والدین کی فرمانبرداری
سيف الرحمن التيمي
موضوع الخطبة :بر الوالدين
الخطيب : فضيلة الشيخ حسام بن عبد العزيز الجبرين/ حفظه الله
لغة الترجمة : الأردو
المترجم :شفاء الله الياس التيمي((@Ghiras_4T
موضوع:
والدین کی فرمانبرداری
پہلا خطبہ:
إن الحمد لله نحمده ونستعينه ونستغفره ونعوذ بالله من شرور أنفسنا ومن سيئات أعمالنا، من يهده الله فلا مضل له ومن يضلل فلا هادي له وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له وأشهد أن محمداً عبده ورسوله. ﴿ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ ﴾ [آل عمران: 102] ﴿ يَاأَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا ﴾ [النساء: 1] ﴿ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا * يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا ﴾ [الأحزاب: 70، 71]
حمد وصلاة کے بعد!
سب سے بہتر بات اللہ کی کتاب ہے،اور سب سے عمدہ طریقہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے،اور سب سے بری چیز(شریعت)میں نئی نئی ایجادات ہیں اور ہر بدعت گمراہی ہے۔
اے دوستو!وہ دونوں انسانوں میں سب سے زیادہ آپ سے محبت کرتے ہیں، لوگوں میں سب زیادہ انہوں نے ہی آپ کی خدمت کی ہے ،اور وہی آپ کی خاطر سب سے زیادہ اپنی جان نچھاور کرتے ہیں،انسانی نفسوں میں ایسے شخص کی محبت ودیعت کردی گئی ہے جو ان کا محسن ہو،اور والدین سے بڑا محسن کون ہو سکتا ہے؟
اللہ نے اپنے حق کے ساتھ والدین کے حق کو جوڑا،اپنے شکریہ کے ساتھ ان کے شکریہ کو بیان کیا اور اپنی عبادت وبندگی کے حکم کے بعد ان کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت کی: وَاعْبُدُوا اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا ﴾ [النساء: 36]
ترجمہ:اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ سلوک واحسان کرو۔
تخلیق وایجاو اللہ پاک کی نعمت ہے اور اللہ کے اذن سے تربیت اور ولادت کی نعمت والدین کو ملتی ہے۔
اے شریفوں کی جماعت!ہم ان ایام کو یاد نہیں کرتے جب ہم رحم کی تاریکوں میں تھے،اور نہ ہی ہم اس مشقت وپریشانی کو یاد کرتے ہیں جو رضاعت وولادت کے مراحل میں ہماری ماؤں کو لاحق ہوئی،لیکن اللہ تعالی ہمیں ان ایام کی یاد دہانی کراتا ہے:
﴿ وَوَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ وَهْنًا عَلَى وَهْنٍ وَفِصَالُهُ فِي عَامَيْنِ أَنِ اشْكُرْ لِي وَلِوَالِدَيْكَ إِلَيَّ الْمَصِيرُ ﴾ [لقمان: 14]
ترجمہ:ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے متعلق نصیحت کی ہے، اس کی ماں نے دکھ پر دکھ اٹھا کراسے حمل میں رکھا اور اس کی دودھ چھڑائی دو برس میں ہے کہ تو میری اور اپنے ماں باپ کی شکر گزاری کر، (تم سب کو) میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔
والدہ اپنے پیٹ میں آپ کو نو مہینے تک(دکھ درد اٹھا کر ) رکھی۔
وہ آپ کی حرکت سے خوش ہوتی تھی جب آپ حرکت کرتے تھے،وہ آپ کے بڑھتے وزن سے خوشی محسوس کرتی تھے حالانکہ یہ وزن اس کے لیے ایک بھاری بوجھ تھا،پھر ولادت کا وقت قریب ہوا جس لمحہ میں ماں نے موت کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھا،پھر جب آپ دنیا میں آئے،تو آپ کی چیخ کے آنسو اس کی خوشی کے آنسو کے ساتھ مل گئے،اور آپ کے دیدار نے اس کی تکلیفوں اور زخموں کو کافور کردیا۔
آپ کمزور شیر خوار بچہ تھے،لیکن اللہ نے آپ کو حواس (خمسہ) سے نوزا‘اور آپ کو سب سے کرم فرما انسان کے احاطہ (نگرانی) میں رکھ دیا، یعنی آپ کی مشفق ومہرباں ماں ،جو آپ کی راحت کی خاطر شب بیداری کرتی ہےاور آپ کے رحیم باپ جو آپ کے فائدے کے لیے دوڑ بھاگ اور محنت کرتے ہیں،ہر طرح کی پریشانیوں کو آپ سے دور کرتے ہیں،اور بسا اوقات سفر میں بھی نکلتے ہیں اور زندگی کے لقمہ کی تلاش میں مشقت ودشواری جھیلتے ہیں،آپ پر مال خرچ کرتے،آپ کی اصلاح و تربیت کرتے ہیں،جب آپ ان کے پاس جاتے ہیں تو ان کے دل کو قرار ملتا ہے،اور جب آپ ان کے سامنے ہوتے ہیں تو ان کا چہرہ کھل کھلا جاتا ہے۔
