مخلوق پر ظلم کرنے سے بچیں!
سيف الرحمن التيمي
موضوع الخطبة : "احذر مظالم الخلق"
الخطيب : حسام بن عبد العزيز/ حفظه الله
لغة الترجمة : الأردو
المترجم :سيف الرحمن التيمي((@Ghiras_4T
موضوع:
مخلوق پر ظلم کرنے سے بچیں!
پہلا خطبہ:
احذر مظالم الخلق
الحمد لله العليمِ الخبير، السميعِ البصير، الديانِ القدير، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له لا يُظْلَمُ العبادُ عنده مقدار قطمير، وأشهد أن محمدًا عبده ورسوله صاحب الحوض والشفاعة، أرسله الله بالبشارة والنذارة.
كتبَ الإلهُ على المآذنِ ذِكْرهُ
فأثار حُبًّا في القلوبِ عظيمَا
أمرَ الإلهُ المؤمنينَ بقولهِ
صلُّوا عليه وسلِّموا تسليمَا
ترجمہ: اللہ نے مناروں (مقامِ اذان) پر آپ کا ذکر واجب کردیا ، جس سے دلوں میں بڑی محبت پیدا ہوئی، اللہ نے مومنوں کو حکم دیا کہ :آپ پر درود وسلام بھیجتے رہا کریں!
اے اللہ! درود وسلام اور برکت نازل فرما محمد، آپ کے اہل وعیال اور آپ کے تمام صحابہ کرام پر۔
حمد وثنا کے بعد!
میں آپ کو اوراپنے آپ کو اللہ کا تقوی اختیار کرنے کی وصیت کرتا ہوں: ﴿ يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمْ إِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَيْءٌ عَظِيمٌ ﴾ [الحج: 1]
ترجمہ: لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو! بلاشبہ قیامت کا زلزلہ بہت ہی بڑی چیز ہے۔
اے میرے عزیزو! ایک شخص ایک بیماری کے بارے میں گفتگو کر رہا تھا جو اسے –کچھ سالوں قبل-شئر مارکیٹنگ کے بحران کے زمانے میں لاحق ہوئی تھی، وہ اس بات پر اللہ کی حمد وثنا بیان کررہا تھا کہ کہ اس نے اس بیماری کے ذریعہ مال کی مصیبت سے پھیر کر اسے اپنی اذت میں مشغول کردیا، کیوں کہ اس نے اپنے دوست کو شئر مارکیٹ میں اتنا خسارہ اٹھاتے ہوئے دیکھا کہ اس کی عقل جاتی رہی، یہاں تک کہ اسے نفسیاتی شفا خانے میں لے جایا گیا جو طائف شہر میں شہار ہاسپیٹل کے نام سے مشہور ہے، یہ دنیوی افلاس اور دیوالیہ پن کی حالت ہے، تو بھلا اخروی افلاس کی کیا حالت ہوگی، ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا: "کیا تم جانتے ہوکہ مفلس کون ہے؟ صحابہ نے کہا: ہمارے نزدیک مفلس وہ شخص ہے جس کے پاس نہ درہم ہو نہ کوئی سازوسامان۔آپ نے فرمایا: میری امت کا مفلس وہ شخص ہے جو قیامت کے دن نماز، روزہ اور زکاۃ لے کر آئے گا اور اس طرح آئے گا کہ (دنیا میں) اس کو گالی دی ہوگی ، اس پر بہتا ن لگایا ہوگا ، اس کا خون بہایا ہوگا اور اس کو مارا ہوگا، تو اس کی نیکیوں میں سے اس کو بھی دیا جائے گا، اور اس کو بھی دیا جائے گا، اور اگر اس پر جو ذمہ ہے اس کی ادائیگی سے پہلے اس کی ساری نیکیاں ختم ہوجائیں گی تو ان کے گناہوں کو لے کر اس پر ڈالا جائے گا، پھر اس کو جہنم میں پھینک دیا جائے گا"۔(مسلم)
اس حدیث میں مفلس کا حقیقی معنی بیان کیا گیا ہے، جوکہ یہ ہے: وہ شخص جس کے قرض خواہ (مظلوم) اس کے نیک اعمال اس سے لے لیں گے۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ: قصاص کے طور پر تمام نیکیاں بھی لی جا سکتی ہیں، یہاں تک کہ کوئی بھی نیکی نہیں بچے گی ، اللہ کی پناہ۔
اللہ کے بندو! حقوق العباد کا معاملہ بڑا سنگین ہے، ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا: " جس كسی نے دوسرے کی عزت یا کسی اور چیز پر ظلم کیا ہو وہ اس سے آج ہی معاف کرالے پہلے اس سے کہ وہ دن آئے جس میں درہم ودینار نہیں ہوں گے، پھر اگر ظالم کا کوئی نیک عمل ہوگا تو اس کے ظلم کی مقدار اس سے لے لیا جائے گا۔اگر اس کی نیکیاں نہ ہوئیں تو مظلوم کے گناہ ظالم کے کھاتے میں ڈال دیے جائی گے"۔(بخاری)
اسلامی بھائیو! ظلم وستم کی مختلف قسمیں ہیں، ابن رجب فرماتے ہیں :"وہ ظلم جو حرام ہے، کبھی نفوس (جانوں) پر ہوتا ہے، اور ا س کی سب سے سنگین اور سخت ترین قسم و ہ ہے جو خون سے تعلق رکھتا ہے، کبھی ظلم مال پر ہوتا ہے اور کبھی عزت وناموس پر"۔انتہی
