زمین میں فساد پھیلانے کی ممانعت

سيف الرحمن التيمي
1442/07/07 - 2021/02/19 05:23AM

موضوع الخطبة: النهي عن الفساد في الأرض

الخطيب : فضيلة الشيخ ماجد بن سليمان الرسي/حفظه الله

لغة الترجمة: الأردو

المترجم: سيف الرحمن حفظ الرحمن التيمي (@Ghiras_4T)

 

موضوع:

 زمین میں فساد پھیلانے   کی ممانعت

پہلا خطبہ:

إن الحمد لله نحمده ، ونستعينه، ونعوذ بالله من شرور أنفسنا ومن سيئات أعمالنا، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أن محمدا عبده ورسوله.

(يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ)

(يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا)

(يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا)

 

حمد وثنا کے بعد!

سب سے بہترین کلام اللہ کا کلام ہے، اور سب سے بہترین طریقہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے، سب سے بدترین  چیز  دین میں  ایجاد کردہ بدعتیں ہیں، اور ہر ایجاد کردہ چیز بدعت ہے، ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے۔

اے مسلمانو! اللہ تعالی سے ڈرو اور اس کا خوف  ہمہ وقت دلوں میں زندہ رکھو، اس کی اطاعت کرو اور اس کی نافرمانی سے بچتے رہو،  جان رکھو کہ اللہ تعالی نے اصلاح کا حکم دیا ہے اور فساد وبگاڑ سے منع فرمایا ہے ، شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم سےکہا:

ترجمہ: میرااردہ تو اپنی طاقت بھر اصلاح کرنا ہی ہے۔میری توفیق تو اللہ ہی کی مدد سے ہے۔اسی پر میرا بھروسہ ہے اور اسی کی طرف میں رجوع کرتا ہوں۔

اللہ تعالی نے اصلاح کرنے والوں سے اجر عظیم کا وعدہ فرمایا ہے ، فرمان باری تعالی ہے: (إِنْ أُرِيدُ إِلَّا الْإِصْلَاحَ مَا اسْتَطَعْتُ وَمَا تَوْفِيقِي إِلَّا بِاللَّهِ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ أُنِيبُ)

ترجمہ: میں تو جہاں تک مجھ سے ہوسکے (تمہارے معاملات کی) اصلاح چاہتا ہوں اور (اس بارے میں) مجھے توفیق کا ملنا خدا ہی (کے فضل) سے ہے۔ میں اسی پر بھروسہ رکھتا ہوں اور اس کی طرف رجوع کرتا ہوں۔

نیز اللہ نے یہ وعدہ بھی  کیا  ہے کہ  ایسی بستی کو ہلاک نہیں کرے گا جس کے باشندے اصلاح کرنے والے اور حکم الہی پر چلنے والے ہوں، ارشاد ربانی ہے: (وَمَا كَانَ رَبُّكَ لِيُهْلِكَ الْقُرَى بِظُلْمٍ وَأَهْلُهَا مُصْلِحُونَ)

ترجمہ: آپ کا رب ایسا نہیں کہ کسی بستی کو ظلم سے ہلاک کردے اور وہاں کے لوگ نیکو کا ر ہوں۔

اے مسلمانو! اصلاح کی ضد فساد وبگاڑ ہے ، اللہ تعالی فساد اور فساد پھیلانے والوں کو سخت نا پسند کرتا ہے:( واللَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ)

ترجمہ: اللہ تعالی فسادیوں سے محبت نہیں کرتا۔

اللہ نے فساد پھیلانے سے منع فرمایا ہے: (وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ)

ترجمہ: زمین میں فساد نہ کرتے پھرو۔

ساتھ ہی فسادیوں کو وعید بھی سنائی ہے: (فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِينَ)

ترجمہ: دیکھئے ان مفسدوں کا کیا انجام ہوا؟

اللہ تعالی نے  بہت سی فساد انگیز قوموں کو ہلاک وبرباد کردیا ، فرعون کے بارے میں اللہ کا فرمان ہے:( إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِي الْأَرْضِ وَجَعَلَ أَهْلَهَا شِيَعًا يَسْتَضْعِفُ طَائِفَةً مِنْهُمْ يُذَبِّحُ أَبْنَاءَهُمْ وَيَسْتَحْيِي نِسَاءَهُمْ إِنَّهُ كَانَ مِنَ الْمُفْسِدِينَ)

