عبادت میں اللہ کو ایک ماننا واجب ہے

سيف الرحمن التيمي
1442/07/02 - 2021/02/14 08:58AM

موضوع الخطبة: وجوب إفراد الله بالعبادة

الخطيب : فضيلة الشيخ ماجد بن سليمان الرسي/حفظه الله

لغة الترجمة: الأردو

خطبہ کا موضوع:

عبادت میں اللہ کو ایک ماننا واجب ہے

پہلا خطبہ:

إن الحمد الله، نحمده ونستعينه،ونعوذ بالله من شرور أنفسنا ومن سيئات أعمالنا،من يهده الله فلا مضل له،ومن يضلل فلا هادي له،وأشهد أن لا إله الإ الله وحده لا شريك له وأشهد أن محمدا عبده ورسوله.

(يا أيها الذين آمنوا اتقوا الله حق تقاته ولا تموتن الإ وانتم المسلمون)

 (يا أيها الناس اتقوا ربكم الذي خلقكم من نفس واحدة وخلق منها زوجها وبث منهما رجالا كثيرا ونساء واتقوا الله الذي يتسائلون به والارحام إن الله كان عليكم رقيبا)

 (يا أيها الذين آمنوا اتقوا الله وقولوا قولا سديدا يصلح لكم اعمالكم ويغفر لكم ذنوبكم ومن يطع الله ورسوله فقد فاز فوزا عظيما)

حمد وصلاة کے بعد:

سب سے بہترین کلام اللہ کا کلام ہے،اور سب سے بہترین طریقہ محمد ﷐  کا طریقہ ہے،سب سے بدترین چیز دین میں ایجاد کردہ بدعتیں ہیں،اور(دین میں)ہر ایجاد کردہ چیز بدعت ہے،اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے۔

اے مسلمانوں!اللہ تعالی سے ڈرو اور اس سے خوف کھاؤ،اس کی اطاعت کرو اور اس کی نافرمانی سے بچواور یہ ذہن نشیں کرلو کہ اللہ کا سب سے عظیم حکم توحید ہے،اور توحید کا(مفہوم)ہے عبادات میں اللہ کو ایک جاننا اور ماننا،(اس طور پر کہ)آپ تنے تنہا اسی کی عبادت کریں،اس کے ساتھ کسی کو شریک وساجھی نہ بنائیں،وہ ایسا مقصد ومرام ہے جس کی خاطر ہی اللہ نے انسان اور جنات  کو پیدا کیا،اللہ تعالی فرماتا ہے(وما خلقت الجن والإنس إلا ليعبدون )

ترجمہ:میں نے جنات اور انسانوں کو محض اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ صرف میری عبادت کریں۔

عبادت کے اندر وہ تمام اقوال اور ظاہری وباطنی اعمال شامل ہیں جن سے اللہ محبت کرتا اور خوش ہوتا ہے۔

ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:(نماز،زکاة،روزہ،حج،صدق گوئی،امانت کی ادائگی،والدین کے ساتھ حسن سلوک،صلہ رحمی،ایفاءِعہد،امربالمعروف والنہی عن المنکر،کفار اور منافقین کے ساتھ جہاد،پڑوسی،یتیم،مسکین،مسافر اور غلاموں کے ساتھ  اچھا برتاؤ،جانوروں کے ساتھ اچھا سلوک،دعا،ذکر واذکار،تلاوت قرآن،اور اس طرح کے دیگر اعمال عبادات میں شمار ہوتے ہیں۔

اسی طرح اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرنا،خشیت الہی اور انابت الی اللہ ،اللہ کے لئےدین کو خالص کرنا،اس کے حکم پر صبر وتحمل کرنا،اس کی نعمت کا شکریہ ادا کرنا،اس کے فیصلے سے خوش ہونا،اس پر بھروسہ کرنا،اس کی رحمت کی امید کرنا،اس کے عذاب سے خوف کھانا بھی اللہ کی عبادت میں داخل ہیں) ۔ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی بات ختم ہوئی

