🌟متى الراحة؟🌟 (أردو🇵🇰)

تركي بن عبدالله الميمان
1446/03/09 - 2024/09/12 05:27AM

پہلا خطبہ:

            بیشک سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، ہم اس کی تعریف کرتے ہیں اور اس سے مدد مانگتے ہیں، اور اس سے بخشش مانگتے ہیں اور اس کی طرف توبہ کرتے ہیں۔جس کو اللہ ہدایت دے، تو کوئی اسے گمراہ کرنے والا نہیں، اور جسے وہ گمراہ کرے، تو کوئی اسے ہدایت دینے والا نہیں۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔

            حمد وثناء کے بعد: اللہ سے ڈرو جیسے کہ ڈرنے کا حق ہے، اور اسلام کو مضبوطی سے تھامے رکھو، ﴿وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَى﴾اور زاد راہ حاصل کرو ، بہترین زاد راہ تقویٰ ہے۔البقرۃ: 197

            اے اللہ کے بندو: یہ انسانیت کی مطلوب ہے، اور تمام اقوام اس کے طلب پر متفق ہیں: یہ سکون ہے!( مداواۃ النفوس، ابن حزم 14 ) انسان سکون اور امان کا مزہ نہیں پا سکتا، جب تک کہ وہ رحمان کی طرف واپس نہ آئے؛ کیونکہ وہی اس کی ضرورت کو جانتا ہے، اور وہی اس کے سکون کا علم رکھتا ہے! اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿أَلا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الخَبِيرُ﴾ کیا وہ نہیں جانتا جس نے پیدا کیا، اور وہ باریک بین اور خبردار ہے۔الملک: 14

            اور جو ایمان لایا اور نیک عمل کیا: اس کی طرف سکون کے قافلے ہر جگہ سے آتے ہیں! اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً﴾ جو نیک عمل کرے، خواہ مرد ہو یا عورت، اور وہ مؤمن ہو، تو ہم اسے پاکیزہ زندگی عطا کریں گے۔ النحل : 97۔  

            ابن کثیر رحمہ اللہ نے کہا: پاکیزہ زندگی ہر قسم کے سکون کو شامل کرتی ہے۔تفسیر ابن کثیر:4/519

            اور جس پر عبادت کا دروازہ کھل گیا: وہ اس میں (لذت اور سکون) پائے گا ،جو کھیل، تماشہ اور خواہشات میں کئی گنا زیادہ ہے!( مدارج السالکین، ابن القیم :3/352)  اور سکون کا کوئی ذریعہ نماز جیسا نہیں ہے؛( زاد المعاد، ابن القیم :4/305)  نبی ﷺ نے فرمایا: يَا بِلَالُ، أَقِمِ الصَّلَاةَ؛ أَرِحْنَا بِهَا ۔ اے بلال، نماز قائم کرو، ہمیں اس سے سکون دو۔ ابوداود: 4985۔ امام البانی رحمہ اللہ نے صحیح الجامع میں اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔ 7892

            بعض عبادت گزاروں سے کہا گیا: (تم کب تک اپنی جان کو مشقت میں ڈالے رکھو گے؟!)، انہوں نے کہا: (میں اس کی راحت چاہتا ہوں!)۔الفوائد، ابن القیم : 43  (یعنی عبادت کرنے سے میری جان کو راحت ملتی ہے۔ )

            اور جو واجبات چھوڑ کر اور حرام کاموں میں پڑ کر جلدی سکون حاصل کرنا چاہے، وہ راستے سے بھٹک گیا، اور جلدی بدبختی اور تنگی کو اختیار کیا، اور اس نے سستی اور عارضی راحت کو دائمی اور کامل راحت پر ترجیح دی! اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿إنَّمَا التَّوْبَةُ عَلَى اللهِ لِلَّذِينَ يَعْمَلُونَ السُّوءَ بِجَهَالَةٍ﴾ توبہ تو اللہ کے ذمہ صرف انہی لوگوں کے لیے ہے جو نادانی سے برے کام کرتے ہیں۔ النساء : 17

