دلوں کی دنیا

سيف الرحمن التيمي
1443/08/17 - 2022/03/20 21:00PM

دلوں کی دنیا

 

تالیف:     فضیلۃ الشیخ ابراہیم محمد الہلالی

 

الحمد لله ب العالمين والصلاة والسلام على والسلام على المبعوث رحمة للعالمين سيدنا محمد وعلى آله وصحبه الطيبين الطاهرين...

حمد وصلاۃ کے بعد:

اسلام نے اس بات کا شدید اہتمام کیا ہے کہ افراد ِامت   کےدلوں میں باہمی الفت پیدا ہو، بایں  طور کہ محبت کا رواج ہو اور الفت ومودت کے پرچم لہرائیں، اور عداوت و دشمنی، بغض ونفرت ، دلوں کی کدورت، حقد وحسد اور بے تعلقی کا خاتمہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے اس عظیم نعمت پر لوگوں کو اپنا احسان یاد دلاتے ہوئے فرمایا: (وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعاً وَلا تَفَرَّقُوا وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ إِخْوَاناً)[آل عمران:103].

ترجمہ: اللہ تعالیٰ کی رسی کو سب مل کر مضبوط تھام لو اور پھوٹ نہ ڈالو، اور اللہ تعالیٰ کی اس وقت کی نعمت کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی، پس تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی ہوگئے۔

بلکہ اللہ نے اپنے نبی کو بھی اس نعمت کی یاد دلایا کہ ان کے لیے مومنوں کی ایک ایسی جماعت وجود میں لایا جن کے دل آپس میں ملے  ہوئے اور باہم مانوس ہیں: (هُوَ الَّذِي أَيَّدَكَ بِنَصْرِهِ وَبِالْمُؤْمِنِينَ * وَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ لَوْ أَنْفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعاً مَا أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَكِنَّ اللَّهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ)[الأنفال:62، 63].

ترجمہ: اسی نے اپنی مدد سے اور مومنوں سے تیری تائید کی ہے *ان کے دلوں میں باہمی الفت بھی اسی نے ڈالی ہے۔ زمین میں جو کچھ ہے تو اگر سارا کا سارا بھی خرچ کر ڈالتا ہے تو بھی ان کے دل آپس میں نہ ملا سکتا۔ یہ تو اللہ ہی نے ان میں الفت ڈال دی ہے۔

الفت ومحبت کو رواج اسی وقت مل سکتا ہے جب دل صحیح سالم ہوں، دلوں کی سلامتی سے مراد یہ ہے کہ وہ  کینہ کپٹ، حقد وحسد  اور ظلم وتعدی  سےخالی ہوں۔ اس مسئلہ اور اس   خصلت  کے بارے میں گفتگو کرنا بہت اہم   اور اس کی یاد دہانی کرانا ضروری ہے ، بطور خاص ایسے حالات میں جب کہ اکثر لوگ ظاہری منظر  ومظہر  پر زیادہ توجہ دینے لگے ہیں اور باطنی حالات او ردلوں کی کیفیات  کو ذرا بھی اہمیت نہیں دیتے، جب کہ   اللہ تعالی ہماری  شکلوں اور جسموں کو نہیں دیکھتا ، بلکہ ہمارے دلوں اور اعمال کودیکھتا ہے، اور  اللہ تعالی نے اخروی  نجات کا دا رومدار دلوں کی سلامتی پر رکھا ہے: (يَوْمَ لا يَنْفَعُ مَالٌ وَلا بَنُونَ * إلاَّ مَنْ أَتَى اللَّهَ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ)[الشعراء:88، 89].

ترجمہ: جس دن کہ مال اور اوﻻد کچھ کام نہ آئے گی *لیکن فائده واﻻ وہی ہوگا جو اللہ تعالیٰ کے سامنے بے عیب دل لے کر جائے۔

بے عیب اور سلامتی والے دل سے مراد وہ دل ہے جوو شرک، کینہ کپٹ، حقد وحسد اور دیگر آفات وشبہات اور ہلاکت خیز شہوات سے پاک صاف   ہو۔ نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی فرمان ہے: ”ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو اور نہ باہم حسد کرو اور نہ ایک دوسرے سے پیٹھ پھیرو۔ اللہ کے بندو! آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو نیز کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی کے ساتھ تین دن سے زیادہ قطع تعلقی کرے۔“ [صحیح بخاری]

اللہ تعالی کے نزدیک دل کی سلامتی کی فضیلت واہمیت:

اے صحیح سالم دل کے مالک! آپ اللہ تعالی کے  چنیدہ اور منتخب بندوں میں سے ہیں۔صحابہ کرام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ کو ن سا آدمی  سب سے افضل ہے؟ آپﷺ نے فرمایا : ہر صا ف دل اور سچی زبان  والا۔ صحا بہ نے عر ض کیا :سچی زبا ن والا تو ہم جانتے ہیں ۔ صاف دل والا کو ن ہو تا ہے؟ آ پﷺ نے فرمایا: پرہیزگار اور  پاک باز جس (کے دل) میں نہ کوئی گناہ ہو نہ زیادتی، نہ کینہ ہو نہ حسد۔

دل کی سلامتی نیک اعمال کی مقبولیت کا ایک عظیم ترین سبب ہے:

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر سموار  اور جمعرات کو اعمال پیش کیے جاتے ہیں، اس دن اللہ تعالیٰ ہر اس شخص کی مغفرت کر دیتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا، اس شخص کے سوا کہ اس کے اور اس کے بھائی کے درمیان عداوت اور کینہ ہو، تو (ان کے بارے میں) کہا جاتا ہے: ان دونوں کو رہنے  دو یہاں تک کہ یہ آپس میں صلح کر لیں، ان دونوں کو رہنے دو یہاں تک کہ یہ آپس میں صلح کر لیں۔

آپ غور کریں کہ جو شخص اپنے دل میں حقد وحسد اور کینہ کپٹ رکھتا ہے وہ اپنے آپ کو کتنی بھلائیوں  سے محروم کرتا ہے؟!!

دل کی سلامتی جنت کی راہ ہے:

پہلی جماعت جو جنت میں داخل ہو گی ... ان   کے دل (الفت اور محبت میں) ایک شخص کے دل کی طرح ہوں گے۔ ان میں نہ کسی بات کا اختلاف ہو گا اور نہ باہمی دشمنی۔[صحیح بخاری]

اس صحابی کے ساتھ عبد اللہ بن عمرو کا قصہ  مشہور ہے جن کے بارے میں  نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے سامنے ابھی جنت والوں میں سے ایک شخص نمودار ہوگا، چنانچہ عبد اللہ بن عمرو تین رات تک ان کے گھر پر رہے، لیکن آپ نے انہیں کثرت سے نوافل اور روزوں کا اہتمام کرتے ہوئے نہیں پایا،  جب   ان سے (جنتی ہونے کا ) راز دریافت کیا تو انہوں نے کہا: میرا عمل وہی ہے جو آپ نے دیکھا ہے،  لیکن ایک بات ہے کہ میں اپنے دل میں کسی مسلمان کے لیےدھوکہ و فریب (اور کینہ وکپٹ) نہیں رکھتا اور نہ اللہ کی دی ہوئی نعمت پر کسی سے حسد کرتا ہوں، یہ سن کر ابن عمرو   بلند آواز سے  بول پڑے: یہی وہ خوبی ہے جس نے آپ کو (جنت تک) پہنچا دیا...

اللہ تعالی نے جنتیوں کی حالت بیان کرتے ہوئے فرمایا: (وَنَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهِمُ الأَنْهَارُ)[لأعراف:43].

ترجمہ: اور جو کچھ ان کے دلوں میں (کینہ) تھا ہم اس کو دور کردیں گے۔ ان کے نیچے نہریں جاری ہوں گی۔

(وَنَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ إِخْوَاناً عَلَى سُرُرٍ مُتَقَابِلِينَ)[الحجر:47].

