🌟حب الوطن🌟أردو🇵🇰

تركي بن عبدالله الميمان
1446/03/16 - 2024/09/19 19:29PM

پہلا خطبہ:
            بیشک تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں، ہم اُس کی حمد کرتے ہیں، اُس سے مدد مانگتے ہیں، اُس سے معافی چاہتے ہیں اور اُس کی طرف توبہ کرتے ہیں۔ جس کو اللہ ہدایت دے، اُسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا، اور جس کو وہ گمراہ کر دے، اُسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں ہے۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اُس کا کوئی شریک نہیں۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اُس کے بندے اور رسول ہیں۔

            حمدوثناء کے بعد: میں تمہیں اور خود کو اللہ کے تقویٰ کی نصیحت کرتا ہوں، قول و عمل میں، اور خفیہ اور ظاہر میں اُس کی نگرانی کا خیال رکھو۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿وَاعْلَمُوا أَنَّ اللهَ يَعْلَمُ مَا فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللهَ غَفُورٌ حَلِيمٌ﴾سورۃ البقرہ: 235 "اور جان لو کہ اللہ تمہارے دلوں میں جو کچھ ہے، اُس کو جانتا ہے، پس اُس سے ڈرو، اور جان لو کہ اللہ بخشنے والا اور بردبار ہے۔"

            اے اللہ کے بندو! وطن سے محبت ایک فطری اور جبلّی امر ہے؛ بیشک وطن کی محبت زندگی کی محبت کی طرح ہوتی ہے! اور کسی کو اُس کے وطن سے نکالنا، ایسا ہے جیسے اُس کو زندگی سے نکال دیا جائے! اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو اپنی کتاب میں ایک ساتھ ذکر کیا ہے؛ اور فرمایا: ﴿وَلَوْ أَنَّا كَتَبْنَا عَلَيْهِمْ أَنِ اقْتُلُواأَنفُسَكُمْ أَوِ اخْرُجُوا مِنْ دِيَارِكُمْ مَا فَعَلُوهُ إِلَّا قَلِيلٌ مِنْهُمْ﴾سورۃ النساء: 66"اور اگر ہم اُن پر یہ فرض کر دیتے کہ اپنے آپ کو قتل کرو یا اپنے وطنوں سے نکل جاؤ، تو ان میں سے بہت کم ایسا کرتے۔"

            ورقہ بن نوفل نے نبی ﷺ سے کہا: "(کاش میں اُس وقت تک زندہ رہوں جب آپ کو آپ کی قوم نکالے گی)" تو نبی ﷺ نے فرمایا: "(کیا وہ مجھے نکالیں گے؟!)" ورقہ نے کہا: "ہاں، جو بھی شخص آپ جیسی دعوت لے کر آیا، اُس کے ساتھ دشمنی کی گئی۔" رواه البخاري (6982) علما نے کہا: "یہ دلیل ہے کہ وطن کی محبت کتنی شدید ہوتی ہے، اسی لیے نبی ﷺ کا دل وطن سے نکالے جانے کے ذکر پر متوجہ ہوا اور آپ نے فرمایا: 'کیا وہ مجھے نکالیں گے؟'"شرح الحديثِ المقتفى في مبعث النبي المصطفى، أبي شامة (163). بتصرف

            نبی ﷺ جب سفر سے واپس آتے اور مدینہ کی دیواروں کو دیکھتے تو اپنی سواری کو تیز کر دیتے، اور اگر آپ کسی جانور پر ہوتے، تو اُس کو بھی وطن کی محبت میں تیز کر دیتے۔ رواه البخاري (1886)  ابن حجر نے کہا: "اس حدیث میں مدینہ کی فضیلت اور وطن سے محبت کی مشروعیت کی دلیل ہے۔" فتح الباري (3/621)

            وطن کی محبت الفت و اتحاد کا موقع ہے، نہ کہ جھگڑے اور اختلاف کا؛ شریعت الفت کی دعوت دیتی ہے اور فرقہ واریت سے منع کرتی ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا﴾سورۃ الحجرات: 13 "اور ہم نے تمہیں قوموں اور قبیلوں میں بنایا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔"

            وطن کی محبت حق کی دعوت اور مخلوق پر رحمت کی دعوت کا موقع ہے؛ قریب ترین لوگ جو ہم وطن ہوں سب سے زیادہ احسان کے مستحق ہیں، اور سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ اُن کو خیر اور جنت کی طرف بلایا جائے، اور شر اور آگ سے بچایا جائے! اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نارًا﴾سورۃ التحریم: 6"اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل کو آگ سے بچاؤ۔"

            وطن اور زبان کا اشتراک دعوت کے قبول ہونے کا ایک مضبوط ذریعہ ہے، اور اس قوت کی تاثیر ہوتی ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَسُولٍ إِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهِ لِيُبَيِّنَ لَهُمْ﴾سورۃ ابراہیم: 4 "اور ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اپنی قوم کی زبان میں تاکہ وہ اُن پر واضح کرے۔"