اے اللہ کے بندو!یقینا انبیاء ورسل علیہم الصلاة والسلام کی دعوت توحید کی اسی قسم یعنی توحید الوہیت میں محصور تھی۔اللہ تعالی فرماتا ہے(وما ارسلنا من قبلك من رسول الإ نوحي إليه أنه لا إله الإ أنا فاعبدون)

ترجمہ:تجھ سے پہلے بھی جو رسول ہم نے بھیجا اس کی طرف یہی وحی نازل فرمائی کہ میرے سوا کوئی معبود بر حق نہیں پس تم سب میری ہی عبادت کرو۔

تمام انبیاء ورسل اپنی قوموں سے یہی کہا کرتے تھے کہ(اعبدوا الله ما لكم من إله غيره)

ترجمہ:اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔

اے مومنو!اتمام معبودان باطلہ کے ماسوا اللہ ہی عبادت وبندگی کا حقدار ہے۔ اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ وہ اس دنیا  کو پیدا کرنے میں تنے تنہا اور منفرد ہے، اس میں اس کا کوئی شریک اور معین  و مددگار نہیں،ربوبیت کے اندر تخلیق،بادشاہت،تدبیر اور رزق سے نوازنا بھی شامل ہے،خالق و مالک،رازق،اور حکم نافذ کرنے،اور تدبیر کرنے والا صرف اللہ ہی ہے۔

اللہ  تعالی تخلیق میں اپنی انفرادیت کو بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے: (الله خالق كل شيء وهو على كل شيء وكيل)

ترجمہ: اللہ ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے اور وہ ہر چیز پر نگہبان ہے۔

بادشاہت میں اپنی انفرادیت کو واضح کرتے ہوئے کہا:(ذلكم الله ربكم له الملك والذين تدعون من دونه ما يملكون من قطمير)

ترجمہ:اللہ تم سب کا پالنے والاہے ‘  اسی کی سلطنت ہے،جنہیں تم اس کے سواپکار رہے ہو وہ تو کھجور کی گٹھلی کے چھلکے کے بھی مالک نہیں۔

قطمیر سفید باریک چھلکا کو کہتے ہیں  جو کھجور کی گٹھلی  پر ہوتا ہے۔

حکم نافذ کرنے اور تدبیر کرنے میں اس کے منفرد ہونے کی دلیل یہ ہے: (وإليه يرجع الأمر كله)

ترجمہ: تمام معاملات کا رجوع بھی اسی کی جانب ہے۔

تدبیر کائنات‘   جس میں زندگی وموت دینا،بارش وقحط سالی پیدا کرنا،مالدار وفقیر بنانا،صحت مند وبیمار کرنا‘  امن سے نوازنا  اورخوف پیدا کرنا اور ان کے علاوہ وہ تمام چیزیں شامل ہیں جو اس  دنیا میں  رونما ہوتی  ہیں،وہ تمام کے تمام اللہ تعالی کے حکم سے ہی  انجام پاتے ہیں۔رزق میں اللہ کی انفرادیت کی دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان  ہے: (إن الله هو الرزاق ذو القوة المتين)

ترجمہ : اللہ تعالی تو خود ہی سب کا روزی رساں توانائی والا اور زور آور ہے۔

اے مسلمانوں!توحید الوہیت کی ضد اللہ تعالی کی عبادت میں شرک کرناہے، شرک یہ ہے کہ : کسی بھی عبادت کو غیر اللہ کے لئے انجام دیا جائے ،اس طور پر کہ انسان اللہ کے لئے کوئی ایسا شریک وساجھی  بنالے جس کی وہ اسی طرح عبادت کرے جس طرح اللہ کی عبادت کرتا ہے،اسی طرح اس سے ڈرے جس طرح اللہ سے ڈرتا ہے،کسی بھی عبادت کے ذریعے اسی طرح اس کا تقرب حاصل کرے جس طرح اللہ کا تقرب حاصل کرتا ہے،ان لوگوں کی طرح جو قبروں کی عبادت کرتے،ان کے لئے ذبیحہ اور نذر ونیاز پیش کرتے،ان کا طواف کرتے،ان کے دروازوں کو چومتے اور ان سے برکت حاصل کرتے ہیں،ان کا یہ اعتقاد ہوتا ہے کہ یہ اصحاب قبور رزق سے نوازتے ہیں،یا نفع یا نقصان پہنچاتے ہیں،اسی طرح دیگر اعمال پورا کرتے ہیں،یہ ایسے شرکیہ اعمال ہیں جو بندے کے اس ایمان ویقین کو کمزور کردیتے ہیں کہ معبودان باطلہ کے  بجائے   اللہ ہی  تمام تر عبادتوں  کا سزاوار ہے ۔