ترجمہ: ان کے دلوں میں جو کچھ رنجش وکینہ تھا، ہم سب کچھ نکال دیں گے، وه بھائی بھائی بنے ہوئے ایک دوسرے کے آمنے سامنے تختوں پر بیٹھے ہوں گے۔

اللہ تعالی ان کی تعریف وتوصیف بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے:

 وَالَّذِينَ تَبَوَّأُوا الدَّارَ وَالإِيمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ يُحِبُّونَ مَنْ هَاجَرَ إِلَيْهِمْ وَلا يَجِدُونَ فِي صُدُورِهِمْ حَاجَةً مِمَّا أُوتُوا وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ وَمَنْ يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ * وَالَّذِينَ جَاءُوا مِنْ بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلّاً لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَؤُوفٌ رَحِيمٌ)[الحشر:9، 10].

ترجمہ: ور (ان کے لیے) جنہوں نے اس گھر میں (یعنی مدینہ) اور ایمان میں ان سے پہلے جگہ بنالی ہے اور اپنی طرف ہجرت کرکے آنے والوں سے محبت کرتے ہیں اور مہاجرین کو جو کچھ دے دیا جائے اس سے وه اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہیں رکھتے بلکہ خود اپنے اوپر انہیں ترجیح دیتے ہیں گو خود کو کتنی ہی سخت حاجت ہو۔ (بات یہ ہے) کہ جو بھی اپنے نفس کے بخل سے بچایا گیا وہی کامیاب (اور بامراد) ہے*اور (ان کے لیے) جو ان کے بعد آئیں جو کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان ﻻ چکے ہیں اور ایمان داروں کی طرف سے ہمارے دل میں کینہ (اور دشمنی) نہ ڈال، اے ہمارے رب بے شک  تو شفقت و مہربانی کرنے واﻻ ہے۔

عقیدہ وعبادات اور تمام تر معاملات میں امت اسلامیہ صاف وشفاف امت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے عمل سے منع فرمایا ہے جس سے  دلوں میں غیظ وغضب پیدا ہو اور  باہمی اختلاف اور  آپسی بغض وعداوت کا سبب بنے، چنانچہ آپ نے فرمایا: ”ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو اور نہ باہم حسد کرو اور نہ ایک دوسرے سے پیٹھ پھیرو۔ اللہ کے بندو! آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو نیز کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی کے ساتھ تین دن سے زیادہ قطع تعلقی کرے۔“ [صحیح مسلم]

آپ نے الفت ومحبت کی رغبت دلاتے ہوئے فرمایا:   "قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم جنت میں داخل نہیں ہو گے یہاں تک کہ تم مومن ہو جاؤ، اور تم مو من نہیں ہو سکتے یہاں تک کہ ایک دوسرے سے محبت کرو.." [صحیح مسلم]

جب آپ سے صحابہ نے دریافت کیا کہ سب سے افضل انسان کون  ہے؟  تو آپﷺ نے فرمایا : "ہر صا ف دل اور سچی زبان  والا۔ صحا بہ نے عر ض کیا :سچی زبا ن والا تو ہم جانتے ہیں ۔ صاف دل والا کو ن ہو تا ہے؟ آ پﷺ نے فرمایا: پرہیزگار اور  پاک باز جس (کے دل) میں نہ کوئی گناہ ہو نہ زیادتی، نہ کینہ ہو نہ حسد"۔[سنن ابن ماجہ]

دل کی سلامتی اللہ کی ان نعمتوں میں سے ہے جن سے جنتیوں کو دخول جنت کے وقت سرفراز کیا جائے گا: (وَنَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ إِخْوَاناً عَلَى سُرُرٍ مُتَقَابِلِينَ)[الحجر:47].

ترجمہ: ان کے دلوں میں جو کچھ رنجش وکینہ تھا، ہم سب کچھ نکال دیں گے، وه بھائی بھائی بنے ہوئے ایک دوسرے کے آمنے سامنے تختوں پر بیٹھے ہوں گے۔

دل کی سلامتی دنیا  میں باعث راحت ہے اور آخرت میں باعث نعمت  اور دخول جنت کا سبب ہوگی، ابن حزم  فرماتے ہیں اور ایسا لگتا ہے   کہ بہت سے بیمار دل والے   لوگوں سے  آپ واقف تھے جو  ایک دوسرے سے  حقد وحسد اور بعض عداوت کرتے ہیں:

(میں نے اکثر لوگوں کو دیکھا –سوائے ان کے جنہیں اللہ نے محفوظ رکھا اور ایسے بہت کم ہیں- کہ وہ دنیا میں  شقاوت وبدبختی ، حزن وملال اور  تھکان   حاصل کرنے میں جلدی مچاتے  ہیں اور اس عظیم گناہ کا ارتکاب کرتے ہیں جو آخرت میں جہنم واجب کردے گا، جبکہ اس سے انہیں کوئی فائدہ نہیں ملتا،  یعنی اپنے دلوں میں  بری نیتیں رکھتے ہیں  اور یہ تمنا پالتے ہیں کہ مہنگائی بڑھ جائے جس سے  عام لوگ اور بچے اوربے گناہ ہلاک ہوسکتے ہیں، اور جن سے وہ  نفرت کرتے ہیں ان کے لیے سخت ترین مصیبت کی تمنا کرتے ہیں، جبکہ وہ یقینی طور پر جان رہے ہوتے ہیں کہ ان بری نیتوں سے ان کی کوئی آرزو پوری نہیں ہوسکتی   اور کوئی فیصلہ ٹل نہیں سکتا ، جبکہ  اگر وہ اپنی نیتیں پاک   اور درست کرلیں  تو انہیں بہت جلد راحت محسوس ہونے لگے گی اور اس کے نتیجے میں وہ اپنی دنیا سنوارنے میں  منہمک ہو جائیں گے،   اور آخرت میں بڑے اجر وثواب سے بہرہ ور ہوں گے، ساتھ  ہی ان کی کوئی تمنا مؤخر نہیں ہوگی اور نہ کوئی فیصلہ  ٹلے گا، اس سے بڑا نقصان اور خسارہ کیا ہو سکتا ہے  جس کی ہم نے نشاندہی کی؟ اور اس سے بڑی سعادت کیا ہوگی جس کی طرف ہم نےدعوت دی)۔

آج کل بہت سے لوگ حرام خوری اور بدنگاہی سے تو بچ جاتے ہیں لیکن اپنے دل کو حقد وحسد، کینہ کپٹ اور بغض وعناد کی بھٹی میں سلگتا چھوڑ دیتے ہیں، عبد اللہ  انطاکی نے ایک خراسانی شخص سے عرض کیا: (اے خراسانی! صرف چار چیزوں  پر  قابو  رکھو: اپنی آنکھ پر، اپنی زبان پر، اپنے دل پر  اور اپنی خواہش پر، اپنی آنکھ سے حرام چیز کی طرف مت دیکھو، اپنی زبان سے کوئی ایسی بات نہ بولو  کہ تیرے دل میں اللہ تعالی اس کی خلاف ورزی دیکھ رہا ہو،  اپنے دل میں کسی مسلمان کے لیے حقد وحسد اور کینہ کپٹ نہ رکھو، اور اپنی خواہش کو قابو میں رکھو اور اسے برائی پر آمادہ نہ ہونے دو، اگر یہ چار خصلتیں تیرے اندر نہیں پائی جاتی ہیں تو اپنے سر پر خاک ڈالو کیوں کہ  شقاوت تمہاری مقدر ہے)۔

کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ دل کی سلامتی کی پہچان یہ ہے کہ اسے آسانی سے فریب دیا جا سکےاور اس کا مذاق اڑایا جاسکے، جبکہ یہ مقصود نہیں ہے۔

ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: (دل کی سلامتی اور حماقت وغفلت میں فرق یہ ہےکہ: دل کی سلامتی اس وقت حاصل ہوتی ہے جب (انسان) شر کو جاننے کے بعد اس کا ارادہ نہ کرے، چنانچہ اس کا دل شر کا قصد وارادہ کرنے سے محفوظ رہے، نہ کہ اس کی معرفت وآگہی سے خالی رہے،  برخلاف حماقت اور غفلت کے کیوں کہ وہ جہالت  اور قلت آگہی سے عبارت ہوتی ہے،  یہ  کوئی قابل ستائش  چیز نہیں ہے، کیوں کہ یہ ایک کمی اور نقص ہے،  اور لوگ اس قسم کے انسان کی تعریف اس لیے کرتے ہیں کہ وہ اس کے شر سے محفوظ رہتے ہیں)۔ کمال یہ ہے کہ انسان شر کی تفصیلات سے واقف ہو اور اس کے باوجود اس کا ارادہ اپنے دل میں نہ لائے ، عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: (میں فریب کار نہیں ہوں اور نہ کوئی فریب کار مجھے دھوکا دے سکتا ہے)۔عمر اس سے کہیں زیادہ عقلمند اور   بارعب تھے کہ کوئی آپ کو دھوکا دے  دے۔

دل کی سلامتی دخول جنت کا ایک سبب ہے، انس بن مالک کا بیان ہے:  ( ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے تو آپ نے فرمایا: ابھی ایک جنتی آدمی تمہارے سامنے آنے والا ہے۔ چنانچہ تھوڑی دیر کے بعد ایک انصاری صحابی  تشریف لائے، جن کی داڑھی سے وضو کا پانی ٹپک رہا تھا اور بائیں ہاتھ میں دونوں جوتیاں لیے تھے۔ دوسرے دن پھر اسی طرح فرمایا: کہ ابھی ایک جنتی صاحب آنے والے ہیں۔ چنانچہ وہی صاحب پھر آئے۔ تیسرے دن آپ نے فرمایا ایک جنتی آنے والے ہیں۔ چنانچہ تیسرے روز بھی وہی صاحب آئے۔ جب نبی کریم ﷺ وہاں سے گھر تشریف لے گئے تو عبداللہ بن عمرو بن العاص  پیچھے پیچھے گئے اور کہا کہ میرا میرے باپ سے جھگڑا ہوگیا ہے، میں نے قسم کھائی ہے کہ باپ کے پاس تین روز نہیں رہوں گا۔ اگر آپ اپنے پاس ٹھہرنے کی جگہ دیں تاکہ تین دن گزر جائیں تو آپ کی مہربانی ہوگی، تو اس صحابی  نے کہا کہ ہاں ٹھہر جائیے۔ انس کا بیان ہے کہ: عبد اللہ کہا کرتے تھے کہ  وہ     تین روز تک ان کے مکان پر ٹھہرے رہےلیکن انہیں کچھ  زیادہ   عبادت کرتے ہوئے نہیں دیکھا سوائے اس کے کہ نیند کھلتی اور کروٹ بدلتے تو  اللہ کا ذکر کرتے اور تکبیر پڑھتے  یہاں تک کہ فجر کے لیے بیدار ہوجاتے ، قریب تھا کہ میں ان کے عمل کو معمولی  سمجھنے لگوں، جب تین راتیں گزر گئیں تو میں نے ان سے کہا کہ میرے اور میرے باپ میں کوئی جھگڑا نہیں تھا اور نہ کوئی تکرار تھی۔ صرف آپ کے عمل کو دیکھنا تھا کہ آپ کیا عمل کرتے ہیں جس کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ نے تین دفعہ فرمایا کہ ابھی ایک جنتی آدمی آنے والا ہے تو تینوں دفعہ آپ ہی سامنے آئے، تو  میں نے   چاہا کہ آپ کے پاس ٹھہر کر آپ کے عملوں کو دیکھوں اور آپ کی اقتدا کروں لیکن ان تین دنوں میں کوئی زیادہ کام کرتے ہوئے نہیں دیکھا تو آپ ایسا کیا کام کرتے ہیں جس کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ نے آپ کو جنتی کہا ہے، انہوں نے کہا کہ میرے عمل یہی ہیں جو آپ نے دیکھے ہیں لیکن اس کے ساتھ دو باتیں اور بھی ہیں کہ میں کسی مسلمان سے کینہ کپٹ نہیں رکھتا اور نہ کسی کی بھلائی پر جو اللہ نے اسے دے رکھی ہے حسد کرتا ہوں۔ تو عبداللہ نے کہا کہ اسی چیز نے آپ کو اس درجہ تک پہنچایا ہے اور یہی وہ چیز ہے جس سے ہم قاصر ہیں) [مسند احمد]

كينہ کپٹ اور بغض وعدات کے اسباب:

۱-شیطان کی اطاعت: اللہ تعالی کا فرمان ہے: وَقُل لِعِبَادِي يَقُولُوا الّتي هِىَ أحسَنُ إنّ الشَيطَانَ يَنَزَغُ بَيَنَهُم إن الشَيطَانَ كَانَ للإنَسانِ عَدُوّاً مُبِيناً [الإسراء:53]

ترجمہ: اور میرے بندوں سے کہہ دیجیئے کہ وه بہت ہی اچھی بات منھ سے نکالا کریں کیونکہ شیطان آپس میں فساد ڈلواتا ہے۔ بےشک شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شیطان اس بات سے ناامید ہوگیا ہے کہ جزیر ہ عرب میں نماز پڑھنے والے اس کی عبادت کریں گے لیکن وہ ان کے درمیان لڑائی جھگڑے کرانے سے (مایوس نہیں ہوا)۔[صحیح مسلم]

۲-غصہ : غصہ ہر برائی کی کنجی ہے،  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو غصہ سے دور رہنے کی وصیت کرتے ہوئے فرمایا: (غصہ نہ کرو) آپ نے یہ جملہ بار بار دہرایا۔ [صحیح بخاری]

اس کی وجہ یہ ہے کہ غصہ  لوگوں کے سامنے تکبر کرنے اور ان کو حقیر سمجھنے اور ان کے حقوق سلب کرنے اور ا نہیں تکلیف پہنچانےاور ان کے درمیان  بغض وعداوت اور اختلاف وانتشار کو ہوا دینے  کا راستہ ہے ۔

۳-چغلخوری: یہ بغض ونفرت کا سبب، بے تعلقی اور باہمی منافرت کی راہ، لوگوں کے درمیان چغلی پھیلانے اور ان کے دلوں میں بگاڑ پیدا کرنے کا ذریعہ ہے، اللہ تعالی نے اس مذموم صفت کے حاملین کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا: هَمَّازٍ مَّشَّاء بِنَمِيمٍ [القلم:11]

ترجمہ: بے وقار، کمینہ، عیب گو، چغل خور۔

اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (فتنہ پرور جنت میں نہیں جائے گا) اس سے مراد چغلخور ہے۔

۴-حسد: یعنی  کسی کی نعمت کے زائل ہونے کی تمنا کرے،  اس سے  مسلمانوں پر ظلم وزیادتی اور ان کی ایذارسانی ہوتی ہے جس سے اللہ اور اس کے رسول نے منع فرمایا ہے: ”حسد (دوسروں پر جلنے اور کڑھنے) سے اپنے آپ  کو  بچاؤ۔ بلاشبہ حسد نیکیوں کو ایسے کھا جاتا ہے، جیسے آگ ایندھن کو کھا جاتی ہے۔“ [اس حدیث کو ابوداود نے روایت کیا ہے]۔ حسد کی وجہ سے ہی غیبت وچغلخوری ، مسلمانوں پر بہتان تراشی اور ظلم وزیادتی اور کبر وغرور جنم لیتاہے۔

۵-دنیاداری میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کاجذبہ: بطور خاص اس زمانہ میں جبکہ یہ جذبہ مزید بڑھ گیا ہے اور دل سیاہ پڑ گئے ہیں، چنانچہ کوئی اپنے ساتھی سے اس لیے حسد کرتا ہے کہ وہ اس سے اعلی  مقام پر فائز ہوگیا،  کوئی لڑکی اپنی بہن سے اس لیے حسد کرتی ہے کہ  اسے اپنی ملازمت میں ترقی مل گئی،  جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے، یہ سارے عہدے اور مناصب فنا ہوجانے والے ہیں۔

