فرشتوں پر ایمان
سيف الرحمن التيمي
موضوع الخطبة: الإيمان بالملائكة
الخطيب : فضيلة الشيخ ماجد بن سليمان الرسي/ حفظه الله
لغة الترجمة : الأردو
المترجم :سيف الرحمن التيمي ((@Ghiras_4T
پہلا خطبہ
إن الحمد لله نحمده ، ونستعينه، ونعوذ بالله من شرور أنفسنا ومن سيئات أعمالنا، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أن محمدا عبده ورسوله.
(يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ)
(يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا)
(يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا)
حمد وثنا کے بعد!
سب سے بہترین کلام اللہ کا کلام ہے، اور سب سے بہترین طریقہ محمد کا طریقہ ہے، سب سے بدترین چیز دین میں ایجاد کردہ بدعتیں ہیں، اور (دین میں) ہر ایجاد کردہ چیز بدعت ہے، ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے۔
· اے مسلمانو! میں آپ کو اور خود کو اللہ سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوں ‘ یہ پہلے اور بعد کی تمام قوموں کی وصیت ہے ‘ اللہ تعالی فرماتا ہے: (وَلَقَدْ وَصَّيْنَا الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَإِيَّاكُمْ أَنِ اتَّقُوا اللَّهَ)
ترجمہ: واقعی ہم نے ان لوگوں کو جو تم سے پہلے کتاب دیئے گئے تھے اور تم کو بھی یہی حکم کیا ہے کہ اللہ سے ڈرتے رہو۔
اس لئے آپ اللہ کا تقوی اختیار کریں اور اس سے ڈرتے رہیں‘ اس کی اطاعت کریں اور اس کی نافرمانی سے گریز کرتے رہیں‘ اور جان رکھیں کہ فرشتوں پر ایمان لانے کا دین اسلام میں بڑا مقام ومرتبہ ہے‘ چنانچہ وہ اسلام کا دوسرار کن ہے‘ رسولوں اور دیگر لوگوں اور اللہ کے درمیان وہ واسطہ ہیں‘فرشتے اللہ کی ایسی مخلوق ہیں جو عالم غیب سے تعلق رکھتی ہے‘ وہ اللہ تعالی کی عبادت کرتے ہیں‘ ان کے اندر الوہیت وربوبیت کی کوئی خصوصیت نہیں پائی جاتی‘ اللہ تعالی نے انہیں نور سے پیدا فرمایا ہے‘ ان کے اندر اپنے حکم کی تابعداری کا مکمل جوہر اور اس کو نافذ کرنے کی کامل قوت ودیعت کی ہے‘ اللہ تعالی کا فرمان ہے: (لَا يَعْصُونَ اللَّهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ)
ترجمہ: جو حکم اللہ تعالیٰ دیتا ہے اس کی نافرمانی نہیں کرتے بلکہ جو حکم دیا جائے بجا ﻻتے ہیں
نیز ارشاد باری تعالی ہے: (وَمَنْ عِنْدَهُ لَا يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِهِ وَلَا يَسْتَحْسِرُونَ يُسَبِّحُونَ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ لَا يَفْتُرُونَ)
ترجمہ: جو اس کے پاس ہیں وه اس کی عبادت سے نہ سرکشی کرتے ہیں اور نہ تھکتے ہیں۔ وه دن رات تسبیح بیان کرتے ہیں اور ذرا سی بھی سستی نہیں کرتے۔
(لا يَسْتَحْسِرُونَ) یعنی:نہ تھکتے ہیں او رنہ ملول ہوتے ہیں۔
· فرشتوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ اللہ تعالی ہی انہیں شمار کرسکتا ہے‘ فرمان باری تعالی ہے: (وَمَا يَعْلَمُ جُنُودَ رَبِّكَ إِلَّا هُوَ)
ترجمہ: تیرے رب کے لشکروں کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔
یعنی: اللہ تعالی کے علاوہ کوئی ان کی تعداد اور کثرت سے واقف نہیں۔
صحیحین میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے واقعہ معراج میں وارد ہوا کہ نبی صلى اللہ علیہ وسلم کو بیت معمور تک لے جایا گیا، آپ نے (اس کے متعلق) جبرائیل سے پوچھا تو انہوں نے کہا: یہ بیت معمور ہے، اس میں روزانہ ستر ہزار فرشتے نماز ادا کرتے ہیں، جب وہ اس سے نکلتے ہیں تو پھر دوبارہ اس میں واپس نہیں ہوتے، یہی ان کا آخری داخلہ ہوتا ہے([1])۔
· اے مومنو! فرشتوں پر ایمان لانے کے چھ تقاضے ہیں:
پہلا: ان کے وجود پر ایمان لانا
