مسلمانوں کی غیبت نہ کریں!
سيف الرحمن التيمي
موضوع الخطبة :لا تغتابوا المسلمين
الخطيب : فضيلة الشيخ حسام بن عبد العزيز الجبرين/ حفظه الله
لغة الترجمة : الأردو
المترجم :سيف الرحمن التيمي((@Ghiras_4T
موضوع:
مسلمانوں کی غیبت نہ کرو
پہلا خطبہ:
إن الحمد لله نحمده ونستعينه ونستغفره ونعوذ بالله من شرور أنفسنا ومن سيئات أعمالنا، من يهده الله فلا مضل له ومن يضلل فلا هادي، له وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له وأشهد أن محمداً عبده ورسوله.
﴿ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ ﴾ [آل عمران: 102]. ﴿ يَاأَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا ﴾ [النساء: 1] ﴿ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا * يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا ﴾ [الأحزاب: 70، 71]
حمد وصلاۃ کے بعد:
سب سے بہترین کلام اللہ کی کتاب ہے، سب سے بہترین طریقہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے، سب سے بدترین چیزیں (دین میں) ایجاد کردہ بدعتیں ہیں، اور ہر بدعت گمراہی ہے۔
ایمانی بھائیو! آج ہماری گفتگو کا موضوع ایک ایسی مذموم خصلت ہے جس کی غلاظت سے مرد وعورت، جوان اور بوڑھے سبھوں کے دامن داغدار ہیں، الا من رحم اللہ، یقینا وہ ایک سماجی بیماری بن چکی ہے جو مسلمانوں کے درمیان محبت واخوت کے رشتہ کو تار تار کر رہی ہے، وہ دشمنی کی آگ بھڑکانے کا ایک بڑا سبب ہے، وہ کبیرہ گناہ ہے، جو ایمان کی روشنی بجھا دیتا اور رتبہ احسان سے انسان کو اتار دیتا ہے، وہ قبر کے عذاب کی بھی وجہ ہے، اللہ تعالی ہمیں اور آپ کو اس سے محفوظ رکھے۔ وہ آپ کی حاصل کردہ نیکیوں کو غارت کرنے کا سبب ہے، ہم ایسے خسارے سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں، اس سے مراد غیبت ہے۔
اللہ کے بندو! اللہ نے ہمیں غیبت سے منع فرمایا ہے: ﴿ وَلَا يَغْتَبْ بَعْضُكُمْ بَعْضًا ﴾ [الحجرات: 12]
ترجمہ: اور نہ تم میں سے کوئی کسی کی غیبت کرے۔
غیبت یہ ہے کہ آپ اپنے بھائی کی غیر موجودگی میں اس کے تعلق سے وہ بات کریں جسے وہ ناپسند کرتا ہے، اللہ پاک نے غیبت سے منع کرنے کے بعد ایک ایسی تشبیہ بیان کی جس سے اس کی قباحت وشناعت اجاگر ہوتی ہے، اللہ پاک کا ارشاد ہے:
﴿ أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ ﴾ [الحجرات: 12].
ترجمہ:کیا تم میں سے کوئی بھی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند کرتا ہے؟ تم کو اس سے گھن آئے گی۔
ابن عاشور اپنی تفسیر میں رقم طراز ہیں: "اس مثال کا مقصد یہ ہے کہ جس کی مثال دی گئی ہے اس کی شناعت اور قباحت بیان کی جائے، تاکہ غیبت کرنے والوں کے سامنے اس کی سنگینی واضح ہوسکے، کیوں کہ غیبت لوگوں میں عام چکی ہے، بطور خاصل زمانہ جاہلیت میں اس کا بہت رواج تھا، چنانچہ مسلمان کا اپنے ایسے بھائی کی غیبت کرنا جو موجود نہ ہو، اس شخص کی طرح ہے جو اپنے بھائی کا گوشت کھائے اس حال میں کہ وہ مردہ ہو، اپنی ذات کا دفاع کرنے سے قاصر ہو"۔انتہی
آپ مزید فرماتے ہیں: "اللہ تعالی کے فرمان: ﴿ فَكَرِهْتُمُوهُ ﴾ میں جو حرف "فا" ہے اسے فائے فصیحہ کہا جاتا ہے، ضمیر غائب (هُ) لوٹ رہی ہے : ﴿ أَحَدُكُمْ﴾کی طرف یا ﴿ لَحْمَ ﴾کی طرف۔کراہت سے مراد : نا پسند کرناا ور قبیح سمجھنا ہے"۔ انتہی
اے اللہ ہمیں معاف فرما اور ان تمام لوگوں کو جن کی غیبت میں ہم واقع ہوئے اور ہمیں توبۃ النصوح سے سرفراز فرما۔
اسلامی بھائیو! کیا آپ نے دیکھا کہ اللہ نے غیبت کو کیسی چیز سے تشبیہ دی ہے، جب کہ ہم دن رات غیبت میں لگے رہتے ہیں، الا ما شاء اللہ، غیبت کی بد شگونی اور شر آج ہمارے لیپ ٹاپ اور موبائل کے ذریعہ بھی ہمارے ساتھ لگی رہتی ہے، چنانچہ سوشل میڈیا پر کسی عالم کی تو کسی داعی کی اور کبھی کھلاڑی وغیرہ کی غیبت ہوتی ہی رہتی ہے، اور مختلف اقوام اور قبیلوں وغیرہ کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔
محترم حضرات! گناہ کی سنگینی کی تحدید لوگوں کے ہاتھ میں نہیں بلکہ لوگوں کے پروردگار کے ہاتھ میں ہے، اور رسول علیہ الصلاۃ والسلام ہی اس کی خبر دے سکتے ہیں، کثرت سے غیبت کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ کوئی معمولی گنا ہے! معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ ایک سفر میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، معاذ فرماتے ہیں: ایک دن جبکہ ہم چل رہے تھے میں آپ کے قریب ہوگیا۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! مجھے ایسا عمل بتائیے جو مجھے جنت میں پہنچا دے اور جہنم سے دور کر دے۔ آپ نے فرمایا: تونے بڑی عظیم بات پوچھی ہے اور جس کے لیے اللہ آسان کردے اس کے لیے یہ آسان بھی ہے۔ اس کے بعد نبی علیہ الصلاۃ والسلام نے اسلام کے پانچ ارکان بیان فرمائے اور نیکی کے بہت سے کام بتائے، پھر فرمایا: میں تجھے وہ چیز نہ تباؤں جس پر ان سب کا مدار ہے؟ میں نے کہا: کیوں نہیں! تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان پکڑ کر فرمایا: اسے روک رکھنا۔میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم جو باتیں کرتے ہیں کیا ان پر بھی ہمارا مؤاخذہ ہوگا؟ آپ نے فرمایا: معاذ! تیری ماں تجھے روئے۔لوگوں کو (جہنم کی ) آگ میں چہروں کے بل گھسیٹنے والی چیز ان کی زبانوں کی کاٹی ہوئی فصلوں کے سوا اور کیا ہے؟"۔ اسے ترمذی نے روایت کیا ہے اور البانی نے صحیح قرار دیا ہے۔
آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا: "جس نے مجھے اپنے دونوں پاؤں کے درمیان (شرمگاہ) اور اپنے دونوں جبڑوں کے درمیان (زبان) کی ضمانت دی تو میں اسے جنت کی ضمانت دیتا ہوں"۔اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔
اللہ کے بندے! کیا آپ نے کبھی سمندر کا سفر کیا ہے؟ کیا آپ نے کبھی اس کے اوپر پرواز کیا ہے اور اس کے طول وعرض سے مبہوت ہوئے ہیں؟! یہ سمندر جس کے اندر ہمارے زمانے میں مستعمل پانی بہائے جاتے ہیں اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں آتی، اگر فرض کریں کہ غیبت کی بات کا کوئی رنگ ہو تو اس رنگ سے سمندر بھی رنگین ہوجائے گا! عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہہ دیا: آپ کو صفیہ میں یہی کافی ہے کہ وہ ایسے ایسے ہے۔ بعض راویوں نے کہا: اس سے ان کی مراد صفیہ کا پستہ قد ہونا تھا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے ایک ایسا کلمہ کہا ہے کہ اگر اسے سمندر میں ملا دیا جائے تو وہ کڑوا ہوجائے"۔اسے ابو داود نے روایت کیا ہے اور البانی نے صحیح کہا ہے۔ ممکن ہے کہ اس طرح کا کلمہ سننے والے کے اندر نفرت اور بگاڑ پیدا کردے۔
اللہ کے بندو! غیبت عذاب قبر کا ایک سبب ہے، سنن ابوداود کی حدیث میں آیا ہے: "جب مجھے معراج کرائی گئی تو میرا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا جن کے ناخن تانبے کے تھے جو اپنے چہروں اور سینوں کو چھیل رہے تھے۔ میں نے پوچھا: اے جبرئیل! یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے کہا: یہ وہ ہیں جو دوسرے لوگوں کا گوشت کھاتے اور ان کی عزتوں سے کھیلتے ہیں"۔اسے البانی نے صحیح قرار دیا ہے۔
اللہ کے بندو! ہمارے اوپر واجب ہے کہ ہم غیبت سے بچیں، آپس میں ایک دوسرے کو نصیحت کریں اور منکر پر ٹوکیں، حدیث میں آیا ہے: "جو شخص اپنے بھائی کی عزت (اس کی غیر موجودگی ) میں بچائے اللہ تعالی قیامت کے دن اس کے چہرے کو جہنم سے بچائے گا"۔ اسے ترمذی نے روایت کیا ہے اور البانی نے صحیح کہا ہے۔
منکر کی نکیر کرنے والا غیبت کرنے والے کے لئے زیادہ خیر خواہ اور اس کے تئیں زیادہ فکر مند ہوتا ہے، بنسبت اس شخص کے جو اس کے ساتھ چاپلوسی سے کام لیتا اور اس کی ہاں میں ہاں ملاتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ نکیر کرنے والا غیبت کرنے والے کو گناہ اور عذاب کے سبب سے روکتا ہے۔
اے اللہ! ہم نے اپنے اوپر ظلم کیا...اے اللہ! ہم تجھ سے دل ، زبان، کان اور آنکھ کی عفت وپاکیزگی طلب کرتے ہیں، آپ سب اللہ سے مغفرت طلب کریں، یقینا وہ خوب معاف کرنے والا ہے۔
دوسرا خطبہ:
الحمد لله...
