ذو الحجہ کے دس دنوں کی خصوصیات اور فضیلتیں
سيف الرحمن التيمي
موضوع الخطبة :خصائص الأيام العشر من ذي الحجة وفضائلها
الخطيب : فضيلة الشيخ ماجد بن سليمان الرسي/ حفظه الله
لغة الترجمة : الأردو
المترجم :سيف الرحمن التيمي((@Ghiras_4T
موضوع:
ذو الحجہ کے دس دنوں کی خصوصیات اور فضیلتیں
پہلا خطبہ:
إن الحمد لله نحمده ، ونستعينه، ونعوذ بالله من شرور أنفسنا ومن سيئات أعمالنا، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أن محمدا عبده ورسوله.
اے مسلمانو! اللہ تعالی سے ڈرو اور اس کاخوف اپنے ذہن ودل میں زندہ رکھو‘ اس کی اطاعت کرو اور اس کی نافرمانی سے بچتے رہو‘ جان رکھو کہ مخلوقات پر اللہ کی ربوبیت کا ایک مظہر یہ بھی ہے کہ وہ جس مخلوق کو چاہتا ہے ‘ باعظمت بنادیتاہے‘ خواہ وہ مخلوق کوئی شخص ہو‘ یا جگہ ہو‘ یا وقت ہو ‘ یا عبادت ہو‘ ا س کے پیچھے کوئی حکمت کارفرما ہوتی ہے جسے وہی پاک وبرتر اللہ جانتا ہے‘ اللہ تعالی کا فرمان ہے: (وَرَبُّكَ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ وَيَخْتَارُ مَا كَانَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ)
ترجمہ: آپ کا رب جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے چن لیتا ہے۔
ہم اس خطبے میں حسبِ سہولت ان خصائص کے بارے میں گفتگو کریں گے جن کے ذریعہ اللہ تعالی نے ذی الحجہ کے ابتدائی دس دنوں کو سال کے دیگر ایام پر فضیلت اور امتیاز عطا کیا ہے‘ سب سے پہلی خصوصیت یہ ہے کہ اللہ تعالی نے ان ایام کا ذکر خصوصیت کے ساتھ قرآن میں کیا ہے‘ فرمان باری تعالی ہے: (لِيَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَعْلُومَاتٍ عَلَى مَا رَزَقَهُمْ مِنْ بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ)
ترجمہ: اپنے فائدے حاصل کرنے کو آجائیں اور ان مقرره دنوں میں اللہ کا نام یاد کریں اور چوپایوں پر جو پالتو ہیں (اللہ کا نام لیں)۔
مقررہ دنوں سے مراد ذی الحجہ کے دس دن ہیں‘ جیسا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ : (مقررہ دنوں سے مراد ذی الحجہ کے دس دن ہیں)([1])۔
ذی الحجہ کے دس دنوں کی فضیلت کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اللہ تعالی نے ان دس راتوں کی قسم کھاتے ہوئے فرمایا: (وَالْفَجْرِ وَلَيَالٍ عَشْرٍ)
ترجمہ: قسم ہے فجر کی! اور دس راتوں کی!
