سورۃ الفاتحۃ (سات دہرائی جانے والی آیتیں اور قرآن عظیم)
سيف الرحمن التيمي
موضوع الخطبة : الفاتحة (السبع المثاني والقرآن العظيم)
الخطيب : حسام بن عبد العزيز/ حفظه الله
لغة الترجمة : الأردو
المترجم :سيف الرحمن التيمي((@Ghiras_4T
موضوع:
سورۃ الفاتحۃ
(سات دہرائی جانے والی آیتیں اور قرآن عظیم)
پہلا خطبہ:
الحمد لله الذي افتتح كتابه بالحمد، فقال: ﴿ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ﴾ [الفاتحة: 2]، وأشهد أنْ لا إله إلاَّ الله، وحده لا شريك له، خلق فسوَّى وقدَّر فهدى، وأشهد أن محمَّدًا عبده ورسوله، وصفيُّه وخليله، صلَّى الله وسلَّم وبارك عليه، وعلى آله وصحبه، وسلَّمَ تسليمًا كثيرًا.
حمد وثنا کے بعد!
میں اپنے آپ کو اور آپ سب کو اللہ کا تقوی اختیار کرنے کی وصیت کرتا ہوں، اللہ تعالی نے جہاں آپ کو رہنے کا حکم دیا ہے وہاں آپ کو غائب نہ پائے اور جہاں جانے سے منع فرمایا ہے وہاں آپ کو موجود نہ دیکھے۔
میرے ایمانی بھائیو! آج ہم قرآن مجید کی عظیم ترین سورۃ کے بارے میں بات کریں گے، اللہ کے فضل سے یہ سورۃ بہت آسان ہے، تمام مسلمانوں کو ازبر ہے، کیوں کہ اس کے بغیر ان کی نماز ہی درست نہیں ہوتی، وہ سات دہرائی جانے والی آیتیں ہیں، ام القرآن، سورۃ الفاتحۃ اور دیگر ناموں سے موسوم ہے، ان ناموں میں : الشفاء، الکافیۃ، ام الکتاب، الرقیۃ ، الصلاۃ ، الواقیۃ اور الحمد سرفہرست ہیں۔
اتنے زیادہ نام اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ اس کی بڑی اہمیت وفضیلت آئی ہے۔
میں آپ کے سامنے اس کی فضیلت پر مشتمل دو حدیثیں ذکر کرنے جا رہا ہوں:
بخاری نے ابو سعید بن المعلّی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے ، وہ فرماتے ہیں: میں مسجد میں نماز پڑھ رہا تھا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے آواز دی لیکن میں اس وقت حاضر نہ ہو سکا۔ (نماز پڑھ کر آپ کے پاس آیا) تو میں نے کہا: اللہ کے رسول! میں نماز پڑھنے میں مصروف تھا۔ آپ نے فرمایا: ،،کیا اللہ تعالٰی کا یہ ارشاد گرامی نہیں: "اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانو جب وہ تمہیں بلائیں"۔ پھر فرمایا: "میں تیرے مسجد سے باہر جانے سے قبل تجھے ایک ایسی سورت بتاؤں گا جو قرآن کی تمام سورتوں سے بڑھ کر ہے"۔ پھر آپ نے میرا ہاتھ تھام لیا۔ جب آپ نے مسجد سے باہر آنے کا ارادہ فرمایا تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا تھا: "میں تجھے ایک ایسی سورت بتاؤں گا جو قرآن کی تمام سورتوں سے بڑھ کر ہے"۔ آپ نے فرمایا: "وہ سورت (الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ﴾ یعنی فاتحہ ہے۔ یہی سبع مثانی اور قرآن عظیم ہے جو مجھے دیا گیا ہے"۔
