نمازِ با جماعت کے وجوب کی دس دلیلیں

سيف الرحمن التيمي
1443/02/02 - 2021/09/09 08:34AM

موضوع الخطبة :الأدلة العشرة على وجوب السعي لصلاة الجماعة، وتحريم التشاغل عنها بتجارة ونحوها

الخطيب        : فضيلة الشيخ ماجد بن سليمان الرسي/ حفظه الله

لغة الترجمة     : الأردو

المترجم          :سيف الرحمن التيمي((@Ghiras_4T

موضوع:

نمازِ با جماعت کے وجوب اور تجارت و دیگر مشغولیات کی بنا پر اس سے غفلت برتنے کی حرمت کی دس دلیلیں

 

پہلا خطبہ:

إن الحمد لله نحمده ، ونستعينه، ونعوذ بالله من شرور أنفسنا ومن سيئات أعمالنا، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أن محمدا عبده ورسوله.

حمد وثنا کے بعد!

سب سے بہترین کلام اللہ کا کلام ہے، اور سب سے بہترین طریقہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے، سب سے بدترین  چیز  دین میں  ایجاد کردہ بدعتیں ہیں،  ہر ایجاد کردہ چیز بدعت ہے، ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے۔

اے مسلمانو! اللہ تعالی سے ڈرو اور اس کاخوف اپنے ذہن ودل میں زندہ رکھو، اس کی اطاعت کرو اور اس کی نافرمانی سے بچتے رہو، جان رکھو کہ  نماز آپ کے بہترین اعمال میں سے ہے، اللہ پاک وبرتر نے مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ مسجد میں نماز ادا کرنے کا حکم دیا ہے، اور بغیرکسی شرعی عذر کے  اس سے پیچھے رہنے سے منع فرمایا ہے، مسجد میں نماز ادا کرنے کا حکم مختلف  احادیث کے اندر آیا ہے:

۱-ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "آدمی کی جماعت کے ساتھ نماز گھر میں یا بازار میں پڑھنے سے پچیس درجہ زیادہ بہتر ہے۔ وجہ یہ ہے کہ جب ایک شخص وضو کرتا ہے اور اس کے تمام آداب کو ملحوظ رکھ کر اچھی طرح وضو کرتا ہے پھر مسجد کا راستہ پکڑتا ہے اور سوائے  نماز کے اور کوئی دوسرا ارادہ اس کا نہیں ہوتا، تو ہر قدم پر اس کا ایک درجہ بڑھتا ہے اور ایک گناہ معاف کیا جاتا ہے اور جب نماز سے فارغ ہو جاتا ہے تو فرشتے اس وقت تک اس کے لیے برابر دعائیں کرتے رہتے ہیں جب تک وہ اپنے مصلے پر بیٹھا رہے۔ کہتے ہیں «اللهم صل عليه،‏‏‏‏ اللهم ارحمه‏» اے اللہ! اس پر اپنی رحمتیں نازل فرما۔ اے اللہ! اس پر رحم کر۔ اور جب تک تم نماز کا انتظار کرتے رہو گویا تم نماز ہی میں مشغول ہو"([1])۔