ابن کثیر رقم طراز ہیں: دس راتوں سے مراد ذی الحجہ کے دس دن ہیں ‘ جیسا کہ ابن عباس‘ ابن الزبیر‘ مجاہد اور بہت سے اسلاف اور اخلاف سے منقول ہے۔انتہی
ذی الحجہ کے دس دنوں کی فضیلت کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ ان دنوں میں کئے جانے والے اعمال کا ثواب سال کے دیگر ایام کے بالمقابل زیادہ ہوتا ہے‘ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" ذی الحجہ کے دس دنوں کے مقابلے میں دوسرے کوئی ایام ایسے نہیں جن میں نیک عمل اللہ کو ان دنوں سے زیادہ محبوب ہوں“، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اللہ کی راہ میں جہاد کرنا بھی نہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کی راہ میں جہاد کرنا بھی نہیں، سوائے اس مجاہد کے جو اپنی جان اور مال دونوں لے کر اللہ کی راہ میں نکلا پھر کسی چیز کے ساتھ واپس نہیں آیا“([2])۔
ابن رجب رحمہ اللہ کے قول کا خلاصہ ہے کہ: یہ ایک نہایت عظیم اور مہتم بالشان حدیث ہے‘ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ مفضول اور کمتر عمل بھی اگر با فضیلت وقت میں کیا جائے تو وقت کی فضیلت کی وجہ سے وہ فضیلت والے اعمال سے بھی زیادہ افضل ترین ہوجاتا ہے ‘ نیز اس بات کی بھی دلیل ہے کہ ذی الحجہ کے دس دنوں میں کیا جانے والا عمل دیگر ایام میں کئے جانے والے اعمال صالحہ سے کہیں زیادہ افضل ہے‘ اس عموم سے صرف سب سے افضل قسم کا جہاد ہی مستثنی ہے ‘ وہ یہ ہے کہ انسان جان ومال کے ساتھ نکلے ‘ پھر کسی کے ساتھ واپس نہ آسکے۔
یہ حدیث اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ ذی الحجہ کے دس دنوں میں اداکئے جانے والے نوافل رمضان کے آخری عشرہ میں کئے جانے والے نوافل سے افضل ہیں‘ اسی طرح ذی الحجہ کے دس دنوں میں ادا کئے جانے والے فرائض بھی دیگر ایام کے فرائض سے کہیں بڑھ کر ہیں۔([3])انتہی
ذی الحجہ کے ان دس دنوں کی فضیلت کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ ان میں یوم عرفہ آتا ہے ‘ جس دن اللہ تعالی نے اپنے دین کو مکمل فرمایا اور یہ آیت نازل فرمائی: (الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا)
ترجمہ: آج ہم نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کر دیں اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا۔
ذی الحجہ کے ان دس دنوں کی فضیلت کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ ان میں یوم النحر (قربانی کا دن) آتا ہے ‘ جوکہ حج اکبر کا دن ہے‘ جس دن بہت سی عبادتیں یکجا ہوجاتی ہیں‘ وہ یہ ہیں: نحر ( قربانی کرنا)‘ طواف کرنا‘ سعی کرنا‘ بال منڈانا یا کٹوانا‘ اور رمیِ جمرات کرنا‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ ہے: ”اللہ تبارک و تعالیٰ کے نزدیک سب سے عظیم دن یوم النحر (دسویں ذی الحجہ کا دن) ہے پھر یوم القرّ (گیارہویں ذی الحجہ کا دن) ہے “([4])۔
یوم النحر کو یوم القرّ سے موسو م کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اس دن حجاج کرام منی میں قیام اور آرام کرتے ہیں۔
· اے مسلمانو! ان دس دنوں میں مندرجہ ذیل چھ اعمال کو انجام دینے کی زیادہ اہمیت وفضیلت آئی ہے:
۱-کثرت سے الحمد للہ‘ لا الہ الا اللہ اور اکبر کا ورد کرنا‘ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "الله تعالی کے نزدیک ان د س دنوں کے بالمقابل کسی بھی دن میں نیک عمل کرنا زیادہ عظیم اور محبوب نہیں‘ اس لئے ان دنوں میں لا الہ الا اللہ ‘ اللہ اکبر اور الحمدللہ کا کثرت سے ورد کیا کرو"([5])۔
بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ابن عمر اور ابو ہریرۃ ان دس دنوں میں بازار میں نکلتے او ر بلند آواز سے تکبیر پڑھتے چنانچہ لوگ بھی ان کو دیکھ تکبیر کہنے لگتے ([6])۔
تکبیر کی صفت یہ ہے : (اللہ اکبر‘ اللہ اکبر‘ لا الہ الا اللہ ‘ واللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد)۔
معلوم ہوا کہ ان دس دنوں میں اللہ اکبر‘ الحمد للہ اور لا الہ الا اللہ کا ورد کرنامشروع ہے‘ مسجدوں ‘ گھروں ‘ راستوں اور ہر اس جگہ پر ان کا ورد کرنا مشروع ہے جہاں اللہ کا ذکر کرنا جائز ہے‘ تاکہ عبادت کا مظاہرہ اور عظمت الہی کا اعلان ہوسکے۔اس کا طریقہ یہ ہے کہ مرد بلند آواز سے ان کلمات کا ورد کرے اور عورت اگر مردوں کے درمیان ہو تو آواز پست رکھے۔
آج کے زمانے میں تکبیر کی سنت ترک کردی گئی ہے‘ آپ بہت کم لوگوں کو تکبیر پڑھتے ہوئے سنیں گے‘ لہذا اس سنت کو زندہ کرنے اور غافلوں کو ہوشیار وخبردار کرنے کے لئے بلند آواز سے تکبیر پڑھنا چاہئے ‘ تاکہ دیکھا دیکھی دیگر لوگ بھی تکبیر کا اہتمام کریں‘ ہر انسان انفرادی طور پر تکبیر پڑھے‘ بیک آواز اجتماعی طور پر تکبیر پڑھنا مقصود نہیں ‘ بلکہ یہ غیر مشروع عمل ہے۔
۲-ان دس دنوں میں جو اعمال مشروع ہیں ان میں روزے بھی ہیں‘ چنانچہ بندہ مسلم کے لئے یہ نہایت مستحب عمل ہے کہ ذی الحجہ کے نو دنوں کے روزے رکھے‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ذی الحجہ کے نو روزے رکھا کرتے تھے‘ ہنیدۃ بن خالد اپنی بیوی سے اور وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض بیویوں سے روایت کرتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذی الحجہ کے نو روزے، عاشوراء کے دن (یعنی دسویں محرم کو) اور ہر مہینے میں تین روزے رکھتے اور ہر مہینہ کے پہلے دوشنبہ (پیر) کو، اور اس کے بعد والی جمعرات کو، پھر اس کے بعد والی جمعرات کو روزہ رکھا کرتے تھے([7])۔
ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا : (مجھے کسی ایسے عمل کا حکم دیجئے جس سے اللہ مجھے نفع پہنچائے) ‘ آپ نے فرمایا: تم روزے کا اہتمام کرو کیوں کہ اس کی کوئی نظیر نہیں ہے ([8])۔
۳-ان دس دنوں میں جو اعمال کرنا مشروع ہے ‘ ان میں عرفہ کے دن کا روزہ رکھنا بھی ہے‘ اس کی دلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث ہے: عرفہ کے دن کا روزہ ایسا ہے کہ میں امیدوار ہوں اللہ پاک سے کہ ایک سال اگلے اور ایک سال پچھلے گناہوں کا کفارہ ہو جائے([9])۔
۴-ان دس دنوں میں جو اعمال کرنا مشروع ہے ‘ ان میں عید کی نماز ادا کرنا بھی ہے ‘ جو کہ ایک مشہور ومعروف بات ہے۔
۵- ان دس دنوں میں جو اعمال کرنا مشروع ہے‘ ان میں قربانی کے جانور ذبح کرنا بھی ہے ‘ یہ ہر صاحب استطاعت کے لئے سنت مؤکدہ ہے ‘ عید الاضحى کے دن قربانی کے جانور ذبح کرنا دیگر ایام تشریق کے مقابلے میں زیادہ افضل ہے‘ کیوں کہ عید الاضحى کا دن ذی الحجہ کے دس دنوں میں سب سے آخری دن ہے‘ اور یہ دس دن سال کے تمام دنوں سے افضل ہیں‘ جب کہ ایامِ تشریق ذی الحجہ کے ابتدائی دس دنوں میں شامل نہیں ہیں‘ نیز اس لئے بھی کہ عید کے دن جانور ذبح کرنا عمل صالح میں جلدی کرنے کے قبیل سے ہے([10])۔