دوسرا: ان سے محبت رکھنا‘ جو ان سے عداوت ودشمنی رکھتا ہے وہ کافر ہے‘ فرمان باری تعالی ہے: (مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِلَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَرُسُلِهِ وَجِبْرِيلَ وَمِيكَالَ فَإِنَّ اللَّهَ عَدُوٌّ لِلْكَافِرِينَ)
ترجمہ: جو شخص اللہ کا اور اس کے فرشتوں اور اس کے رسولوں اور جبرائیل اور میکائیل کا دشمن ہو، ایسے کافروں کا دشمن خود اللہ ہے۔
تیسرا: ان میں سے جن کے نام ہم جانتے ہیں‘ ان پر ایمان لانا‘ جیسے جبریل‘ اور جن کے نام سے ہم واقف نہیں‘ ان پر ہم اجمالاً ایمان رکھتے ہیں۔
چوتھا:ان میں سے جن کی صفات خَلقیہ سے ہم واقف ہیں‘ ان پر ایمان لانا ‘ جیسے جبریل کی صفت جن کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خبر دی کہ آپ نے انہیں اس صفت کے ساتھ دیکھا جس پر ان کی تخلیق ہوئی ہے ‘ ان کے چھ سو (۶۰۰) پَر تھے جو آسمان کے سارے کناروں کو گھیرے ہوئے تھے([2])۔
فرشتہ اللہ کے حکم سے انسانی شکل وصورت بھی اختیار کر سکتا ہے ‘ جیسا کہ جبریل علیہ السلام نے کیا ‘ جب اللہ تعالی نے انہیں مریم کے پاس بھیجا تو وہ ان کے سامنے انسانی شکل وصورت میں آکھڑے ہوئے ‘ اسی طرح جب حضرت جبریل نبی صلى اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے ‘ جبکہ آپ اپنے صحابہ کے درمیا ن تشریف فرما تھے‘ وہ آپ کے پاس ايسے شخص کی شکل میں آئے جس کا لباس نہایت سفید اور بال انتہائی کالے تھے، اس پر نہ تو سفر کے آثار دکھائی دے رہے تھے، اور نہ ہی کوئی صحابی ان کو پہچانتے تھے، یہاں تک کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا کر بیٹھ گئے، انہوں نے اپنے گھٹنے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھٹنوں سے ملا دئیے، اور اپنی ہتھیلیوں کو آپ کی رانوں پر رکھ لیا اور نبی صلى اللہ علیہ وسلم سے اسلام ‘ ایمان ‘ احسان ‘ قیامت او راس کی نشانیوں کے بارے میں سوال کیا اور آپ نے ان کو جواب دیا‘ پھر وہ چلے گئے ‘ جب صحابہ نے نبی صلى اللہ علیہ وسلم سے ان کے بار ےمیں دریافت کیا تو آپ نے فرمایا: وہ جبرائیل تھے، تمہیں تمہارا دین سکھانے آئے تھے([3])۔
اسی طرح وہ فرشتے جن کو اللہ تعالی نے ابراہیم اور لو ط کے پاس بھیجا تھا وہ بھی انسانوں کی شکل میں ہی آئے تھے([4])۔
فرشتوں کے سردار حضرت جبریل ہیں‘ وہ اپنی صفتِ خلقت میں تمام فرشتوں سے بڑے ہیں‘ اللہ نے ان کی یہ صفت بیان فرمائی ہے: (رَسُولٍ كَرِيمٍ ذِي قُوَّةٍ عِنْدَ ذِي الْعَرْشِ مَكِينٍ)
ترجمہ: وه ايك بزرگ رسول ہے۔جو قوت واﻻ ہے، عرش والے (اللہ) کے نزدیک بلند مرتبہ ہے۔
پھر فرمایا: (مُطَاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ)
ترجمہ: جس کی (آسمانوں میں) اطاعت کی جاتی ہے امین ہے۔
یعنی: تمام فرشتے ان کی اطاعت کرتے ہیں اور وہ وحی کے امین ہیں۔
نیز اللہ تعالی نےاپنے نبی محمد صلى اللہ علیہ وسلم سے متعلق اس فرمان میں ان کو اپنی خلقت میں قوت سے متصف قرار دیا :( عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوَى ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوَى)
ترجمہ: اسے پوری طاقت والے فرشتے نے سکھایا ہے جو زور آور ہے پھر وه سیدھا کھڑا ہو گیا۔
یعنی جس نے محمد کو وحی سکھائی وہ جبریل ہیں‘ ان کی اللہ نے یہ صفت بتائی کہ وہ زور آور ہیں‘ یعنی : ظاہری اور باطنی قوت سے لیس ہیں‘ اللہ کے حکم کو نافذ کرنے پر قادر ہیں‘ رسولوں تک وحی پہنچانے کی قدرت رکھتے ہیں‘ اور اس بات پر بھی قدرت رکھتے ہیں کہ وحی کو شیطانوں کے اچکنے سے ‘ یا اس میں کوئی خارجی چیز داخل کرنے سے محفوظ رکھیں ‘ یہ اللہ تعالی کی طرف سے وحی کی حفاظت ہی ہے کہ اس نے اس وحی کو اس زو ر آور اور امانت دار فرشتے کے واسطے بھیجا([5])۔
اللہ تعالی کے فرمان :( ذُو مِرَّةٍ) میں مرَّۃ سے مراد: ظاہری وباطنی آفت ومصیبت سے حفاظت وسلامتی ہے‘ جس سے یہ لازم آتا ہے کہ وہ اپنی خلقت میں کما ل اور حسن وجمال سے متصف تھے‘ چنانچہ یہ ایسی قوت ہے جس میں صحت وتندرستی اور حسن وجمال دونوں شامل ہیں([6])۔