۲-عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ: "جو یہ چاہے کہ کل (قیامت کے دن) اللہ تعالی سے مسلمان کی حیثیت سے ملے تو وہ جہاں سے ان (نمازوں) کے لیے بلایا جائے، ان نمازوں کی حفاظت کرے (وہاں مساجد میں جاکر صحیح طرح سے انہیں ادا کرے)کیوں کہ اللہ تعالی نے تمہارے نبی ﷐ کے لیے ہدایت کے طریقے مقرر فرمادیے ہیں اور یہ ( مساجد میں باجماعت نمازیں ) بھی انہیں طریقوں میں سے ہیں۔کیوں کہ اگر تم نمازیں اپنے گھروں میں پڑھوگے ، جیسے یہ جماعت سے پیچھے رہنے والا ، اپنے گھر میں پڑھتا ہے تو تم اپنے نبی کی راہ چھوڑ دوگے اور اگر تم اپنے نبی کی راہ کو چھوڑ دوگے تو گمراہ ہوجاؤگے۔کوئی آدمی جو پاکیزگی حاصل کرتا ہے (وضو کرتا ہے) او ر اچھی طرح وضو کرتا ہے، پھر ان مساجد میں سے کسی مسجد کا رخ کرتا ہے تو اللہ تعالی اس کے ہر قدم کے بدلے ، جو وہ اٹھاتا ہے، ایک نیکی لکھتا ہے، اور اس کے سبب اس کا ایک درجہ بلند فرماتا ہے، اور اس کا ایک گناہ کم کردیتاہے، میں نے دیکھا کہ ہم میں سے([2]) کوئی ( بھی) جماعت سے پیچھے نہ رہتا تھا، سوائے ایسے منافق کے جس کا نفاق سب کو معلوم ہوتا (بلکہ بسا اوقات ایسا ہوتا کہ) ایک آدمی کو اس طرح لایا جاتا کہ اسے دو آدمیوں کے درمیان سہارا دیا گیا ہوتا([3]) ، حتی کہ صف میں لا کھڑا کیا جاتا"([4])۔

۳-اللہ کے بندو!جو لوگ جماعت کے ساتھ مسجدوں میں پنج وقتہ نمازوں کی پابندی کرتے ہیں، ان کو اللہ تعالی قیامت کے دن اپنے سائے تلے جگہ دے گا ، جب  سورج مخلوقوں سے ایک میل کے فاصلے پر ہوگا،ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے  کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" سات آدمی ایسے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنے سایہ   تلے([5])  سایہ دے گا جبکہ اس کے سایہ کے سوا اور کوئی سایہ نہیں ہو گا:  عادل حاکم، نوجوان جس نے اللہ کی عبادت میں جوانی پائی، ایسا شخص جس نے اللہ کو تنہائی میں یاد کیا اور اس کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے، وہ شخص جس کا دل مسجد میں لگا رہتا ہے ..." ۔

مسلم کی روایت میں یہ الفاظ آئے ہیں: "وہ شخص جس کا دل مسجد میں لگا رہتاہے، وہ جب مسجد سے نکلتا ہے تو (اس کا دل) اسی کے ساتھ معلق رہتا ہے یہاں تک کہ اس میں لوٹ آئے...."([6])۔

۴-ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " جو شخص مسجد میں صبح وشام بار بار حاضری دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ جنت میں اس کی مہمانی کا سامان کرتا ہے۔ وہ صبح وشام جب بھی مسجد میں جاتا ہے"([7])۔اس سے مرادہ وہ جگہ ہے جو مہمان کی ضیافت کے لیے تیار کی جاتی ہے([8])۔

۵-مسجد میں جماعت کےساتھ نماز کے واجب ہونے  کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اللہ تعالی نے جنگ کی حالت میں نمازِ باجماعت کو واجب قرار دیا ہے جو کہ سب سے مشکل حالت ہوتی ہے، یہ نماز  صلاۃ الخوف کے نام سےجانی جاتی ہے، اللہ تعالی فرماتا ہے: (وَإِذَا كُنْتَ فِيهِمْ فَأَقَمْتَ لَهُمُ الصَّلَاةَ فَلْتَقُمْ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ مَعَكَ)

ترجمہ:  جب تم ان میں ہو اور ان کے لئے نماز کھڑی کرو تو چاہئے کہ ان کی ایک جماعت تمہارے ساتھ کھڑی ہو ۔

۶-اللہ تعالی کا فرمان ہے:  (وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَارْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِينَ)

ترجمہ: نمازوں کو قائم کرو اور زکوٰة دو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔

رکوع کرنے والوں سے مراد مسجد میں نماز ادا کرنے والوں کی جماعت ہے۔

۷-اے مومنوں کی جماعت!مسجد میں نمازِ باجماعت ادا کرنے  میں کوتاہی کرنے اور غفلت برتنے سے ڈرایا گیا ہے، چنانچہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  فراتے ہیں  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :"اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میرا ارادہ ہوا کہ میں لکڑیوں کے جمع کرنے کا حکم دوں، پھر نماز کے لیے اذان دینے کا، پھر کسی سے کہوں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائے اور میں اس کے بجائے ان لوگوں کے پاس جاؤں (جو جماعت میں شریک نہیں ہوتے) اور انہیں ان کے گھروں سمیت جلا دوں۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ تم  میں سے کسی کو اگر یہ امید ہو کہ وہاں  موٹی ہڈی([9]) یا بکریوں کے  دو کُھروں([10])  کے درمیان کا گوشت ملے گا تو وہ ضرور (نماز) عشاء میں شریک ہو"۔

مسلم کی روایت میں یہ الفاظ بھی آئے ہیں:  "...پھر میں کچھ اشخاص کو  ساتھ لے کر، جن کے پاس لکڑیوں کے گٹھے ہوں، ان لوگوں کی طرف جاؤں جو نماز میں حاضر نہیں ہوتے، پھر ان کے گھروں کو ان پر آگ سے جلادوں"([11])۔

۸- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے اذان سنی لیکن مسجد میں نہیں آیا تو اس کی نماز نہیں ہو گی، الا یہ کہ کوئی عذر ہو“([12])۔یعنی اس کو نماز کا مکمل اجر نہیں  مل پائے گا۔ 

۹-ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک نابینا آدمی حاضر ہوا اور عرض کی: اے اللہ کے رسول ! میرے پاس کوئی لانے والا نہیں جو (ہاتھ سے پکڑ کر) مجھے مسجد میں لے آئے۔اس نے رسول اللہ ﷐ سے درخواست کی کہ اسے اجازت دی جائے کہ وہ اپنے گھر میں نماز پڑھ لے۔آپ نے اسے اجازت دے دی، جب وہ  جانے لگا  تو آپ ﷐ نے اسے بلایا  اورفرمایا: کیا تم نماز کا بلاوا (اذان)سنتے ہو؟ اس نے عرض کی : جی ہاں، آپ نے فرمایا: "تو اس پر لبیک کہو"([13])۔

۱۰- جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ اس دوران کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن کھڑے خطبہ دے رہے تھے، مدینہ کا (تجارتی) قافلہ آ گیا، (یہ سن کر) صحابہ بھی (خطبہ چھوڑ کر) ادھر ہی لپک لیے، صرف بارہ آدمی باقی رہ گئے جن میں ابوبکر و عمر رضی الله عنہما بھی تھے، اسی موقع پریہ  آیت نازل ہوئی: «وإذا رأوا تجارة أو لهوا انفضوا إليها» ” جب کوئی سودا بکتا دیکھیں یا کوئی تماشہ نظر آجائے تو اس کی طرف دوڑ جاتے ہیں “ (الجمعۃ: ۱۱)([14])۔

اللہ کے بندو! اس آیت میں اللہ عزوجل کی طرف سے صحابہ کرام کو سرزنش  کی گئی ہے کہ  وہ عبادت کو چھوڑ کر  دنیاداری کی طرف لپک گئے، اس کے بعد اللہ پاک نے آخرت کی تجارت پر ابھارا اور اس بات پر یقین رکھنے کی تلقین کی کہ حقیقت میں اللہ پاک کے سوا کوئی رزق رساں نہیں ہے، چنانچہ اللہ تعالی نے فرمایا:  (قُلْ مَا عِنْدَ اللَّهِ خَيْرٌ مِنَ اللَّهْوِ وَمِنَ التِّجَارَةِ وَاللَّهُ خَيْرُ الرَّازِقِينَ)

ترجمہ: آپ کہہ دیجئے کہ اللہ کے پاس جو ہے وه کھیل اور تجارت سے بہتر ہے۔ اور اللہ تعالیٰ بہترین روزی رساں ہے۔

