گویا اس کا اہل وعیال اور مال ومتاع سب لوٹ لیا گیا
سيف الرحمن التيمي
موضوع الخطبة :فكأنما وتر أهله وماله
الخطيب : حسام بن عبد العزيز/ حفظه الله
لغة الترجمة : الأردو
المترجم :سيف الرحمن التيمي((@Ghiras_4T
موضوع:
گویا اس کا اہل وعیال اور مال ومتاع سب لوٹ لیا گیا
پہلا خطبہ:
الحمد لله القدير الغفور، وَسِعَ الخلائقَ حِلمُه رغم ما ارتكبوا من شرور، يفرح بتوبة المذنب ويجبر المكسور، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له جعل الظلمات والنور وأشهد أن نبينا محمدًا عبده ورسوله زاهد ما امتلأت بألوان طعامه القدور، صلى الله وبارك عليه وعلى آله وأصحابه وسلم تسليماً كثيراً..
حمد وثنا کے بعد!
ایمانی بھائیو! میں آپ کو اور اپنے آپ کو اللہ کا تقوی اختیا ر کرنے کی وصیت کرتا ہوں : ﴿ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَيْهَا مَلَائِكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَا يَعْصُونَ اللَّهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ ﴾ [التحريم: 6].
ترجمہ:اے ایمان والو! تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان ہیں اور پتھر جس پر سخت دل مضبوط فرشتے مقرر ہیں جنہیں جو حکم اللہ تعالی دیتا ہے اس کی نافرمانی نہیں کرتے بلکہ جو حکم دیا جائے بجا لاتے ہیں۔
ایمانی بھائیو! قصوں میں عبرت کی باتیں ہوتی ہیں، اللہ پاک نے قرآن میں بہت سے قصے بیان کیے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بہت سے قصے بیان کیے ہیں، میرے بھائیو! آپ کے سامنے ایک معاصر شخص کا قصہ بیان کرنے جا رہا ہوں جسے ان کے صاحبزادے حمدان بن محمد بن مساعد الدغیبلی العتیبی نے بیان کیا ہے[1]۔
صاحبزادہ کا بیان ہے: میرے والد اور ان کے اہل خانہ اونٹ کا کاروبار کیا کرتے تھے، چنانچہ وہ چراگاہ کی تلاش میں رہتے اور گرمی کا موسم شہر سدیر کے اندر پانی اور گاؤں سے قریب گزارا کرتے تھے، راوی کا بیان ہے: میرےوالد نے شادی کی اور ان کو دو بیٹیاں ہوئیں، ایک سال مرض پھیل گیا اور بہت سے لوگ لقمہ اجل بن گئے، یہ تقریبا چودہویں صدی کی چھٹی دہائی کی بات ہے، راوی کہتے ہیں: میرے والد ، ان کی اہلیہ اور ان کی دونوں بیٹیاں اس وقت روضۃ سدیر میں رہتے تھے، چنانچہ ان کی بیٹیوں اور بیوی کو بیماری لاحق ہوگئی، اور وہ سب کے سب وفات پاگئے۔ اللہ تعالی ا ن کی مغفرت فرمائے اور ان کی بیٹیوں کو ان کے لیے سفارشی بنائے۔
اس کے بعد میرے والد عودۃ سدیر منتقل ہوگئے جہاں ان کے بھائی حمدان بن مساعد رہا کرتے تھے، پھر کچھ دنوں کے لیے کام کاج کی غرض سے طائف چلے گئے۔
وہ کہتےہیں: کچھ عرصہ بعد حمدان رحمہ اللہ کی بھی وفات ہوگئی، ان کے پاس ایک بیٹا تھا، تو لوگوں نے میرے والد کو یہ مشورہ دیا کہ اپنے بھائی کی بیوہ بیوی سے شادی کر لیں او راپنے بھتیجے کی دیکھ ریکھ کریں، اور ایسا ہی ہوا کہ انہوں نے بیوہ خاتون سے شادی کرلی اور اس سے تین بیٹے بھی ہوئے۔
وہ کہتے ہیں: ۱۳۸۶ ھ میں عودۃ سدیر کے جنوبی علاقے میں وہ اقامت پزیر تھے، ایک دن آسمان پر گھٹا ٹوپ بادل چھا گیا اور بے انتہا بارش ہوئی، یہاں تک کہ وادی پانی سے لبالب بھر گیا اور پھوس کے مکان بھی ڈوب گئے اور پانی کا سیلاب ان کے کچھ جانوروں کو بھی بہا لے گیا۔