فرشتوں پر ایمان لانے کا پانچواں تقاضہ یہ ہے کہ ہمیں ان کی جن خُلقی صفات کا علم ہے ‘ ان پر ایمان لایا جائے‘ جیسے صفت حیا‘ اس کی دلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے جو آپ نے عثمان رضی اللہ عنہ کے تعلق سے فرمایا: " کیا میں ایسے شخص سے حیا نہ کروں جس سے فرشتے حیا کرتے ہیں"([7])۔
فرشتے ان چیزوں کو ناپسند کرتے ہیں جنہیں اللہ تعالی نا پسند فرماتا ہے‘ چنانچہ وہ اس گھر میں نہیں داخل ہوتے جس میں کتا یا مجسمہ ہو‘ نبی صلى اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:"فرشتے اس گھر میں نہیں جاتے جس میں کتا ہو اور اس میں بھی نہیں جاتے جس میں جاندار مجسموں کی تصویر ہو"([8])۔
فرشتوں کو ان چیز وں سے اذیت ہوتی ہے جن سے انسانوں کو اذیت ہوتی ہے‘ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو مسجد میں داخل ہونے سے منع فرمایا ہے جس نے پیاز‘ یا لہسن ‘ یا گندنا کھائی ہو‘ دیگر تمام بدبودار وناگوار چیزوں کا بھی یہی حکم ہے جیسے سگریٹ ‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:"جس نے پیاز‘ لہسن او رگندنا کھایا ہو‘ وہ ہرگز ہماری مسجد کے قریب نہ آئے کیونکہ فرشتے (بھی ) ان چیزوں سے اذیت محسوس کرتے ہیں جن سے آدم کے بیٹے اذیت محسوس کرتے ہیں"([9])۔
چھٹا: اللہ تعالی کے حکم سے وہ فرشتے جو عام او رخاص اعمال انجام دیتے ہیں‘ ان پر ایمان لانا‘ عام کاموں کی مثال: اللہ کی پاکی بیان کرنااور بغیر کسی اکتاہٹ اور سستی کے شب وروز اس کی عبادت کرنا‘ اللہ تعالی ان کے تعلق سے فرماتا ہے: (فَالتَّالِيَاتِ ذِكْرًا)
ترجمہ: پھر ان کی جو ذکر کی تلاوت کرنے والی ہیں۔
ان میں سے بعض فرشتوں کے چند خاص اعمال بھی ہیں‘ جیسے جبریل امین جو وحی الہی پر مامور ہیں‘ انہیں اللہ تعالی وحی لے کر انبیاء ورسل کے پاس بھیجتے ہیں‘ یہ بھی ممکن ہے کہ دیگر فرشتے بھی وحی کا کوئی حصہ لے کر بھیجے جائیں‘ اللہ تعالی کا فرمان ہے: (فَالْمُلْقِيَاتِ ذِكْرًا عُذْرًا أَوْ نُذْرًا)
ترجمہ: وحی ﻻنے والے فرشتوں کی قسم! جو (وحی) الزام اتارنے یا آگاه کردینے کے لیے ہوتی ہے۔
یعنی: وہ فرشتے انبیاء پر ذکر (وحی الہی) اتارتے ہیں تاکہ وہ –اس کی تبلیغ کے ذریعے- عذر کو منقطع کردیں‘ یا ڈرائیں۔
ایک مثال میکائیل بھی ہیں جو بارش نازل کرنے پر مامور ہیں([10])۔
اسی طرح وہ فرشتہ بھی جو صور پھونکنے پر مامور ہیں‘ مشہور ہے کہ ان کا نام اسرافیل ہے‘ صور سے مراد وہ صور ہے جس میں پھونک ماراجائے گا‘ جیسا کہ حدیث میں آیا ہے‘ یہ اس وقت ہوگا جب قیامت برپا ہوگی اور لوگ قبروں سے اٹھ کھڑے ہوں گے۔
یہ تین سب سے بڑے فرشتے ہیں‘ اور تینوں ایسی چیز پر مامور ہیں جس میں زندگی ہے‘ چنانچہ جبریل وحی پر مامور ہیں جس میں دلوں کی زندگی ہے‘ میکائیل بارش برسانے پر مامور ہیں جس میں زمین کی زندگی ہے‘ اور اسرافیل صور پھونکنے پر مامور ہیں ‘ جس سے قیامت کے دن (مردہ ) جسموں میں زندگی لوٹ آئے گی۔
ایک فرشتہ ملک الموت بھی ہیں‘ جو موت کے قوت روح قبض کرنے پر مامور ہوتے ہیں‘ اللہ تعالی کا فرمان ہے: (قُلْ يَتَوَفَّاكُمْ مَلَكُ الْمَوْتِ الَّذِي وُكِّلَ بِكُمْ ثُمَّ إِلَى رَبِّكُمْ تُرْجَعُونَ)
ترجمہ : کہہ دیجئے! کہ تمہیں موت کا فرشتہ فوت کرے گا جو تم پر مقرر کیا گیا ہے پھر تم سب اپنے پروردگار کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔
البتہ ملک الموت کو عزرائیل کے نام سے موسوم کرنا کتاب وسنت سے ثابت نہیں ہے‘ بلکہ قرآن میں ان کو ملک الموت سے موسوم کرنا ثابت ہے جیسا کہ مذکورہ آیت میں آیا ہے۔
