گی، کیوں کہ اہل باطل کی مادی قوتیں اہل حق کی مادی قوتوں سے کئی درجہ مختلف تھیں، لیکن (حقیقت یہ ہے کہ) جس کے ساتھ اللہ ہو وہی در اصل تواناا ور مضبوط ہے، ہجرت کے آٹھ سال بعد جب مکہ اسلامی سلطنت میں داخل ہوگیا، اہل مکہ حلقہ بگوش اسلام ہوگئے اور وقت گزرنے کے ساتھ پوری روئے زمین پراللہ کا دین پھیل گیا، ہجرت کے اس انجام پر غور کرنے والے کو یہ یقین ہوجاتا ہے کہ جو چیز اس پورے منظر نامے پر اثر انداز ہوئی وہ انسان کی مادی قوت نہ تھی ، بلکہ ربانی اور الہی قوت تھی ( جس نے یہ سارے کارہائے نمایاں انجام دئے)۔
لا محالہ اللہ کا دین غالب ہوکر رہتا ہے، کیوں کہ دین کی قوت در اصل اللہ کی قوت ہے اور اللہ تعالی کو کوئی زیر اور مغلوب نہیں کرسکتا : (إن ينصركم الله فلا غالب لكم وإن يخذلكم فمن ذا الذي ينصركم من بعده)
ترجمہ: اگر اللہ تعالی تمہاری مدد کرے تو تم پر کوئی غالب نہیں آسکتا اور اگر وہ تمہیں چھوڑ دے تو اس کے بعد کون ہے جو تمہاری مدد کرے ؟ ۔
۸-ہجرت کے واقعہ سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ جو شخص اللہ کی خاطر کوئی چیز ترک کرتا ہے، اللہ تعالی اسے اس سے بہتر انعام سے نوازتا ہے، چنانچہ جب مہاجروں نے اپنے گھر بار ، اہل وعیال اور مال ودولت کو (اللہ کی خاطر) ترک کیا جو انسانی نفس کو سب سے زیادہ محبوب ہوتے ہیں، تو اللہ تعالی نے انہیں بہتر بدلوں سے نوازا، بایں طور کہ پوری دنیا پر ان کو فتح ونصرت عطا کی، مشرق سے لے کر مغرب تک ان کی ملکیت میں دے دی، شام ، فارس اور مصر ان کے زیر نگیں ہوگئے، مسلمانوں نے عہد ِ صحابہ کے بعد شمال افریقہ کی طرف رخ کیا اور اندلس کو فتح کر لیا۔
۹-ہجرت نبویہ سے ہمیں یہ درس بھی حاصل ہوتاہے کہ جو اللہ (کے احکام وحدود کی) حفاظت کرے ، اللہ اس کی حفاظت کرتا ہے، جو اللہ کا تقوی اختیار کرے ، اللہ اسے (ہر بلا ء ومصیبت سے ) محفوظ رکھتا ہے، اس کے لیے (ہر تنگی سے ) نکلنے کا راستہ پیدا کردیتا ہے، چنانچہ جب قریش کے سربراہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نظر بند کرنے یا آپ کو قتل کرنے ، یا آپ کو ملک بدر کرنے کی سازش رچنی شروع کردی تو اللہ نے آپ کی حفاظت فرمائی ، ان کی سازش سے آپ کو بچا لیا اور آپ کو عزت واکرام کے ساتھ بغیر کسی اذیت اور گزند کے مکہ سے نکال کر مدینہ پہنچا دیا ۔
۱۰-ہجرت نبویہ کے واقعے سے ابو بکر رضی اللہ عنہ کی فضیلت بھی آشکار ہوتی ہے، بایں طور کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے دوران اپنی رفاقت کے لیے آپ کو منتخب فرمایا، ان کواس کا حق بھی حاصل تھا، کیوں کہ انہوں نے آپ سے رفاقت طلب کی تھی، اور آپ کی رفاقت سےاتنے خوش ہوئے کہ آنکھوں سے آنسو بہنے لگے، آپ کے لیے سواری کا انتظام کیا ، راستے میں جب آپ کو یاد آتا کہ دشمن گھات میں ہے تو آپ ( کے بچاؤ کے لیے) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے چلنے لگتے اور جب یاد آتا کہ دشمن تعاقب میں ہے تو آپ کے (بچاؤ کے لیے ) آپ کے پیچھے ہولیتے ، انہوں نے اپنے تمام اہل خانہ کو راہ الہی میں لگا دیا، چنانچہ اپنے فرزند عبد اللہ کو خبریں پہنچانے کی ذمہ داری دی، اپنےغلام عامر بن فہیرہ کو اس کام پر مقرر کیا کہ وہ ابو بکر کی بکریاں لے کر صبح کے وقت نکلے اور دن بھر انہیں چرائے اور شام کے وقت ان کے پاس بکریاں لے کر پہنچے تاکہ آپ او رنبی صلی اللہ علیہ وسلم ان بکریوں کا دودھ نوش کریں، جب عبد اللہ بن ابی بکر صبح کے وقت ان دونوں کے پاس سے نکلتے تو عامر بن فہیرہ ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے نکلتے تاکہ ان کے نقوشِ قدم کو مٹا تے جائیں (اور دشمن کو آپ تک پہنچنے کا نشان نہ مل سکے)۔