جب وہ نکل جاتے ہیں تو آپ کا دل ان سے وابستہ رہتا ہے اور جب وہ موجود ہوتے ہیں تو آپ ان کی گود اور سینے سے لگ جاتے ہیں،یہ دونوں آپ کے والدین ہیں اور یہ آپ کی طفولت اور بچپنہ ہے،اس لیے آپ احسان فراموشی سے بچیں،خاص طور پر جب وہ دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں، اپنے رب کے اس فرمان پر غور کریں: ﴿ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ ﴾ [الإسراء: 23]
ترجمہ:اگر تیری موجودگی میں بڑھاپے کو پہنچ جائیں۔
لفظ"عندك" اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ انہیں سہارا دیا جائے،ان کی حفاظت کی جائے اور ان کی ضرورت کا خیال کیا جائے۔
کیوں کہ انہوں نے اپنی ذمہ داری ادا کردی اور ان کا کام ختم ہوگیا،اور اب آپ کی ذمہ داری کا وقت آچکا ہے:﴿ فَلَا تَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا ﴾ [الإسراء: 23]
ترجمہ:تو ان کے آگے اف تک نہ کہنا،نہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا،بلکہ ان کے ساتھ ادب واحترام سے بات چیت کرنا۔
کیوں کہ والدین بڑھاپے کی عمر میں جسمانی اور عقلی کمزوری کے شکار ہوجاتے ہیں،بسااوقات وہ بے غرض عمر کو پہنچ جاتے ہیں جو ان سے تنگ آنے اور ملول ہونے کا سبب ہوتا ہے،اس طرح کی حالت میں اللہ نے اولاد کو اس سے بات منع فرمایا ہے کہ وہ اپنے والدین سے ذرا بھی تنگ اور دل برداشتہ نہ ہوں،بلکہ اللہ نے انہیں یہ حکم دیا کہ ان کے ساتھ ادب واحترام سے بات کریں۔ان کے سامنے رحمت کا بازو جھوکائے رکھیں،اور انہیں ان لوگوں کی طرح مخاطب کریں جو ان کے سامنے اپنے آپ کو چھوٹا سمجھتے ہیں،اور اس خادم کی طرح ان کے ساتھ رحم وکرم اور حسنِ سلوک والا تعامل کریں جو اپنے آقا کے سامنے جھک جاتا ہے،اور ان کے لیے اللہ سے رحمت کی دعاکریں،جس طرح والدین نے ان کے بچپن اور ان کی ضرورت کے وقت ان پر رحم وکرم کیا اور بچپن میں ان کی تربیت فرمائی۔
اے اللہ کے بندو!جو بڑے اجر وثواب کا مستحق بنا چاہتا ہے تو وہ یہ ذہن نشین کرلے کہ ماں جنت کا ایک وسیع وعریض دروازہ ہے۔اس میں کمی وکوتاہی وہی شخص کرتا ہے جو اپنے نفس کو محروم رکھتا اور اپنے دامن میں کم سے کم خیر سمیٹتا ہے۔معاویہ بن جاہمہ سلمی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تین مرتبہ آئے اور آپ سے جہاد کے بارے میں سوال کیا۔ ہر مرتبہ آپ انہیں یہی کہتے کہ افسوس، کیا تمہاری ماں زندہ ہے؟ انہوں نے جواب دیا: ہاں! اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "افسوس! اس کے پیر کے پاس رہو، وہیں جنت ہے"۔اس حدیث کو امام ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اور علامہ البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے،امام احمد کی ایک روایت میں ہے: "اسی کے پاس رہو کیوں کہ جنت اس کے پیر کے پاس ہے"۔کسی سلف نے اس سے یہ فائدہ اخذ کیا ہے کہ ماں کے پاؤں کا بوسہ لینا جائز ہے، چنانچہ وہ ہر دن ماں کے قدم کا بوسہ لیا کرتے تھے، اور اپنے بھائیوں کے پاس ایک دن دیر سے آئے ، بھائیوں نے ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ میں باغ جنت میں سیر کر رہا تھا،کیوں کہ ہمیں یہ معلوم ہوا ہے کہ جنت ماؤں کے قدموں تلے ہے،جسے یہ پسند ہو کہ اس کے رزق اور عمر میں برکت ہو تو اسے چاہئے کہ والدین کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے۔صحیح میں آیا ہے کہ: "جو چاہتا ہو کہ اس کے رزق میں فراخی ہو‘ اور اس کی عمر دارز ہو تو وہ صلہ رحمی کیا کرے"۔
والدین آپ کے سب سے زیادہ قریبی رشتہ دار ہیں۔
اللہ مجھے اور آپ کو قرآن کی برکت سے بہرہ ور فرمائے۔
دوسرا خطبہ:
الحمد لله...
