مصطفى پر ایمان لانے کے تقاضے

سيف الرحمن التيمي
1442/08/21 - 2021/04/03 03:25AM

موضوع الخطبة  : مقتضيات الإيمان بالنبي صلى الله عليه وسلم

الخطيب : فضيلة الشيخ ماجد بن سليمان الرسي/حفظه الله

لغة الترجمة      : الأردو

المترجم         : سيف الرحمن التيمي (@Ghiras_4T)

خطبہ کا موضوع:

نبی صلى اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کے تقاضے

إن الحمد لله نحمده ونستعينه ونستغفره ونعوذ بالله من شرور أنفسنا ومن سيئات أعمالنا، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أن محمدا عبده ورسوله.

حمد وصلاۃ کے بعد!

اے مسلمانو! اللہ تعالی سے ڈرو اور اس سے خوف کھاتے رہو، اس کی اطاعت کرو اور اس کی نافرمانی سے بچتے رہو، جان رکھو  کہ بندوں پر اللہ کی یہ رحمت ہے کہ اس نے ان کے درمیان  ان ہی میں سے ایک رسول بھیجا جو انہیں اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور ان کو پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب وحکمت سکھاتا ہے۔ یقیناً یہ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔نبی صلى اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کے پندرہ تقاضے ہیں:

۱-آپ کے اسم گرامی اور نسب نامہ سے واقفیت، آپ کا نسب نامہ  یہ ہے: محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی بن کلاب بن مرۃ بن کعب بن لؤی بن غالب بن فہر بن مالک بن النضر بن کنانۃ بن خزیمۃ بن مدرکۃ بن الیاس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان۔عدنان اسماعیل کی  نسل سے تھے اور  اسماعیل ابرہیم علیہ السلام کی نسل سے ۔اس پورے سلسلہ نسب میں آپ کانا م مع ولدیت کے جاننا بھی کافی ہے اور وہ ہے: محمد بن عبد اللہ۔نیز یہ کہ آپ قبیلہ قریش سے تعلق رکھتے تھے۔

۲-نبی صلى اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کا ایک تقاضہ یہ ہے کہ آپ اپنی نبوت کے جن دلائل کے ساتھ مبعوث ہوئے، ان پر ایمان لایاجائے ، جوکہ بہت زیادہ ہیں، ان میں سب سے بڑے دلائل یہ ہیں: قرآن کریم کا نزول،  چاند کا آپ کے (اشارے سے ) دو ٹکڑے ہونا،  کھجور کے تنے کا آپ کے اشتیاق میں  بلک کر رونا، آپ کے سامنے کھانے کا تسبیح پڑھنا، آپ کے انگلیوں کے درمیان سے پانی کے چشمے پھوٹنا، تھوڑے سے کھانے کا زیادہ ہوجانا او رآپ صلى اللہ علیہ وسلم کا مستقبل سے متعلق غیبی امور کی خبر دینا۔

۳-نبی صلى اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کا تقاضہ یہ  ہے کہ آپ کی نبوت ورسالت پر ایمان لایا جائےاور اس پر ایمان لایا جائے کہ آپ اللہ کی جانب سے بھیجے گئے  سچے اور برحق رسول ہیں۔

۴-نبی صلى اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کا تقاضہ یہ بھی ہے کہ آپ کے آخری نبی  اور آپ کی رسالت کے آخری رسالت ہونے پر ایمان لایا جائے، جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: (مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ)

ترجمہ:  (لوگو!) تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ محمد  نہیں لیکن آپ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں اور تمام نبیوں کے ختم کرنے والے۔

حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " میری امت میں عنقریب تیس جھوٹے (دعویدار) نکلیں گے، ان میں سے ہر ایک یہ دعویٰ کرے گا کہ وہ نبی ہے، حالانکہ میں خاتم النبین ہوں میرے بعد کوئی (دوسرا) نبی نہیں ہو گا..."([1])۔

حضرت جابر رضی اللہ عنہما سے مروی کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" میری اور مجھ سے پہلے کے تمام انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص نے ایک گھر بنایا اور اس میں ہر طرح کی زینت پیدا کی لیکن ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوٹ گئی۔ اب تمام لوگ آتے ہیں اور مکان کو چاروں طرف سے گھوم کر دیکھتے ہیں اور تعجب میں پڑ جاتے ہیں لیکن یہ بھی کہتے جاتے ہیں کہ یہاں پر ایک اینٹ کیوں نہ رکھی گئی؟ تو میں ہی وہ اینٹ ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں"([2])۔