            شیخ الاسلام  رحمہ اللہ نے کہا: (انہیں نادان کہا گیا؛ کیونکہ انہوں نے تھوڑی راحت کو زیادہ سکون پر ترجیح دی، اور اس سے انہیں صرف مشقت اور غم ہی حاصل ہوتا ہے؛ اور اگرچہ اس سے انہیں تھوڑی سی  خوشی ملتی ہے: لیکن جو نقصانات اس کے بعد آئیں گے، اور جو خوشیاں چھوٹ جائیں گی؛ وہ اس سے کئی گنا زیادہ ہیں!)۔ مجموع الفتاوی: 7/22 - 32/229،230  اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيْشَةً ضَنْكًا﴾ اور جو میرے ذکر سے منہ موڑے گا، اس کی زندگی تنگ ہو جائے گی۔ طہ: 124

            اور سکون کے اسباب میں سے ایک رضی رہنا اور قناعت اختیار کرنا ہے؛ جو شخص اللہ کی تقسیم اور فیصلے پر راضی ہو، اور اس کے عطا کردہ پر قناعت کرے: وہ دنیا کے فالتو اور اس کی لذتوں سے جو لوگ فکر مند ہوتے ہیں، ان سب سے بے نیاز ہو کر سکون پائے گا! روضۃ العقلاء، ابن حبان: 62

            ابن حبان  رحمہ اللہ نے کہا: (اللہ کی قضا پر راضی رہنے اور اس کی تقسیم پر بھروسہ کرنے سے زیادہ بدن کے لیے کوئی سکون آور چیز نہیں ہے؛ قناعت میں سکون ہے، عقلمند کے لیے ضروری ہے کہ وہ کبھی قناعت کو ترک نہ کرے)۔گزشہ حوالہ

            اور جس نے اپنے دل کو کینے اور حسد سے پاک کر لیا؛ اس نے اپنے نفس کے لیے جلدی سکون حاصل کر لیا، اور اپنے مفادات کے لیے فارغ ہو گیا۔مداواۃ النفوس، ابن حزم : 20،31

            جب میں نے معاف کیا اور کسی سے کینہ نہ رکھا                 

                                                                                    میں نے دشمنی کے فکر سے اپنی جان کو راحت دی!

            اور جو کاہلی کی عادت ڈالے، اور سکون کی طرف مائل ہو: اس نے سکون کو کھو دیا! کہا گیاہے : (اگر تم تھکاوٹ نہیں چاہتے: تو محنت کرو؛ تاکہ تم نہ تھکو!( الذریعۃ الی مکارم الشریعۃ، الاصفہانی: 269)  اور جس سے محنت نہ ہو، اسے سکون نہیں ملتا)۔اعلام الموقعین، ابن القیم : 2/86۔

            دنیا میں سرداری اور آخرت میں خوشی تک: محنت کے پل سے ہی پہنچا جا سکتا ہے۔  تحفۃ المودود، ابن القیم : 241

            بعض سلف رحمھم اللہ نے کہا: (علم سکون کے ساتھ حاصل نہیں کیا جا سکتا)۔صحیح مسلم : 612

            اور جتنے زیادہ نفوس شرف کے حامل ہوتے ہیں، اور ہمتیں بلند ہوتی ہیں: اتنی ہی زیادہ بدن کی محنت ہوتی ہے، اور اس کا حصہ سکون سے کم ہوتا ہے!

                        اور جب جانیں عظیم ہوتی ہیں
                                                                                                تو ان کی خواہشوں میں جسم تھک جاتے ہیں

            میں یہ بات کہتا ہوں، اور اللہ سے اپنے اور آپ کے لیے ہر گناہ کی مغفرت مانگتا ہوں؛ تو اس سے بخشش مانگو، بیشک وہ بخشنے والا مہربان ہے۔

            دوسرا خطبہ:

            اس کی تعریف ہے اس کے احسان پر، اور اس کی توفیق اور احسان پر شکر ہے، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، اور محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں۔