            وطن کی محبت مسلمان پر لازم کرتی ہے کہ وہ اپنے حکمران کی معروف اطاعت کرے: اللہ کی رضا کے لیے، نہ کہ دنیاوی خواہشات کے لیے؛ کیونکہ وطن کی سلامتی، خون کا تحفظ، اور شریعت کا قیام صرف اطاعت اور جماعت کو لازم پکڑنے سے حاصل ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الأمْرِ مِنْكُمْ﴾سورۃ النساء: 59 "اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو، اور رسول اور اپنے حکمرانوں کی بھی اطاعت کرو۔"

            وطن کی محبت ہم پر لازم کرتی ہے کہ ہم اپنے حکمرانوں کے لیے دعا کریں، کیونکہ حکمران سب سے زیادہ دعا کے مستحق ہیں، اُن کی اصلاح عوام اور ملک کی اصلاح کا باعث ہے۔ فضیل بن عیاض فرماتے ہیں: "اگر میرے پاس ایک دعا قبول ہونے والی ہو تو میں اُسے سلطان کے حق میں کروں گا۔" شرح السنة، البربهاري (114).

            وطن کی محبت ہم پر لازم کرتی ہے کہ ہم فساد کے سوراخوں سے اُس کی کشتی کی حفاظت کریں۔ حق کی تلقین اور شر سے بچانے کا مقصد وطن کی کشتی کو ڈوبنے سے بچانا ہے! نبی ﷺ نے فرمایا: مَثَلُ القَائِمِ على حُدُودِ اللهِ، وَالوَاقِعِ فِيهَا: كَمَثَلِ قَوْمٍ اسْتَهَمُوا على سَفِينَةٍ، فَأَصَابَ بَعْضُهُمْ أَعْلاَهَا، وَبَعْضُهُمْ أَسْفَلَهَا؛ فَكَانَ الَّذِينَ فِي أَسْفَلِهَا إِذَا اسْتَقَوْا مِنَ المَاءِ: مَرُّوا على مَنْ فَوْقَهُمْ، فَقَالُوا: لَوْ أَنَّا خَرَقْنَا في نَصِيبِنَا خَرْقًا، وَلَمْ نُؤْذِ مَنْ فَوْقَنَا! فَإِنْ يَتْرُكُوهُمْ وَمَا أَرَادُوا: هَلَكُوا جَمِيعًا، وَإِنْ أَخَذُوا عَلَى أَيْدِيهِمْ: نَجَوْا، وَنَجَوْا جَمِيعًا! "(مثال اللہ کی حدود کو قائم کرنے والے اور اُن سے تجاوز کرنے والے کی ایسی ہے جیسے ایک قوم نے ایک کشتی پر سوار ہونے کے لیے قرعہ اندازی کی، چنانچہ بعض کو اوپر کی جگہ ملی اور بعض کو نیچے کی؛ چنانچہ نیچے والے جب پانی لینے جاتے تو اوپر والوں کے پاس سے گزرنا پڑتا، تو اُنہوں نے کہا: اگر ہم اپنے حصے میں ایک سوراخ کر لیں تو اوپر والوں کو تکلیف نہ ہوگی! اگر اُنہیں اُس کے حال پر چھوڑ دیا جائے تو سب ہلاک ہو جائیں گے، اور اگر اُن کے ہاتھ پکڑ لیں تو سب نجات پائیں گے۔ رواه البخاري (2493)

            وطن کی محبت صرف ایک نعرہ نہیں ہے، بلکہ اسے نفع بخش اعمال، سچی دعوت، جماعت کو لازم پکڑنے، اور امانت کی ادائیگی میں بدلنا ضروری ہے۔ ثَلَاثٌ لَا يُغِلُّ عَلَيْهِنَّ قَلْبُ مُسْلِمٍ: إِخْلَاصُ الْعَمَلِ لِلهِ، وَمُنَاصَحَةُ أَئِمَّةِ المُسْلِمِينَ، وَلُزُومُ جَمَاعَتِهِمْ  نبی ﷺ نے فرمایا: "(تین چیزیں ایسی ہیں جن سے مسلمان کا دل میل نہیں پکڑتا: اللہ کے لیے اخلاص، مسلم حکمرانوں کی خیر خواہی، اور اُن کی جماعت کو لازم پکڑنا۔)" رواه الترمذي (2658)، وصحّحه الألباني في صحيح الترغيب والترهيب (90).