اےاللہ کے بندو !شرک وہ سب سے عظیم معصیت  ہے جس سے اللہ نے منع فرمایا ہے،اللہ بلند وبالا اپنے  نبی سے کہتاہے:(ولقدأوحي إليك وإلى الذين من قبلك لئن أشركت ليحبطن عملك ولتكونن من الخاسرين،بل الله فاعبد وكن من الشاكرين)

ترجمہ:یقینا تیری طرف بھی اور تجھ سے پہلے(کے تمام نبیوں)کی طرف بھی وحی کی گئی ہے کہ اگر تو نے شرک کیا توبلاشبہ تیرا عمل ضائع ہوجائے گا اور بالیقین تو زیاں کاروں میں سے ہوجائے گا۔

یقینا اللہ نےشرک کے لئے بڑی سزا متعین کی ہے۔ چناں چہ  اللہ فرماتا ہے: (إنه من يشرك بالله فقد حرم الله عليه الجنة ومأواه النار وما للظالمين من أنصار)

ترجمہ:یقین مانو کہ جو شخص اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے اللہ تعالی نے اس پر جنت حرام کردی ہے،اس کا ٹھکانا جہنم ہی ہے اور گناہگاروں کی مدد کرنے والا کوئی نہیں ہوگا۔

اے مومنو!اللہ نے بہت ساری شرعی وعقلی دلیلوں کی روشنی میں شرک کو باطل قرار دیا ہے،جہاں تک شرعی دلیل کی بات ہے تو  اس کی مثال اللہ کا یہ  فرمان  ہے: (إنه من يشرك بالله فقد حرم الله عليه الجنة ومأواه النار وما للظالمين من أنصار)

ترجمہ:یقین مانو کہ جو شخص اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے اللہ تعالی نے اس پر جنت حرام کردی ہے،اس کا ٹھکانا جہنم ہی ہے اور گناہگاروں کی مدد کرنے والا کوئی نہیں ہوگا۔

جہاں تک شرک کو باطل قرار دینے والی عقلی دلائل کی بات ہے تو وہ بہت ہیں ان میں سے سب سے اہم یہ  دو دلیلیں  ہیں:

۱-پہلی دلیل یہ ہے کہ مشرکین جن معبود کی عبادت کرتے ہیں ان کے اندر الوہیت کی کوئی خاصیت نہیں پائی جاتی ہے،وہ ایسی مخلوق ہیں جو تخلیق نہیں کرستیں،نہ اپنی عبادت کرنے والے کو نفع پہونچاسکتیں اورنہ ہی نقصان سے دو چار کرسکتیں، نہ  ان کی موت وحیات  ان کی ملکیت میں ہیں ‘  نہ ہی آسمان زمیں کی کوئی اور  چیز اور نہ ہی وہ اللہ کو اپنی ملکیت میں شریک کرسکتیں،اللہ تعالی فرماتا ہے:(وَٱتَّخَذُواْ مِن دُونِهِۦ ءَالِهَةً لَّا يَخْلُقُونَ شَيْـًٔا وَهُمْ يُخْلَقُونَ وَلَا يَمْلِكُونَ لِأَنفُسِهِمْ ضَرًّا وَلَا نَفْعًا وَلَا يَمْلِكُونَ مَوْتًا وَلَا حَيَوٰةً وَلَا نُشُورًا)