خلاصہ یہ کہ ابو بکر صدیق نے اپنے آپ کو ، اپنے اہل خانہ کو اور اپنے مال ودولت کو اسلام کی فتح ونصرت کے لیے وقف کردیا۔رضی اللہ عنہ وأرضاہ۔
۱۱-ہجرت نبویہ سے ہمیں عورت کے عظیم کارنامے کا بھی پتہ چلتا ہے، یہ اس کارنامے سے ظاہر ہوتاہے جو اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما نے انجام دیا، بایں طور کہ اپنے کمر بند کے دو ٹکڑے کئے ، ایک ٹکڑے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو بکر رضی اللہ عنہ کے توشہ سفر کو اونٹنی پر باندھا اور دوسرے ٹکڑے سے آپ کے مشکیزے کو باندھا، اسی وجہ سے آپ کو ذات النطاقین کا لقب ملا([4])۔
ان کا ایک واقعہ یہ بھی ہے کہ جب ان کے والد ابو بکر رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ کی طرف نکلے تو انہوں نے اپنے ساتھ اپنا سارا مال لے لیا، جس کی مقدار اس وقت تقریبا پانچ یا چھ ہزار درہم تھی،وہ کہتی ہیں: ان کے والد سارا مال لے کر چلے گئے،ان کا بیان ہے کہ: ہمارے پاس ہمارے دادا ابو قحافہ آئے جن کی بینائی جا چکی تھی، انہوں نے کہا: اللہ کی قسم! مجھے لگتا ہے وہ خود تو گیا ہی ، ساتھ ہی اپناسارا مال بھی تمہارے پاس سے لے گیا،وہ کہتی ہیں: میں نے کہا: ہر گز نہیں دادا جان! انہوں نے ہمارے پاس بہت سے خیرات وبرکات چھوڑے ہیں، وہ کہتی ہیں: میں نے پتھر کے کچھ ٹکڑے لئے، انہیں گھر کے اس طاق میں رکھا جس میں میرے والد اپنا مال رکھا کرتے تھے اور ا س طاق پر ایک کپڑا ڈال دیا، پھر دادا جان کا ہاتھ پکڑا اور کہا: دادا! اپنا ہاتھ اس مال پر رکھئے ، ان کا بیان ہے: انہوں نے اپنا ہاتھ اس جگہ پر رکھا اور کہا : کوئی بات نہیں، اگر انہوں نے تمہارے لئے اتنا مال چھوڑا ہے تو بہت اچھا کیا ہے، یہ تمہاری ضروریات زندگی کے لئے کافی ہوگا، ان کابیان ہے: اللہ کی قسم ! انہوں نے ہمارے لئے کچھ نہیں چھوڑا تھا، لیکن میں اس حیلے کے ذریعہ اپنے معمّر دادا کو تسلی دینا چاہتی تھی([5])۔
۱۲-ہجرت نبویہ سے مدینہ اور وہاں رہنے والے اوس وخزرج کے لوگوں کی فضیلت بھی ظاہر ہوتی ہے، کیوں کہ اسلام سے قبل مدینہ کو دوسرے شہروں پر کوئی فضیلت حاصل نہیں تھی، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مدینہ کی طرف ہجرت کی او راہل مدینہ نے آپ کی ہر ممکن نصرت ومدد کی تو مدینہ کو (دیگر شہروں پر) یک گونہ فضیلت حاصل ہوئی اور اس سے مدینہ کی خصوصیات نمایاں ہوگئیں۔