۵-نبی صلى اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کا ایک تقاضہ یہ ہے کہ یہ ایمان لایا جائے کہ آپ کی لائی ہوئی شریعت سابقہ تمام تر شریعتوں کو منسوخ کرنے والی اور ان کی محافظ  ہے، مثلاً عیسی اور موسی علیہما السلام کی لائی ہوئی شریعتیں، اللہ تعالی کا فرمان ہے: (وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ الْكِتَابِ وَمُهَيْمِنًا عَلَيْهِ)

ترجمہ: ہم نے آپ کی طرف حق کے ساتھ یہ کتاب نازل فرمائی ہے جو اپنے سے اگلی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے اور ان کی محافظ ہے۔

۶-نبی صلى اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کاتقاضہ یہ بھی ہے کہ  اس بات پر ایمان لایا جائے کہ آپ کی بعثت کے بعد اللہ  تعالى کے نزدیک دین اسلام کے سوا کوئی دین قابل قبول نہیں، ا س کی دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے: (وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ)

ترجمہ: جو شخص اسلام کے سوا اور دین تلاش کرے، اس کا دین قبول نہ کیا جائے گا اور وه آخرت میں نقصان پانے والوں میں ہوگا۔

نبی صلى اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث بھی اس پر دلالت کرتی ہے: "قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے۔ اس زمانے کا (یعنی میرے وقت اور میرے بعد قیامت تک) کوئی یہودی یا نصرانی (یا اور کوئی دین والا) میرا حال سنے پھر ایمان نہ لائے اس پر جس  کے ساتھ میں بھیجا گیا ہوں۔ (یعنی قرآن) تو جہنم میں جائے گا"([3])۔

۷-نبی صلى اللہ علیہ  وسلم پر ایمان لانے کا تقاضہ یہ بھی ہے کہ اس پر ایمان لایا جائے کہ آپ نے (اللہ کے ) پیغام کو (دنیا والوں تک) پہنچادیا اور اسے مکمل کردیا، نیز اپنی امت کو روشن شاہراہ پر چھوڑ کر (ا س دنیا سے گئے)، اس کی دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے: (الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا)

ترجمہ: آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنا انعام بھرپور کردیا اور تمہارے لئے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہوگیا۔

سنت نبویہ  میں اس کی دلیل  وہ حدیث ہے جسے بخاری ومسلم نے مسروق سے روایت کیا ہے، وہ کہتے ہیں: میں ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کے پاس ٹیک لگا کر بیٹھا ہوا تھا، انہوں نے کہا: اے ابوعائشہ! تین چیزیں ایسی ہیں کہ ان میں سے کسی نے ایک بھی کیا تو وہ اللہ پر بڑی بہتان لگائے گا-ان میں سے ایک یہ ذکر کی کہ-جس نے یہ خیال کیا کہ اللہ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر جو چیزیں اتاری ہیں ان میں سے کچھ چیزیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے چھپا لی ہیں۔ جب کہ اللہ کہتا ہے «يا أيها الرسول بلغ ما أنزل إليك من ربك» ”جو چیز اللہ کی جانب سے تم پر اتاری گئی ہے اسے لوگوں تک پہنچا دو“([4])۔

ابو ذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، وہ فرماتے ہیں: ہمیں محمد صلى اللہ علیہ وسلم نے اس حال میں چھوڑا کہ فضا میں جو پرندہ بھی اپنے پر پھڑپھڑاتا ہے ، اس سے متعلق بھی آپ نے ہمیں کوئی نہ کوئی علم ضرور  دیا"([5])۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حجۃ الوداع  میں یہ گواہی دی کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے دین کی تبلیغ کا فریضہ انجام دے دیا، ان کی تعداد تقریبا چالیس ہزار تھی، جب نبی صلى اللہ علیہ وسلم نے ان سے عرض کیا: "میں  تمہارے درمیان ایسی چیز چھوڑے جاتا ہوں کہ اگر تم اسے مضبوط پکڑے رہو تو کبھی گمراہ نہ ہو گے (وہ ہے) اللہ تعالیٰ کی کتاب۔ اور تم سے (قیامت میں) میرے بارے میں سوال ہو گا تو پھر تم کیا کہو گے؟"

تو  ان سب نے عرض کیا کہ : ہم گواہی دیتے ہیں کہ بےشک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچایا اور رسالت کا حق ادا کیا اور امت کی خیرخواہی کی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی انگشتِ شہادت آسمان کی طرف اٹھاتے تھے اور لوگوں کی طرف جھکاتے تھے([6]) اور فرماتے تھے کہ اے اللہ! گواہ رہنا، اے اللہ! گواہ رہنا، اے اللہ! گواہ رہنا۔ تین بار (یہی فرمایا اور یونہی اشارہ کیا)([7])۔