            اے اللہ کے بندو: مؤمن کی روح موت کے لمحےسے سکون کا سانس لیتی ہے؛( صید الخاطر، ابن الجوزی: 50)  کیونکہ وہ دنیا کی قید اور اس کی بدبختی سے نجات پا کر آخرت کی وسعت اور اس کے فضائل میں داخل ہوتی ہے!(تفسیر ابن کثیر: 1/222-3/257)  اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿فَأَمَّا إِنْ كانَ مِنَ المُقَرَّبِينَ، فَرَوْحٌ وَرَيْحانٌ وَجَنَّةُ نَعِيمٍ﴾ تو اگر وہ مقربین میں سے ہے، تو اس کے لیے راحت اور خوشبو اور نعمت والی جنت ہے۔الواقعہ: 88،89

             ابن کثیر رحمہ اللہ نے کہا: (جو مقرب ہو کر فوت ہو، اسے رحمت، سکون اور آرام نصیب ہوگا!) ( تفسیر ابن کثیر: 8/35) نبی ﷺ نے فرمایا: العَبْدُ المُؤْمِنُ: يَسْتَرِيحُ مِنْ نَصَبِ الدُّنْيَا وأَذَاهَا إلى رَحْمَةِ اللهِ (مؤمن بندہ دنیا کی تھکاوٹ اور اذیت سے نجات پا کر اللہ کی رحمت میں سکون پاتا ہے)۔بخاری: 6512، مسلم : 950۔

            دنیا میں مکمل سکون نہیں ہے؛ کیونکہ دنیا کو مشقت پر بنایا گیا ہے،( مفتاح دار السعادۃ، ابن القیم : 1/275) اور اس میں تھکاوٹ انسانیت میں مشترک ہے! اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿لَقَدْ خَلَقْنَا الإِنْسَانَ في كَبَدٍ﴾بیشک ہم نے انسان کو مشقت میں پیدا کیا۔البلد: 4

            اور وہ بد نصیب اور محروم ہے: جو دنیا کی مشقت برداشت کرتا ہے؛ تاکہ آخرت کی مشقت میں داخل ہو جائے! اوروہ  خوش نصیب ہے: جو اپنے رب کی طرف محنت کرتا ہے؛ تاکہ وہ بڑے سکون میں داخل ہو جائے! ابن القیم رح نے کہا: (اور رب الارباب کے قرب میں راحت اور خوشی؛ یہ ایسا تصور ہے جو کسی انسان کے دل میں نہیں آیا ہوگا!)۔احکام اہل الذمۃ: 1/240

            اور اللہ کی حکمت نے یہ طے کیا ہے: کہ سکون اور اجر کی مٹھاس، مشقت اور صبر کی کڑواہٹ کے بعد ہی ملتی ہے! نبی ﷺ نے فرمایا: حُفَّتِ الجَنَّةُ بِالمَكَارِهِ، وحُفَّتِ النَّارُ بالشَّهَوَات(جنت کو مشکلات سے ڈھانپا گیا ہے، اور دوزخ کو خواہشات سے ڈھانپا گیا ہے)۔صحیح مسلم ، مفتاح دار السعادۃ: 2/16

            محنت کو کھجور مت سمجھو جسے تم کھا لو گے
                                                                        محنت کو حاصل کرنے کے لیے تمہیں صبر کے کڑوے ذائقے کو چکھنا ہوگا

            اور خالص سکون: آخرت کے گھر میں ہی ملتا ہے! ایک شخص امام احمدرح  کے پاس آیا؛ اور کہا: (اے ابو عبداللہ، میں خراسان سے آپ کے پاس آیا ہوں، آپ سے ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں)، انہوں نے کہا: (پوچھو)، اس نے کہا: (بندہ سکون کا ذائقہ کب محسوس کرے گا؟)، انہوں نے کہا: (جب وہ جنت میں اپنا پہلا قدم رکھے گا!)۔ طبقات الحنابلۃ، ابو یعلی : 1/293