اس عورت نے اپنے چاروں بچوں کو ساتھ لیا، اس کے ارد گرد کچھ پڑوسی بھی رہتے تھے، سب کو اپنی اپنی فکر دامن گیر تھی، اس عورت نے ان سے کہا: میں پہاڑ پر چڑھنے جارہی ہوں، لیکن اس کا ایک چھوٹا بچہ پانی میں گر گیا اور سیلاب اسے بہا لے گیا، اس نے بچانے کی بھرپور کوشش کی اور دیگر بچے بھی اس کے پیچھے چل پڑے، انجام کار طوفانی سیلاب سبھوں کو بہا لے گیا، اور یہ حادثہ شام کے وقت پیش آیا۔
وہ کہتے ہیں: جب میرے والد آئے تو لوگوں نے ان کو پورا واقعہ سنایا، یہ خبر ان پر بجلی بن کر گری، لوگ ان کو عودۃ سدیر لے کر آگئے، ان کو صبر کی تلقین کرنے لگے اور رات بھر انہیں دلاسا دیتے رہے۔
فجر کی نماز کے بعد لوگ جب چوپایوں کے پاس گئے اور سیلاب کے بہاؤ کی طرف بڑھے تو انہیں پانچ لاشیں ملیں، ماں اور اس کے ساتھ چار بچے۔انہوں نے قبر کھودی، جنازہ پڑھی اور انہیں دفن کردیا، اللہ اس خاتون کی مغفرت فرمائے اور بچوں کو ان کے والدین کے لیے سفارشی بنائے۔
راوی کا بیان ہے: اس کے بعد میرے والد طائف گئے، کچھ دنوں تک کام کا ج کیے، اس کے بعد لوٹ آئے اور میری والدہ سے شادی کی، شاید حادثہ کے ڈیڑھ یا دو سال کے بعد انہوں نے یہ شادی کی۔
وہ کہتے ہیں: اللہ نے ان کو چھے بیٹے اور تین بیٹیاں دی، الحمد للہ، ان میں سے کسی کا حزن وملال ان کو لاحق نہ ہوا سوائے اس کے کہ ایک بچہ شیر خوارگی ہی میں فوت ہوگیا۔
قصہ بیان کرنے والے بیٹے کا کہنا ہےکہ: میرے والد کی وفات سنہ ۱۴۲۸ھ میں ہوئی۔ اللہ ان پر اور تمام مسلمان اموات پر رحم فرمائے۔
معزز حضرات! آپ نے اس شخص کی مصیبت کا کچھ اندازہ لگایا جس کے بعض جانوروں کو، بیوی ، تین بچوں اور ایک بھتیجے کو سیلاب نے جاں بحق کردیا؟! ہمارے درمیان ایسے لوگ بھی ہیں جن کی مصیبت اس شخص سے بھی بڑی ہے، اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث دلالت کرتی ہے، چنانچہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس شخص سے نماز عصر فوت ہوجائے گویا اس کا اہل وعیال اور مال ومتاع سب لوٹ لیا گیا"۔ (بخاری ومسلم) اہل وعیال اور مال ومتاع لوٹ لیا گیا یعنی: اس کے اہل وعیال اور مال ومنال سب چھن گئے۔
اگر آپ یہ سوال کریں کہ حدیث میں نماز عصر کے فوت ہونے سے کیا مراد ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے:
اہل علم کے اقوال میں سب سے وسیع قول یہ ہے کہ یہ حدیث اس شخص کے بارے میں ہے جو عصر کی نماز بغیر کسی عذر کے سورج غروب ہونے کے بعد پڑھے۔ بعض اہل علم کے نزدیک اس سے مراد اختیاری وقت کے بعد عصر کی نماز پڑھنا ہے، جوکہ سورج کے زرد پڑنے سے ختم ہوجاتا ہے! جبکہ بعض علماء کے نزدیک اس سے مراد جماعت کے ساتھ نماز فوت ہونا ہے۔ (فتح الباری ط دار السلام ۲/۴۲) (صحیح مسلم بشرح النووی : ۵/۱۲۲)
اللہ المستعان...ہم سنتے ہیں کہ کچھ مسلمان اپنے کام سے دوپہر میں لوٹتے ہیں اور سوجاتے ہیں، پھر رات ہی میں جاگتے ہیں، اللہ کی پناہ۔
اللہ تعالی مجھے اور آپ کو قرآن کی برکت سے بہرہ ور فرمائے....