۸-نبی صلى اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کا ایک تقاضہ یہ ہے کہ اس بات پر ایمان لایا جائے کہ آپ تمام انس وجن کے لئے رسول بناکر بھیجے گئے تھے،  اللہ تعالی کا فرمان ہے: (قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا)

ترجمہ: آپ کہہ دیجئے کہ اے لوگو! میں تم سب کی طرف اس اللہ تعالیٰ کا بھیجا ہوا ہوں۔

نیز فرمان باری تعالی ہے:(وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ)

ترجمہ: ہم نے آپ کو تمام جہان والوں کے لئے رحمت بنا کر ہی بھیجا ہے۔

سورۃ الجن میں اس بات کا ذکر آیا ہے کہ نبی صلى اللہ علیہ وسلم نے جنوں کو اسلام کی دعوت دی ، چنانچہ چند جنات آپ کے پاس آئے اور آپ سے اسلام کی بیعت لی، اس سلسلے میں سورۃ الأحقاف کی چند آیتیں نازل ہوئیں، جوکہ یہ ہیں:(وَإِذْ صَرَفْنَا إِلَيْكَ نَفَرًا مِنَ الْجِنِّ يَسْتَمِعُونَ الْقُرْآنَ فَلَمَّا حَضَرُوهُ قَالُوا أَنْصِتُوا فَلَمَّا قُضِيَ وَلَّوْا إِلَى قَوْمِهِمْ مُنْذِرِينَ قَالُوا يَا قَوْمَنَا إِنَّا سَمِعْنَا كِتَابًا أُنْزِلَ مِنْ بَعْدِ مُوسَى مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ يَهْدِي إِلَى الْحَقِّ وَإِلَى طَرِيقٍ مُسْتَقِيمٍ يَا قَوْمَنَا أَجِيبُوا دَاعِيَ اللَّهِ وَآمِنُوا بِهِ يَغْفِرْ لَكُمْ مِنْ ذُنُوبِكُمْ وَيُجِرْكُمْ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ)

ترجمہ: یاد کرو! جبکہ ہم نے جنوں کی ایک جماعت کو تیری طرف متوجہ کیا کہ وه قرآن سنیں، پس جب (نبی کے) پاس پہنچ گئے تو (ایک دوسرے سے) کہنے لگے خاموش ہو جاؤ، پھر جب پڑھ کر ختم ہوگیا تو اپنی قوم کو خبردار کرنے کے لئے واپس لوٹ گئے۔ کہنے لگے اے ہماری قوم! ہم نے یقیناً وه کتاب سنی ہے جو موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد نازل کی گئی ہے جو اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے جو سچے دین کی اور راه راست کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔ اے ہماری قوم! اللہ کے بلانے والے کا کہا مانو، اس پر ایمان لاؤ، تو اللہ تمہارے گناه بخش دے گا اور تمہیں المناک عذاب سے پناه دےگا۔

اللہ تعالی  کے حکم کے مطابق نبی صلى اللہ علیہ وسلم نے تمام لوگوں کو اسلام کی دعوت دی، سب سے پہلے اپنے قریب ترین  رشتہ داروں اور اہل خاندان  کو اسلام  کی طرف بلایا ، پھر عرب ، فارس اور روم کے بادشاہوں کے نام خطوط لکھے، حبشہ کے بادشاہ نجاشی کو خط لکھا، جنوں کو اسلام کی دعوت دی، دعوت کی راہ ہموار کرنے کے لئے غزوات کئے، آپ کے بعد آپ کے صحابہ  نے بھی آپ کے نقش قدم کی پیروی کی ، چنانچہ انہوں نے بھی دعوت الی اللہ کا فریضہ انجام دیا، قرآن وسنت کی حفاظت کی ، مرتدوں سے جنگ لڑی، مدعیان نبوت سے قتال کیا ، آفاق عالم پر   فتح ونصرت کا پرچم لہرایا، چنانچہ  ملک شام، مصر اور مراکش کو فتح کیا اور خراسان پر نصرت کا پرچم لہرایا، ہر جگہ توحید کو عام کیا، بتوں کو زیر کیااور اسلام کی نصرت وفتح کے لئے بیش بہا کارنامے انجام دئے، جوکہ تاریخ اور حدیث کی کتابوں میں رقم ہیں، اللہ ان پر رحمت کی بارش برسائے اور انہیں جزائے خیر سے نوازے۔انہوں نے اور ا ن کے بعد کی نسلوں نے جو کارنامے انجام دئے ، سب کو قیامت کے دن ان کے میزان حسنات میں شامل فرمائے۔