یعنی نبی ﷐کے ساتھ نماز ادا کرنے اور  (عبادت پر) ثابت قدم رہنے کا اجروثواب کھیل اور تجارت سے بہتر اور بڑھ کر ہے، چنانچہ صحابہ کرام نے اللہ تعالی کے اس فرمان کو قبول کیا، جس کانتیجہ تھا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم خرید وفروخت کرتے اور تجارت میں مصروف رہتے ، لیکن جب اللہ کا کوئی حق درپیش ہوتا تو ان کی تجارت انہیں ذکر الہی سے نہیں روکتی ، بلکہ وہ وقت پر اللہ کا حق ادا کرتے، چنانچہ وہ اپنے آقا ومولا کی اطاعت، اس کی مراد او رمحبت کو اپنی مراد او رمحبت پر مقدم رکھتے تھے، انہیں اس خوبی سے متصف کرتے  ہوئے اللہ تعالی نے فرمایا:  (رِجَالٌ لَا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ وَإِقَامِ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ)

ترجمہ:  ایسے لوگ جنہیں تجارت اور خرید وفروخت اللہ کے ذکر سے اور نماز کے قائم کرنے اور زکوٰة ادا کرنے سے غافل نہیں کرتی۔([15])

اے مسلمانو! مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے کے وجوب کی یہ دس دلیلیں ہیں، اللہ تعالی ہم سب  کو اسی طرح نماز قائم کرنے کی توفیق دے جس طرح اس نے حکم دیا ہے۔

الله تعالی مجھے اور آپ سب کو قرآن کی برکتوں سے بہرہ مند فرمائے ، مجھے اور آپ سب کو اس کی آیتوں اور حکمت پر مبنی نصیحت سے فائدہ پہنچائے ، میں اپنی یہ بات کہتے ہوئے اللہ تعالی سے مغفرت کا خواستگار ہوں، آپ بھی اس سے مغفرت طلب  کریں، یقینا وہ خوب معاف کرنے والا بڑا مہربان ہے۔

دوسرا خطبہ:

الحمد لله وكفى، وسلام على عباده الذين اصطفى.

حمد وصلاۃ کے بعد: آپ یہ بھی جان رکھیں -اللہ آپ پر رحم فرمائے- کہ  مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنا ایمان کی شاخ  اور دین داری کی علامت ہے،  چنانچہ تمام دکانداروں اور کاروباریوں پر واجب ہے کہ جب نماز کی ندا لگائی جائے تو مسجد  جانے کی  جلدی کریں،  اسی طرح جو حضرات کسی انتظامی میٹنگ میں ہوں، ان پر بھی یہ واجب ہوتا ہے، اور جو حضرات ان اجتماعات کو منعقد کرتے ہیں، ان پر یہ واجب ہے کہ اذان ہوتے ہی اپنا اجتماع برخواست کردیں، نماز ادا کریں اور پھر نماز سے فارغ ہوکر اجتماع جاری رکھیں، کیوں کہ جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنا کوئی ثانوی اور اختیاری چیز نہیں، بلکہ اللہ کا حکم ہے، بغیر کسی ضرورت کے با جماعت نماز کو ترک کرنا جائز نہیں، (جن ضرورتوں کی وجہ سے جماعت ترک کی جاسکتی ہے وہ یہ ہیں:) حراست ونگہبانی، سفر کے لئے قافلہ (ٹرین یا جہاز پکڑنا)، بیمار یا مصیبت زدہ کی جان بچانا، خوف، بارش ، یا سخت آندھی اور طوفان۔

*اللہ کے بندو! جماعت سے مراد پہلی جماعت ہے ، جس کے لئے اذان دی جاتی اور اقامت کہی جاتی ہے، بعض لوگ-اللہ انہیں ہدایت دے- پہلی جماعت سے پیچھے رہنے کے عادی نظر آتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ مسجد میں دوسری اور تیسری ...جماعتوں  کا سلسلہ جاری رہتا ہے، جس کے نتیجے میں ایک جماعت کے بجائے مختلف جماعتوں میں لوگ نماز ادا کرتے ہیں، ہم اللہ سے ہی  اس کی شکایت کرتے ہیں([16])۔

*اے مسلمانو! جو مسلمان اپنے ایمان میں سچا ہو، اس پر یہ واجب ہوتاہے کہ  نماز کی کما حقہ قدر اور تعظیم کرے،  اسے اس کا مقام دے، یہ جان رکھے کہ اللہ تعالی اسے مال ودولت اورتجارت ومعیشت کے ذریعہ آزماتا ہے، اللہ تعالی فرماتا ہے:  (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُلْهِكُمْ أَمْوَالُكُمْ وَلَا أَوْلَادُكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ)