            اور جنت کے باسی: انہوں نے سکون کو مکمل طور پر جمع کر لیا ہے؛ کیونکہ انہوں نے دنیا میں اللہ کی اطاعت میں تھوڑی سی  محنت کی؛ اور آخرت میں دائمی سکون حاصل کیا! ( تفسیر ابن کثیر: 6/489) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿وَقَالُوا الحَمْدُ لِلهِ الَّذِي أَذْهَبَ عَنَّا الحَزَنَ إِنَّ رَبَّنَا لَغَفُورٌ شَكُورٌ الَّذِي أَحَلَّنَا دَارَ المُقَامَةِ مِنْ فَضْلِهِ لَا يَمَسُّنَا فِيهَا نَصَبٌ وَلَا يَمَسُّنَا فِيهَا لُغُوبٌ﴾اور وہ کہیں گے کہ اللہ کا شکر ہے جس نے ہم سے غم کو دور کیا، بیشک ہمارا رب بخشنے والا قدر کرنے والا ہے  جس نے ہمیں اپنے فضل سے دائمی قیام گاہ میں ٹھہرایا،  جہاں ہمیں نہ کوئی رنج پہنچتا ہے اور نہ کوئی تکلیف۔فاطر: 34،35

            حضرت سعدی رحمہ اللہ نے کہا: (یعنی وہاں نہ بدن کی تھکاوٹ ہوگی اور نہ دل کی، اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں دائمی سکون کے اسباب فراہم کرے گا، جو انہیں اس حالت میں رکھے گا، اور اس کی دلیل یہ ہے کہ وہ سوئیں گے نہیں؛ کیونکہ نیند کا فائدہ یہ ہے کہ تھکاوٹ ختم ہو جاتی ہے، اور جنت کے باسی اور رہائشی اس کے برخلاف ہیں، اللہ ہمیں اپنے فضل و کرم سے ان میں سے بنائے)۔ تفسیر سعدی: 689

            اور یہ تمہارے دن: خالی اور فنا ہونے والے دن ہیں، جو تمہیں باقی اور دائمی دنوں کی طرف لے جائیں گے، لہٰذا ان دنوں میں عمل کرو؛ ( تفسیر طبری: 23/234) تاکہ بعد میں سلامتی والے گھر  میں آرام کرو! اور اپنے رب کی بات سنو، جب وہ تم سے کہے گا: ﴿كُلُوا وَاشْرَبُوا هَنِيئًا بِمَا أَسْلَفْتُمْ فِي الأَيَّامِ الخَالِيَةِ﴾(کھاؤ اور پیو، خوش ہو کر، ان دنوں میں جو تم نے گزارے ہیں)۔الحاقۃ: 24

            اے اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو عزت عطا فرما، اور شرک اور مشرکین کو ذلت نصیب فرما۔

اے اللہ! اپنے خلفاء راشدین، ہدایت یافتہ اماموں یعنی ابو بکر، عمر، عثمان اور علی سے راضی ہو جا، اور باقی صحابہ کرام، تابعین اور ان کے نیک پیروی کرنے والوں سے بھی قیامت کے دن تک راضی ہو جا۔
اے اللہ! غمزدوں کی غمخواری فرما، اور مصیبت زدوں کی مشکلات دور فرما۔
اے اللہ! ہمارے وطنوں کو امن عطا فرما، اور ہمارے ائمہ اور حکمرانوں کو درست راہ دکھا، اور (ہمارے حکمران اور ان کے ولی عہد) کو اپنی پسندیدہ اور رضا کی راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرما، اور ان کی رہنمائی تقویٰ اور نیکی کی طرف فرما۔
اللہ کے بندو: إِنَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالعَدْلِ وَالإحْسَانِ وَإِيتَآءِ ذِي القُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الفَحْشَاءِ وَالمُنْكَرِ وَالبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ ﴿بیشک اللہ انصاف کا، احسان کا، اور قرابت داروں کو دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برائی اور ظلم سے منع کرتا ہے، وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو﴾۔
پس اللہ کا ذکر کرو وہ تمہیں یاد رکھے گا، اور اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرو وہ تمہیں زیادہ دے گا وَلَذِكْرُ اللهِ أَكْبَرُ وَاللهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُون ﴿اور اللہ کا ذکر سب سے بڑا ہے اور اللہ جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو﴾۔
·         مترجم: محمد زبیر کلیم

·          داعی ومدرس جمعیت ھاد

·         جالیات عنیزہ۔ سعودی عرب

 

 

المرفقات

1726108052_سکون اور عبادت.docx

1726108055_سکون اور عبادت.pdf

المشاهدات 67 | التعليقات 0