ترجمہ:ان لوگوں نے اللہ کے سوا جنہیں اپنے معبود ٹھہرا رکھے ہیں وہ کسی چیز کو پیدا نہیں کرسکتے بلکہ وہ خود پیدا کئے جاتے ہیں،یہ تو اپنی جان کے نقصان کا بھی اختیار نہیں رکھتے اور نہ موت وحیات کے اور نہ ہی دوبارہ جی اٹھنے کے وہ مالک ہیں۔

اللہ مزید فرماتا ہے:(قُلِ ٱدْعُواْ ٱلَّذِينَ زَعَمْتُم مِّن دُونِ ٱللَّهِ   لَا يَمْلِكُونَ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ فِى ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَلَا فِى ٱلْأَرْضِ وَمَا لَهُمْ فِيهِمَا مِن شِرْكٍ وَمَا لَهُۥ مِنْهُم مِّن ظَهِيرٍ،وَلَا تَنفَعُ ٱلشَّفَٰعَةُ عِندَهُۥٓ إِلَّا لِمَنْ أَذِنَ لَهُۥ   حَتَّىٰٓ إِذَا فُزِّعَ عَن قُلُوبِهِمْ قَالُواْ مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ قَالُواْ ٱلْحَقَّ  وَهُوَ ٱلْعَلِىُّ ٱلْكَبِيرُ)

ترجمہ:کہہ دیجئے!کہ اللہ کے سوا جن جن کا تمہیں گمان ہے(سب)کو پکارلو نہ ان میں سے کسی کو آسمانوں اور زمینوں میں سے ایک ذرہ کا اختیار ہے،نہ ان کا ان میں کوئی حصہ نہ ان میں سے کوئی اللہ کا مدد گار ہے،شفاعت(شفارش)بھی اس کے پاس کچھ نفع نہیں دیتی بجز ان کے جن کے لئے اجازت ہوجائے،یہاں تک کہ جب ان کے دلوں سے گھبراہٹ دور کردی جاتی ہے تو پوچھتے ہیں تمہارے پروردگار نے کیا فرمایا؟جواب دیتے ہیں کہ حق فرمایا اور بہت بلند وبالا اور بہت بڑا ہے۔

جب ان معبود کی یہ حالت ہے تو ان کو معبود بنانا انتہائی درجے کی بیوقوفی اور حد درجہ کی بےبنیاد بات ہے۔

۲-اے اللہ کے بندے،بطلانِ شرک کی دوسری دلیل یہ ہے کہ یہ مشرکین اس بات کا اعتراف کیا کرتے تھے کہ یقینا اللہ پاک ہی صرف رب اور خالق ہے جس کے ہاتھ میں ہر چیز کی ملکیت ہے،وہی نجات دیتا ہے،اس کے عذاب سے کوئی نجات دینے والا نہیں،(مشرکین کےاس نظریہ سے)یہ بات لازمی  طور پر سمجھ میں آتی ہے کہ وہ الوہیت میں اللہ کو ایک مانتے تھے جس طرح ربوبیت میں اللہ کو ایک تسلیم کرتے تھے،جیسا کی اللہ کا فرمان ہے: (أيها الناس اعبدوا ربكم الذي خلقكم والذين من قبلكم لعلكم تتقون،ٱلَّذِى جَعَلَ لَكُمُ ٱلْأَرْضَ فِرَٰشًا وَٱلسَّمَآءَ بِنَآءً وَأَنزَلَ مِنَ ٱلسَّمَآءِ مَآءً فَأَخْرَجَ بِهِۦ مِنَ ٱلثَّمَرَٰتِ رِزْقًا لَّكُمْ فَلَا تَجْعَلُواْ لِلَّهِ أَندَادًا وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ)

ترجمہ:اے لوگو! اپنے اس رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں اور تم سے پہلے لوگوں کو پیداکیا،یہی تمہارا بچاؤ ہے،جس نے تمہارے لئے زمین کو فرش اور آسمان کو چھت بنایا اور آسمان سے پانی اتار کر اس سے پھل پیدا کرکے تمہیں روزی دی،خبردار! باوجود جاننے کے اللہ کے شریک مقرر نہ کرو۔