وما هي إلا جيفة مستحيلة *** عليها كلاب همهن اجتذابها

فإن تجتنبها كنت سِلماً لأهلها *** وإن تجتذبها نازعتك كلابها

ترجمہ:  دنيا كی  حقیقت اس  بدبودار مُردار کی سی ہے، جس کےارد گرد کتوں کی بھیڑ ہو جو اسے نوچ کھانا چاہتی ہو۔اگر  تم اس سے دامن بچا کر رہوگے تو دنیا والے تمہیں بے ضرر سمجھیں گے اور اگر تم اسے  اپنی طرف کھینچوگے تو اس کے ارد گرد  جو  کتے  ہیں وہ تجھ پر ٹوٹ پڑیں گے۔

۶-شہرت اور سرداری  کی چاہت:  یہ ایک لا علاج او رخطرناک بیماری ہے، فضیل بن عیاض رحمہ اللہ نے فرمایا: (جو شخص بھی سرداری کا خواہش مند ہوتا ہے وہ حقد وحسد ، ظلم وزیادتی اور لوگوں کی عیب جوئی میں مبتلا ہوجاتا ہےاور   کسی کا  بھی ذکر خیر اس  کے  لیے ناگوار ہوتا ہے)۔ملازموں اور پیشہ وروں کے درمیان اس کا  مشاہدہ کیا جا  سکتا ہے۔

۷-کثرتِ مزاح: کثرت ِ مزاح کے نتیجے میں بغض ونفرت اور بد سلوکی پیدا ہوتی ہے،   مزاح کی حیثیت وہی  ہے جو کھانے میں نمک کی ہے،   (ذائقہ کے لیے) اس کی کم مقدار کافی ہوتی ہے اور  اگر اس کی مقدار بڑھ گئی تو کھانا خراب اور برباد ہوجاتا ہے۔

مذکورہ اسباب کے علاوہ بھی بہت سے ایسے اسباب ہیں جن سے باہمی نفرت اور آپسی بغض وعداوت پیدا ہوتی ہے۔

مسلمان سے یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اپنے نفس کا تزکیہ کرے، کینہ کپٹ اور حقد وحسد سے دور رہے، دل کی سلامتی کے حصول میں جو امور معاون ثابت  ہوتے ہیں، ان میں سے چند یہ ہیں:

۱-اخلاص:  

زید بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تین کاموں میں مؤمن کا دل خیانت نہیں کرتا: عمل کو اللہ کے لیے خلوص کے ساتھ ادا کرنا، مسلمان حکمرانوں کی خیر خواہی کرنا اور ان کی اجتماعیت میں شامل رہنا کیونکہ ان کی دعا دوسروں کو بھی شامل ہوتی ہے) [اس حدیث کو احمد اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے]۔

یہ معلوم سی بات ہے  کہ جو شخص اللہ عزوجل کے لیے اپنے دین کو خالص رکھے گا اس کا دل   اپنے مسلمان بھائیوں کی سچی محبت  سے معمور ہوگا، ایسے میں جب مسلمانوں کو کوئی بھلائی حاصل ہوگی تو وہ اس سے خوش ہوگا اور اگر انہیں کوئی مصیبت پہنچے گی تو وہ اس  پر رنجیدہ اور کبیدہ خاطر ہوگا، خواہ اس کا تعلق دنیوی امور سے ہو  یا اخروی امور سے۔

۲-بندہ کا اللہ سے راضی ہونا اور اس کے دل کا رضائے الہی سے معمور ہونا:

ابن القیم رحمہ اللہ رضا کے تعلق سے فرماتے ہیں: (رضا وخوشنودی  بندہ کے لیے سلامتی کا دروازہ کھول دیتی ہے،  چنانچہ اس کا دل  فریب، کینہ کپٹ اور حقد وحسد سے پاک ہوجاتا ہے، اور اللہ کے عذاب سے (قیامت میں)  وہی شخص محفوظ رہے گا جو سلامتی والا دل لے کر حاضر ہوگا، اس کے برعکس جس دل میں ناراضگی اور رضا کا فقدان پایا جاتا   ہو اسے کبھی سلامتی نہیں مل سکتی  ،  بندہ کے اندر رضا مندی جس قدر زیادہ ہوگی اسی قدر اس کا دل صحیح سالم ہوگا، کیوں کہ خباثت، کینہ کپٹ اور مکروفریب ناراضگی کے  مصاحب ہیں، جبکہ دل کی سلامتی، تابعداری اور نصح وخیر خواہی رضاوخوشنودی کے مصاحب ہیں، اسی طرح حسد بھی ناراضگی کا ہی نتیجہ   ہے،  اور حسد سے دل کا پاک ہونا رضا مندی کا ثمرہ ہے)۔

۳-قرآن کی تلاوت اور اس میں غور وفکر:

یہ ہر بیماری کی دوا ہے ، محروم ہے وہ شخص  جو کتاب الہی سے (اپنی بیماریوں کا) علاج نہیں کرتا، اللہ تعالی کا  فرمان ہے: قُل هُوَ لِلذِينَ ءَامَنُوا هُدىً وَشِفَآءٌ [فصلت:44]

ترجمہ: آپ کہہ دیجئے! کہ یہ تو ایمان والوں کے لیے ہدایت و شفا ہے ۔

وَنُنَزِلُ مِنَ القُرءَانِ مَا هُوَ شِفَآءٌ وَرَحمَةٌ لِلمُؤمِنِينَ وَلاَ يَزِيدُ الظّالمِينَ إلا خَسَاراً [الإسراء:82].

ترجمہ: یہ قرآن جو ہم نازل کر رہے ہیں مومنوں کے لئے تو سراسر شفا اور رحمت ہے۔ ہاں ظالموں کو بجز نقصان کے اور کوئی زیادتی نہیں ہوتی۔

ابن القیم رحمہ اللہ رقم طراز ہیں: (صحیح رائے یہ ہے کہ اس  آیت میں "مِن" بیانِ جنس کے لیے ہے نہ کہ تبعیض  کے لیے )۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے: يَاأيُها النّاسُ قَد جَآءَتكُم مَوعِظَةٌ مِن رَبِكُم وَشِفَآءٌ لِمَا فىِ الصُدُورِ [يونس:57].

ترجمہ: اے لوگو! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک ایسی چیز آئی ہے جو نصیحت ہے اور دلوں میں جو روگ ہیں ان کے لیے شفا ہے۔

معلوم ہوا کہ قرآن کریم تمام جسمانی اور قلبی امراض  اور دنیا وآخرت کی تمام تر بیماریوں کے لیے شفائے کاملہ ہے۔

 

۴-حساب وکتاب اور عذاب وعقاب کی یاد:

جس کا سامنا اس شخص کو کرنا ہوگا جو اپنی نفس کی خباثت اور  بد نیتی کی وجہ سے حقد وحسد، غیبت وچغلخوری اور مذاق واستہزا کے ذریعہ مسلمانوں کو تکلیف پہنچاتا ہے۔

۵-دعا:

بندہ کو چاہئے کہ ہمیشہ اپنے رب سے دعا کرے کہ اس کے دل کو اپنے بھائیوں کے تئیں (برے ارادوں سے) پاک وصاف کردے، نیز اپنے بھائیوں کے لیے بھی یہی دعا کرے، یہ نیک لوگوں کا طریقہ رہا ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے: وَالذِّينَ جَآءُو مِن بَعدِهِم يَقُولُونَ رَبَنَا اغفِر لَنَا وَلإخوَانِنَا الّذِينَ سَبَقُونَا بِالإيمَانِ وَلاَ تَجعَل في قُلُوبِنَا غِلاً لِلّذِينَ ءَامَنُوا رَبَنَا إنّكَ رَءُوفٌ رّحِيم [الحشر:10].