دوسری حدیث: اما م بخاری نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے وہ فرماتے ہیں: نبی ﷺ کے کچھ صحابہ کسی سفر پر روانہ ہوئے۔ جاتے جاتے انہوں نے عرب کے ایک قبیلے کے پاس پڑاؤکیا اور چاہا کہ اہل قبیلہ ان کی مہمانی کریں مگر انہوں نے اس سے صاف انکار کردیا۔ اسی دوران میں اس قبیلے کے سردارکو کسی زہریلی چیز نے ڈس لیا۔ ان لوگوں نے ہر قسم کا علاج کیا مگر کوئی تدبیر کار گر نہ ہوئی۔ کسی نے کہا: تم ان لوگوں کے پاس جاؤ جو یہاں پڑاؤ کیے ہوئے ہیں۔ شاید ان میں سے کسی کے پاس کوئی علاج ہو، چنانچہ وہ لوگ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے پاس آئے اور کہنے لگے: اے لوگو!ہمارےسردار کو کسی زہریلی چیز نے ڈس لیا ہے اور ہم نے ہر قسم کی تدبیر کی ہے مگر کچھ فائدہ نہیں ہوا، کیا تم میں سے کسی کے پاس کوئی چیز (علاج) ہے؟ ان میں سے ایک نے کہا: اللہ کی قسم! میں جھاڑ پھونک کرتا ہوں، لیکن واللہ !تم لوگوں سےہم نے اپنی مہمانی کی خواہش کی تھی تو تم نے اسے مسترد کردیا تھا، اب میں بھی تمہارے لیے جھاڑ پھونک نہیں کروں گا جب تک تم ہمارے لیے کوئی اجرت مقرر نہیں کروگے۔ آخر انہوں نےچند بکریوں کی اجرت پر ان کو راضی کر لیا۔ چنانچہ (صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں سے) ایک آدمی گیااور سورہ فاتحہ پڑھ کردم کرنے لگا تو وہ شخص (ایسا صحت یاب ہوا) گویا اس کے بند کھول دیے گئے ہوں، پھر وہ اٹھ کر چلنے پھر نے لگا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اسے کوئی بیماری تھی ہی نہیں۔ راوی کہتے ہیں: ان لوگوں نے ان کی مقررہ اجرت ان کے حوالے کردی تو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین آپس میں کہنے لگے: اسے تقسیم کر لو۔ لیکن دم کرنے والے نے کہا: ابھی تقسیم نہ کروتاوقتیکہ ہم نبی ﷺ کی خدمت میں پہنچ کر اس واقعے کا تذکرہ کریں اور معلوم کریں کہ آپ ﷺ اس کے متعلق کیا حکم دیتے ہیں۔ چنانچہ وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے یہ واقعہ عرض کیا تو آپ نے فرمایا: "تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ(سورہ فاتحہ)سے جھاڑ پھونک کی جاتی ہے؟" پھر فرمایا: "تم نے ٹھیک کیا۔ انہیں تقسیم کرلو، بلکہ اپنے ساتھ میرا حصہ بھی رکھو"۔ یہ کہہ کر نبی ﷺ مسکرادیے۔
اے نمازیو! اس سورۃ کی تفسیر میں علمائے کرام نے جو فکر انگیز باتیں، فوائد اور لطائف ذکر کیے ہیں، میں انہیں آپ کے سامنے ذکر کرنے جا رہا ہوں۔
اس کے آغاز میں اللہ پاک نے اپنی حمد وثنا ذکر کی ہے، اور اپنی حمد کے لیے کسی زمان ومکان کی تحدید نہیں کی ہے، تاکہ اس میں تمام قسم کی حمد وثنا شامل ہوسکے، حمد ایسی ثنا کو کہتے ہیں جس میں شکر کا معنی پایا جاتا ہے، اس میں اللہ پاک کی تعریف شامل ہے، صحیح حدیث میں آیا ہے : (الحمد لله ترازو کو بھر دیتا ہے)۔
﴿ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ﴾ [الفاتحة: 2] میں ﴿ العالَمين ﴾ سے مراد ایک قول کے مطابق: انس وجن ہیں۔ ایک قول ہے کہ: اس سے مراد اللہ پاک کے سوا تمام موجودات ہیں۔ یہ سب سے عام قول ہے، جس میں انسان وجنات، فرشتے اور حیوان وغیرہ سب شامل ہیں، عالَم ایک علامت ہے جواپنے موجد پر دلالت کرتی ہے۔
﴿ قَالَ فِرْعَوْنُ وَمَا رَبُّ الْعَالَمِينَ * قَالَ رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا إِنْ كُنْتُمْ مُوقِنِينَ ﴾ [الشعراء: 23 - 24].