۶-ذی الحجہ کے دس دنوں میں جو اعمال کرنا مشرو ع ہے‘ ان میں حج او رعمرہ کی ادائیگی بھی ہے‘ اس عشرہ میں ادا کیا جانے والا یہ سب سے افضل عمل ہے‘ جس کو اللہ تعالی حج بیت اللہ کی توفیق عطا کرے‘ اور وہ مطلوبہ طریقے کے مطابق مناسکِ حج کو ادا کرے اور اللہ کے منع کردہ امور سے اجتناب کرے ‘ یعنی شور وغوغا‘ فسق وفجور اور لڑائی جھگڑا (سے باز رہے) تو وہ اس کا مستحق ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وعدے کے مطابق اس اجر وثواب سے فیض یاب ہو کہ: مقبول حج کا بدلہ جنت ہی ہے([11])۔
اللہ کے بندو! یہ چھ عبادتیں ہیں‘ جو کہ ذی الحجہ کے دس دنوں میں ادا کئے جانے والے مستحب اعمال میں سر فہرست ہیں‘ یہ عبادتیں پورے سال کے دیگر با فضیلت ایام کے مقابلے میں ذی الحجہ کے دس دنوں کے ساتھ مختص ہیں‘ ان د س دنوں کے اندر چونکہ یہ عبادتیں یکجا ہوجاتی ہیں‘ اس لئے ان ایام کو سال کے دیگر ایام پر یک گونہ فضیلت حاصل ہے‘ بایں طور کہ تمام بنیادی عبادتیں ان میں یکجا ہوجاتی ہیں‘ جیسے نماز ‘ روزہ ‘ صدقہ اور حج‘ یہ عبادتیں دیگر دنوں میں یکجا نہیں ہوتیں۔یہ ابن حجر رحمہ اللہ کا قول ہے([12])۔
اللہ کے بندو! یہ تعجب کی بات ہے کہ لوگ رمضان کے آخری عشرہ میں خوب نشاط اور سرگرمی کا مظاہرہ کرتے ہیں‘ جب کہ ذو الحجہ کے ان دس دنوں میں وہ نشاط اور سرگرمی نہیں دکھاتے ‘ جب کہ یہ ایام زیادہ فضیلت اور عظمت کے حامل ہیں۔
جلیل القدر تابعی سعید بن جبیر رحمہ اللہ کا یہ طرز عمل تھا کہ جب ذ و الحجہ کے دس دن آتے تو حد درجہ محنت اور لگن سے عبادت کرتے یہاں تک کہ جان جوکھوں میں ڈال لیتے([13])۔
ان کا یہ قول بھی روایت کیا جاتا ہے کہ : "عشرہ ذی الحجہ کی راتوں میں چراغ مت بجھایا کرو"([14])۔ یعنی ان راتوں کو تلاوت اور تہجد سے آباد رکھا کرو۔
آئیے ہم اللہ سے مدد طلب کرتے ہوئے ان ایام میں کثرت سے اعمال صالحہ انجام دیتے ہیں‘ ان اعمال کی انجام دہائی کے لئے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں اور ان اعمال کے اجرو ثواب کی اللہ تعالی سے امید رکھتے ہیں‘ کیوں کہ آج عمل کا موقع ہے اور حساب وکتاب نہیں‘ اور کل (قیامت کے دن) حساب وکتاب ہوگا اور عمل کا موقع نہیں: (سَابِقُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا كَعَرْضِ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ أُعِدَّتْ لِلَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ)
ترجمہ: (آؤ) دوڑو اپنے رب کی مغفرت کی طرف اور اس جنت کی طرف جس کی وسعت آسمان وزمین کی وسعت کے برابر ہے یہ ان کے لیے بنائی گئی ہے جو اللہ پر اور اس کے رسولوں پر ایمان رکھتے ہیں۔
الله تعالی مجھے اور آپ سب کو قرآن کی برکتوں سے بہرہ مند فرمائے ‘ مجھے اور آپ سب کو اس کی آیتوں اور حکمت پر مبنی نصیحت سے فائدہ پہنچائے ‘ میں اپنی یہ بات کہتے ہوئے اللہ تعالی سے مغفرت کا خواستگار ہوں‘ آپ بھی اس سے مغفرت طلب کریں‘ یقینا وہ خوب معاف کرنے والا بڑا مہربان ہے۔
دوسرا خطبہ:
الحمد لله على فضله وإحسانه، والشكر له على توفيقه وامتنانه، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له تعظيما لشأنه، وأشهد أن محمدا عبده ورسوله، صلى الله عليه وعلى آله وأصحابه وسلم تسليما كثيرا.