حمد وصلاة کے بعد!
اے دوستو:ممکن ہے یہاں میں خود کو اور آپ کو حسن سلوک کے بعض شکلوں کی یاد دہانی کراؤں، آپ کو جو مناسب لگے اسے اپنا لیں،والدین جنت کا ایک وسیع دروازہ ہے،ان کے ساتھ حسن سلوک کی ایک شکل یہ ہے کہ اپنے والدین کی خدمت کیا کریں قبل اس کے کہ وہ اس خدمت کا مطالبہ کریں،اور ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے میں حتی المقدور جلدی کریں۔اس کی دوسری شکل یہ ہے کہ اپنے رشتے داروں کے ساتھ تعلق کو بہتر بنائیں۔ ان کے ساتھ رابطے کو مضبوط بنائیں،اس کی وجہ سے انہیں شرح صدر اور دلی مسرت حاصل ہوگی۔
اس کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ آپ اپنے رشتے داروں کے ساتھ صلہ رحمی کریں،ان رشتے داروں میں آپ کی والدہ کے رشتے دار بھی ہیں جیسے ان کے مامو،خالہ،چچا اور پھوپھیاں،حسنِ سلوک کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ والدین کے لیے مغفرت،رحمت،ہدایت،ثابت قدمی،صحت وعافیت کی اور ان کی ذریت کی صالحیت کی دعا کی جائے،اور اگر ان کی اولاد شادی شدہ ہوں تو میاں بیوی کے درمیان الفت و محبت کی دعا کی جائے،اور اگر ان میں سے دونوں یا کوئی ایک وفات پاجائے تو رحمت ومغفرت کی کثرت سے دعا کی جائے،وفات پانے والے کے حق میں ایک بہترین حسن سلوک یہ بھی ہے کہ دونوں کی جانب سے خصوصی صدقہ کیا جائے،یا دونوں کو اپنے بعض صدقہ میں اپنے ساتھ شریک کریں،وقف کے کام میں حصہ لینے کا حریص بنیں،اگرچہ معمولی رقم سے ہی کیوں نا ہو،ان شاء اللہ آپ کو والدین کی فرمانبرداری اور صدقہ دونوں کا اجر حاصل ہوگا،اور اس صدقہ سے آپ کے دل کا تزکیہ ہوگا۔
حسن سلوک کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ والدین کو کسی قریبی جگہ میں سیر وتفریح کے لیے لے جائیں جہاں کچھ ایسی تبدیلی ہو جو نشاط میں جدت پیدا کردے۔
حسن سلوک کی ایک شکل یہ ہے کہ آپ ناشتہ یا قہوہ پر ان کی ضیافت کریں،دادی یا دادا کے ساتھ ان کے لڑکے یا پوتے کو بھی شریک کریں،یہ لوگ اپنے کچھ واقعات اور یادوں سے محفل کو آباد کریں گے۔
حسن سلوک کی ایک شکل یہ ہے کہ صراحت کے ساتھ ان کے حق میں دعائیں دے کر ، ان کی تعریف وتوصیف کرکے اور ان کے سامنے اچھی بات پیش کرکے ان کے جذبات کی تکریم کیجیے،انہیں یہ احساس دلائیے کہ توفیق الہی کے بعد زندگی میں آپ کی کامیابی ان کی تربیت اور آپ کے تئیں ان کے سعی مسعود کا نتیجہ ہے،انہیں یہ احساس اس وقت دلائیں جب آپ سند ،یا ترقی یا محبت اور اپنی شخصیت و اخلاق کے تئیں اعزاز حاصل کریں۔
اس کی ایک شکل یہ ہے کہ ان کے سر یا ہاتھ کا آپ بوسہ لیں اور اپنی اولاد کو بھی ان کے ساتھ اس طرح کرنے کا عادی بنائیں، اگر انسان کسی بزرگ یا عالم کے ہاتھ کا بوسہ لے سکتا ہے تو بہتر یہ ہے کہ والدین کو خاص طور پر بوسہ دیا جائے،قرآن میں آیا ہے﴿ وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ ﴾ [الإسراء: 24].