ان تمام دلیلوں کی بنیاد پر ہر وہ چیز جسے معبود تسلیم کرکے اللہ کے علاوہ یا اللہ کے ساتھ اس کی عبادت کی جائے، اس کی عبادت باطل  وبے بنیاد ہے۔جیسا کہ اللہ فرماتا ہے:  (ذَٰلِكَ بِأَنَّ ٱللَّهَ هُوَ ٱلْحَقُّ وَأَنَّ مَا يَدْعُونَ مِن دُونِهِ ٱلْبَٰطِلُ وَأَنَّ ٱللَّهَ هُوَ ٱلْعَلِىُّ ٱلْكَبِيرُ)

ترجمہ:یہ سب (انتظامات)اس وجہ سے ہیں کہ اللہ تعالی حق ہے اور اس کے سوا جن جن کو لوگ پکارتے ہیں سب باطل ہیں اور یقینا اللہ تعالی بہت بلندیوں والا اور بڑی شان والا ہے۔

اللہ میرے اور آپ کے لئے قرآن عظیم میں برکت ڈال دے،مجھے اور آپ کو آیات اور حکمت پرمبنی نصیحت کے ذریعے  نفع پہنچائے،میں اپنی  یہ بات کہتے ہوئے اللہ سے اپنے لئے اور آپ  سب کے لئے بخشش کا طلب گار ہوں، آپ بھی اس سے بخشش طلب کریں،یقینا وہ توبہ واستغفار کرنے والے کو بہت زیادہ بخشنے والا ہے۔

دوسرا خطبہ:

الحمد لله وكفى،وسلام على عباده الذين اصطفى

حمد وصلاة کے بعد!

آپ یہ یاد رکھیں-اللہ آپ کے ساتھ رحم وکرم کا معاملہ کرے-کہ عبادتوں میں سب سے زیادہ جن میں لوگ اللہ اور اس کے مخلوق کو باہم شریک ٹھہراتے ہیں وہ دعا جیسی عبادت ہے،قرآن و حدیث کے اندر اللہ کے لئے دعا کو خالص کرنے کی اہمیت اور غیر اللہ سے دعا کرنے کی  ممانعت پر تاکید آئی ہے،ان میں اللہ کا یہ فرمان بھی ہے: (ادعوا ربكم تضرعا وخفية) ترجمہ: تم لوگ اپنے پروردگار سے دعا کیا کرو گڑ گڑا کے بھی اور چپکے چپکے بھی۔

اللہ مزید فرماتا ہے:(أمن يجيب المضطر إذا دعاه ويكشف السوء ويجعلكم خلفاء الأرض)

ترجمہ: بےکس کی پکار کو جب کہ وہ پکارے،کون قبول کرکے سختی کو دور کردیتا ہے اورتمہیں زمین کا خلیفہ بناتا ہے۔

اللہ کا ارشاد ہے:(وإذا سألك عبادي عني فإني قريب أجيب دعوة الداع إذا دعان)

ترجمہ: جب میرے بندے میرے بارے میں آپ سے سوال کریں تو آپ کہہ دیں کہ میں بہت ہی قریب ہوں ہر پکارنے والے کی پکار کو جب بھی وہ مجھے پکارے قبول کرتا ہوں۔

اللہ بلند وبالا کا یہ بھی فرمان ہے:(وأسألوا الله من فضله)

ترجمہ: اللہ تعالی سے اس کا فضل مانگو۔

متعدد صیغوں کے ساتھ قرآن کے اندر تین سو مخلتف مقامات پر دعا کے اندر اللہ کی انفرادیت کی دلیل آئی ہے۔

اے اللہ کے بندو دعا میں اخلاص پیدا کرو،کامیابی  سے ہمکنار ہوگے۔

رسول اللہ ﷐ نے فرمایا :"  جو شخص اس حالت میں مر جائے کہ وہ اللہ کے سوا اوروں کو بھی اس کا شریک ٹھہراتا رہا ہو تو وہ جہنم میں جاتا ہے"[1]۔