۹-نبی صلى اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کا ایک تقاضہ یہ بھی ہے کہ اس بات پر ایمان لایا جائے کہ آپ کا طریقہ سب سے اکمل طریقہ ہے ،حضرت جابر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلى اللہ علیہ وسلم  اپنے خطبہ میں فرمایا کرتے تھے:"حمد وصلاۃ کے بعد، سب سے بہترین کلام اللہ کی کتاب ہے، سب سے بہترین طریقہ محمد صلى اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے، سب سے بدترین چیز (دین میں ) ایجاد کردہ بدعتیں ہیں اور ہر بدعت گمراہی ہے"([8]) ۔

۱۰-نبی صلى اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کا تقاضہ یہ بھی ہے کہ آپ کے حقوق ادا کیے  جائیں،  جن میں سرفہرست آپ کی تصدیق کرنا اور  آپ کی لائی ہوئی شریعت کی پیروی کرناہے ، بایں طور کہ آپ کے حکم کو بجا لایا جائے اور آپ کی منع کردہ چیزوں سے گریز کیا جائے، اسی طرح آپ صلى اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنا بھی آپ کے حقوق میں سے ہے۔

۱۱-نبی صلى اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کا تقاضہ یہ بھی ہے کہ آپ کی بشریت پر ایمان لایا جائے اور اس بات پر  کہ آپ اللہ کے بندے ہیں جن کی عبادت کرنا درست نہیں، بہت سی آیتوں کے اندر بھی اس کی وضاحت کی گئی ہے، مثلاً سورۃ الإسراء میں اللہ تعالی کا یہ فرمان ملاحظہ کریں:(سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى)

ترجمہ: پاک ہے وه اللہ تعالیٰ جو اپنے بندے کو رات ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، وہ کہتے ہیں:میں نے نبی صلى اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:"مجھے میرے مرتبے سے زیادہ نہ بڑھاؤ([9]) جیسے عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام کو نصاریٰ نے ان کے رتبے سے زیادہ بڑھا دیا ہے۔ میں تو صرف اللہ کا بندہ ہوں، اس لیے یہی کہا کرو (میرے متعلق) کہ میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں"([10])۔

نیز اللہ تعالی نے اپنے نبی صلى اللہ علیہ وسلم سے فرمایا:  (قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يُوحَى إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ)

ترجمہ: آپ کہہ دیجئے کہ میں تو تم جیسا ہی ایک انسان ہوں۔ (ہاں) میری جانب وحی کی جاتی ہے کہ سب کا معبود صرف ایک ہی معبود ہے۔

آپ کے بشریت پر ایمان لانے سے یہ لازم آتا ہے کہ اس بات پر ایمان لایا جائے کہ آپ اور آپ کے علاوہ  دیگر تمام انبیاء ورسل بھی   ربوبیت اور الوہیت کی کسی بھی خصلت وخوبی کے مالک نہیں ہیں، اللہ تعالی نے اپنے نبی کو یہ حکم دیا کہ آپ لوگوں سے کہہ دیں: (قُلْ لَا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ وَلَوْ كُنْتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ إِنْ أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ)

ترجمہ: آپ فرما دیجئے کہ میں خود اپنی ذات خاص کے لیے کسی نفع کا اختیار نہیں رکھتا اور نہ کسی ضرر کا، مگر اتنا ہی کہ جتنا اللہ نے چاہا ہو اور اگر میں غیب کی باتیں جانتا ہوتا تو میں بہت سے منافع حاصل کر لیتا اور کوئی نقصان مجھ کو نہ پہنچتا میں تو محض ڈرانے واﻻ اور بشارت دینے واﻻ ہوں ان لوگوں کو جو ایمان رکھتے ہیں۔

یہ اور اس جیسی دیگر آیتوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ نبی صلى اللہ علیہ وسلم بشر اور انسان تھے، نیز آپ ربوبیت والوہیت کی کسی بھی خصلت کے مالک نہیں تھے، چنانچہ آپ نہ تو علم غیب رکھتے تھے، نہ کائنات میں تصرف کرتے تھے اور نہ دعائیں قبول کرتے تھے، بلکہ ہماری ہی طرح اللہ کے بندہ تھے، لیکن اللہ نے آپ کو نبوت سے سرفراز فرمایا تھا اور یہی صورت حال دیگر تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی بھی تھی۔