ملک الموت کے چند معاون فرشتے بھی ہیں‘ اللہ تعالی کا فرمان ہے: (وَهُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهِ وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً حَتَّى إِذَا جَاءَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا وَهُمْ لَا يُفَرِّطُونَ)
ترجمہ: وہی اپنے بندوں کے اوپر غالب ہے برتر ہے اور تم پر نگہداشت رکھنے والے بھیجتا ہے یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی کو موت آ پہنچتی ہے، اس کی روح ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے قبض کرلیتے ہیں اور وه ذرا کوتاہی نہیں کرتے۔
اس آیت میں (رُسُلُنَا) سے مراد فرشتے ہیں‘ اور یہی فرشتے ملک الموت کے معاونین ہیں‘ او راللہ کے فرمان (لَا يُفَرِّطُونَ)کا مطلب یہ ہے کہ انہیں جو ذمہ داری دی گئی ہے ‘ ا س میں کوتاہی نہیں کرتے۔
کچھ فرشتے ایسے ہیں جو زمین میں گردش کرتے رہتے ہیں‘ وہ علم اور ذکر کی مجلسوں کی تلاش میں رہتے ہیں‘ جب علم اور ذکر کی کوئی مجلس انہیں نظر آتی ہے تو وہ ایک دوسرے کو آواز دیتے ہیں اور اس مجلس میں بیٹھ جاتےہیں اور اہل مجلس کو اپنے پروں سے آسمانِ دنیا تک ڈھانک لیتے ہیں([11])۔
کچھ فرشتوں کو رحم مادر میں پرورش پانے والے بچوں پر مامور کیا گیا ہے‘ جب بچہ رحم مادر میں چار ماہ گزار لیتا ہے تو اس وقت اللہ تعالی ا س کے پاس ایک فرشتہ کو بھیجتا ہے اور اسے حکم دیتا ہے کہ وہ اس کی روزی ‘ موت‘ عمل اور سعادت یا شقاوت کو لکھ ڈالے([12])۔
کچھ فرشتوں کو انسانوں کے اعمال کو محفوظ کرنے اور انہیں تحریر کرنے پر مامور کیا گیا ہے‘ ہر شخص کے ساتھ د و فرشتے ہوتے ہیں‘ ایک اس کے دائیں اور دوسرا اس کے بائیں‘ جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے: (إِذْ يَتَلَقَّى الْمُتَلَقِّيَانِ عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِيدٌمَا يَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلَّا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ)
ترجمہ: جس وقت دو لینے والے جا لیتے ہیں ایک دائیں طرف اور ایک بائیں طرف بیٹھا ہوا ہے۔ منھ سے کوئی لفظ نکال نہیں پاتا مگر کہ اس کے پاس نگہبان تیار ہے۔
نیز اللہ تعالی نے فرمایا:( وَإِنَّ عَلَيْكُمْ لَحَافِظِينَ كِرَامًا كَاتِبِينن يَعْلَمُونَ مَا تَفْعَلُونَ)
ترجمہ: یقیناً تم پر نگہبان عزت والے لکھنے والے مقرر ہیں جوکچھ تم کرتے ہو وه جانتے ہیں۔
کچھ فرشتوں کا کام یہ ہے کہ جب میت کو قبر میں رکھا جاتا ہے تو وہ اس سے سوال کرتے ہیں‘ وہ اس سے اس کے رب ‘ دین اور نبی کے بارے میں سوالات کرتے ہیں([13])۔
کچھ فرشتے ایسے ہیں جو اہل جنت کی خدمت پر مامور ہیں‘ اللہ تعالی جنتیوں کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے: (وَالْمَلَائِكَةُ يَدْخُلُونَ عَلَيْهِمْ مِنْ كُلِّ بَابٍ سَلَامٌ عَلَيْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ)
ترجمہ: ان کے پاس فرشتے ہر ہر دروازے سے آئیں گے۔ کہیں گے کہ تم پر سلامتی ہو، صبر کے بدلے، کیا ہی اچھا (بدلہ) ہے اس دار آخرت کا۔
کچھ فرشتے جہنم پر مامور ہیں‘ ان کے سردار کا نام مالک ہے جو جہنم کا داروغہ ہے ‘ اللہ تعالی جہنمیوں کی زبانی ارشاد فرماتا ہے: (وَنَادَوْا يَا مَالِكُ لِيَقْضِ عَلَيْنَا رَبُّكَ قَالَ إِنَّكُمْ مَاكِثُونَ)
ترجمہ: وه پکار پکار کر کہیں گے کہ اے مالک! تیرا رب ہمارا کام ہی تمام کردے، وه کہے گا کہ تمہیں تو (ہمیشہ) رہنا ہے۔
ایک فرشتہ پہاڑوں پر بھی مامور ہیں‘ جو نبی صلى اللہ علیہ وسلم کے پاس اس وقت آئے جب آپ کو اپنی قوم سے بے انتہا اذیت پہنچی ‘ پھر آپ سے عرض کیا : اگر آپ چاہیں تو مکہ کے دونوں جانب جو پہاڑ ہیں ان پر رکھ دوں‘ نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (نہیں) بلکہ میں امید رکھتا ہوں کہ اللہ تعالی ان کی نسل سے ایسے لوگ پیدا کرے گا جو صرف اللہ وحدہ کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے([14])۔