۱۳-ہجرت نبویہ سے ان تمام ملحدوں کی تردید ہوتی ہے جو یہ دعوی کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم شہوت ، مال ودولت اور حکومت واقتدار کی چاہت رکھتے تھے، کیوں کہ آپ کو مال ودولت ، سیاسی اور اقتصادی جاہ ومنصب کی پیش کش کی گئی لیکن آپ نے سب کو ٹھکرا دیا، اگر آپ ان چیزوں کے خواہش مند ہوتے تو آپ یہ پیش کش ضرور قبول کرتے اور اپنی جگہ پر بادشاہ بنے رہتے، مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کی مشقتیں نہ برداشت کرتے ، اپنی جان جوکھوں میں نہ ڈالتے ، گھر بار، ملک ووطن او راہل وعیال کو نہ چھوڑ تے ، لیکن (حقیقت یہ ہے کہ) آپ کو صرف اور صرف توحید کی اور لوگوں کو (کفر کی) تاریکیوں سے نکال کر (اسلام کی ) روشنی میں لانے کی فکر لاحق تھی ۔
۱۴-ہجرت سے ایک عظیم ترین درس یہ بھی حاصل ہوتاہے کہ کافر ملک سے اسلامی ملک کی طرف ہجرت کرنا مشروع ہے، جہاں مسلمان اپنی دینی شعائر کا قیام اور مظاہرہ کرسکے، جو شخص کسی جگہ پر دینی شعائر کو قائم کرنے سے قاصر ہو، اس پر شرعاً یہ واجب ہے کہ ایسی جگہ ہجرت کرےجہاں وہ اپنے دین کو قائم کرسکے ، ورنہ وہ ترکِ ہجرت پر گناہ گا ر ہوگا۔
۱۵-ہجرت نبویہ سے ایک درس یہ بھی حاصل ہوتاہے کہ اس میں ایسی نشانیاں وارد ہوئیں جو آپ کی نبوت ورسالت پر دلالت کرتی ہیں، مثلاً سراقہ بن مالک نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پکڑنا چاہا تاکہ وہ اس انعام سے سرفراز ہوسکیں جو قریش نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حاضر کرنے والے کے لئے مقرر کیا تھا، جب ان کی نظر آپ پڑی تو ان کے گھوڑے کے پاؤں گھٹنے تک زمین میں دھنس گئے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو یہ بشارت دی کہ انہیں کسری کے کنگن ہاتھ لگیں گے، آپ نے فرمایا: (گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ تم کسری کے کنگن پہن رہے ہو)([6])۔ایسا عمر رضی اللہ عنہ کے عہدِ خلافت میں واقع بھی ہوا ۔
۱۶-ہجرت سے ہمیں یہ درس بھی ملتا ہے کہ دعوت الی اللہ کے لئے ہمیں ہر موقع سے فائدہ اٹھانا چاہئے، ہجرت کے راستے میں (کُراع الغمیم ([7])) نامی وادی کے پاس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر بریدۃ بن الحصیب الاسلمی سے ہوا، وہ اپنے خاندان کے اسی (۸۰) افراد کے ساتھ تھے، آپ نے انہیں اسلام کی دعوت دی او ران سب نے اسلام قبول کرلیا، ان کے ساتھ آپ نے عشاء کی نماز ادا کی اور اس رات انہیں سورۃ مریم کی ابتدائی آیات کی تعلیم دی([8])۔
میرے بھائیو! نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا اِس خوف کے عالم میں کیا کہ کہیں مشرکین آپ کو پکڑ نہ لیں، لیکن آپ کے اندر اعلان ِ حق کا جذبہ اور اللہ پر توکل ِ صادق اس قدر موجزن تھا کہ آپ نے دعوت کو اپنی جان سے بھی زیادہ اہمیت دی ۔صلی اللہ علیہ وسلم۔
***
یہ ہجرت ِنبویہ سے ماخوذ سولہ (۱۶) دروس وفوائد ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم او رانبیائے کی سیرت میں (ان کے علاوہ بھی ) بہت سے بیش بہا دروس وفوائد مضمر ہیں، اللہ تعالی ہمیں ان سے مستفید ہونے اور انہیں روبہ عمل لانے کی توفیق عطا فرمائے ۔
اللہ تعالی ہمیں اور آپ کو قرآن عظیم کی برکتوں سے بہرہ مند فرمائے ،مجھے اور آپ کو قرآن کی آیتوں اور حکمت پر مبنی نصیحت سے فائدہ پہنچائے ،میں اپنی یہ بات کہتے ہوئے اللہ سے اپنے لئے اور آپ کے لئے بخشش کا طلب گار ہوں، آپ بھی اس سے بخشش طلب کریں،یقینا وہ بہت زیادہ بخشنے والا اور خوب رحم کرنے والا ہے۔
دوسرا خطبہ:
الحمد لله وحده والصلاة والسلام على من لا نبي بعده
حمد وصلاة کے بعد!