اے مومنو! آپ یہ جان رکھیں کہ ذو الحجہ کے دس دن رمضان کے آخری عشرہ سے بھی زیادہ افضل ہیں‘ اس لئے ان ایام میں خوب محنت ولگن سے عبادت کریں‘ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ رقم طراز ہیں: خلاصہ کلام یہ کہ ا ن دس دنوں کے بارے میں کہا گیاہے کہ یہ سال کے تمام دنوں سے افضل ہیں‘ جیسا کہ حدیث میں اس کی وضاحت آئی ہے‘ بہت سے اہل علم نے ان دنوں کو رمضان کے آخری عشرے پر فوقیت دی ہے‘ کیوں کہ (رمضان کے آخری عشرے میں) جو عبادتیں مشروع ہیں وہ ان ایام میں بھی مشروع ہیں جیسے نماز ‘ روزہ‘ صدقہ وغیرہ‘ لیکن ذی الحجہ کے دس دنوں کا امتیازی وصف یہ ہے کہ ان میں حج کی فرضیت ادا کی جاتی ہے۔
ایک قول یہ بھی ہے: رمضان کا آخری عشرہ زیادہ افضل ہے‘ کیونکہ اس میں شب قدر آتی ہے جو ہزار راتوں سے بہتر ہے۔
ایک گروہ نے درمیانہ موقف اختیار کرتے ہوئے کہا: ذو الحجہ کے دس دن زیادہ افضل ہیں‘ اور رمضان کی (آخری) دس راتیں زیادہ افضل ہیں‘ اس طرح تمام دلائل کے درمیان جمع وتطبیق کی صورت پیدا ہوجاتی ہے‘ واللہ اعلم۔([15])انتہی
آپ یہ بھی جان رکھیں اللہ آپ پر اپنی رحمت نازل فرمائے کہ جو شخص قربانی کی نیت رکھتا ہو اس کے لئے جائز نہیں کہ بال ‘ ناخن اور چمڑہ کو کاٹے‘ جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے: " جب تم ذی الحجہ کا چاند دیکھو او رتم میں سے کوئی شخص قربانی کا ارادہ رکھتا ہو‘ تو وہ اپنے بالوں اور ناخنوں کو (نہ کاٹے) "([16])۔
صحیح مسلم کی دوسری روایت میں یہ الفاظ آئے ہیں: "جب عشرہ (ذو الحجہ) شروع ہوجائے اور تم میں سے کوئی شخص قربانی کرنے کا ارادہ رکھتا ہو تو وہ اپنے بال اور چمڑے کو نہ کاٹے"۔
اے مسلمانو! شریعت اسلامیہ کی خصوصیات میں سے یہ بھی ہے کہ وہ تکلیف او ر حرج کو دور کرتی ہے‘ چنانچہ جس شخص کو بال ‘ یا ناخن ‘یا چمڑا کاٹنے کی ضرورت در پیش ہو تو اس کے لئے اس میں کوئی حرج نہیں‘ ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جس شخص کو بال ‘ناخن اور چمڑا کاٹنے کی ضرورت پیش آجائے اور وہ کاٹ لے تو کوئی حرج نہیں‘ مثلاً اسے کوئی زخم ہو جس کی وجہ سے اسے بال کاٹنا پڑے‘ یا اس کا ناخن اکھڑ جائے اور اس کے لئے تکلیف دہ ہو تو وہ ناخن کے تکلیف دہ حصہ کو کاٹ لے‘ یا چمڑا کٹ کر لٹکنے لگے اور اسے تکلیف پہنچائے تو وہ اسے کاٹ دے ‘ ان تمام صورتوں میں اس کے لئے کوئی حرج نہیں۔انتہی ([17])۔