اللہ کے بندو! مظلوم کا حق صرف ظالم کے توبہ کرنے سے ساقط نہیں ہوتا، بلکہ مظلوم سے معافی تلافی کرنا بھی ضروری ہے، بندہ مسلم کو کافر یا جانور پر ظلم کرنے کی وجہ سے بھی سزا مل سکتی ہے، صحیح مسلم میں آیا ہے: "میرے سامنے جہنم پیش کی گئی تو میں نے اس میں بنی اسرائیل کی ایک عورت دیکھی جسے اپنی بلی (کے معاملے ) میں عذاب دیا جا رہا تھا، اس نے اسے باندھ دیا ، نہ اسے کچھ کھلایا (پلایا) ، نہ اسے چھوڑا ہی کہ وہ زمین کے چھوٹے موٹے جاندار پرندے وغیرہ کھا لیتی"۔
صحیح بخاری کی مرفوع روایت میں آیا ہے کہ: "جو شخص کسی عہد والے کو قتل کرے گا وہ جنت کی خوشبو تک نہیں پائے گا، حالانکہ جنت کی خوشبو چالیس برس کی مسافت تک پہنچتی ہوگی"۔
حدیث ِ قصاص جسے سننے کے لئے جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے ایک ماہ کی مسافت طے کرکے عبد اللہ بن انیس رضی اللہ عنہ سے ملاقات کی، اس میں آیا ہے کہ: "اللہ تعالی بندوں کو میدانِ محشر میں جمع کرے گا، آپ نے اپنے ہاتھ سے ملک شام کی طرف اشارہ کیا، ننگا بدن، ننگا پاؤں اور بے ختنہ اور بے سروسامانی کے عالم میں۔راوی کہتے ہیں : میں نے عرض کیا: (بُهْمًا ) کا کیا مطلب ہے؟ آپ نے فرمایا: بے سروسامانی کے عالم میں۔ایک ندا لگانے والا اتنی بلند آواز میں ندا لگائے گا کہ دور کے لوگ بھی اسی طرح سنیں گے جس طرح قریب کے لوگ، وہ کہے گا: میں الْمَلِكُ الدَّيَّانُ ( بدلہ دینے والا بادشاہ) ہوں۔ کسی بھی ایسے جنتی کو جنت میں جانے کی اجازت نہ ہوگی جس سے کوئی جہنمی کسی ظلم (کے بدلہ ) کا مطالبہ کرر ہاہوگا اور کسی بھی ایسے جہنمی کو جہنم میں داخل نہیں کیا جائے گا جس سے کوئی جنتی کسی ظلم (کے بدلہ ) کا مطالبہ کر رہا ہوگا، یہا ں تک کہ تھپڑ ہی کیوں نہ ہو، راوی کہتے ہیں : میں نے عرض کیا: (کوئی اپنے ظلم کا بدلہ کیسے چکائے گا) جبکہ ہم ننگے بدن ، بے ختنہ اور بے سروسامانی کے عالم میں ہوں گے؟ آپ نے فرمایا: نیکیوں اور برائیوں سے (بدلہ چکایا جائے گا)"۔ اسے احمد نے روایت کیا ہے اور البانی نے صحیح کہا ہے۔
اس لئے مسلمان پر واجب ہے کہ وہ ظلم وستم سے دامن کو پاک وصاف کرلے ، یا تو بلا واسطہ طور پر ، یا کسی حکیم ودانا شخص کی مدد سے جو اس کے ظلم (کا بدلہ) مظلوم تک پہنچا سکے اور اس سے معافی مانگے، اگر توبہ کرنے والا شخص مظلوم سے معافی تلافی نہ کراسکے –جیسے حقدار کے بارے میں یا اس کی موت کے بارے میں اسے صحیح علم نہ ہوپائے –تو اس کے لئے ضروری ہے کہ مظلوم کے حق میں کچھ نیکیاں کرلے ، جیسے اس کے لئے دعا کرے، یا اس کے لئے مغفرت طلب کرے اور اس کی جانب سے صدقہ کرے۔
جس نے کسی مسلمان مرد یا عورت پر دنیا میں تہمت لگائی، اور اس پر حد (اسلامی سزا) نافذ نہ ہوئی، تو آخرت میں اس کی سزا مل کر رہے گی، عکرمہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ایک شخص نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کے لئے کھانا بنایا، دریں اثنا کہ لونڈی ان کے سامنے کام کر رہی تھی، وہ شخص یہ کہہ کر اس سے مخاطب ہوا: اے زنا کار عورت۔اس پر ابن عباس نے کہا: بس کرو، (اس تہمت کی) سزا اگر تجھے دنیا میں نہیں ملی تو آخرت میں مل کر رہے گی۔ اسے البانی نے صحیح کہا ہے۔
جمہور اہل علم کے نزدیک فضیلت والے اعمال جیسے نماز، روزے او ر حج وغیرہ سے صرف صغیرہ گناہ اور اللہ کے حقوق ہی معاف ہوتے ہیں، لیکن وہ گناہ جن کا تعلق حقوق العباد سے ہے، وہ بغیر توبہ کے معاف نہیں ہوتے اور توبہ کے شروط میں یہ شامل ہے کہ: ظلم کا بدلہ مظلوم تک پہنچایا جائے۔
اللہ تعالی مجھے اور آپ کو قرآن وسنت کی برکت سے بہرہ ور فرمائے، ان میں جو آیت اور حکمت کی بات آئی ہے، اس سے ہمیں فائدہ پہنچائے، آپ اللہ سے مغفرت طلب کریں، یقینا وہ خوب معاف کرنے والا ہے۔
دوسرا خطبہ:
الحمد لله وحده والصلاة والسلام على نبيه وعبده وعلى آله وصحبه.