اے مسلمانو! آپ جان رکھیں-اللہ آپ پر اپنی رحمت نازل فرمائے-کہ واقعہ ہجرت کی تعظیم یہ نہیں کہ اس کے لئے محفلیں سجائی جائیں، گرچہ ان کے اندر ہجرت سے ماخوذ فوائد کا ذکر ہی کیوں نہ ہو، بلکہ ہجرت نبویہ کی بالخصوص اور سیرت نبویہ کی بالعموم حقیقی تعظیم یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع وپیروی کی جائے اور آپ کی سیرت اور ہجرت میں جو بدعات و انحرافات در آئی ہیں ، ان سے اجتناب کیا جائے۔
· نیز آپ یہ بھی جان رکھیں-اللہ آپ پر رحم فرمائے-کہ اللہ نے آپ کو ایک بہت بڑے عمل کا حکم دیا ہے،اللہ فرماتا ہے: (إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا)
ترجمہ: اللہ تعالی اور اس کے فرشتے اس نبی پر رحمت بھیجتے ہیں ۔اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود بھیجو اور خوب سلام بھی بھیجتے رہا کرو۔
· اے اللہ !تو اپنے بندے اور رسول محمد پر رحمت و سلامتی بھیج،تو ان کے خلفائے کرام ،تابعین عظام اور قیامت تک اخلاص کے ساتھ ان کی اتباع کرنے والوں سے راضی ہوجا۔
· اے اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو عزت وسربلندی عطا فرما،شرک اور مشرکین کو ذلیل وخوار کر،اور اپنے دین کی حفاظت فرما۔
· اے اللہ! ہمیں اپنے ملکوں میں امن وسکون کی زندگی عطا کر، اے اللہ! ہمارے اماموں اور ہمارے حاکموں کی اصلاح فرما ۔
· اے اللہ! تمام مسلم حکمرانو ں کو اپنی کتاب کو نافذ کرنے، اپنے دین کوسربلند کرنے کی توفیق دےاور انہیں اپنے ماتحتوں کے لیے باعث رحمت بنا۔
· اے اللہ! ہم تیری پناہ چاہتے ہیں تیری نعمت کےزوال سے، تیری عافیت کے ہٹ جانے سے ، تیری ناگہانی سزا سے او رتیری ہر طرح کی ناراضی سے۔
· اے اللہ! ہم پھلبہری (برص) ، پاگل پن ،کوڑھ اور دوسری تمام بیماریوں سے تیری پناہ چاہتے ہیں۔
· اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں نیکی دے اور آخرت میں بھی بھلائی عطا فرما،اور عذاب جہنم سے نجات دے۔
· اے اللہ کے بندو!یقینا اللہ تعالی عدل کا،بھلائی کا اور قرابت داروں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی کے کاموں،ناشائستہ حرکتوں اور ظلم وزیادتی سے روکتا ہے وہ خود تمہیں نصیحتیں کررہاہے کہ تم نصیحت حاصل کرو۔اس لئے تم اللہ عظیم کا ذکر کرو وہ تمہارا ذکر کرے گا،اس کی نعمتوں پر اس کا شکر بجا لاؤ وہ تمہیں مزید نعمتوں سے نوازے گا،اللہ کا ذکر بہت بڑی چیز ہے،تم جو کچھ بھی کرتے ہو وہ اس سے باخبر ہے۔
از قلم:
ماجد بن سلیمان الرسی
۱۶ محرم ۱۴۴۲ھ
شہر جبیل-سعودی عرب
00966505906761
مترجم:
سیف الرحمن تیمی
([1]) اسے ترمذی (۳۹۲۵) نے روایت کیا ہے اور البانی نے صحیح کہا ہے۔
([2]) اسے بخاری (۳۶۵۳) اور مسلم (۲۳۸۱) نے روایت کیا ہے اور مذکورہ الفاظ مسلم کے روایت کردہ ہیں۔
([3]) اسے بخاری (۳۶۵۲) نے روایت کیا ہے۔
([4]) دیکھیں: صحیح البخاری (۳۹۰۵)
([5]) اسے احمد (۶/۳۵۰) نے روایت کیا ہے اور المسند (۲۶۹۷۵) کے محققین نے اسے حسن قرار دیا ہے۔
([6]) دیکھیں: "دلائل النبوۃ" (۶/۳۲۵)‘ ناشر: دار الکتب العلمیۃ
([7]) کُراع کے معنی کنارہ کے ہیں‘ اور غمیم‘ عسفان کے سامنے ایک وادی ہے۔
([8]) "البدایۃ والنہایۃ" احداث سنہ ۶۲‘ (۱۱/۶۱۱) ‘ طباعت: دار ھجر۔
المرفقات
1625639016_ہجرت نبویہ سے ماخوذ سولہ دروس.pdf