اے مسلمانو! جب حاجی قربانی کرنے کاارادہ کرے تو وہ بھی اس حکم میں داخل ہے‘ اس لئے وہ اپنے بال اور چمڑا نہ کاٹے ‘ یہاں تک کہ عمرہ سے فارغ ہوجائے ‘ اگر عمرہ کرلے تو اس کے لئے بال کٹواناضروری ہے‘ اس لئے وہ اپنے بال کٹوائے ‘اگرچہ وہ اپنے ملک میں قربانی کرنے کا ارادہ ہی کیوں نہ رکھتا ہو‘ کیوں کہ عمرہ میں بال کٹوانا عبادتِ عمرہ کا ایک حصہ ہے‘ یہ ابن باز اورابن عثیمین رحمہما اللہ کا قول ہے([18])۔
آپ یہ بھی جان رکھیں -اللہ آپ پر رحم فرمائے- کہ اللہ تعالی نے آپ کو ایک ایسا حکم دیا ہے جس کا آغاز اپنی ذات سے کیا ، پھر رب تعالی کی پاکی بیان کرنے والے فرشتوں کو اس کا حکم دیا اور اس کے بعد انس وجن کےتمام مسلمانوں کو حکم دیتے ہوئے فرمایا: (إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا)
ترجمہ: اللہ تعالی اور اس کے فرشتے اس نبی پر رحمت بھیجتے ہیں ۔اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود بھیجو اور خوب سلام بھی بھیجتے رہا کرو۔
اے اللہ !تو اپنے بندے اور رسول محمد پر رحمت و سلامتی بھیج،تو ان کے خلفاء ،تابعین عظام اور قیامت تک اخلاص کے ساتھ ان کی اتباع کرنے والوں سے راضی ہوجا۔
اے اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو عزت وسربلندی عطا فرما،شرک اور مشرکین کو ذلیل وخوار کر، اور اپنے دین کی حفاظت فرما،اے اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو عزت وسربلندی عطا فرما،شرک اور مشرکین کو ذلیل وخوار کراور اپنے دین کی حفاظت فرما ۔
اے اللہ! ہمیں اپنے ملکوں میں امن وسکون کی زندگی عطا کر، اے اللہ! ہمارے اماموں اور ہمارے حاکموں کی اصلاح فرما‘اور انہیں اپنے ماتحتوں کے لیے باعث رحمت بنا۔
اے اللہ! ہمیں ذو الحجہ کے بافضیلت ایام تک پہنچا اور ان ایام میں روزہ رکھنے‘ تہجد کا اہتمام کرنے اور ذکر واذکار میں مصروف رہنے میں ہماری اعانت ومدد فرما۔
اے اللہ! ہم تیری پناہ چاہتے ہیں تیری نعمت کے زوال سے‘ تیری عافیت کے ہٹ جانے سے‘ تیری ناگہانی سزا سے او رتیری ہر طرح کی ناراضی سے۔
اے اللہ! ہم تیری پناہ چاہتے ہیں برص (پھلبہری) سے‘ پاگل پن سے‘ کوڑھ سے او ر تمام بری بیماریوں سے۔
اے ہمارے رب ! ہمیں دنیا میں نیکی دے اور آخرت میں بھی بھلائی عطا فرما اور ہمیں عذاب جہنم سے نجات دے۔
عباد الله! إن الله يأمر بالعدل والإحسان وإيتاء ذي القربى، وينهى عن الفحشاء والمنكر والبغي، يعظكم لعلكم تذكرون، فاذكروا الله العظيم يذكركم، واشكروه على نعمه يزدكم، ولذكر الله أكبر، والله يعلم ما تصنعون.