ترجمہ:اور عاجزی اور محبت کے ساتھ ان کے سامنے تواضع کا بازو پست رکھے رکھنا۔
حسن سلوک کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ والدین کی باتوں کو اچھے سے بغور سنیں اور ان پر توجہ مرکوز رکھیں،ان آلات کی وجہ سے ان سے غافل نہ ہوجائیں جو بعض مسلمان کے لئے نافرمانی کا دروازہ بن چکی ہیں، اگر والدین آپ کے شہر میں ہوں تو ان کی زیارت کرکے ان سے گفتگو کریں،اوراگر آپ کے شہر سے باہر ہوں تو ان سے فون پر گفتگو کریں،حسن سلوک کی ایک شکل یہ ہے کہ آپ ان کی خدمت میں تحفہ تحائف پیش کریں،بلکہ اگر وہ مالدار نہ ہوں تو آپ ان کے لیے ما ہانہ نقدی ہدیہ متعین کر یں۔
حسن سلوک کی ایک شکل یہ ہے کہ آپ اپنی اولاد یا بعض اولاد کو ان سے سلام کرنے اور ان کے پاس بیٹھنے کے لئے ساتھ لے جائیں۔
حسن سلوک یہ بھی ہے کہ آپ انہیں اپنے بارے میں بتائیں اور ان سے اپنے بعض امور میں مشورہ لیں،جس تعلق سے وہ گفتگو کرنا پسند کرتے ہوں اسی موضوع پر ان سے بات کریں،زیادہ تر یہ ہوتا ہے کہ وہ ماضی کے ان چیزوں پر گفتگو کرنا پسند کرتے ہیں جنہیں وہ جان رہے ہوتے ہیں۔
حسن سلوک کی ایک شکل یہ ہے کہ آپ شکوی شکایت سے اجتناب کریں کیوں کہ آپ کے غم والدین کے کندھے کو بوجھل بنادیتے ہیں۔
حسن سلوک یہ بھی ہے کہ حسبِ استطاعت اور مناسب حد تک والدین کے دوست کے ساتھ عزت واکرام کا معاملہ کریں،بلکہ آپ کے والد کے دوست کے اہل خانہ کے ساتھ صلہ رحمی کرنا بھی ان کے ساتھ حسن سلوک میں شامل ہے۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب مکہ کو جاتے تو اپنے ساتھ ایک گدھا رکھتے تھے، جب اونٹ کی سواری سے تھک جاتے تو اس پر سوار ہوتے ،چنانچہ ایک دن آپ کے پاس سے ایک دیہاتی گزرا، سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہما نے کہا: تو فلاں کا بیٹا ہے؟ وہ بولا: ہاں، سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہما نے اس کو گدھا دے دیا تاکہ وہ اس پر چڑھ سکے اور عمامہ بھی دے دیاتاکہ اپنے سر پر باندھ سکے۔ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہما کے بعض ساتھیوں کو اس سے تعجب ہوا اور انہوں نے اس رویہ کو مبالغہ پر محمول کیا ۔ تو انہوں نے کہا کہ اس کا باپ عمربن خطاب کا دوست تھا اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ کہتے ہوا سنا ہے کہ: "ایک بڑی نیکی یہ ہے کہ آدمی اپنے باپ کے دوست کے اہل خانہ کے ساتھ باپ کے مر جانے کے بعد اچھا سلوک کرے"۔(اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے)
آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ باپ کے دوست کا کیا مقام ہو سکتا ہے؟ حسن سلوک یہ بھی ہے کہ والد کو ان کے دوستوں کے ساتھ جمع کریں اور ان کی ملاقات کی راہ ہموار کریں۔
اگر والدین وفات پاچکے ہوں تو اللہ آپ کی بہتر تسلی فرمائے اور جنت الفردوس میں آپ کو ان کے ساتھ جمع کرے،کسی شاعر نے کہا ہے:
بكيتُ لفقْدِ الوالدينِ ومنْ يعشْ ♦♦♦ لفقدهما تصغُرْ لديه المصائبُ
ترجمہ: میں والدین کی وفات پر بہت رویا،اور جو شخص والدین کی وفات کے بعد بھی زندگی جی لیتا ہے تو اس کے سامنے ساری مصیبتیں ہیچ ہوجاتی ہیں۔