حمد وصلاۃ کے بعد:
زبان ایک نعمت ہے ، لیکن کبھی یہ زحمت اور عذاب بن جاتی ہے، وہ بڑی بڑی نیکیوں کا دروازہ ہے، اسی طرح وہ بڑی بڑی برائیوں کا بھی دروازہ ہے، ان تمام برائیوں میں سب سے زیادہ منتشر اور سنگین برائی غیبت ہے، اللہ تعالی اس سے بچنے اور توبہ کرنے میں ہماری مدد فرمائے۔وہ ایسا عمل ہے جس سے غیبت کرنے والے کے دل میں ایمان کی کمزوری کا پتہ چلتا ہے، جیسا کہ حدیث میں آیا ہے: "اے وہ لوگو! جو اپنی زبانوں سے ایمان لائے ہو مگر ایمان ان کے دلوں میں نہیں اترا ہے ، مسلمانوں کی بدگوئی نہ کیا کرو اور نہ ان کے عیبوں کے درپے ہوا کرو"۔ اسے ابوداود نے روایت کیا ہے اور البانی نے صحیح کہا ہے۔
اللہ کے بندے! شیطان نے ہمیں کتنا فریب میں رکھا بایں طور کہ نہایت بے تکی وجوہات کی بنا پر ہمارے لئے غیبت کو خوشنما بنا دیا، ہاں اہل علم نے یہ ذکر کیا ہے کہ ایسے درست اور شرعی مقصد کی بنا پر غیبت جائز ہے جسے بغیر غیبت کے حاصل نہیں کیا جا سکتا، جیسا کہ بہت سی دلیلوں سے اس کا پتہ چلتا ہے، ان اسباب کو دو اشعار میں جمع کردیا گیا ہے:
الذم ليس بغيبةٍ في ستة متظلم ومعرِّف ومحذِّر
ولمظهر فسقا ومستفت ومن طلب الإعانة في إزالة منكر
ترجمہ:چھ حالتوں میں غیبت کرنا مذموم نہیں ہے، مظلوم کے لئے، کسی کا تعارف پیش کرنے والے یا کسی سے متنبہ کرنے والے کے لئے، اس شخص کی غیبت بھی جائز ہے جو سر عام فسق وفجور کاارتکاب کرے، اور اس شخص کے لئے بھی یہ جائز ہے جو فتوی طلب کرے اور جو کسی برائی کو دور کرنے کے لئے مدد کی درخواست کرے۔
اہل علم فرماتے ہیں کہ: مثال کے طور پر اس شخص کے لئے غیبت جائز ہے جس کا قرض ادا کرنے میں قرض لینے والا ٹال مٹول کرے ، اس کے لئے اپنی مظلومیت بیان کرتے ہوئے یہ کہنا جائز ہے کہ فلاں شخص نے میرے ساتھ ٹال مٹول کیا!