صحیحین میں ہے کہ  رسول اللہ ﷐ سے سوال کیا گیا کہ اللہ کے نزدیک سب بڑا گناہ کیا ہے؟

آپ نے فرمایا:" یہ کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو برابر ٹھہراؤ حالانکہ اللہ ہی نے تم کو پید اکیا ہے"[2]۔

ند کے  معنی  ہم  مثل  اور برابر  کے ہیں۔

ہر وہ شخص جس نے غیر اللہ سے دعاو مناجات کی،یا اس سے مدد طلب کی،یا اس کے لئے ذبیحہ پیش کیا،یا اس کے لئے کسی طرح کی عبادت کی،گویا اس نے اسے اللہ  کے ساتھ  برابر ٹھہرایا،چاہے(جسے برابری کا درجہ دیا جارہا ہے)وہ کوئی نبی  ہو،یا ولی،کوئی بادشاہ ہو یا جن، کوئی بت ہو یا کوئی دوسری مخلوق۔

قرآن میں دو جگہوں پراللہ نے اپنے علاوہ دوسروں  سے دعا کرنے کو باطل اور بے بنیاد قرار دیا ہے۔پہلی جگہ سورہ حج کے اندر ہے‘ اللہ کا فرمان ہے:(ذلك بأن الله هو الحق وأن ما يدعون من دونه هو الباطل)

ترجمہ: یہ سب اس لئے کہ اللہ ہی حق ہے اور اس کے سوا جسے بھی پکارتے ہیں وہ باطل ہے۔

دوسری جگہ سورہ لقمان کے اندر ہے‘  اللہ کا ارشاد ہے:(ذلك بأن الله هو الحق وأن ما يدعون من دونه الباطل)

ترجمہ: یہ سب اس لئے کہ اللہ ہی حق ہے اور اس کے سوا جسے بھی پکارتے ہیں وہ باطل ہے۔

اے مسلمانو!دعا کے اندر شرک پرانے زمانے میں بھی پایا گیا اور نئے زمانے میں بھی پایا جاتا ہے۔چاہے یہ شرک اصلی مشرکوں کے مابین ہو جیسے نصاری جنہوں نے مسیح سے دعا ومناجات کی،یا ہندوستانی مذاہب کے ماننے والوں میں  ہو جو گائے کو پکارتے ہیں، اور اپنے ہاتھوں سے تراشے ہوئے مجسموں اور بتوں سے دعا ومناجات کرتے ہیں،ان  کے علاوہ بھی بہت سے لوگ ہیں جو دعا میں شرک کرتے ہیں۔

اسی طرح بعض ایسی جماعتوں کے یہاں بھی دعا کے اندر شرک پایا جاتا ہےجو اپنی نسبت  اسلام کی طرف کرتے ہیں،جیسےوہ غالی  صوفی حضرات جو اپنے بزرگوں کو پکارتے اور ان سے تبرک حاصل کرتے ہیں،اسی طرح وہ روافض جو آل بیت کو پکارتے ہیں،اسی طرح قبرپرست حضرات جو صاحب قبر کو پکارتے ہیں،یہ تمام حضرات اس طرح کے شرک کے باوجود یہ گمان کرتے ہیں کہ وہ مسلمان ہیں،اور نبی کریم ﷐ سے محبت کرنے والے ہیں،حالانکہ اسلام ان کے اس شرک سے بری ہے،ہم اللہ سے فہم و فراست کے اس اندھے پن سے پناہ مانگتے ہیں،اور اللہ سے ہم یہ سوال کرتے ہیں وہ ہمارے اوپر توحید وسنت کی نعمت کو تادیر قائم رکھے۔

آپ یہ یاد رکھیں-اللہ آپ کے ساتھ رحم کا معاملہ کرے-کہ اللہ نے آپ کو ایک بہت بڑے عمل کا حکم دیا ہے،اللہ فرماتا ہے: (إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا)