ترجمہ: اے مسلمانو! تمہارے مال اور تمہاری اوﻻد تمہیں اللہ کے ذکر سے غافل نہ کر دیں۔ اور جو ایسا کریں وه بڑے ہی زیاں کار لوگ ہیں۔

نیز فرمایا:  (فِي بُيُوتٍ أَذِنَ اللَّهُ أَنْ تُرْفَعَ وَيُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ يُسَبِّحُ لَهُ فِيهَا بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ [36] رِجَالٌ لَا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ وَإِقَامِ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ يَخَافُونَ يَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِيهِ الْقُلُوبُ وَالْأَبْصَارُ[37] لِيَجْزِيَهُمُ اللَّهُ أَحْسَنَ مَا عَمِلُوا وَيَزِيدَهُمْ مِنْ فَضْلِهِ وَاللَّهُ يَرْزُقُ مَنْ يَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ[38])

ترجمہ: ان گھروں میں جن کے بلند کرنے، اور جن میں اپنے نام کی یاد کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے وہاں صبح وشام اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتے ہیں۔ ایسے لوگ جنہیں تجارت اور خرید وفروخت اللہ کے ذکر سے اور نماز کے قائم کرنے اور زکوٰة ادا کرنے سے غافل نہیں کرتی۔ اس دن سے ڈرتے ہیں جس دن بہت سے دل اور بہت سی آنکھیں الٹ پلٹ ہوجائیں گی [37] اس ارادے سے کہ اللہ انہیں ان کے اعمال کا بہترین بدلے دے بلکہ اپنے فضل سے اور کچھ زیادتی عطا فرمائے۔ اللہ تعالیٰ جسے چاہے بےشمار روزیاں دیتا ہے [38]۔

ان آیتوں میں اللہ تعالی نے خرید وفروخت کی وجہ سے نماز میں غفلت برتنے سے متنبہ کیا ہے، نیز یہ تنبیہ بھی فرمائی ہے کہ رزق اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے، وہ  جسے چاہتا ہے بے حد وحساب رزق عطا کرتاہے، اس لئے یہ سمجھنا چاہئے کہ نماز رزق کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہے، نہ اس سے رزق کا راستہ مسدود ہوتاہے، بلکہ اس سے رزق کا دروازہ کھلتا ہے، روزی میں برکت، نشو ونما اور اضافہ ہوتاہے، جو شخص اس کے برخلاف سوچے تو وہ اپنے پروردگار کے تئیں بدگمان ہے۔

*اے مومنو ں کی جماعت! ہم آج کا خطبہ سماحۃ الشیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ تعالی کے اس فتوی کے ساتھ ختم کرتے ہیں، جس میں آپ فرماتے ہیں: ".... جہاں کہیں بھی اذا ن دی جائے  وہاں تمام مردوں پر جماعت کے ساتھ اللہ کے گھروں میں نماز ادا کرنا واجب ہے،  حکومت اور علماء ودعاۃ کے لئے یہ جائز نہیں کہ   کسی بھی دکاندار اور تاجر وغیرہ کو جماعت سے پیچھے رہنے کی اجازت دیں،  شرعی دلائل پر عمل (کرنے کا یہی تقاضہ ہے)، نیز اللہ نے مومنوں پر جماعت کے ساتھ مساجد میں نماز ادا کرنے کو واجب قرار دیا ہے، اس واجب کی ادائیگی میں ان کی اعانت  ( کا بھی یہی تقاضہ ہے)، اور اللہ تعالی نے اپنے اس فرمان میں مومنوں کی جو صفت بیان کی ہے ، اس پر عمل کرنے کا بھی یہی تقاضہ ہے:  (وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ )

ترجمہ: مومن مرد وعورت آپس میں ایک دوسرے کے (مددگار ومعاون اور) دوست ہیں، وه بھلائیوں کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں۔

آپ رحمہ اللہ کا قول ختم ہوا([17])۔

عباد الله! إن الله يأمر بالعدل والإحسان وإيتاء ذي القربى، وينهى عن الفحشاء والمنكر والبغي، يعظكم لعلكم تذكرون، فاذكروا الله العظيم يذكركم، واشكروه على نعمه يزدكم، ولذكر الله أكبر، والله يعلم ما تصنعون.