آپ ان کی قبروں کی زیارت کریں اور ان کے لیے اللہ سے دعا ئے خیر کریں،ہمیں یہ گمان ہے کہ وہ اس سے مانوس ہوں گے اور آپ کی دعا سے ان کو فائدہ بھی پہنچے گا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ کی وفات اسلام پر نہیں ہوئی تھی،حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی والدہ کی قبر کی زیارت کی،چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی روئے اور اپنے آس پاس کے لوگوں کو بھی رلایا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میں نے اپنے رب سے اپنی ماں کی بخشش مانگنے کے لیے اجازت مانگی تو مجھے اجازت نہ ملی، پھر میں نے قبر کی زیارت کی اجازت مانگی تو مجھے اجازت مل گئی چناچہ تم بھی قبر کی زیارت کیا کرو کیوں کہ یہ تمہیں موت یاد کراتی ہے"۔(اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے)
اے دوستو!ہمیں والدین کو کبیدہ خاطر کرنے سے بچنا چاہئے،کیوں کہ والدین کی نافرمانی ایک کبیرہ گناہ ہے، چنانچہ عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے مروی ہے ، انہوں نے کہا کہ : ایک دیہاتی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا: یا رسول اللہ! بڑے بڑے گناہ کون سے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ کے ساتھ شرک کرنا"۔ اس نے پوچھا پھر کون سا گناہ؟ آپ نے فرمایا : "ماں باپ کو ستانا"۔ پوچھا: پھر کون سا گناہ؟ آپ نے فرمایا :" غموس" قسم کھانا۔ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما نے کہا میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! " غموس" قسم کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "جان بوجھ کر کسی مسلمان کا مال مار لینے کے لیے جھوٹی قسم کھانا"۔(اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے)
اے اللہ کے بندو!ہمیں والدین کی نافرمانی اور خیالات اور امور دنیا کو برباد کرنے والی چیزوں سے احتراز کرنا چاہیے۔
اپنے بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ جھگڑنے اور بے جا بحث وتکرار سے آپ اجتناب کریں۔ خاص کر اپنے والدین کی موجودگی میں،اے میرے نوجوان بھائی!نماز اور پڑھائی کے لیے جب وہ آپ کو بیدار کریں توآپ اپنے والدین پر زیادہ بوجھ نہ بنیں،بلکہ بہتر یہ ہے کہ آپ خود ہی بیدار ہوجائیں اور ہوسکے تو اپنے بھائیوں کو بیدار کریں۔
اے نوجوان بھائی! والدین سے مشکل چیز کا مطالبہ نہ کریں،اور اگر ان سے کچھ طلب کریں تو ادب و عتدال کے ساتھ بغیر اصرار کے مطالبہ کریں۔
کیوں کہ اخراجات بہت زیادہ ہیں،اور بسااوقات ان کی دوسری ذمہ داریوں سے آپ نا واقف ہوتے ہیں۔
اگر آپ کو سفر کا ارادہ ہو تو ان سے مشورہ لے لیں،اور اگر وہ یہ چاہتے ہوں کہ آپ ان کے پاس رہیں تو آپ سفر نہ کریں۔
آپ اپنے والدین کی چاہتوں کو نہ ٹھکرائیں،اگر آپ کو ان چاہتوں میں کوئی غلطی نظر آئے تو نرمی کے ساتھ اسے بیان کریں،آپ جو سوچتے ہیں وہ ایک نظریہ ہے اور آپ کے والدین کی رائے بھی ایک نظریہ ہے،اپنی خاطر والدین کو رنج وغم میں ڈالنے سے بچیں۔
اخیر میں :ہمیں چائیے کہ ہم بقدر استطاعت والدین کی فرمانبرداری کے مختلف طریقوں کے حریص رہیں اور تمام طرح کی نافرمانی سے گریز کریں۔
صلى اللہ علیہ وسلم
مترجم:
شفاء الله الياس تیمی
المرفقات
1641572615_والدین کی فرمانبرداری.pdf