کچھ فرشتے بادلوں کو ہانکنے پر مامور ہیں جو انہیں اللہ کے ارادے کے مطابق (ایک جگہ سے دوسری جگہ کی طرف) ہانکتے رہتے ہیں‘ اللہ تعالی کا فرمان ہے: (فَالزَّاجِرَاتِ زَجْرًا)
ترجمہ: پوری طرح ڈانٹنے (بادلوں کو ہانکنے ) والوں کی (قسم!)۔
فرشتے مومنوں سے محبت کرتے ‘ ان کے لئے دعا اور استغفار کرتے ہیں‘ اللہ تعالی عرش کو اٹھانے والے فرشتوں کے متعلق فرماتا ہے: (الَّذِينَ يَحْمِلُونَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَهُ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَيُؤْمِنُونَ بِهِ وَيَسْتَغْفِرُونَ لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شَيْءٍ رَحْمَةً وَعِلْمًا فَاغْفِرْ لِلَّذِينَ تَابُوا وَاتَّبَعُوا سَبِيلَكَ وَقِهِمْ عَذَابَ الْجَحِيمِ رَبَّنَا وَأَدْخِلْهُمْ جَنَّاتِ عَدْنٍ الَّتِي وَعَدْتَهُمْ وَمَنْ صَلَحَ مِنْ آبَائِهِمْ وَأَزْوَاجِهِمْ وَذُرِّيَّاتِهِمْ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ وَقِهِمُ السَّيِّئَاتِ وَمَنْ تَقِ السَّيِّئَاتِ يَوْمَئِذٍ فَقَدْ رَحِمْتَهُ وَذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ)
ترجمہ: عرش کے اٹھانے والے اور اس کے آس پاس کے (فرشتے) اپنے رب کی تسبیح حمد کے ساتھ ساتھ کرتے ہیں اور اس پر ایمان رکھتے ہیں اور ایمان والوں کے لیے استغفار کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! تو نے ہر چیز کو اپنی بخشش اور علم سے گھیر رکھا ہے، پس تو انہیں بخش دے جو توبہ کریں اور تیری راه کی پیروی کریں اور تو انہیں دوزخ کے عذاب سے بھی بچا لے ۔ اے ہمارے رب! تو انہیں ہمیشگی والی جنتوں میں لے جا جن کا تو نے ان سے وعده کیا ہے اور ان کے باپ دادوں اور بیویوں اور اوﻻد میں سے (بھی) ان (سب) کو جو نیک عمل ہیں۔ یقیناً تو تو غالب و باحکمت ہے۔انہیں برائیوں سے بھی محفوظ رکھ، حق تو یہ ہے کہ اس دن تونے جسے برائیوں سے بچا لیا اس پر تو نے رحمت کر دی اور بہت بڑی کامیابی تو یہی ہے۔
فرشتے اس شخص کے لئے مغفرت کی دعا کرتے ہیں جو مسجد میں نماز کا انتظار کر رہا ہوتا ہے‘ وہ کہتے ہیں : اے اللہ! اسے بخش دے ‘ اے اللہ ! اس پر رحم فرما([15])۔
فرشتے اس شخص کے لئے بھی مغفرت اور رحمت کی دعا کرتے ہیں جو مسجد کے اندر پہلی صفوں میں نماز ادا کرتے ہیں‘ جیسا کہ نبی صلى اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: "اللہ تعالی پہلی صفوں میں آنے والوں پر رحمت نازل کرتا ہے اور فرشتے ان کے لئے دعائیں کرتے ہیں"([16])۔
فرشتے ان کے لئے بھی دعائیں کرتے ہیں جو لوگوں کو خیر وبھلائی کی تعلیم دیتے ہیں‘ ابو امامہ باہلی رضی اللہ سے مروی ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ اور اس کے فرشتے اور آسمان اور زمین والے یہاں تک کہ چیونٹیاں اپنی سوراخ میں اور مچھلیاں اس شخص کے لیے جو نیکی وبھلائی کی تعلیم دیتا ہے ‘ خیر وبرکت کی دعائیں کرتی ہیں"([17])۔
فرشتے اس شخص پر لعنت بھیجتے ہیں جو اپنے مسلمان بھائی پر لوہے کا کوئی ہتھیار یا اسلحہ اٹھاتا ہے‘ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ابو القاسم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے اپنے بھائی کی طرف لوہے کے کسی ہتھیار سے اشارہ کیا تو اس پر فرشتے لعنت کرتے رہتے ہیں یہاں تک کہ وہ اس کام کو ترک کردے ‘ چاہے وہ اس کا ماں باپ شریک (سگا) بھائی ہی کیوں نہ ہو"([18])۔
فرشتے مومنوں کے ساتھ فجر کی نماز میں حاضر ہوتے ہیں: (وَقُرْآنَ الْفَجْرِ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا)
ترجمہ: فجر کا قرآن( پڑھ)۔ یقیناً فجر کے وقت کا قرآن پڑھنا حاضر کیا گیا ہے۔