۱۲-نبی صلى اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کا تقاضہ یہ بھی ہے کہ ان صحیح آثار پر ایمان لایا جائے جو آپ کی سیرت مبارکہ ، عمدہ اخلاق واوصاف، جہاد فی سبیل اللہ اور حق کی نشر واشاعت میں آپ  کے  صبر وتحمل پر دلالت کرتے ہیں۔

۱۳-نبی صلى اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کا تقاضہ یہ بھی ہے کہ  آپ کی تمام  خَلقی اور خُلقی صفات پر ایمان لایا جائے، مثلا ً آپ کی لمبائی ، شکل وصورت، چال ڈھال ، آپ کے  چہرہ مبارک کی صفت اور آپ کی خلقت کا جمال، اسی طرح وہ بلند اخلاق جن سے اللہ نے آپ کو نوازا تھا اور جو آپ کے علاوہ کسی اور کے اندر یکجا نہیں پائے گئے، جیسے سچائی، امانت داری، رحمت ورافت ، صلہ رحمی اور عفو ودرگزر وغیرہ،  علماء نے آپ کی صفات خَلقیہ اور خُلقیہ سے متعلق بہت سی کتابیں تصنیف کی ہیں۔

۱۴-نبی صلى اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کا تقاضہ یہ بھی ہے کہ آپ کے حق میں جو شخصی اور شرعی خصوصیات وارد ہوئی ہیں، ان پر ایمان لایا جائے ،  شخصی خصوصیات کی مثال مہر نبوت ہے، جو کہ آپ کے بائیں کندھے کے پاس  گوشت کا ابھرا ہوا حصہ تھا، اس کی مقدار کبوتر کے انڈے کے برابر تھی۔

آپ  کی شخصی خصوصیات کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ آپ کی آنکھیں سوتی تھیں لیکن دل نہیں سوتا تھا۔

اسی کی مثال یہ بھی ہے کہ آپ کے جسم سے نکلنے والے پسینہ او ر(دہنِ مبارک سے نکلنے والے) لعاب میں اللہ نے برکت پیدا فرمائی تھی۔

رہی بات آپ کی شرعی خصوصیات کی تو اس کی چند مثالیں یہ ہیں: آپ کی وراثت کا کوئی حقدار نہیں، آپ پر اور آپ کےآل بیت پر صدقہ حرام ہے،  آپ کے حق میں یہ جائز تھا کہ  آپ پے درپے ایک سے زائد روزہ رکھیں  اور بیچ میں افطار نہ کریں، آپ  کو  اللہ نے چار سے زائد شادیاں کرنے کی اجازت دی تھی، نیز اس عورت سے آپ کو نکاح کر نے کی خصوصی اجازت تھی جو اپنے آپ  کو آپ کے لئے ہبہ کردے، اسی طرح آپ کا اسی جگہ پر مدفون ہونا جہاں آپ کی وفات ہوئی، ان کے علاوہ اور بھی خصوصیات ہیں  جو آپ کے لئے خاص ہیں۔

۱۵-نبی صلى اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کا تقاضہ یہ بھی ہے کہ آپ کی معصومیت([11]) پر ایمان لایا جائے ، آپ صلى اللہ علیہ وسلم پانچ  چیزوں سے معصوم تھے:

۱-آپ صلى اللہ علیہ وسلم تبلیغ دین میں غلطی ، بھول چوک اور (کسی بات کو ) چھپانے سے معصوم تھے، اس کی دلیل  اللہ تعالی کا  یہ فرمان ہے: (وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى)

ترجمہ: نہ وه اپنی خواہش سے کوئی بات کہتے ہیں ۔وه تو صرف وحی ہے جو اتاری جاتی ہے۔

نیز فرمان باری تعالی ہے: (يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ)

ترجمہ: اے رسول !جو کچھ بھی آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے پہنچا دیجیئے۔ اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے اللہ کی رسالت ادا نہیں کی، اور آپ کو اللہ تعالیٰ لوگوں سے بچا لے گا۔