ترجمہ: فرعون نے کہا رب العالمین کیا (چیز) ہے؟ * (حضرت) موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا وه آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان کی تمام چیزوں کا رب ہے، اگر تم یقین رکھنے والے ہو۔
سعدی فرماتے ہیں : "رب وہ ہے جو تمام مخلوقات کا مربی اور پالنہار ہے- اس میں اللہ کے سوا تمام موجودات شامل ہیں- بایں طور کہ اللہ نے انہیں پیدا کیا، ان کے لیے سامان عیش تیار کیا، ان پر اپنے بیش بہا انعامات کیے، جو اگر موجود نہ ہوتے تو ان کے لیے زندہ رہنا ممکن نہ ہوتا، ان کے پاس جو بھی نعمت ہے وہ اللہ تعالی کی جانب سے ہے"۔
اللہ تعالی کے فرمان: ﴿ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ﴾ [الفاتحة: 3] کے بارے میں علمائے کرام فرماتے ہیں: ﴿ الرَّحْمَنِ ﴾ سے مراد وہ (پالنہار ہے) جس کی رحمت تمام مخلوقات کو شامل ہے، یہاں تک کہ کفار بھی اس میں شامل ہیں، اور﴿ الرَّحِيمِ ﴾ کی رحمت رحمن سے زیادہ خاص ہے۔ وہ مومنوں پر رحیم (مہربان ) ہے ۔ الرحمن اور الرحیم اللہ تبارک وتعالی کے دو اسمائے گرامی ہیں، جن سے اللہ تعالی کے لیے اس کے شایان شان صفت رحمت ثابت ہوتی ہے۔
قرطبی فرماتے ہیں: "اللہ تعالی نے ﴿ رَبِّ الْعَالَمِينَ ﴾ کے بعد اپنی ذات کی صفت ﴿ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ﴾ بتائی ہے ، کیوں کہ اللہ تعالی کی صفت﴿ رَبِّ الْعَالَمِينَ ﴾ میں ترہیب پائی جاتی ہے، اسی لیے اس کے ساتھ ﴿ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ﴾ کا ذکر کیا جس میں ترغیب شامل ہے۔ تاکہ اس کی صفات میں اس کا خوف اور اس کی رغبت دونوں شامل ہو ں، جس سے اس کی اطاعت میں زیادہ مدد ملے اور (گناہوں سے باز رہنے میں) زیادہ کارگر ثابت ہو" ۔ انتہی
ہمارا پروردگار دنیا وآخرت کا مالک اور ان میں تصرف کرنے والا ہے: ﴿ يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ ﴾ [المطففين: 6]
ترجمہ: جس دن سب لوگ رب العالمین کے سامنے کھڑے ہوں گے۔
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اللہ نے اپنی ملکیت کو قیامت کے دن کے ساتھ خاص کیوں کیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ: اس دن اللہ کی ملکیت، عدل وانصاف اور حکمت کا کمال اور تمام مخلوقات کے محتاجگی پورے طور پر مخلوق کےسامنے ظاہر ہوجائے گی، صحیحین کی مرفوع حدیث ہے: ”اللہ تعالٰی زمین کو اپنی مٹھی میں لے لے گا اور آسمانوں کو اپنے دائیں ہاتھ میں لپیٹ لے گا، پھر فرمائے گا:اب میں ہوں بادشاہ، آج زمین کے بادشاہ کہاں گئے؟۔“
اس دن حاکم ومحکوم سب برابر ہو جائیں گے، اس دن کوئی شخص کسی چیز کا دعوی نہیں کرے گا، اور نہ اللہ کی اجازت کے بغیر کوئی زبان کھول سکے گا:
﴿ يَوْمَ يَأْتِ لَا تَكَلَّمُ نَفْسٌ إِلَّا بِإِذْنِهِ فَمِنْهُمْ شَقِيٌّ وَسَعِيدٌ ﴾ [هود: 105].