قرآنِ فجر سے مراد نماز ِ فجر ہے‘ اسے قرآن سے اس لئے موسوم کیا گیا کہ اس میں دیگر نمازوں کے بالمقابل لمبی تلاوت کرنا مشروع ہے‘ نیز اس نماز میں کی جانے والی تلاوت کی فضیلت بھی زیادہ ہے ‘ کیوں کہ اس نماز میں رات اور دن کے فرشتے جمع ہوتے ہیں([19])۔
خلاصہ یہ کہ فرشتوں کو اللہ نے امورِ کائنات کی تدبیر کے لئے جن کاموں کی ذمہ داری دی ہے‘ وہ انہیں انجام دیتے ہیں‘ اسی لئے اللہ تعالی نے فرشتوں کو قاصد وپیغامبرسے موسوم کیا ہے‘ کیوں کہ اللہ تعالی نے انہیں جن ذمہ داریوں کے ساتھ بھیجا ہے ‘ وہ انہیں انجام دیتے ہیں‘ اللہ تعالی سورۃ فاطر میں ارشاد فرماتا ہے: (الْحَمْدُ لِلَّهِ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ جَاعِلِ الْمَلَائِكَةِ رُسُلًا أُولِي أَجْنِحَةٍ)
ترجمہ: اس اللہ کے لئے تمام تعریفیں سزاوار ہیں جو (ابتداءً) آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے واﻻ اور پروں والے فرشتوں کو اپنا پیغامبر (قاصد) بنانے واﻻ ہے۔
معلوم ہوا کہ فرشتوں کو وحی کے ساتھ ‘ روح قبض کرنے کے لئے‘ ہواؤں او ر بادلوں کو مسخر کرنے –یعنی انہیں ہانکنے- کے لئے اور اولادِ آدم کے اعمال درج کرنے اور ان جیسے دیگر اعمال انجام دینے کے لئے بھیجا جاتاہے۔
ابن تیمیہ رحمہ اللہ رقم طراز ہیں: فرشتوں کا معاملہ بڑا اعلى وبالا ہے‘ وہ کائنات کی تدبیر کرنے کے لئے اللہ کے بھیجے ہوئے قاصد وپیغامبر ہیں‘ جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا: (فَالْمُدَبِّرَاتِ أَمْرًا)
ترجمہ: پھر کام کی تدبیر کرنے والوں کی قسم!
نيز فرمايا: (فَالْمُقَسِّمَاتِ أَمْرًا)
ترجمہ: پھر کام کو تقسیم کرنے والیاں۔
اللہ تعالی نے اپنی کتابوں میں فرشتوں سے متعلق اتنی خبریں اور ان کی اتنی صنفوں کا ذکر کیا ہے کہ ان کا بیان باعث طوالت ہوگا‘ البتہ ان کے اثرات دنیا کے اندر موجود ہیں([20])۔
فرشتوں اور ان کے اعمال ووظائف کی عظمت شان ہی ہے کہ اللہ نے ان کی قسم کھاتے ہوئے فرمایا: (فَالْمُدَبِّرَاتِ أَمْرًا) یہ آیت ان کی عظمت ورفعت کی دلیل ہے۔
کچھ فرشتے ایسے ہیں جو ہمیشہ اللہ تعالی کی عبادت میں لگے رہتے ہیں‘ نبی صلى اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: "بے شک آسمان چر چرا رہا ہے اور اسے چرچرانے کا حق بھی ہے‘ اس لیے کہ اس میں چار انگل کی بھی جگہ خالی نہیں ہے ‘ مگر کوئی نہ کوئی فرشتہ اپنی پیشانی اللہ کے حضور رکھے ہوئے ہے"([21])۔ مومن کے لئے غور وفکر کا مقام ہے کہ آسمان اپنی تمام تر کشادگی کے باوجود عبادت گزار فرشتوں سے تنگ پڑ رہی ہے ‘ پاک ہے عظمت والا اللہ([22]) ۔
فرشتوں پر ایمان لانے کے تعلق سے یہ بنیادی باتیں تھیں جو آپ کے سامنے پیش کی گئیں‘ اللہ تعالی ہمیں اور آپ کو قرآن مجید کی برکتوں سے بہرہ مند فرمائے ‘ مجھے اور آپ کو اس کی آیتوں اور حکمت پر مبنی نصیحت سے فائدہ پہنچائے‘ میں اپنی یہ بات کہتے ہوئے اللہ تعالی سے اپنے لئے اور آپ سب کے لئے تمام گناہوں سے مغفرت کی دعا کرتاہوں ‘ آپ بھی اس سے استغفار کریں‘ یقینا وہ خوب توبہ قبول کرنے والا اور بہت زیادہ بخشنے والا ہے۔
دوسرا خطبہ:
الحمد لله وكفى، وصلام على عباده الذين اصطفى، أما بعد:
جان لیجئے-اللہ آپ پر رحم فرمائے-کہ فرشتوں پر ایمان لانے کے بڑے فوائد وثمرات ہیں ‘ جن میں سے چند یہ ہیں([23]):
پہلا: اللہ تعالی کی عظمت وقوت اور غلبہ وبادشاہت کا علم ‘ کیوں کہ مخلوق کی عظمت ‘ خالق سبحانہ وتعالی کی عظمت پر دلالت کرتی ہے۔
دوسرا: اولاد آدم کے تئیں اللہ کی عنایت ومہربانی پر اس کا شکر‘ کیوں کہ اس نے کچھ فرشتوں کو ان کی حفاظت کرنے‘ ان کے اعمال کو درج کرنے اور ان کی دیگر مصلحتوں کو بروئے عمل لانے پر مامور کر رکھا ہے۔
تیسرا:فرشتے جس قدر اللہ تعالی کی عبادت کرتے ہیں‘ اس پر ان سے محبت رکھنا۔