ترجمہ: اور (ان کے لیے) جو ان کے بعد آئیں جو کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان ﻻ چکے ہیں اور ایمان داروں کی طرف سے ہمارے دل میں کینہ (اور دشمنی) نہ ڈال، اے ہمارے رب بے شک تو شفقت و مہربانی کرنے واﻻ ہے۔

۶-صدقہ وخیرات:

صدقہ سے  دل کو طہارت اور نفس کو پاکیزگی حاصل ہوتی ہے،   اسی لیے اللہ تعالی نے اپنے نبی سے فرمایا:

خُذّ مِن أموالِهم صَدَقَةً تُطَهِرُهُم وَتُزَكِيِهِم بِهَا [التوبة:103].

ترجمہ: آپ ان کے مالوں میں سے صدقہ لے لیجئے، جس کے ذریعہ سے آپ ان کو پاک صاف کردیں۔

اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اپنے بیماروں کا علاج صدقہ سے کرو) [صحیح الجامع]۔ تمام مریضوں میں دل کے مریض سب سے زیادہ اس بات کے مستحق ہیں کہ اپنا علاج (صدقہ سے) کریں، اور ان تما م دلوں میں سب سے زیادہ اس کا مستحق آپ کے پہلو میں دھڑکنے والا دل ہے۔

۷-یاد رکھو کہ جس پر  تم  زہر انڈیل رہے  ہو اور جسے اپنے تیر کا نشانہ بنارہے ہو وہ تمہارا اسلامی بھائی ہے:

وہ کوئی یہودی ، نصرانی اور کافر نہیں ہے، بلکہ اسلام کا  رشتہ تم دونوں کو آپس میں جوڑتا ہے،  تو تم کیوں اسے   اذیت  پہنچاتے ہو۔

  اس مبارک ملک (سعودی عرب)  میں –اللہ تعالی اس کو  اپنی اطاعت کے ساتھ   ہمیشہ  سربلند رکھے-ہمارے لیے اللہ کی نعمت کو   جاننا لازم ہے کیوں کہ ہم آپس میں ایک دوسرے کے دشمن تھے لیکن اللہ نے ہمارے دلوں  میں الفت پیدا کردی، ہم  مختلف قبیلے کی شکل میں ایک دوسرے سے   دست وگریباں تھے، بھائی اپنے بھائی سے بے تعلق تھا، خواہشا ت اور خواہش پسندوں نے ہمیں اپنے چنگل میں لے لیا، چنانچہ ہم فرقوں اور ٹولیوں میں بٹ گئے، ہمارے درمیان نہ کوئی رشتہ رہا ، نہ   ہماری کوئی  متحدہ سرزمین رہی، اور نہ ہمارا کوئی پرچم رہا، لیکن اللہ  نے ہمارے درمیان شاہ عبد العزیز –اللہ ان کی قبر کو معطر کرے- کو نمودار کیا ، ان کے ذریعہ اللہ نے  ہمیں پرچم توحید کے نیچے جمع کیا، انہوں نے ہمیں شریعت کے ماتحت کیا، ان کے ذریعہ اللہ نے ان دلوں اور جسموں کو یکجا کردیا جو آپسی تنفر اور باہمی اختلاف کے شکار تھے، آپ عمر رسیدہ لوگوں سے دریافت کیجئے جنہوں نے ملک کی وحدت سے قبل مسجد حرام کی زیارت کی، اس وقت کی حالت کیا تھی، لوگ کعبہ کے ارد گرد بھی   فرقہ بندی کے شکار تھے،   چاروں مذاہب کا  اپنا   الگ منبر، الگ امام او ر الگ جماعت ہوتی تھی،   ایک جماعت دوسری جماعت میں نماز نہ پڑھتی ،  وہ سب ہلاکت انگیز تعصب کے شکار تھے جس نے دین کی وحدت کا قلع قمع کردیا تھا، لیکن اللہ نے اس اختلاف کے بعد ہمیں اجتماعیت عطا کی، عداوت کے بعد ہمارے درمیان الفت پیدا کردی، اللہ کی بے پناہ حمد وثنا ہے، ہمیں اس مناسبت سے تین مسائل کی طرف توجہ دلانا مناسب معلوم ہوتا ہے ، جن کے تعلق سے ہمیں کوئی بحث ومباحثہ نہیں کرنا چاہئے:

پہلا: عقیدہ ، دین اورشریعت کا مسئلہ

دوسرا: ملک کے امن وسلامتی کامسئلہ

تیسرا: ملک کی وحدت اور اجتماعیت کا مسئلہ

اگر ہم ان معالم اور ستونوں  کی حفاظت کرنے میں کامیاب رہے تو جان لیجئے کہ ملک بھی مضبوط قلعے کی طرف محفوظ رہے گا،  ہمارے دشمن اور حاقد وحاسد دور سر چھپائے بیٹھے رہیں گے،  ان کی آرزوئیں ناکام   ہوں گی،  ان کے منصوبے  نا مراد  ہوں گے، ان شاء اللہ ان کا کوئی بھی مقصد پورا نہیں ہوگا۔

۸-نفس کی پاکیزگی کا ایک طریقہ یہ ہے کہ سلام کو رواج دیا جائے:

ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تم جنت میں داخل نہیں ہوگے جب تک مومن نہ بن جاؤ اور(کامل) مومن نہیں بن سکتے جب تک باہم محبت کرنے والے نہ بن جاؤ۔ کیا میں تمہیں وہ کام نہ بتاؤں جس کے کرنے سے تمہارے اندر ایک دوسرے کی محبت پیدا ہو جائے؟ آپس میں سلام کو رواج دو)۔[صحیح مسلم]

ابن عبد البر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: (یہ حدیث سلام کی فضیلت پر دلالت کرتی ہے، کیوں کہ اس سے باہمی بغض وعداوت دور ہوتی اور آپس میں الفت ومحبت پیدا ہوتی ہے)۔

۹-کثرت سے سوال کرنے اور لوگوں کی ٹوہ میں رہنے سے بچنا:

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث پر عمل کرتے ہوئے کہ:  (یہ   انسان کے اسلام کی خوبی ہے کہ جس معاملے سے اس کا تعلق نہیں اسے چھوڑ دے)۔[سنن ترمذی]

 

 

۱۰-مسلمانوں کے لیے خیر کی چاہت:

کیوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے: (قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہےتم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا یہاں تک کہ اپنے بھائی کے لیے وہی چیز پسند کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے)۔[بخاری ومسلم نے اس حدیث کو روایت کیا ہے]۔

۱۱-غیبت وچغلخوری کی باتیں نہ سنے:

تاکہ انسان کا دل صحیح سالم رہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے: (کوئی مجھے میرے کسی صحابی کے بارے میں کچھ نہ کہے،  میں چاہتا ہوں کہ میں تمہارے پاس آؤں تو  میرا دل صحیح سالم ہو) [مسند احمد]۔ آج کل بہت سے لوگ ایک یا دو بات ایسی کہہ جاتے ہیں جن سے دلوں میں غصہ پیدا ہوجاتا ہے بطور خاص عورتوں کی مجلس  میں اور  گھروں میں  بیویاں  یا دوسری خواتین  (ایسی باتیں کہہ جاتی ہیں)۔

 ۱۲-دل کی اصلاح اور اس کے علاج ومعالجہ پر ہمیشگی برتے:

آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: (سن لو! بدن میں ایک ٹکڑا (گوشت کا) ہے، جب وہ سنور جاتا ہے تو سارا بدن سنور جاتا ہے اور جب وہ بگڑ جاتا ہے تو سارا بدن خراب ہو جاتا ہے۔ آگاہ رہو! وہ ٹکڑا دل ہے)۔[اس حدیث کو بخاری ومسلم نے روایت کیا ہے]

۱۳-لوگوں کے آپسی اختلاف کودور کرنے کی کوشش  کرے:

اللہ تعالی کا فرمان ہے: فَاتَقُوا اللّهَ وَأصلِحُوا ذَاتَ بَينِكُم [الأنفال:8 ]