ترجمہ: یقینا ًفرعون نے زمین میں سرکشی کر رکھی تھی، اور وہاں کے لوگوں کو گروہ گروہ بنا رکھا تھا اور ان میں سے ایک فرقہ کو کمزور کر رکھا تھا اور ان کے لڑکون کو تو ذبح کر ڈالتا تھا اور ان کی لڑکیوں کو زندہ چھوڑ دیتا تھا۔بے شک وشبہ وہ تھا  ہی مفسدوں میں سے ۔

اللہ تعالی نے منافقوں کو فسادیوں سے متصف کیا ہے اور یہ بیان کیا ہے کہ وہ فساد کو اصلاح سے موسوم کرتے تھے، فرمایا: (وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ قَالُوا إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ)

ترجمہ: جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ کرو تو جواب دیتے ہیں کہ ہم تو صرف اصلاح کرنے والے ہیں۔خبر دار ہو! یقینا یہی لوگ فساد کرنے والے ہیں ، لیکن شعور (سمجھ) نہیں رکھتے۔

اللہ تعالی نے مصلحوں  اور فساد یوں  میں تفریق کرتے ہوئے فرمایا:

(أَمْ نَجْعَلُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ كَالْمُفْسِدِينَ فِي الْأَرْضِ أَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقِينَ كَالْفُجَّارِ)

ترجمہ: کیا ہم ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے ان کے برابر کردیں گے جو (ہمیشہ)  زمین میں فساد مچاتےرہے، یا پرہیزگاروں کو بدکاروں جیسا کردیں گے؟

اے مومنو! عقیدے ، عبادات، اخلاق اور معاملات میں  بھی فساد   پیدا ہو تا ہے، عقیدے میں فساد پیدا ہونے کی ایک شکل یہ ہے کہ : غیر اللہ سے   تعلق داری رکھی جائے ، غیر اللہ کی قسم کھائی جائے ، اللہ کی شریعت  کو چھوڑ کر  کسی اور کے قانون کو فیصل بنایا جائے۔

عبادات میں بگاڑ پیدا ہونے کی شکل یہ ہے کہ  جان بوجھ کر فجر کی نماز طلوع آفتاب کے بعد ادا کی جائے، بدعتوں اور  دین میں ایجاد کردہ   اعمال  کے ذریعہ اللہ کا تقرب حاصل کیا جائے ،  جیسے عید میلاد النبی ۔

اخلاق میں فساد پیدا ہونے کی صورت یہ ہے کہ : بے پردگی اور  عملی میدانوں  میں  مرد وزن کے درمیان اختلاط کا مظاہرہ کیاجائے ، ہم     زبان کی آفتوں  کا شکار ہوں  ،  موسیقی اور گانے سنے جائیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

"یقینا میری امت میں کچھ ایسے لوگ ضرور پیدا ہوں گے جو زنا کاری ، ریشم کا پہننا، شراب  نوشی اور گانے بجانے کو حلال سمجھیں گے"[1]۔

معاملات میں فساد پیدا ہونی کی ایک  صورت یہ ہے کہ  : سودی معاملات   کئے جائیں،  اللہ تعالی کا فرمان ہے:

(يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا الرِّبَا أَضْعَافًا مُضَاعَفَةً وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ)

ترجمہ: اے ایمان والو! بڑھا چڑھا کر سود نہ کھاؤ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سود خور انسان پر لعنت کرتے ہوئے فرمایا:

" سود لینے والے اور سود دینے  والے ، سودی معاملہ کو لکھنے والے اور اس پر گواہی دینے والوں پر اللہ کی لعنت ہے " آپ نے فرمایا: وہ سب برابر ہیں" یعنی لعنت میں سب یکساں ہیں،  کیوں کہ وہ اس معاملے میں ایک دوسرے کے معاون ہیں۔

معاملات میں فساد پیدا ہونے کی ایک صورت جو بہت  زیادہ رائج ہے ، وہ ہے : رشوت  کا لین  دین  ،  اس کی شکل یہ ہے کہ کوئی شخص کسی دوسرے شخص کو اس مقصد سے مال دے کہ   اسے وہ چیز مل جائے جس کا وہ مستحق نہیں ، یا اس پر سے وہ چیز ساقط کردے جو اس پر واجب ہے،  عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مروی ہے ، وہ فرماتے ہیں: (رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رشوت دینے  والے اور رشوت لینے  والے پر لعنت بھیجی ) [2]۔