از قلم:

ماجد بن سلیمان الرسی

۱۸ ذو  الحجۃ   ۱۴۴۲ھ

شہر جبیل-سعودی عرب

مترجم:

سیف الرحمن تیمی

[email protected]



 ([1])  اسے بخاری (۶۴۷) نے روایت کیا ہے اور مسلم (۶۴۹) نے اس کا بعض حصہ روایت کیا ہے۔
 ([2])  یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جماعت۔
 ([3])  یعنی کمزوری ولاغری کی وجہ سے دو آدمیوں کے سہارے چل کر آتا۔ دیکھیں: "المعجم الوسیط"۔
 ([4])  اسے مسلم (۶۵۴) نے روایت کیا ہے۔
 ([5])  اس حدیث کو بیہقی نے کتاب "الأسماء والصفات" (۷۹۳) میں ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے ان الفاظ کے ساتھ  روایت کیا ہے: ":" سات آدمی ایسے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنے عرش کے نیچے سایہ دے گا جس دن اس کے عرش کے سائے کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا...."حدیث۔اس روایت کو کتاب کے محقق عبد اللہ الحاشدی نے صحیح قرار دیا ہے۔

دونوں احادیث کے اندر کوئی تعارض نہیں ہے، کیوں کہ مذکورہ سایہ کی اضافت عرش کی طرف بھی درست ہے اور اللہ کی طرف بھی، (البتہ اللہ کی طرف جب اس کی اضافت ہوگی تو) ملکیت اور تعظیم کی اضافت ہوگی۔
 ([6])  صحیح بخاری (۶۸۰۶)، صحیح مسلم (۶۶۹)، مذکورہ الفاظ مسلم کے روایت کردہ ہیں۔
 ([7])  اسے بخاری (۶۶۲) اور مسلم (۶۶۹) نے روایت کیا ہے اور مذکورہ الفاظ مسلم کے روایت کردہ ہیں۔
 ([8])  دیکھیں: "النہایۃ"، نیز دیکھیں: "فتح الباری" لابن حجر میں مذکورہ حدیث کی شرح۔
 ([9])  یعنی: یعنی ایسی موٹی ہڈی جس پر خوب گوشت چڑھا ہو۔ دیکھیں: "المعجم الوسیط"
 ([10])  اس سے مراد  بکری کے کُھروں کے درمیان کا گوشت ہے، جس کا مقصد اس کی حقارت بیان کرنا ہے۔ دیکھیں: "المعجم الوسیط"۔
 ([11])  اسے بخاری (۷۲۲۴) اور مسلم (۶۵۱) نے روایت کیا ہے۔
 ([12])  اسے ابن ماجہ (۷۹۳) وغیرہ نے روایت کیا ہے او البانی نے "الإرواء" (۲/۳۳۷) میں اسے صحیح کہا ہے۔
 ([13])  صحیح مسلم (۶۵۳)
 ([14])  اسے بخاری (۴۸۹۹) اور مسلم (۸۶۳) نے روایت کیا ہے۔
 ([15])  اس حدیث کی یہ شرح میں نے "الدرر السنیۃ" ویب سائٹ سے اخذ کیا ہے۔
 ([16])  اس موضوع پر مزید تفصیلات کے لئے رجوع کریں: "أھمیۃ صلاۃ الجماعۃ فی ضوء النصوص وسیر الصالحین"، فضل الہی ظہیر، ناشر: مؤسسۃ الجریسی-ریاض
 ([17])  دیکھیں: "مجموع فتاوی ومقالات متنوعۃ" (۳۰/۱۰۴-۱۰۵)

المشاهدات 1070 | التعليقات 0