ترتیب:
ماجد بن سلیمان الرسی
۲۹ ذو القعدہ ۱۴۴۲ھ
شہر جبیل-سعودی عرب
ترجمہ:
سیف الرحمن تیمی
([1]) اس قول کو امام بخاری نے اپنی "صحیح" میں صیغہ جزم کے ساتھ معلقاً روایت کیا ہے‘ دیکھیں: کتاب العیدین‘ باب فضل العمل فی أیام التشریق
([2]) اسے بخاری (۹۶۹) اور احمد (۱/۳۳۸-۳۳۹) نے روایت کیا ہے اور مذکورہ الفاظ احمد کے ہی ہیں۔
([3]) فتح الباری: ۹/۱۱-۱۶‘ ناشر: مکتبۃ الغرباء الأثریۃ-المدینۃ
([4]) اسے ابوداود (۱۷۶۵) نے عبد اللہ بن فرط رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے اور البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
([5]) اسے احمد (۲/۱۳۱) نے روایت کیا ہے اور "المسند" (۶۱۵۴) کے محققین نے کہا کہ: یہ حدیث صحیح ہے۔
([6]) اسے بخاری نے کتاب العیدین میں باب فضل العمل فی أیام التشریق میں روایت کیا ہے۔
([7]) اسے ابوداود (۲۴۳۷) اور نسائی (۲۴۱۷) نے روایت کیا ہے‘ مذکورہ الفاظ نسائی کے روایت کردہ ہیں‘ اور البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
([8]) اسے نسائی (۲۸۴۰) اور احمد (۵/۲۴۹) نے روایت کیا ہے‘ مذکورہ الفاظ نسائی کے روایت کردہ ہیں‘ احمد کے الفاظ یہ ہیں: میں نے کہا: مجھے ایسے عمل کا حکم دیجئے جو مجھے جنت میں داخل کرادے‘ آپ نے فرمایا: روزہ کا اہتمام کرو‘ کیوں کہ اس کی کوئی نظیر نہیں ہے۔پھر میں دوبارہ آپ کے پاس آیا تو آپ نے مجھ سے کہا: روزہ کا اہتمام کرو۔ اس حدیث کو البانی نے صحیح کہا ہے اور "المسند" کے محققین نے کہا کہ: اس کی سند مسلم کی شرط پر صحیح ہے۔
([9]) اسے مسلم (۱۱۶۲) نے ابو قتادۃ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔
([10]) "تسہیل الفقہ" از: شیخ عبد اللہ بن عبد العزیز الجبرین رحمہ اللہ (۹/۲۲۹)
([11]) اسے بخاری (۱۷۷۳) اور مسلم (۱۳۴۹) نے ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔
([12]) دیکھیں: فتح الباری (۲/۵۳۴)‘ شرح حدیث : (۹۶۹)
([13]) اسے دارمی نے اپنے "سنن" (۱۸۱۵) نے روایت کیا ہے‘ طباعت: دار المغنی‘ تحقیق: حسین سلیم اسد ‘ نیز اسے بیہقی نے "الشعب" میں حدیث نمبر (۳۷۵۲) کے تحت روایت کیا ہے۔
([14]) دیکھیں: "سیر أعلام النبلاء" (۴/۳۲۶)
([15]) تفسیر ابن کثیر‘ تفسیر سورۃ الحج: ۲۸‘ یہ ان کے استاد ابن تیمیہ کا بھی قول ہے جیسا کہ "مجموع فتاوی ابن تیمیۃ" (۲۵/۲۸۷) میں مذکور ہے‘ نیز ابن القیم کا بھی یہی قول ہے جیسا کہ "بدائع الفوائد" (۳/۱۱۰۲) ‘ طباعت: عالم الفوائد میں ہے۔
([16]) اسے مسلم (۱۹۷۷) نے ام سلمۃ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے۔
([17]) "مجموع فتاوی ابن عثیمین" (۲۵/۱۶۱)
([18]) دیکھیں: "مجموع الفتاوی" (۱۷/۲۳۳) لابن باز‘ "مجموع الفتاوی" (۲۵/۱۴۲) لابن عثیمین رحمہما اللہ تعالی۔
المرفقات
1627442706_ذو الحجہ کے دس دنوں کی خصوصیات اور فضیلتیں.pdf