۲-آپ صلى اللہ علیہ وسلم کی معصومیت کا  ایک پہلو یہ بھی ہے  کہ آپ شرک میں واقع ہونے سے معصوم تھے، بعثت سے قبل بھی آپ شرک سے معصوم  رہے، صحیح نصوص اس بات پر  دلالت کرتے ہیں کہ آپ نے کبھی کسی بت کے سامنے نہ تو سجدہ کیا ، نہ اسے (تبرک کے لئے)  ہاتھ لگایا، اور نہ اس جیسی کوئی ایسی شرکیہ حرکت کی جو آپ کی قوم کے لوگ کیا کرتے تھے،  آپ اپنی فطرت کے بموجب اللہ سے آشنا تھے، کئی سالوں تک غار حراء میں جاکر اللہ کی عبادت کرتے اور اس عبادت میں کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے،  آپ صلى اللہ علیہ وسلم کا اللہ تعالی کی اس توحید پر قائم رہنا کوئی تعجب خیز  بات بھی نہیں ،  کیوں کہ اللہ تعالی نے آپ کے اندر سے شیطان کا حصہ دو دفعہ نکالا،پہلی دفعہ جب آپ چھوٹے تھے اور دوسری دفعہ جب آپ بڑے ہوگئے اور آپ کے ساتھ شق صدر کا واقعہ پیش آیا۔

۳-آپ کی عصمت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ آپ کبیرہ گناہوں سے معصوم تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اس پر گواہ ہے، خواہ بعثت سے پہلے ہو یا اس کے بعد، کیوں کہ آپ نے کبھی شراب کو منہ نہیں لگایا، نہ ہی آپ نے کبھی کسی عورت کو ہاتھ لگایا، چہ جائیکہ اس سے آگے بڑھتے،  اور نہ ہی آپ نے کبھی جھوٹ بولا، جیسا کہ نبی صلى اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:"میں صرف سچ بات ہی بولتا ہوں"، آپ سے کبیرہ گنا ہ کیسے سرزد ہوسکتا تھا جب کہ آپ نے اپنے صحابہ سے عرض کیا: "اللہ کی قسم! میں تم میں سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے اور اس کا تقوی اختیار کرنے والا ہوں"([12])۔

قرطبی رحمہ اللہ رقم طراز ہیں: اس پر اجماع ہے کہ انبیائے کرام تمام کبیرہ گناہوں کے ساتھ  ان صغیرہ گناہوں سے بھی معصوم تھے جن کے اندر فحاشیت اور رذالت پائی جاتی ہے۔

۴-آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی عصمت  کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ  آپ جس نسل سے تھے ، وہ نسل زنا سے محفوظ تھی، اللہ تبارک وتعالی نے  ہمارے نبی کی نسل کو زمانہ جاہلیت کے زنا سے محفوظ رکھا تھا،  خواہ وہ باپ کی جہت سے ہو یا ماں کی جہت سے، آپ کی ولادت اسلامی نکاح کے طرز پر منعقد ہونے والے نکاح سے ہی ہوئی تھی([13])۔

اس کی دلیل نبی صلى اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث ہے جسے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے روایت کیا ہے:" میرے والدین کے درمیان کبھی ناجائز رشتہ نہ تھا، اللہ نے مجھے پاک پشت سے پاک رحم میں  شفافیت اور پاکیزگی کے ساتھ منتقل فرمایا ، جب بھی دو شاخوں  (خاندانوں) کا آپس میں رشتہ  ہوا تو میں ان میں سب سے بہتر میں تھا"([14])۔

۵-آپ صلى اللہ علیہ وسلم کی عصمت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ آپ رذیل اخلاق سے معصوم تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کریمہ پر بات کی جائے تو گفتگو  بہت لمبی  ہوجائے گی، اتنا کہنا ہی کافی ہے کہ  آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمام عمدہ  اخلاق  سے متصف  اور تمام برے  اخلاق سے پاک وبری تھے، اس سلسلے میں ہمارے لئے اللہ تعالی کا یہ فرمان ہی کافی ہے جس کے مخاطب نبی صلى اللہ علیہ وسلم ہیں: ( وَإِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ)

ترجمہ: بے شک آپ بڑے (عمدہ) اخلاق پر ہیں۔

نبی صلى اللہ علیہ وسلم پرایمان لانے کے یہ پندرہ تقاضے ہیں ،ان تقاضو ں پر ایمان لانے اور ان پر عمل پیرا ہونے  میں اللہ ہماری مدد فرمائے ، اور ہمیں ان لوگوں میں شامل فرمائے جنہوں نے آپ صلى اللہ علیہ وسلم  پر ایمان لایا  ، آپ کی نصرت ومدد کی  اور اس نور کی پیروی کی جس کے ساتھ آپ مبعوث ہوئے تھے، وہی لوگ کامیاب ہیں۔

اللہ تعالی میرے اور آپ کے لئے قرآن کریم کو بابرکت بنائے ، مجھے اور آپ سب کو اس کی آیتوں اور حکمت پر مبنی نصیحت سے فائدہ پہنچائے ، میں اپنی یہ بات کہتے ہوئے  ہر طرح کے گناہوں سے اللہ کی  مغفرت طلب کرتا ہوں، آپ بھی اس سے استغفار کریں، یقینا وہ بہت زیادہ توبہ قبول کرنے والا اور خوب معاف کرنے والا ہے۔