ترجمہ: تم اللہ سے ڈرو اور اپنے باہمی تعلقات کی اصلاح کرو۔

ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: (یہ اللہ اور اس کے رسول کا حکم ہے کہ لوگ اللہ سے ڈریں اور اپنے آپسی تعلقات کی اصلاح کریں)۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  ”کیا میں تمہیں روزے، نماز اور صدقے سے بڑھ کر افضل درجات کے اعمال نہ بتاؤں؟“ صحابہ نہ کہا: کیوں نہیں، اے اللہ کے رسول! آپ ﷺ نے فرمایا: ”آپس کے میل جول اور روابط کو بہتر بنانا“۔[اس حدیث کو ابو داود نے روایت کرتا ہے]۔

اب آئیے ہم  اس سلسلے میں امت کے بعض افراد کی روشن مثالوں کو پیش کرتے ہیں:

تمام اولاد آدم کے سردار  -علیہ صلوات  ربی- طائف کی طرف جاتے ہیں، اپنے آپ کو اس کے سرداروں اور باشندوں کے سامنے پیش کرتے ہیں، لیکن کوئی بھی آپ کی دعوت قبول نہیں کرتا، آپ رنجیدہ اور کبیدہ خاطر ہوکر واپس لوٹ جاتے ہیں،    اچانک  کیا دیکھتے ہیں کہ   بادل کا ایک ٹکڑا آپ پر سایہ فگن ہے جس میں حضرت جبریل نظر آرہے ہیں،  اور ان کے ساتھ پہاڑوں کے فرشتہ بھی ہیں، پہاڑوں کا فرشتہ آپ کو  ندا لگاتا ہے: آپ کی قوم نے آپ سے جو بات کہی اسے اللہ نے سن لیا، میں پہاڑوں کا فرشتہ ہوں، آپ کے رب نے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے، تاکہ آپ جو چاہیں حکم فرمائیں، اگر آپ چاہیں تو میں ان پر اَخشبین (مکہ کے دوپہاڑوں) کو ملا دوں،   صدر سلیم کے مالک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلکہ مجھے امید ہے کہ اللہ تعالی ان کی پشت سے ایسی قوم کو وجود میں لائے  گا جو صرف ایک اللہ کی عبادت کرے گی اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائے گی۔ آخر کیسا صبر اور کیسی سلامتی حاصل تھی آپ کے دل کو!!!

پھر آپ اس واقعہ پر بھی غور کریں کہ جب  آپ کی قوم نے آپ کو زد وکوب کیا یہاں تک کہ آپ خون آلود ہوگئے، آپ اپنا خون پوچھتے اور دعا کرتے : اے اللہ! میری قوم کو معاف کردے کہ انہیں (میری حقیقت) معلوم نہیں۔ آپ یاد کریں کہ مشرکوں نے مکہ میں آپ کے ساتھ کیسا سلوک کیا، آپ کو اذیت دی اور آپ کےقتل کی سازش رچی یہاں تک کہ  آپ ان کے درمیان سے کوچ کر گئے اور  ایسا ہی ہوا جیسا کہ اللہ نے بیان فرمایا: : (وَإِذْ يَمْكُرُ بِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِيُثْبِتُوكَ أَوْ يَقْتُلُوكَ أَوْ يُخْرِجُوكَ وَيَمْكُرُونَ وَيَمْكُرُ اللَّهُ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ) (الأنفال:30)

ترجمہ: اور اس واقعہ کا بھی ذکر کیجئے! جب کہ کافر لوگ آپ کی نسبت تدبیر سوچ رہے تھے کہ آپ کو قید کر لیں، یا آپ کو قتل کر ڈالیں یا آپ کو خارج وطن کر دیں اور وه تو اپنی تدبیریں کر رہے تھے اور اللہ اپنی تدبیر کر رہا تھا اور سب سے زیاده مستحکم تدبیر واﻻ اللہ ہے۔

جب اللہ تعالی نے آپ کو فتح ونصرت عطا کی اور آپ  فاتحانہ طریقہ سے مکہ میں داخل ہوئے تو نہ کسی سے انتقام لیا اور نہ کسی کو تکلیف پہنچائی، بلکہ اپنی قوم سےعرض کیا: آج تمہارے اوپر کوئی ملامت نہیں۔ اس قسم کی مثالیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بھری پڑی ہیں، میں آپ کی سیرت طیبہ کا مطالعہ کرنے کی نصیحت کرتا ہوں۔

اللہ کی نبی یوسف علیہ السلام : اپنے بھائیوں کے ساتھ ان کا واقعہ دل کی سلامتی کا ایک شاہکار نمونہ ہے، چنانچہ  آپ کے بھائیوں نے آپ کو کنویں میں ڈال دیا، آپ کو اپنے والد سے جدا کردیا اور اس کے بعد آپ کو قید وبند کی زندگی گزارنی پڑی ، اس کے علاوہ آپ کو اور بھی مشکلات کا سامنا  کرنا، جو کہ معروف ومشہور ہیں، لیکن جب اللہ نے آپ کو غلبہ عطا کیا اور  آپ کو ملک ِ مصر کے خزانوں کا والی مقرر فرمایا تو آپ کے بھائی آپ کے پاس  آئے اور  جب آپ کو پہچان گئے تو بول پڑے: (تَاللَّهِ لَقَدْ آثَرَكَ اللَّهُ عَلَيْنَا وَإِنْ كُنَّا لَخَاطِئِينَ).

ترجمہ: انہوں نے کہا اللہ کی قسم! اللہ تعالی نے تجھے ہم پر برتری دی ہے اور یہ بھی بالکل سچ ہے کہ ہم خطا کار تھے۔

لیکن آپ نے انہیں سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہا: ( لا تَثْرِيبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ يَغْفِرُ اللَّهُ لَكُمْ وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ).

ترجمہ: آج تم پر کوئی ملامت نہیں ہے۔ اللہ تمہیں بخشے، وہ سب مہربانوں سے بڑا مہربان ہے۔

آپ نے اپنے دل میں کوئی کدورت نہیں رکھی۔ پھر جب آپ کے بھائیوں کے ساتھ آپ کے والد تشریف لائے تو  : (وَرَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ وَخَرُّوا لَهُ سُجَّداً وَقَالَ يَا أَبَتِ هَذَا تَأْوِيلُ رُؤْيايَ مِنْ قَبْلُ قَدْ جَعَلَهَا رَبِّي حَقّاً وَقَدْ أَحْسَنَ بِي إِذْ أَخْرَجَنِي مِنَ السِّجْنِ وَجَاءَ بِكُمْ مِنَ الْبَدْوِ مِنْ بَعْدِ أَنْ نَزَغَ الشَّيْطَانُ بَيْنِي وَبَيْنَ إِخْوَتِي إِنَّ رَبِّي لَطِيفٌ لِمَا يَشَاءُ إِنَّهُ هُوَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ) (يوسف:100)

ترجمہ: اپنے تخت پر اپنے ماں باپ کو اونچا بٹھایا اور سب اس کے سامنے سجدے میں گر گئے۔ تب کہا کہ اباجی! یہ میرے پہلے کے خواب کی تعبیر ہے میرے رب نے اسے سچا کر دکھایا، اس نے میرے ساتھ بڑا احسان کیا جب کہ مجھے جیل خانے سے نکالا اور آپ لوگوں کو صحرا سے لے آیا اس اختلاف کے بعد جو شیطان نے مجھ میں اور میرے بھائیوں میں ڈال دیا تھا۔ میرا رب جو چاہے اس کے لئے بہترین تدبیر کرنے واﻻ ہے۔ اور وه بہت علم وحکمت واﻻ ہے۔