دوسرا خطبہ:
الحمد لله القائل ﴿ حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَى وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ ﴾ [البقرة: 238].
حمد وصلاۃ کے بعد:
نماز اسلام کا ستون ہے، نماز عصر کی خصوصیت کے ساتھ بڑی عظمت شان ہے ، اس کی عظمت شان پر دلالت کرنے والے کچھ دلائل آپ کے سامنے پیش کیے جارہے ہیں:
نماز عصر ہی الصلاۃ الوسطى ہے، صحیح مسلم مین براء بن عازب سے مروی ہے ، وہ فرماتے ہیں: یہ آیت (اس طرح ) : ﴿ حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وصلاۃ العصر ﴾ [البقرة: 238]، نازل ہوئی ، جب تک اللہ تعالیٰ کو منظور ہوا ہم نے اسے پڑھا ،پھر اللہ تعالیٰ نے اسےمنسوخ کر دیا اور آیت اس طرح اتری:﴿ حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَى ﴾ [البقرة: 238] "نمازوں کی نگہداشت کرو اور (خصوصا)درمیان کی نماز کی " اس پر ایک آدمی نے ، جو شقیق کے پاس بیٹھا ہوا تھا ، ان سے کہا : تو پھر اس سے مراد عصر کی نماز ہوئی ؟ حضرت براء نے فرمایا : میں تمہیں بتا چکا ہوں کہ یہ آیت کیسے اتری اور اللہ تعالیٰ نے کیسے اسے منسوخ کیا ، (اصل حقیقت )اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے غزوہ احزاب کے موقع پر جب آپ خندق کی گزر گاہوں میں سے کسی گزر گا ہ پر تشریف فر تھے ، فرمایا : انہوں نے ہمیں درمیانی نماز (عصر )سے مشغول کر دیا حتی کہ سورج ڈوب گیا ، اللہ تعالیٰ ان کی قبروں اور گھروں کو یا فرمایا : ان کی قبروں او ر پیٹوں کو آگ سے بھر دے۔ (مسلم)
خندق کی گزرگاہ سے مراد اس میں داخل ہونے اور اس کی طرف آنے کا راستہ ہے۔(صحیح مسلم بشرح النووی: ۵/۱۳۱)۔
نماز عصر میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں، آپ علیہ الصلاۃ والسلام کی حدیث ہے: "کچھ فرشتے رات کو اور کچھ دن کو تمہارے پاس یکے بعد دیگرے حاضر ہوتے ہیں اور یہ تمام فجر اور عصر کی نماز میں جمع ہو جاتے ہیں، پھر جو فرشتے رات کو تمہارے پاس حاضر ہوتے ہیں، جب وہ آسمان پر جاتے ہیں تو ان سے ان کا پروردگار پوچھتا ہے: تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا ہے؟ وہ جواب دیتے ہیں: "ہم نے انہیں نماز پڑھتے چھوڑا ہے۔ اور جب ہم ان کے پاس پہنچے تھے، تب بھی وہ نماز پڑھ رہے تھے"۔(بخاری ومسلم)
کیا ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ ان نمازوں میں فرشتے بھی ہمارے ساتھ حاضر ہوتے ہیں اور اللہ تعالی کے سوال پر مذکورہ جواب دیتے ہیں؟!