            ابن اثیر فرماتے ہیں: "یہ تین اوصاف دلوں کی اصلاح کا باعث ہیں، جو اِن کو لازم پکڑتا ہے اُس کا دل خیانت اور شر سے پاک ہو جاتا ہے۔" النهاية في غريب الحديث (3/381). باختصار

            وطن کی محبت ہم پر لازم کرتی ہے کہ ہم وطن کے دشمنوں اور اُس کے امن، دین اور عقیدے سے کھیلنے والوں کے خلاف ایک ہاتھ بن جائیں؛ اللہ فرماتا ہے:﴿وَأَعِدُّوا لَهُم مَا اسْتَطَعْتُمْ مِن قُوَّةٍ وَمِن رِبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللهِ وَعَدُوَّكُمْ﴾سورۃ الأنفال: 60 "اور اُن کے خلاف جتنی طاقت ہو، تیار کرو اور گھوڑوں کو تیار رکھو، تاکہ اللہ کے دشمن اور تمہارے دشمن ڈر جائیں۔"

            میں اپنے اس قول کو کہتا ہوں، اور اللہ سے اپنے اور تمہارے گناہوں کی بخشش مانگتا ہوں؛ تم بھی اُس سے معافی مانگو، بیشک وہ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔

دوسرا خطبہ:
            اللہ کی تعریف ہے اُس کے احسان پر، اور اُس کا شکر ہے اُس کی توفیق اور مہربانی پر، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، اور محمد ﷺ اُس کے بندے اور رسول ہیں۔

            اللہ کے بندو! حرمین شریفین والے وطن سے وابستگی، ایک نعمت اور ذمہ داری ہے: اس عظیم نعمت کا شکر ادا کرو، اور اپنی ذمہ داری کو پورا کرو؛ یہ مسلمانوں کا قبلہ اور نبی ﷺ کا وطن ہے! نبی ﷺ نے فرمایا: وَاللهِ إِنَّكَ لَخـَيْرُ أَرْضِ اللهِ، وَأَحَبُّ الْبِلَادِ إِلَى اللهِ؛ وَلَوْلَا أَنِّي أُخْرِجْتُ مِنْكِ مَا خَرَجْتُ "اللہ کی قسم! تم اللہ کی بہترین زمین ہو اور اللہ کے نزدیک سب سے محبوب جگہ ہو؛ اگر مجھے تم سے نکالا نہ جاتا تو میں نہ نکلتا۔" رواه الترمذي (3925)، وصحَّحه الألباني في التعليقات الحسان (3700).

            وطن کی محبت جنت کی محبت کی طرف لے جاتی ہے! کیونکہ مسلمان کا حقیقی وطن اور اصل مسکن جنت ہے، جہاں سے اُسے شیطان نے نکالا تھا! اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ كَما أَخْرَجَ أَبَوَيْكُمْ مِنَ الجَنَّةِ﴾سورۃ الأعراف: 27 "اے آدم کی اولاد! خبردار رہو، شیطان تمہیں نہ بہکائے، جیسے اُس نے تمہارے والدین کو جنت سے نکالا تھا۔"

تو دوڑجنت عدن کی طرف، بے شک
                                                                                    وہ تمہارے پہلے گھر ہیں اور وہاں تمہارا خیمہ  ہے

لیکن ہم دشمن کے قیدی ہیں، پس کیا
                                                                        تمہیں لگتا ہے کہ ہم اپنے وطنوں کو واپس لوٹیں گے اور سلامتی پائیں گے؟

                                                                                          إغاثة اللهفان، ابن القيم (1/71).

            اے اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو عزت عطا فرما، اور شرک اور مشرکین کو ذلت نصیب فرما۔

اے اللہ! اپنے خلفاء راشدین، ہدایت یافتہ اماموں یعنی ابو بکر، عمر، عثمان اور علی سے راضی ہو جا، اور باقی صحابہ کرام، تابعین اور ان کے نیک پیروی کرنے والوں سے بھی قیامت کے دن تک راضی ہو جا۔
اے اللہ! غمزدوں کی غمخواری فرما، اور مصیبت زدوں کی مشکلات دور فرما۔
اے اللہ! ہمارے وطنوں کو امن عطا فرما، اور ہمارے ائمہ اور حکمرانوں کو درست راہ دکھا، اور (ہمارے حکمران اور ان کے ولی عہد) کو اپنی پسندیدہ اور رضا کی راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرما، اور ان کی رہنمائی تقویٰ اور نیکی کی طرف فرما۔
اللہ کے بندو: إِنَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالعَدْلِ وَالإحْسَانِ وَإِيتَآءِ ذِي القُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الفَحْشَاءِ وَالمُنْكَرِ وَالبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ ﴿بیشک اللہ انصاف کا، احسان کا، اور قرابت داروں کو دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برائی اور ظلم سے منع کرتا ہے، وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو﴾۔
پس اللہ کا ذکر کرو وہ تمہیں یاد رکھے گا، اور اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرو وہ تمہیں زیادہ دے گا وَلَذِكْرُ اللهِ أَكْبَرُ وَاللهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُون ﴿اور اللہ کا ذکر سب سے بڑا ہے اور اللہ جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو﴾۔
·         مترجم: محمد زبیر کلیم

·          داعی ومدرس جمعیت ھاد

·         جالیات عنیزہ۔ سعودی عرب

 

المرفقات

1726763377_وطن سے محبت.docx

1726763378_وطن سے محبت.pdf

المشاهدات 42 | التعليقات 0