البتہ دوسرے معاملات میں اس کی غیبت کرنا اور اس کی برائیاں شمار کراکر دل کا بھڑاس نکالنا جائز نہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلمان بسا اوقات بولنے میں تردد کا شکار ہو جاتا ہے، چنانچہ اسے اندازہ نہیں ہوتا کہ وہ جو بولنا چاہتا ہے اسے غائب انسان ناپسند کرے گا جس سے یہ بات غیبت ہوجائے گی یا وہ اسے نا پسند نہیں کرے گا جس کی وجہ سے یہ بات کہنا جائز ہے، ایسے حال میں ہمیں خوف وورع اختیار کرنے کی ضرورت ہے، فضیل بن عیاض فرماتے ہیں: "سب سے زیادہ خوف وورع زبان (چلانے میں) اختیار کرنا چاہئے"۔
اے ایمانی بھائیو! میں یہاں کچھ ایسے اسباب ذکر کرنے جا رہا ہوں جن سے ہمیں غیبت سے باز آنے میں تعاون ملے گا ان شاء اللہ:
ایک سبب یہ ہے کہ اللہ سے مدد طلب کریں۔ غیبت سے بچنے میں اس بات سے بھی مدد ملتی ہے کہ ہم غیبت کی شناعت کو یاد رکھیں، اور یہ ذہن میں رکھیں کہ غیبت کرنا ایسا ہی ہے جیسے مردار کا گوشت کھانا، اس سے باز رہنے میں نصح وخیر خواہی اور برائی کی نکیر بھی معاون ثابت ہوتی ہے، نیز مجلس میں اللہ کو یاد کرنا بھی اس باب میں معاون عمل ہے کیوں کہ ذکر سے شیطان بھاگ جاتا ہے۔ ایسے لوگوں کی صحبت میں رہنا جو زبان کے پاک ہوتے ہیں، اور جسمانی میل جول اور ٹیکنیکل ملاقات سے حتى الامکان بچنا بھی غیبت سے بچنے کے اسباب میں سے ہیں، اس سے محفوظ رہنے میں جو امور معاون ہوتے ہیں ان میں یہ بھی ہے کہ مجلس کا دورانیہ مختصر سے مختصر ہو، زہری سے یہ اثر منقول ہے کہ: "اگر مجلس لمبی ہوتی ہے تو شیطان کی دخل اندازی اس میں شامل ہوجاتی ہے"۔غیبت سے بچنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ : یہ یاد رکھا جائے کہ غیبت کی وجہ سے گناہ لکھے جاتے ہیں اور نیکیاں مٹائی جاتی ہیں، ابن المبارک رحمہ اللہ کا قول ہے: "اگر میں کسی کی غیبت کرتا تو اپنے والدین کی کرتا کیوں کہ وہ میری نیکیوں کے سب سے زیادہ مستحق ہیں"۔
میں اپنی بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث سے ختم کرنے جا رہا ہوں: "اللہ تعالی ایسے بندے پر رحم کرے جس کے پاس عزت یا مال میں اس کے بھائی کا کوئی بدلہ ہو، پھر وہ مرنے سے پہلے ہی اس کے پاس آکے دنیا ہی میں اس سے معاف کرالے کیوں کہ قیامت کے روز نہ تو اس کے پاس دینار ہوگا اور نہ ہی درہم، پھر اگر ظالم کے پاس کچھ نیکیاں ہوں گی تو اس کی نیکیوں سے بدلہ لیا جائے گا اور اگر اس کے پاس نیکیاں بھی نہیں ہوں گی تو مظلوموں کے گناہ ظالم کے سر پر ڈال دیئے جائیں گے"۔ اسے ترمذی نے روایت کیا ہے اور بخاری کے اندر بھی اس طرح کی روایت آئی ہے۔
﴿ أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ مَا يَكُونُ مِنْ نَجْوَى ثَلَاثَةٍ إِلَّا هُوَ رَابِعُهُمْ وَلَا خَمْسَةٍ إِلَّا هُوَ سَادِسُهُمْ وَلَا أَدْنَى مِنْ ذَلِكَ وَلَا أَكْثَرَ إِلَّا هُوَ مَعَهُمْ أَيْنَ مَا كَانُوا ثُمَّ يُنَبِّئُهُمْ بِمَا عَمِلُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ ﴾ [المجادلة: 7].
ترجمہ: کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ آسمانوں کی اور زمین کی ہر چیز سے واقف ہے۔ تین آدمیوں کی سرگوشی نہیں ہوتی مگراللہ ان کا چوتھا ہوتا ہے اور نہ پانچ مگر ان کا چھٹا وہ ہوتا ہے اور نہ اس سے کم کی اور نہ زیادہ کی مگر وہ ساتھ ہی ہوتا ہے جہاں بھی وہ ہوں، پھر قیامت کے دن انہیں ان کے اعمال سے آگاہ کرے گا۔ بے شک اللہ تعالی ہر چیز سے واقف ہے۔
مترجم: سیف الرحمن تیمی ([email protected])
المرفقات
1641572522_مسلمانوں کی غیبت نہ کرو!.pdf