ترجمہ: جس دن وه آجائے گی مجال نہ ہوگی کہ اللہ کی اجازت کے بغیر کوئی بات بھی کر لے، سو ان میں کوئی بدبخت ہوگا اور کوئی نیک بخت۔
اللہ تعالی کے فرمان: ﴿ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ﴾ [الفاتحة: 5]کی تفسیر میں ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: " میں نے غور کیا کہ سب سے نفع بخش دعا کون ہے تو معلوم ہوا کہ وہ یہ ہے کہ بندہ اللہ کی رضا مندی حاصل کرنے کی دعا کرے ، پھر میں نے سورۃ الفاتحہ میں یہ دعا پائی : ﴿ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ﴾ "۔ انتہی
ضحاک کہتے ہیں، ابن عباس سے مروی ہے : ﴿ إِيَّاكَ نَعْبُدُ﴾ کا مطلب ہے: ہم تیری توحید پر قائم ہیں، تجھ سے خوف کھاتے اور تجھ سے ہی امیدرکھتے ہیں، تیرے سوا سے نہیں۔﴿ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ﴾ اور (تجھ سے ہی مدد طلب کرتے ہیں) تیری اطاعت کی بجا آوری اور اپنے تمام امور کی انجا م دہی میں۔
ابن کثیر فرماتے ہیں: "مفعول جوکہ (إیاک) ہے ، کو مقدم کیا گیا ہے اور مکرر ذکر کیا گیا ہے، تاکہ اس سے اہتمام اور حصر کا فائدہ حاصل ہو، یعنی: ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں، اور تجھ پر ہی توکل کرتے ہیں"۔
آپ نے مزید فرمایا: " کلام کا اسلوب غیب سے مخاطب کی طرف پھیر دیا گیا ہے جس کی ایک مناسبت اور معنویت ہے، وہ یہ کہ جب اس نے اللہ کی حمد وثنا کی تو گویا وہ اللہ تعالی کے سامنے حاضر ہوگیا، اسی لیے اس کے بعد کہا: (ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے مدد مانگتے ہیں)۔"
اللہ تعالی مجھے اور آپ کو قرآن وسنت کی برکت سے بہرہ ور فرمائے ۔
دوسرا خطبہ:
الحمد لله حمدًا كثيرًا طيِّبًا مبارَكًا فيه، وصلَّى الله وسلَّم على نبيِّنا محمَّد، وعلى آله وصحبه، وسلَّم تسليمًا كثيرًا.
حمد وصلاۃ کے بعد:
آئیے ہم سورۃ الفاتحہ پر غور وفکر کرتے ہیں، کسی سلف کا قول ہے: فاتحہ قرآن کا راز ہے اور اس کا راز یہ آیت ہے: ﴿ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ﴾ [الفاتحة: 5]
شیخ سعدی فرماتے ہیں: "عبادت کے بعد استعانت کا ذکر فرمایا جبکہ عبادت میں استعانت بھی داخل ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ بندہ اپنی تمام تر عبادتوں میں اللہ تعالی کی مدد کا محتاج ہوتا ہے، کیوں کہ اگر اللہ تعالی کی مدد شامل حال نہ ہو تو وہ محض اپنے ارادے سے نہ اوامر پر عمل کرسکتا ہے اور نہ نواہی سے بچ سکتا ہے"۔انتہی
اس کے بعد عظیم دعا کا ذکر ہے ، یعنی راہ مستقیم کی ہدایت کا سوال، اس اسلام کی ہدایت جو روشن شاہراہ ہے، جو اللہ کی رضا اور اس کی جنت کی طرف لے جاتی ہے، جس کی رہنمائی انبیاء ورسل کے خاتم محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی۔
سعدی فرماتے ہیں: "ہمیں سیدھی راہ کی رہنمائی فرمائی اور سیدھی راہ پر ہمیں ہدایت دے ۔ صراط مستقیم کی ہدایت کا مطلب ہے: دین اسلام کو لازم پکڑنا اور اس کے سوا تمام ادیان سے دامن کش رہنا، راہ مستقیم پر ہدایت کا مطلب ہے دین کی تمام تفصیلات کی رہنمائی فرما، علمی اور عملی دونوں طور پر"۔انتہی