دوسرا خطبہ:

الحمد لله وكفى، وسلام على عباده الذين اصطفى، أما بعد:

آپ  یہ بھی جان رکھیں –اللہ آپ پر اپنی رحمت نازل فرمائے - کہ اللہ  تعالی نے آپ کو ایک بڑی چیز کا حکم دیا ہے، فرمان باری تعالی ہے:

(إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا)

ترجمہ: اللہ تعالی اور اس کے فرشتے اس نبی پر رحمت بھیجتے ہیں ۔اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود بھیجو اور خوب سلام بھی بھیجتے رہا کرو۔

 نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:" تمہارے سب سے بہتر دنوں میں سے جمعہ کا دن ہے، اسی دن آدم پیدا کئے گئے، اسی دن ان کی روح قبض کی گئی، اسی دن صور پھونکا جائے گا[15]، اسی دن چیخ ہو گی[16] ۔ اس لیے تم لوگ اس دن مجھ پر کثرت سے درود بھیجا کرو، کیوں کہ  تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے"[17]۔اے اللہ !تو اپنے بندے اور رسول محمد پر رحمت و سلامتی بھیج،تو  ان کے  خلفاء ،تابعین عظام اور قیامت تک اخلاص کے ساتھ ان کی  اتباع کرنے والوں سے راضی ہوجا۔

اے اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو عزت وسربلندی عطا فرما،شرک اور مشرکین کو ذلیل وخوار کر،تواپنے اور دین اسلام کے دشمنوں کو نیست ونابود کردے،اور اپنے موحد بندوں کی مدد فرما،اے اللہ! تو ہمیں اپنے ملکوں میں سلامتی عطا کر،ہمارے اماموں اور ہمارے حاکموں کی اصلاح فرما،انہیں ہدایت کی رہنمائی کرنےوالا اور ہدایت پر چلنے والا بنا۔انہیں ان کے ماتحتوں  کے لئے رحمت بنادے۔اے اللہ!  جو ہمارے  تئیں،  اسلام اور مسلمانوں کے تئیں شر کا ارادہ رکھے تواسے اپنی ذات میں مشغول کردے،اور اس کے مکر وفریب کو اس کےلئے وبال جان بنا۔

اے اللہ!  مسلمانوں کو جو  مصیبت لاحق ہوئی  ہے اس کی شدت وسنگینی کو تیرے سوا کوئی نہیں جانتا،  اے اللہ! ہم سے اس مصیبت کو دور فرمادے ، ہم مسلمان ہیں، اے اللہ ! اس وبا سے جو مسلمان وفات پاگئے ہیں، ان پر رحم فرما،  اور ان میں جو بیمار ہیں ، انہیں شفا عطا کر ، اے اللہ ! ہم تیری پناہ چاہتے ہیں تیری نعمت کے زوال سے ، تیری عافیت کے ہٹ جانے سے، تیری ناگہانی سزا سے اور تیری ہر طرح کی ناراضی سے۔

اے اللہ! ہم تیری پناہ چاہتے ہیں برص سے، پاگل پن سے ، کوڑھ سے اور بری بیماری سے ۔

اے اللہ! ہمیں رمضان نصیب فرما، اے اللہ! ہمیں رمضان نصیب فرما، اے اللہ ! ہمیں رمضان نصیب فرما۔

اے ہمارے پرودگار! ہمیں دنیا میں  نیکی دے اور آخرت میں بھلائی عطا فرما اور ہمیں عذاب جہنم سے نجات بخش۔

اے اللہ کے بندو!  اللہ تعالی عدل کا ، بھلائی کا اور قرابت داروں کے ساتھ حسن  سلو ک کرنے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی کے کاموں ، نا شائستہ حرکتوں اور ظلم وزیادتی سے روکتا ہے۔و ہ خود تمہیں نصیحت کرر ہا ہے کہ تم نصیحت حاصل کرو۔اس لئے تم اللہ عظیم وبرتر کو یاد کرو، وہ بھی تمہیں یاد کرے گا، اس کی نعمتوں کا شکر یہ ادا کرو اللہ تمہیں مزید نوازے گا، یقینا اللہ تعالی کا ذکر سب سے بڑی چیز ہے، اور اللہ تمہارے تمام اعمال سے باخبر ہے۔

 

از قلم:

ماجد بن سلیمان الرسی

۵ شعبان ۱۴۴۲ھ

شہر جبیل-سعودی عرب

ترجمہ: سیف الرحمن حفظ الرحمن تیمی

[email protected]



 ([1])  اس حدیث کو ابوداود (۴۲۵۲) اور احمد (۵/۲۷۸) نے روایت کیا ہے اور البانی نے صحیح کہا ہے، اسی طرح "المسند" کے محققین نے بھی اسے مسلم کی شرط پر صحیح قرار دیا ہے۔

عبد اللہ بن عمر بن الخطاب سے مسند احمد (۲/۱۰۳) میں یہ الفاظ آئے ہیں: اللہ کی قسم میں نے رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: یقینا مسیح الدجال سے پہلے تیس یا اس سے زائد جھوٹے (دعویدار) نکلیں گے۔ "المسند" کے محققین نے اسے صحیح لغیرہ کہا ہے۔
 ([2])  اسے بخاری(۳۵۳۵) اور مسلم (۲۲۸۶) نے روایت کیا ہے۔
 ([3])  اسے مسلم(۱۵۳) نے ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔
 ([4])  اسے بخاری (۴۸۵۵) اور مسلم (۲۸۷، ۱۷۷) نے روایت کیا ہے اور مذکورہ الفاظ مسلم کے روایت کردہ ہیں۔
 ([5])   اسے احمد نے "المسند"  (۵/۱۵۳)میں روایت کیا ہے اور "المسند " کے محققین نے اسے حسن قرار دیا ہے۔
 ([6])  یعنی اپنی انگلی کو اوپر نیچے کرتے اور لوگوں کی طرف اشارہ کرتے۔ یہ امام نووی نے اس حدیث کی تشریح میں لکھا ہے۔
 ([7])  اسے مسلم (۱۲۱۸) نے جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔
 ([8])  اسے مسلم (۱۲۱۸) نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔
 ([9])  یعنی میری تعریف وستائش کرنے میں۔ دیکھیں: "فتح الباری" میں مذکورہ حدیث کی تشریح۔
 ([10])  اسے بخاری (۳۴۴۵) ، احمد (۱/۲۳) اور دارمی (۲۷۸۷) نے روایت کیا ہے اور مذکورہ الفاظ بخاری کے روایت کردہ ہیں۔
 ([11])  لغت میں عصمت کے معنی ہوتے ہیں: روکنے اور حفاظت کرنے کے۔دیکھیں:(لسان العرب)
 ([12])   اسے بخاری (۵۰۶۳) نے روایت کیا ہے۔
 ([13])  حافظ حکمی کی کتاب "معارج القبول" سے معمولی تصرف کے ساتھ منقول، باب: مولدہ صلى اللہ علیہ وسلم، صفحہ: ۱۰۵۱، ناشر: دار ابن القیم-دمام
 ([14])  اس حدیث کو ابو نعیم نے "دلائل النبوۃ" :۲۴ میں مختلف طرق سے روایت کیا ہے اور سیوطی نے "الخصائص الکبرى": ۱/۶۲، ۶۶ میں اس کے شواہد ذکر کئے ہیں، منقول از: "حقوق النبی صلى اللہ علیہ وسلم على أمتہ" ڈاکٹر محمد بن خلیفہ التمیمی، ناشر: مکتبۃ أضواء السلف-ریاض: ۱۳۸
[15]  یعنی صور میں دوسری بار پھونک مارا جائے گا، اس سے مراد وہ صور ہے جس میں اسرافیل پھونک ماریں گے، یہ وہ فرشتہ ہیں جن کو صور میں پھونک مارنے پر مامور کیا گیا ہے، جس کے بعد تمام مردے   اپنی قبروں سے اٹھ  کھڑے ہوں گے۔
[16]  یعنی جس سے دنیاوی زندگی کے اخیر میں لوگ بے ہوش ہوکر گر پڑیں گےاور سب کے سب مر جائیں گے، یہ بے ہوشی اس وقت پیدا ہوگی جب صور میں پہلی بار پھونک مارا جائے گا، دو پھونک کے درمیان چالیس سالوں کا فاصلہ ہوگا۔
[17]  اسے نسائی( ۱۳۷۳) ، ابو داود (۱۰۴۷) ، ابن ماجہ (۱۰۸۵)  اور احمد (۴/۸) نے روایت کیا ہے اور البانی نے صحیح ابی داود میں اور مسند کے محققین نے (حدیث: ۱۶۱۶۲) کے تحت اسے صحیح کہا ہے۔

المرفقات

1617420281_مصطفى پر ایمان لانے کے تقاضے.pdf

المشاهدات 1668 | التعليقات 0