آپ نے یہ نہیں کہا کہ میرے رب نے میرے ساتھ بڑ ا احسان کیا کہ مجھے کنویں سے نکالا، تاکہ  آپ کے بھائیوں کو شرمندگی نہ ہو۔(اور آپ لوگوں کو صحرا سے لے آیا) ، آپ  نے یہ نہیں کہا کہ آپ کی  بھوک اور حاجت کو دور کردیا تاکہ ان کے تئیں آپ  کا ادب بحال رہے۔( اس اختلاف کے بعد جو شیطان نے مجھ میں اور میرے بھائیوں میں ڈال دیا تھا) اس طرح آپ نے اختلاف کو اس کے سبب کی طرف منسوب کیا اور اس کے کرنے والے  (اپنے بھائیوں) کی طرف منسوب نہیں کیا۔

آئیے اب ہم غور کرتے ہیں کہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مسطح بن اثاثہ کے ساتھ کیسا رویہ اپنایا،  جبکہ ابوبکر صدیق مسطح کا نان ونفقہ اٹھاتے تھے ، لیکن جب واقعہ اِفک پیش آیا تو مسطح بھی ان لوگوں میں شامل ہوگیا جنہوں نے اس سلسلے میں اپنی زبان کھولی، یہ بات جب ابوبکر کو معلوم ہوئی تو انہوں نے قسم کھالیا کہ وہ مسطح کا نان ونفقہ بند کردیں گے، چنانچہ اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی: (وَلا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَالسَّعَةِ أَنْ يُؤْتُوا أُولِي الْقُرْبَى وَالْمَسَاكِينَ وَالْمُهَاجِرِينَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلْيَعْفُوا وَلْيَصْفَحُوا أَلا تُحِبُّونَ أَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ) (النور:22)

ترجمہ: تم میں سے جو بزرگی اور کشادگی والے ہیں انہیں اپنے قرابت داروں اور مسکینوں اور مہاجروں کو فی سبیل اللہ دینے سے قسم نہ کھا لینی چاہیئے، بلکہ معاف کردینا اور درگزر کرلینا چاہیئے۔ کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے قصور معاف فرما دے؟ اللہ قصوروں کو معاف فرمانے واﻻ مہربان ہے۔

یہ آیت سنتے ہی ابوبکر نے مسطح کا نان ونفقہ اٹھانا شروع کردیا۔

خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو دیکھیے کہ فتح ونصرت کے اوج پر فائز ہیں، لشکر کی قیادت کررہے ہیں،  لیکن جب ان  کو  خبر ملتی ہے کہ عمر فاروق نے ان کو قیادت سے معزول کردیا ہے  تو  وہ اپنی زبان سے ناراضگی کا ایک کلمہ بھی نہیں نکالتے  اور نہ جنگ کے میدان سے باہر نکلتے ہیں بلکہ اسلامی   لشکر کے ایک فرد کی حیثیت سے پوری جاں بازی کے ساتھ جہاد کرتے رہتے ہیں جب کہ وہ اس سے قبل اسی لشکر کے قائد ہوتے ہیں۔

اس  کے بعد ابن عباس رضی اللہ عنہما کے اس قول کو سماعت کریں ، وہ فرماتے ہیں: میں جب سنتا ہوں کہ مسلمانوں کے فلاں ملک میں بارش ہوئی ہے تو مجھے خوشی ہوتی ہے، جب کہ اس ملک میں میرا کوئی  چرنے  والا جانور بھی نہیں  ہوتا۔

ابودجانہ رضی اللہ عنہ کے پاس لوگ حالت مرض میں (ان کی عیادت کے لیے) جاتے ہیں، دیکھتے ہیں کہ ان کا چہرہ  ہشاش وبشاش اور پر نور ہے  ، اس کی وجہ دریافت کرنے پر عرض کرتے ہیں: میرے نزدیک دوعمل سے زیادہ کوئی (تیسرا )   عمل پختہ  (قابل قبول) نہیں:  پہلا یہ کہ میں ایسے مسئلہ میں زبان نہیں کھولتا تھا جس سے میرا کوئی تعلق نہیں اور دوسرا یہ کہ میرا دل مسلمانوں کے تئیں (حقد وحسد اور کینہ کپٹ سے) پاک صاف تھا۔

علبہ بن زید کا واقعہ ملاحظہ کریں  کہ جب  نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو (راہ الہی میں) صدقہ کرنے کا حکم دیا  تو ان کے پاس صدقہ کرنے کے لیے کچھ نہیں تھا جس کی وجہ سے وہ رونے لگے اور فرمایا: اے اللہ! میرے پاس صدقہ کرنے کے لیے کچھ نہیں ہے، اے اللہ! میں  تمام مسلمانوں  پر  یہ صدقہ کرتا ہے کہ انہوں نے مال، جسم اور عزت وناموس سے متعلق  میرے اوپر جوبھی ظلم کیا ہے ( میں اسے معاف کر تا ہوں)،   پھر صبح کے وقت لوگوں کےساتھ  (نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے) ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ شخص کہاں ہے جس نے کل رات اپنی عزت وناموس کا صدقہ کیا؟  یہ سن کر علبہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خوش خبری قبول کرو ، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے ! تمہارا یہ صدقہ مقبول زکاۃ میں لکھ دیا گیا۔

اما م احمدبن حنبل رحمہ اللہ کو دیکھ لیجیے کہ معتصم کے ہاتھوں ان کو زد وکوب کیا جاتا ہے  اور مختلف سزاؤں سے دوچار کیا جاتا ہے، معتصم کی وفات کے بعد جب ان کو علاج کے لیے لے جایاجاتا ہے اور ان کو اپنے جسم میں تکلیف محسوس ہوتی ہے تو فرماتے ہیں: اے اللہ ! معتصم کی مغفرت فرما۔

سبحان اللہ! اس انسان کے لیے مغفرت کی دعا کرر ہے ہیں جس کی وجہ ان کو اذیتوں سے دوچار ہونا پڑا۔یقینًا یہ بڑی بات ہے جس سے صرف وہی سینے شناسا ہوتے ہیں  جو اپنے اندر بڑے دل رکھتے ہیں   جن  کا عنوان ہوتا ہے: *دل کی سلامتی*۔

کیا آپ کو شیخ ابن باز رحمہ اللہ کا وہ واقعہ معلوم ہے جو شہرِ خرج کے ایک شخص کے ساتھ پیش آیا؟ شہرِ خرج میں شیخ     جب منصب قضا پر فائز  ہوئے تو ایک شخص آپ کے پاس کوئی مسئلہ لے کر آیا اور اس نے امام ابن باز رحمہ اللہ کو گالی دے دی، شہر میں یہ خبر پھیل گئی، اور شیخ حج کے لیے نکل گئے، شیخ حج ہی میں تھے کہ  وہ شخص بیمار ہوگیا اورفوت پا گیا، جب اس کی لاش  نماز جنازہ  کے لیے پیش کی گئی تو امام نے جنازہ پڑھانے سے انکار کردیا،  کیوں کہ اس نے شیخ ابن باز کو گالی دی تھی، چنانچہ امام کے علاوہ دوسرے  لوگوں نے  نماز جنازہ  پڑھی،جب شیخ ابن باز حج سے واپس ہوئے اور آپ کو یہ خبر ملی تو امام کی بڑی سرزنش کی  اور اس کے عمل پر خفگی ظاہر کی ، پھر آپ نے  اس شخص کی قبر کے بارے میں پوچھا اور وہاں جاکر نماز جنازہ پڑھی اور  اور اس کے لیے دعا کی،   ہمیں غور کرنا چاہئے کہ ہم  ان علمائے کرام کے اخلاق سے کتنے دور ہیں!!