ترجمہ:اللہ تعالی اور اس کے فرشتے اس نبی پر رحمت بھیجتے ہیں،اے ایمان والو!تم(بھی)ان پر درود بھیجو اور خوب سلام(بھی)بھیجتے رہا کرو۔

نبی ﷐ نے بھی اپنی امت کو جمعہ کےدن اپنےاوپر بکثرت درود پڑھنے پر ابھارتے ہوئے فرمایا:"تمہارے بہتر دنوں میں سے جمعہ کا دن بھی ایک بہتر دن ہے، اس لئے اس دن میرے اوپر کثرت سے درود بھیجو،کیونکہ تمہارا درودوسلام میرے اوپر پیش کیا جاتا ہے"اے اللہ تو اپنے بندے اور رسول محمد پر رحمت و سلامتی بھیج،تو ان کے خلفاء ،تابعین عظام اور قیامت تک اخلاص  کے ساتھ ان کی اتباع کرنے والوں سے راضی ہوجا۔

اے اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو عزت وسربلندی عطا فرما،شرک اور مشرکین کو ذلیل وخوار کر،تواپنے اور دین اسلام کے دشمنوں کو نیست ونابود کر اور اپنے موحدین بندوں کی مدد فرما،اے اللہ! تو ہمیں اپنے ملکوں میں سلامتی عطا کر،ہمارے اماموں اور ہمارے حاکموں کی اصلاح فرما،انہیں ہدایت کی رہنمائی کرنےوالا اور ہدایت پر چلنے والا بنا،اے اللہ !تو تمام مسلمانوں کے حکمراں کو اپنی کتاب کو نافذ کرنےاور اپنے دین کی سربلند کرنے کی توفیق سے نواز اور انہیں ان کے رعایوں کے لیے باعث رحمت بنا۔

اے اللہ!  جو ہمیں اور اسلام اور مسلمانوں کے تئیں شر کا ارادہ رکھے تواسے اپنی ذات میں مشغول کردے،اور اس کے مکر وفریب کو اس کےلئے وبال جان بنا۔

اے اللہ! مہنگائی ،وبا،سود،زنا،زلزلوں اور آزمائشوں کو ہم سے دور کردے اور ظاہری وباطنی فتنوں کی برائیوں کو ہمارے درمیان سے اٹھا لے،خصوصی طور پر ہمارے ملک سے اور عمومی طور تمام مسلمانوں کے ملکوں سے ،اے دونوں جہاں کے پالنہار!

اے اللہ! ہم سے بلاء ومصیبت  کو دور فرما،یقینا ہم مسلمان ہیں۔

اے ہمارے رب! ہمیں دینا میں نیکی دے اور آخرت میں بھی بھلائی عطا فرما،اور عذاب جہنم سے نجات بخش۔

اے اللہ کے بندو!یقینا اللہ تعالی عدل کا،بھلائی کا اور قرابت داروں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی کے کاموں،ناشائستہ حرکتوں اور ظلم وزیادتی سے روکتا ہے وہ خود تمہیں نصیحتیں کررہاہے کہ تم نصیحت حاصل کرو۔

تم اللہ عظیم کا ذکر کرو وہ تمہارا ذکر کرے گا،اس کی نعمتوں پر اس کا شکر بجالاؤ  وہ تمہیں مزید نعمتوں سے نوازے گا،اللہ کا ذکر بہت بڑی چیز ہے،تم جو کچھ بھی کرتے ہو وہ اس سے باخبر ہے۔

 

از قلم:ماجد بن سلیمان الرسی۔

۵ ربیع الثانی ۱۴۴۲ھ۔

شہر جبیل مملکہ سعودیہ عربیہ

ترجمہ: شفاء اللہ الیاس تیمی

[email protected]

@Ghiras_4T



[1]  اسے بخاری (۴۴۹۷) نے روایت کیا ہے۔
[2]  اسے بخاری (۴۷۶۱) اور مسلم (۸۶) نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کیا ہے۔

المشاهدات 1284 | التعليقات 0