حمد وصلاۃ کے بعد:
حقوق العباد کی بڑی اہمیت ہے اور ان کا معاملہ بڑا سنگین ہے، حدیث میں ہے: "شہید کے تمام گناہ معاف کردئے جاتے ہیں سوائے قرض کے" (مسلم)، آپ تصور کریں کہ شہادت سے شراب نوشی اور زناکاری وغیرہ معاف ہوجاتی ہیں لیکن لوگوں کے حقوق معاف نہیں ہوتے۔
صحيحین میں ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے،انہوں نے بیان کیا کہ جب خیبر فتح ہوا تو مال غنیمت میں سونا اور چاندی نہیں ملا تھا بلکہ گائے ، اونٹ ، سامان اور باغات ملے تھے پھر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وادی القریٰ کی طرف لوٹے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک مدعم نامی غلام تھا جو بنی ضباب کے ایک صحابی نے آپ کو ہدیہ میں دیا تھا۔ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کجاوہ اتار رہا تھا کہ کسی نامعلوم سمت سے ایک تیر آ کر ان کو لگا۔ لوگوں نے کہا مبارک ہو: شہادت! لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہرگز نہیں ، اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے جو چادر اس نے خیبر میں تقسیم سے پہلے مال غنیمت میں سے چرائی تھی وہ اس پر آگ کا شعلہ بن کر بھڑک رہی ہے۔ یہ سن کر ایک دوسرے صحابی ایک یا دو تسمے لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یہ میں نے اٹھا لیے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ بھی جہنم کا تسمہ بنتا"۔
اللہ کے بندو! مخلوق پر ظلم وستم کرنا نہایت سنگین عمل ہے، امام طبری اللہ تعالی کے فرمان: ﴿يَوْمَ يَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ أَخِيهِ * وَأُمِّهِ وَأَبِيهِ * وَصَاحِبَتِهِ وَبَنِيهِ ﴾ [عبس: 34 - 36]کی تفسیر میں لکھتے ہیں: "انسان اپنے ان تمام رشتہ داروں سے بھاگے گا اس ڈر سے کہ کہیں وہ ان مظالم اور حقوق کا مطالبہ نہ کریں جو اس کے اور ان رشتہ داروں کے درمیان تھے"۔
بلکہ آپ غور کریں کہ نبی نے اللہ تعالی کے انصافِ کامل کی خبر کن الفاظ میں دی ہے،حدیث میں آیا ہے: "قیامت کے دن تم سب حقداروں کے حقوق ان کو ادا کروگے ، حتی کہ اس بکری کا بدلہ بھی جس کے سینگ توڑ دیے گئے ہوں گے، سینگوں والی بکری سے پورا پورا لیا جائے گا"۔
جب پایوں کے درمیان (عد ل وانصاف) کا یہ عالم ہوگا تو مکَّلف انسانوں کا کیا ہوگا! دوسری حدیث میں آیا ہے: "اللہ تعالیٰ اپنی مخلوقات یعنی جن و انس اور چوپایوں اور تمام مخلوقات کو جمع کرے گا، ان کے مابین اللہ کے فیصلہ کی انتہا یہ ہوگی کہ اس بکری کا بدلہ بھی جس کے سینگ توڑ دیے گئے ہوں گے، سینگوں والی بکری سے پورا پورا لیا جائے گا ۔ پھر اللہ تعالیٰ (حیوانات کو) فرمائے گا کہ مٹی ہو جاؤ۔ اس وقت کافر کہے گا: ”ہائے کاش! میں (بھی) مٹی ہو جاتا “۔(السلسلة الصحيحة للألباني).
آپ پر درود وسلام بھیجتے رہیں۔
صلى اللہ علیہ وسلم
از قلم:
فضیلۃ الشیخ حسام بن عبد العزیز الجبرین
مترجم:
سیف الرحمن تیمی
المرفقات
1633756315_مخلوق پر ظلم کرنے سے بچیں!.pdf