اخوت وبھائی چارگی اور دل کی سلامتی کے    مثبت فوائد وثمرات:

ہم نے جو اصول وضوابط پیش کیے ہیں، اخوت ومحبت کی عمارت کو مضبوط بنیاد فراہم کرنے میں ان کا بڑا اہم کردار ہے،  اس  باب میں یہ اصول وضوابط  بہت کارگر ہیں، اس کا یقین حاصل کرنے کےلیے آئیے ہم غور کرتے ہیں کہ مختلف میدانوں میں ان کے  کون سے اہم اثرات وثمرات مرتب ہوتے ہیں:

۱-اجتماعی عمل  کی سطح پر:

اس میں کوئی شک نہیں کہ اجتماعیت کے ساتھ کام کرنے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ہر فرد کے اندر حرکت ونشاط کی روح بیدار ہوتی ہے  اور  اپنے مشن کو کامیاب بنانے میں وہ اپنی پوری طاقت جھونک دیتا    اور تمام وسائل اختیار کرتا ہے: دو ہاتھوں کی طرح کہ ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ کو دھوتا ہے، اسی طرح وہ بھی اپنے بھائیوں کے ساتھ مل کر اس مقصد کو بروئے عمل لانے کی کوشش میں لگ جاتا ہے، یعنی رب العالمین کی عبادت کو بجا لانے، حق اور دین کی مدد کرنے اور  مومنوں کے کلمہ کو بلند کرنے میں لگ جاتا ہے۔ اس طرح وہ سب کے سب اپنے متفقہ منصوبہ کو بروئے کار لانے میں ایک شخص کے دل کی طرح ہوجاتے ہیں، اور اگر کسی بھی زمانے میں ان کے درمیان کوئی اختلاف رہا ہو تو اسے فراموش کردیتے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر وہ صف جس کے تمام افراد –خواہ وہ قائد ہوں یا لشکر-سب کے سب ایک شخص کے دل کی طرح ہوجائیں ، صرف ایک اللہ کے لیے مخلص ہوں اور کسی انسان سے کسی بدلہ اور شکر کی امید نہ رکھیں، تو یہ صف اذن الہی سے   اپنے مقاصد میں کامیابی حاصل کرنے پر زیادہ قادر ہوتی ہے ، صدر اول کے مسلمانوں نے جو بھی کامیابیاں حاصل کیں، ان کی وجہ یہ تھی ان کا عقیدہ راسخ تھا، اللہ پر ان کا ایمان بہت مضبوط تھا، نیز یہ  کہ ان کے اندر اخوت وبھائی چارگی تھی جس کی بنیاد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس   وقت رکھی تھی جس وقت آپ نے ان کے درمیان بھائی چارہ قائم کیا تھا۔

اخوت وبھائی چارگی سے صف کی وحدت اپنے تمام ترمعانی کےساتھ    پائیدار ہوتی ہے ، جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا: ﴿إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِهِ صَفًّا كَأَنَّهُمْ بُنيَانٌ مَرْصُوصٌ (4)﴾

ترجمہ:  بے شک  اللہ تعالیٰ ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اس کی راه میں صف بستہ جہاد کرتے ہیں گویا وه سیسہ پلائی ہوئی عمارت ہیں۔

اخوت کی روح  انہیں ایک  صف میں اس طرح  جمع کرتی  ہے کہ اس میں دراڑ اور انتشار  پیدا کرنا  مشکل ہوجاتا ہے۔

اللہ تعالی ان سے راضی ہو، ان کی سوانح حیات اس سلسلے میں صاف وشفاف صفحات سے بھڑی پڑی ہیں، ان کی سوانح کے تعجب خیز واقعات غور وفکر والے منصفوں کی نظر سے اوجھل نہیں ہوسکتے۔اللہ تعالی ہمیں بھی صداقت وراستی کے ساتھ بغیر کسی فتنہ کے ان کی صفوں میں شامل فرمائے۔اسلام کے علمبردارن اور اس کی طرف  دعوت دینے والے لوگ فتنوں کے مقابلے میں اللہ کے فضل کے بعد اپنے ایمانِ راسخ اور  روحِ اخوت کے بل پر ڈٹے رہے ،  چنانچہ ان میں کا ایک شخص اپنے بھائی –خواہ وہ قریبی ہو یا دور کا ہو- کی  چغلخوری کرنے ،  یا اس کی دعوت کو نقصان پہنچانے   یا اس کی شہرت کومجروح کرنے پراس بات کو ترجیح دیتا تھا کہ اپنی زندگی قربان  کردے۔اس طرح انہو ں نے اپنی بے مثال اخوت اور صحابی رسول کی سیرت کی  عمدہ ترین مثالیں پیش کی۔

۲-انفرادی سطح پر:

اخوت کی روح سے سب سے پہلے انسان خود مستفید ہوتا ہے، کیوں کہ وہ محسوس کرتا ہے کہ وہ اکیلا نہیں ہے، بلکہ اس کے ساتھ اس کے (بہت سےدینی) بھائی بھی ہیں جو اللہ کا تقوی اختیار کرنے اور اس  کی عبادت و اطاعت کرنے میں اس کا تعاون کرتے ہیں، حدیث میں آیا ہے:  بھیڑ اسی بکری کو کھاتی ہے جو ریوڑ سے دور ہوتی ہے۔

انسان اپنے (دینی واسلامی)  بھائیوں کے بیچ  بہترین اصحاب  اور رفقاء بھی پاتا ہے، چنانچہ جب وہ اللہ  کا ذکر کرتا ہے تو وہ اس کی مدد کرتے ہیں اور جب وہ بھول جاتا ہے تو  اسے یاد دلاتے ہیں۔

مسلمان جب اپنے بھائیوں سے ملتا ہے تو ان سے  مختلف میدانوں میں نوع بنوع تجربات حاصل کرتا ہے،   اس کا نتیجہ یہ  ہوتا ہے کہ تمام تر دعوتی، دنیوی اور عملی  میدانوں میں اس کی کارکردگی کا معیار بلند ہوجاتا ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے: ﴿وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى﴾ (المائدة: من الآية 2).

ترجمہ: نیکی اور پرہیزگاری میں ایک دوسرے کی امداد کرتے رہو۔

اسی طرح انسان اپنے بعض بھائیوں کے اندر اپنے لیے  بہترین نمونہ اور اسوہ بھی پاتا ہے،  جو اسے اپنے رب سے قریب کرتا ہے، اس کے اندر مختلف خصلتوں کی بیج بوتا ہے،  جنہیں اپنانے کی ناکام کوشش وہ پہلے بھی کر چکا ہوتا ہے ، لیکن ان کی صحبت سے وہ خصلتیں حاصل ہوجاتی ہیں،   بلکہ مختلف حالات اور اوقات میں ان کی اقتدا کرنے سے ایسی صلاحیتیں پیدا ہوجاتی ہیں جن کی کوئی قیمت نہیں لگائی جا سکتی۔

اخوت انسان کو ثابت قدم رہنے پر مدد کرتی ہے،  بایں طور کہ جو شخص دعوت الی اللہ کی راہ پر چلتا ہے وہ طبعی طور پر تکلیف واذیت، ابتلا وآزمائش اور فتنوں سے دوچار ہوتا ہے، کیوں کہ یہ راہ ناپسندیدہ چیزوں سے ڈھکی اوررکاوٹوں  سے  اٹی ہوتی ہے،  اس راہ میں مسلمان کو اپنے بھائیوں کی ضرورت محسوس ہوتی ہے، جن کے دل   اس کے ساتھ ہوں ، وہ راستے کی مشقتوں پر اس کی مدد کریں   اور اسے حق وراستی کی وصیت کریں۔

۳-سماجی سطح پر:

وہ معاشرہ جس  کے  افراد  آپس میں الفت ومحبت اور باہمی تعاون کی دولت سے آراستہ ہوتے ہیں،  اور ان میں کا ہر فرد اپنے حقوق اور واجبات سے آشنا ہوتا ہے، اس معاشرہ کا معیار امتیازی ہوتا ہے ، گرچہ ان کی تعداد کم ہی کیوں نہ ہو، کیوں کہ وہ سب کے سب اسوہ ونمونہ ہوتے ہیں، وہ معاشرہ پر اثر انداز ہوتے ہیں، ان سے معاشرہ متاثر ہوتا ہے اور  اس کا ایمانی ، سماجی اور تہذیبی معیار بلند ہوتا ہے...جس کے نتیجے

المرفقات

1647809962_دلوں کی دنیا.pdf

المشاهدات 1303 | التعليقات 0