نماز عصر کو چھوڑنے کی خاص طور پر سخت وعید آئی ہے، بخاری نے اپنی سند سے ابوالملیح سے روایت کیا ہے، وہ کہتےہیں: ہم ابر آلود دن میں حضرت بریدۃ رضی اللہ عنہ کے ہمراہ ایک جنگ میں شریک تھے، انہوں نے فرمایا: نماز عصر جلدی پڑھ لو کیوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: "جس نے عصر کی نماز چھوڑدی، اس کا عمل ضائع ہوگیا"۔ ابن حجر اہل علم کے بہت سارے اقوال ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں: "قریب ترین تاویل یہ ہے کہ یہ وعید سخت تنبیہ کے قائم مقام ہے اور اس کا ظاہری معنی مراد نہیں ہے، واللہ اعلم" (فتح الباری ط دار السلام : ۲/۴۴)
نماز عصر کی پابندی دخول جنت کا سبب ہے ، حدیث ہے: "جو شخص دو ٹھنڈے وقتوں کی نماز پابندی سے ادا کرے گا، وہ جنت میں جائے گا"۔
مسلم کی ایک روایت میں آیا ہے: یعنی عصر اور فجر کی نماز ۔ خطابی فرماتے ہیں:" ان نمازوں کو بردین سے موسوم کرنے کی وجہ یہ ہے کہ دن کے ٹھنڈے پہر میں انہیں ادا کیا جاتا ہے، یعنی دن کے دونوں کناروں میں، جب ہوا میں تازگی ہوتی اور گرمی کی شدت کم ہوجاتی ہے" (فتح الباری ط دار السلام : ۲/۷۱)
نماز عصر کے تعلق سے سخت وعید یہ بھی آئی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس شخص سے نماز عصر فوت ہوجائے گویا اس کا اہل وعیال ومال ومنال لوٹ لیا گیا" (بخاری ومسلم)
نماز عصر کی پابندی جہنم سے بچاؤ کا سبب ہے، نبی علیہ الصلاۃ والسلام کی حدیث ہے: "جو انسان سورج نکلنے اور اس کے غروب ہونے سے پہلے نماز پڑھتا ہے وہ آگ میں داخل نہیں ہوگا" (مسلم )
نما ز عصر کی پابندی کرنا اللہ پاک کے دیدار سے سرفراز ہونے کا سبب ہے، جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر تھے، آپ نے ایک رات ماہ کامل کی طرف دیکھ کر فرمایا: ،،بےشک تم اپنے پروردگار کو (روزِ قیامت) اسی طرح دیکھو گے جس طرح اس چاند کو دیکھ رہے ہو، اسے دیکھنے میں تمہیں کوئی دقت نہیں ہو گی، لہٰذا اگر تم پابندی کر سکتے ہو تو طلوع آفتاب سے پہلے (فجر کی) اور غروب آفتاب سے پہلے (عصر کی) نمازوں سے مغلوب نہ ہو جاؤ، یعنی پابندی سے انہیں ادا کر سکو تو ضرور کرو۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی: ﴿ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِهَا ﴾ [طه: 130] "طلوع آفتاب سے پہلے اور غروب آفتاب سے پہلے اپنے پروردگار کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرو، یعنی نماز پڑھو"۔ (بخاری ومسلم)
آخری بات: میرے ایمانی بھائیو! ہمیں تمام نمازوں کا شدید اہتمام کرنا چاہئے بطور خاص فجر اور عصر کی نماز کا ، کیوں کہ ان دو نمازوں کی عظمت شان میں بہت سی احادیث وارد ہوئی ہیں ، جیسا کہ آپ نے سماعت کیا، تعجب کی بات ہے کہ آج کل انہی دو نمازوں میں زیادہ کوتاہی کی جاتی ہے، اللہ المستعان: ﴿ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا تُوبُوا إِلَى اللَّهِ تَوْبَةً نَصُوحًا عَسَى رَبُّكُمْ أَنْ يُكَفِّرَ عَنْكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَيُدْخِلَكُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ يَوْمَ لَا يُخْزِي اللَّهُ النَّبِيَّ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ نُورُهُمْ يَسْعَى بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَبِأَيْمَانِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَتْمِمْ لَنَا نُورَنَا وَاغْفِرْ لَنَا إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِير﴾ [التحريم: 8].
ترجمہ: اے ایمان والو! تم اللہ کے سامنے سچی خالص توبہ کرو۔ قریب ہے کہ تمہارا رب تمہارے گناه دور کر دے اور تمہیں ایسی جنتوں میں داخل کرے جن کے نیچے نہریں جاری ہیں۔ جس دن اللہ تعالیٰ نبی کو اور ایمان والوں کو جو ان کے ساتھ ہیں رسوا نہ کرے گا۔ ان کا نور ان کے سامنے اور ان کے دائیں دوڑ رہا ہوگا۔ یہ دعائیں کرتے ہوں گے اے ہمارے رب ہمیں کامل نور عطا فرمااور ہمیں بخش دے یقیناً تو ہر چیز پر قادر ہے۔
آپ پر درود وسلام بھیجتے رہیں۔
صلى اللہ علیہ وسلم
از قلم:
فضیلۃ الشیخ حسام بن عبد العزیز الجبرین
مترجم:
سیف الرحمن تیمی
[1] مجھے اللہ کی توفیق سے مورخہ ۲۷/۷/۱۴۳۸ھ کو استاد حمدان بن محمد الدغیبلی سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا اور انہوں نے مجھے یہ قصہ سنایا۔
المرفقات
1644005792_گویا اس کا اہل وعیال اور مال ومتاع سب لوٹ لیا گیا.pdf