رشوت کو غلول  (خیانت) سے موسوم کیا گیا ہے، عبد اللہ بن بریدہ اپنے والد سے اور ان کے والد نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں ، آپ نے فرمایا :( جسے ہم کسی کام پر متعین کریں اور اسے اس پر تنخواہ بھی دیں، تو جو وہ اس سے مزید لے گا وہ خیانت ہوگی)[3]۔

حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جسے ہم کسی کام پر متعین کریں اور اس پر اسے تنخواہ بھی دیں، تو اس کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ اس کے بعد کوئی اضافی چیز لے ، اگر اس نے لیا تو وہ  غلول  ہوگا، اور غلول یہ ہے کہ مال غنیمت یا مسلمانوں کے بیت المال میں خیانت کی جائے۔

یہ حدیث  اس بات کی دلیل ہے کہ  جو شخص تنخواہ دار ملازم ہو ، خواہ حکومتی دفاتر میں یا  پرائوٹ اداروں  میں، اس کے لئے  یہ جائز نہیں کہ اس کی ملازمت کی وجہ سے دی جانے والے تحفے تحائف اور مال ومنال کو وہ قبول کرے ، اگر اس نے ایسا کیا تو وہ غلول ہوگا۔

یہ تنبیہ بھی ضروری ہے کہ رشوت کا نام بدل دینے سے اس کی حقیقت نہیں بدل سکتی، جس نے رشوت لی اور اسے تحفہ یا  اعزاز سے موسوم کیا تو وہ حقیقت میں رشوت خور ہی شمار ہوگا، کیوں کہ عبرت تو حقائق کا ہوتا ہے  ناکہ ناموں کا ۔

اللہ تعالی مجھے  اور آپ کو قرآنِ عظیم کی برکت سے مالا مال کرے،  مجھے اور آپ کو اس کی آیتوں اور حکیمانہ نصیحت سے فائدہ پہنچائے، میں اپنی یہ بات کہتے ہوئے اللہ تعالی سے اپنے لئے  اور آپ سب کے لئے تمام گناہوں سے مغفرت طلب کرتاہوں، آپ بھی مغفر ت طلب کریں، یقینا ًوہ بہت زیادہ توبہ قبول کرنے والا اور خوب معاف کرنے والا ہے۔

دوسرا خطبہ:

الحمد لله وكفى،وسلام على عباده الذين اصطفى.

حمد وثنا کے بعد!

رسول الله صلى الله  علیہ  وسلم نے ابن للتبیہ نامی شخص کو بنو سلیم کی  زکاة وصول کرنے کے لئے مقرر کیا،چناں چہ جب وہ اپنی ذمہ داری سے فارغ ہوا تو آکر عرض کیا:اے اللہ کے رسول !یہ مال آپ کا ہے اور یہ مال مجھے تحفہ دیا گیا ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:  پھر تم اپنے ماں باپ کے گھر ہی میں کیوں نہیں بیٹھے رہے اور پھر دیکھتے کہ تمہیں کوئی تحفہ دیتا ہے یا نہیں؟ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ کے لیے کھڑے ہوئے، رات کی نماز کے بعد اور کلمہ شہادت اور اللہ تعالیٰ کی اس کی شان کے مطابق ثنا کے بعد فرمایا : امابعد! ایسے عامل کو کیا ہو گیا ہے کہ ہم اسے عامل بناتے ہیں (جزیہ اور دوسرے ٹیکس وصول کرنے کے لیے) اور وہ پھر ہمارے پاس آ کر کہتا ہے کہ یہ تو آپ کا ٹیکس ہے اور یہ  مجھے تحفہ دیا گیا ہے۔ پھر وہ اپنے ماں باپ کے گھر کیوں نہیں بیٹھا اور دیکھتا کہ اسے تحفہ دیا جاتا ہے یا نہیں۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے، اگر تم میں سے کوئی بھی اس مال میں سے کچھ بھی خیانت کرے گا تو قیامت کے دن اسے اپنی گردن پر اٹھائے ہوئے آئے گا۔ اگر اونٹ کی اس نے خیانت کی ہو گی تو اس حال میں  اسے لے کر آئے گا کہ اونٹ کی آواز نکل رہی ہو گی۔ اگر گائے کی خیانت کی ہو گی تو اس حال میں اسے لے کر آئے گا کہ گائے کی آواز آ رہی ہو گی۔ اگر بکری کی خیانت کی ہو گی تو اس حال میں آئے گا کہ بکری  ممیا رہی ہو گی۔ بس میں نے تم تک پہنچا دیا۔

ابوحمید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ:  پھر  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ اتنا اوپر اٹھایا کہ ہم آپ کی بغلوں کی سفیدی دیکھنے لگے[4]۔