ان نبیوں ، صدیقین، شہداء اور نیک لوگوں کی راہ پر چلا جن پر اللہ! تونے نے انعام فرمایا، وہی ہدایت اور استقامت پر قائم تھے، ہمیں ان لوگوں میں شامل نہ فرما جو غضب یافتہ لوگوں کی راہ پر چلتے ہیں، جنہوں نے حق کو جان کر اس پر عمل نہیں کیا، ان سے مراد یہود اور ان کی پیروی کرنے والے لوگ ہیں۔ اور ہمیں گمراہ لوگوں میں بھی شامل نہ کر، یعنی وہ لوگ جو ہدایت سے محروم رہے اور راہ بھٹک گئے ، اور وہ ہیں نصاری اور ان کے طریقے کی پیروی کرنے والے لوگ۔
عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: " (نصرانیوں کی) یہ حالت بعثت سے قبل کی ہے" ۔ " لیکن بعثت کے بعد انہوں نے حق کو جان لیا ، پھر بھی اس کی خلاف ورزی کی، چنانچہ وہ اور یہود برابر ہوگئے ، ان سب پر اللہ کا غضب نازل ہوا"۔انتہی
امام طحاوی فرماتے ہیں: "سب سے نفع بخش، عظیم ترین اور سب سے پختہ دعا سورۃ الفاتحہ کی یہ دعا ہے: ﴿ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ﴾ [الفاتحة: 6]کیوں کہ جب اللہ تعالی اس راہ مستقیم کی ہدایت عطا کرتا ہے تو اپنی اطاعت کی بجاآوری اور اپنی نافرمانی سے اجتناب کرنے پر اس کی مدد کرتا ہے، چنانچہ اسے دنیا وآخرت میں کوئی پریشانی لاحق نہیں ہوتی"۔
اے نمازیو! یہ عظیم سورۃ مختصر ہونے کے باوجود بڑے عظیم معانی پر مشتمل ہے، چنانچہ یہ سورۃ جن امور پر مشتمل ہے، وہ یہ ہیں: اللہ کی تعریف وکبریائی، اس کی حمد وثنا ، آخر ت کا ذکر، اللہ کا اپنے بندوں کو دعا اور گریہ وزاری کرنے، اس کے لیے تمام تر عبادتوں کو خالص کرنے، اس کی توحید پر قائم رہنے، اپنی تمام تر طاقت وقوت سے براءت کا اظہار کرتے ہوئے اللہ سے صراط مستقیم کی ہدایت طلب کرنے کی رہنمائی کرنا، وہ صراط مستقیم جو سیدھا دین ہے ، نیز یہ دعا کرنے کی رہنمائی کہ اللہ انہیں راہ مستقیم پر ثابت قدم رکھے تاکہ وہ قیامت کے دن حسی طور پر پل صراط عبور کرنے میں کامیاب ہوسکیں، اور نعمتوں والی جنت کے اندر انہیں نبیوں، صدیقین، شہداء اور صالحین کا جوار نصیب ہو، اسی طرح اس سورۃ کے اندر باطل پرستوں کے طریقوں سے ہوشیار رہنے کی تنبیہ کی گئی ہے، یعنی ان لوگوں کی راہ سے جن پر اللہ کا غضب ہوا جنہوں نے حق کو جان کر اسے ترک کردیا، اور گمراہ لوگوں کی راہ سے جنہوں نے جہالت کے ساتھ عبادت کی تو خود بھی گمراہ ہوئے اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا ۔
قاری کے لیے مسنون ہے کہ جب سورۃ الفاتحہ کی قراءت سے فارغ ہو تو آمین کہے، اس کی فضیلت میں صحیحین کی ایک مرفوع روایت آئی ہے: "جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو کیونکہ جس کی آمین فرشتوں کی آمین کے موافق ہو گئی، اس کے گزشتہ گناہ معاف کر دیے جائیں گے"۔
اے اللہ! ہمیں تو نے جو بھی علم دیا ہے، اسے ہمارے لیے نفع بخش بنادے۔
صلى اللہ علیہ وسلم
از قلم:
فضیلۃ الشیخ حسام بن عبد العزیز الجبرین
مترجم:
سیف الرحمن تیمی