· نیز آپ یہ بھی جان لیں –اللہ آپ پر رحم فرمائے-کہ نیک وصالح اولادِ آدم فرشتوں سے زیادہ افضل ہیں‘ یہ اہل سنت والجماعت کا قول ہے‘ کیوں کہ اولادِ آدم کے اندر فطری طور پر شہوت رکھی گئی ہے جس سے وہ مقابلہ کرتا اور اس پر لگام لگا تا ہے‘ اس کے اندر نفس امارہ ہے جو برائی کا حکم دیتا ہے‘ اس (کی رگوں میں ) شیطان دوڑتا ہے جو اسے ورغلاتا رہتا ہے‘ برخلاف فرشتوں کے ‘ کیوں کہ ان کی فطرت میں یہ ودیعت ہے کہ وہ اللہ کی اطاعت کریں اور اس کے حکم پر ڈٹے رہیں‘ شیطان انہیں مغلوب اور زیر نہیں کرسکتا‘ اس لئے اولادِ آدم میں سے جو شخص اللہ کی اطاعت پر قائم رہے اور اپنے نفس پر قابو رکھے وہ فرشتوں سے زیادہ بہتر ہے۔
· نیز یہ بھی جان رکھیں کہ ماہ شعبان کے روزے رکھنا بہت زیادہ مستحب ہے‘ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی کہ : رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نفلی روزے اس قدر رکھتے کہ ہم کہتیں: اب آپ کبھی روزہ ترک نہیں کریں گے اور جب چھوڑ دیتے تو ہمیں خیال ہوتا کہ اب آپ کبھی روزہ نہیں رکھیں گے‘ اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رمضان کے علاوہ کسی اور مہینے کے پورے روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا۔اور میں نے آپ کو شعبان سے زیادہ کسی اور مہینے میں نفلی روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا"([24])۔
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں نے آپ کو کسی مہینے میں اتنے روزے رکھتے نہیں دیکھا جتنے آپ شعبان میں رکھتے ہیں۔(کیا وجہ ہے ؟ ) آپ نے فرمایا: یہ وہ مہینہ ہے کہ رجب اور رمضان کے درمیان آنے کی وجہ سے لوگ اس سے غفلت کر جاتے ہیں‘ حالانکہ یہ وہ مہینہ ہے کہ اس میں رب العالمین کے ہاں انسانوں کے اعمال پیش کیے جاتے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ میرے عمل پیش ہوں تو میں روزےسے ہوں"([25])۔
· آپ یہ بھی جان رکھیں –اللہ آپ پر اپنی رحمت نازل فرمائے - کہ اللہ تعالی نے آپ کو ایک بڑی چیز کا حکم دیا ہے، فرمان باری تعالی ہے:
(إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا)
ترجمہ: اللہ تعالی اور اس کے فرشتے اس نبی پر رحمت بھیجتے ہیں ۔اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود بھیجو اور خوب سلام بھی بھیجتے رہا کرو۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:" تمہارے سب سے بہتر دنوں میں سے جمعہ کا دن ہے، اسی دن آدم پیدا کئے گئے، اسی دن ان کی روح قبض کی گئی، اسی دن صور پھونکا جائے گا[26]، اسی دن چیخ ہو گی[27] ۔ اس لیے تم لوگ اس دن مجھ پر کثرت سے درود بھیجا کرو، کیوں کہ تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے"[28]۔اے اللہ !تو اپنے بندے اور رسول محمد پر رحمت و سلامتی بھیج،تو ان کے خلفاء ،تابعین عظام اور قیامت تک اخلاص کے ساتھ ان کی اتباع کرنے والوں سے راضی ہوجا۔
اے اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو عزت وسربلندی عطا فرما،شرک اور مشرکین کو ذلیل وخوار کر،تواپنے اور دین اسلام کے دشمنوں کو نیست ونابود کردے،اور اپنے موحد بندوں کی مدد فرما،اے اللہ! ہمارے اماموں اور ہمارے حاکموں کی اصلاح فرما،انہیں ہدایت کی رہنمائی کرنےوالا اور ہدایت پر چلنے والا بنا۔ اے اللہ! تمام مسلم حکمرانو ں کو اپنی کتاب کو نافذ کرنے اور اپنے دین کو سر بلند کرنے کی توفیق ارزانی کر‘ انہیں ان کے ماتحتوں کے لئے رحمت بنادے۔اے اللہ! ہر جگہ مسلمانوں کے حالات درست فرمادے ۔اے اللہ! تو ان پر ہونے والے ظلم وتعدی کو دور فرمادے ‘ اے اللہ! تو ہم سے وبا کو دور فرمادے ‘ یقینا ہم مسلمان ہیں۔ اے ہمارے پرودگار! ہمیں دنیا میں نیکی دے اور آخرت میں بھلائی عطا فرما اور ہمیں عذاب جہنم سے نجات بخش۔
سبحان ربك رب العزة عما يصفون وسلام على المرسلين والحمد لله رب العالمين