(اللہ تمہارے ساتھ رحم وکرم کا معاملہ کرے)مخلوقوں میں  سب سے بہترین اور انسانوں میں سب سے زیادہ پاک باز محمد بن عبداللہ  پر  درودوسلام بھیجو،جو  صاحب حوض کوثر اور صاحب شفاعت ہیں، اللہ نے تمہیں اس کا حکم  دیا ہے، چناں چہ  عزت  وسربلندی اور علم والے پروردگار کا فرمان ہے:

اے ایمان والو!تم(بھی)ان پر درود بھیجو اور خوب سلام(بھی)بھیجتے رہا کرو۔

اے اللہ تو اپنے بندے اور رسول محمد پر رحمت و سلامتی بھیج، انہیں مزید سلامتی اور برکت سے نواز،جو پررونق چہرہ اور تابندہ پیشانی والا ہے،اے اللہ تو ان کے چاروں  خلیفہ حضرت ابو بکر،حضرت عمر،حضرت عثمان اورحضرت علی رضی اللہ عنہم سےاور اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام صحابہ اور تابعین عظام سے اور قیامت تک اچھائی کے ساتھ ان کی اتباع کرنے والوں سے اور ان کے ساتھ ساتھ  ہم سے بھی  تو اپنے عفو ودرگزر،جود وکرم اور احسان وبھلائی کے صدقے راضی ہوجا،اے تمام مہربانوں سے بڑے مہرباں۔

اے اللہ تو اسلام اور مسلمانوں کو عزت وسربلندی عطا فرما،شرک اور مشرکوں کوذلیل ورسوا کر،اے اللہ تو اپنے دین،اپنی کتاب،اپنے نبی کی سنت اور اپنے  مومن بندوں  کی مدد ونصرت فرما.

اے اللہ تو غمزدہ مسلمانوں کے غم کو دور فرما،پریشان حال لوگوں کی پریشانی کو ختم کردے،مقروضوں کے قرض کی ادئگی فرما،اور اے  تمام مہربانوں سے بڑے مہرباں!تو اپنی رحمت سے ہمارے اور مسلمانوں کے مریضوں کو شفایابی عطاکر، ۔

اے اللہ! تو ہمارے نفسوں کو تقوی عطاکر،انہیں پاک وصاف کر،تو نفس کو سب سے بہتر پاک وصاف کرنے والا ہے، تو ہی اس کا نگہبان اور مالک ہے۔

اے اللہ !تو ہمیں اپنے ملکوں میں امن وسلامتی عطاکر،ہمارے اماموں اور حاکموں کی اصلاح فرما،ہماری حکومت وفرماں روائی کا باگ ڈور ایسے شخص کے ہاتھ میں ڈال جو تجھے سے خوف کھائے اورڈرے،اور تیری رضا  کا طلب گار ہو،اے دونوں جہان کے  پالنہار!

اے اللہ! مسلمانوں کے تمام حکمرانوں کو تو اپنی کتاب کو نافذ کرنے اور اپنے دین کو سربلند کرنے کی توفیق سے نواز،اور انہیں ان کے رعایہ کے لئے باعث رحمت بنا،اے ہمارے رب!

(رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ)

ترجمہ:  ہمیں دنیا  میں نیکی دے،اور آخرت میں بھی بھلائی عطافرما،اور عذاب جہنم سے نجات دے۔

اللہ تعالی ہمارے نبی محمد،آپ کے اہل خانہ اور جانشیں صحابہ پر رحمت نازل فرما ئےاور خوب سلامتی بھیجے۔

 

از قلم:ماجد بن سلیمان الرسي

۲۶ ربیع الثانی ۱۴۴۲ھ

شہر جبیل،  مملکہ سعودیہ عربیہ

.



[1] اس حدیث کو امام بخاری (۵۵۹۰) نے ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔
[2] اس حدیث کو امام احمد (۶۵۳۲) وغیرہ نے عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے اور مسند کے محققین نے اس کی سند کو قوی بتایا ہے۔
[3] اسے ابوداود (۲۹۴۲) نے بریدہ بن الحصیب رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے اور البانی نے صحیح ابی داود میں اسے صحیح بتایا ہے۔
[4]  اسے بخاری (۶۶۳۶) نے حضرت ابو حمید الساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔

المرفقات

1613712206_زمین میں فساد پھیلانے کی ممانعت.pdf

المشاهدات 2506 | التعليقات 0