تحریر:
ماجد بن سلیمان الرسی
۶ شعبان ۱۴۴۲ھ
شہر جبیل-سعودی عرب
0966505906761
ترجمہ: سیف الرحمن حفظ الرحمن تیمی
([1]) بخاری(۳۲۰۷) مسلم (۱۶۴)
([2]) بخاری (۳۲۳۲، ۳۲۳۳) اور مسلم (۱۷۴، ۱۷۷) نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔
([3]) اس حدیث کو مسلم (۹) نے حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔
([4]) ابن عثیمین کے کتاب "شرح ثلاثۃ الأصول": ۹۰-۹۱ سے معمولی تصرف کے ساتھ ماخوذ۔
([5]) دیکھیں مذکورہ آیات کی تفسیر شیخ عبد الرحمن بن سعدی کی کتاب: "تیسیر الکریم الرحمن فی تفسیر کلام المنان" میں۔
([6]) یہ ابن القیم کا قول ہے: "إغاثۃ اللہفان" (۲/۱۲۹) ، تحقیق: الفقی۔
([7]) اسے مسلم (۲۴۰۱) نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے۔
([8]) اسے بخاری (۳۲۲۵) اور مسلم (۲۱۰۶) نے ابو طلحہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے اور مذکورہ الفاظ بخاری کے روایت کردہ ہیں۔
([9]) اسے مسلم (۵۶۴) نے جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔
([10]) یہ ایک حدیث میں آیا ہے جسے نسائی نے "السنن الکبرى" (۹۰۲۴) میں اور احمد (۱/۲۷۴) نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے اور "المسند" کے محققین نے اسے حسن قرار دیا ہے۔
([11]) دیکھیں: صحیح بخاری(۶۴۰۸) اور صحیح مسلم (۲۶۸۹)
([12]) دیکھیں: صحیح بخاری: (۳۲۰۸) اور صحیح مسلم (۲۶۴۳) بروایت ابن مسعود رضی اللہ عنہ۔
([13]) دیکھیں: انس بن مالک سے مروی بخاری کی حدیث : (۱۳۷۴)
([14]) بخاری (۳۲۳۱) اور مسلم (۱۷۹۵) نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے۔
([15]) اسے ابو داود (۴۶۹)، ترمذی (۳۳۰)، نسائی (۷۳۳)، ابن ماجہ (۷۹۹) نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے اور البانی نے صحیح قرار دیا ہے۔
([16]) اس حدیث کو ابوداود (۶۷۴)، نسائی (۶۴۶)، اور ابن ماجہ (۹۹۷) نے براء بن عازب رضی اللہ سے روایت کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے۔
([17]) سنن ترمذی (۲۶۸۵)
([18]) مسلم (۲۶۱۶)
([19]) یہ شیخ ابن سعدی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے، جسے اختصار اور تصرف کے ساتھ یہاں نقل کیا گیا ہے۔
([20]) "الجواب الصحیح لمن بدل دین المسیح": ۶/۲۵-۲۶
([21]) اسے ترمذی(۲۳۱۲) ، ابن ماجہ(۴۱۹۰)، احمد (۵/۱۷۳) نے روایت کیا ہے اور البانی نے "الصحیحۃ" (۱۷۲۲) میں اور "المسند" کے محققین نے حسن قرار دیا ہے۔
([22]) اس موضوع پر مزید تفصیل جاننے کے لئے ابن ابی العز حنفی نے ایمان بالملائکۃ کے باب میں اپنی کتاب "شرح العقیدۃ الطحاویۃ" ص۲۹۹-۳۰۱، ناشر: المکتب الإسلامی-بیروت، کے اندر جو باتیں لکھی ہیں، انہیں ملاحظہ کریں۔
([23]) یہ باب ابن عثیمین کی کتاب "شرح الأصول الثلاثۃ" سے معمولی تصرف کے ساتھ منقول ہے۔
([24]) بخاری (۱۸۳۳) ، مسلم (۱۹۵۶)
([25]) اسے احمد (۵/۲۰۱) وغیرہ نے روایت کیا ہے اور "المسند" کے محققین نے (۲۱۷۵۲) اسے حسن قرار دیا ہے۔
[26] یعنی صور میں دوسری بار پھونک مارا جائے گا، اس سے مراد وہ صور ہے جس میں اسرافیل پھونک ماریں گے، یہ وہ فرشتہ ہیں جن کو صور میں پھونک مارنے پر مامور کیا گیا ہے، جس کے بعد تمام مردے اپنی قبروں سے اٹھ کھڑے ہوں گے۔
[27] یعنی جس سے دنیاوی زندگی کے اخیر میں لوگ بے ہوش ہوکر گر پڑیں گےاور سب کے سب مر جائیں گے، یہ بے ہوشی اس وقت پیدا ہوگی جب صور میں پہلی بار پھونک مارا جائے گا، دو پھونک کے درمیان چالیس سالوں کا فاصلہ ہوگا۔
[28] اسے نسائی( ۱۳۷۳) ، ابو داود (۱۰۴۷) ، ابن ماجہ (۱۰۸۵) اور احمد (۴/۸) نے روایت کیا ہے اور البانی نے صحیح ابی داود میں اور مسند کے محققین نے (حدیث: ۱۶۱۶۲) کے تحت اسے صحیح کہا ہے۔
المرفقات
1617419974_فرشتوں پر ایمان.pdf