جمعہ کی خصوصیات اور فضیلتیں
سيف الرحمن التيمي
موضوع الخطبة : خصائص يوم الجمعة وفضائله
الخطيب : فضيلة الشيخ ماجد بن سليمان الرسي/ حفظه الله
لغة الترجمة : الأردو
المترجم :سيف الرحمن التيمي ((@Ghiras_4T
پہلا خطبہ
إن الحمد لله نحمده ، ونستعينه، ونعوذ بالله من شرور أنفسنا ومن سيئات أعمالنا، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أن محمدا عبده ورسوله.
(يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ)
(يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا)
(يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا)
حمد وثنا کے بعد!
سب سے بہترین کلام اللہ کا کلام ہے، اور سب سے بہترین طریقہ محمد کا طریقہ ہے، سب سے بدترین چیز دین میں ایجاد کردہ بدعتیں ہیں، اور (دین میں) ہر ایجاد کردہ چیز بدعت ہے، ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے۔
اے مسلمانو! اللہ تعالی سے ڈرو اور اس کا خوف اپنے دلوں میں پیدا کرو‘ جان رکھو کہ اللہ تعالی اپنی مخلوقات کا پالنہار اور رب ہے ‘ اس کا ایک مظہر یہ ہے کہ وہ جس مخلوق کو چاہتا ہے عظمت ومرتبت سے نوازتا ہے‘ خواہ وہ افراد ہوں‘ یا جگہیں ہوں یا اوقات ہوں‘ اس کےپیچھے اللہ پاک کی حکمت ہوتی ہے جسے وہی جانتا ہے ‘ اللہ تعالی فرماتا ہے: (وَرَبُّكَ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ وَيَخْتَارُ)
ترجمہ: آپ کا رب جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے چن لیتا ہے۔
اللہ تعالی نے لوگوں میں سے انبیائے کرام کو منتخب کیا‘ ابنیاء میں سے اولو العزم رسولوں کو اختیار کیا‘ جوکہ نوح ‘ ابراہیم ‘ موسی ‘ عیسی اور محمد علیہم الصلاۃ والسلام ہیں‘ نیز ان پانچ میں سے دو خلیل منتخب فرمائے جو ابراہیم او رمحمد ہیں ‘ ان دو خلیلوں میں سے بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اختیار فرمایا ‘ چنانچہ آپ تمام انبیاء ورسل سے افضل ہیں‘ صلی اللہ علیہ وسلم۔
اللہ تعالی نے جن جگہوں کوخصوصی فضیلت دی ‘ ان میں مکہ بھی ہے ‘ جسے اللہ نے ساری روئے زمین سے منتخب فرمایا ‘ اس کے بعد مدینہ کا مقام ہے ‘ مسجد حرام او رمسجد نبوی میں پڑھی جانے والی نماز کا اجروثواب کئی گنا بڑھا دیا ۔
جن اوقات کو اللہ نے منتخب فرمایا ان میں جمعہ کا دن بھی ہے ‘ جو تمام دنوں کا سردار ہے‘ اللہ تعالی نے اسے بہت سی خصوصیات سے متصف فرمایا اور چند اسباب ووجوہات کی بنیاد پر دیگر ایام کے مقابلے میں اسے یک گونہ فضیلت عطا کی ‘ چند اسباب ووجوہات درج ذیل ہیں:
۱-اس دن بڑے بڑے حادثات رونما ہوئے‘ اوس بن اوس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " تمہارے دنوں میں سب سے افضل (بہترین) جمعہ کا دن ہے، اسی دن آدم علیہ السلام پیدا ہوئے، اسی میں ان کی روح قبض کی گئی، اور اسی دن صور پھونکا جائے گا، اور اسی دن بیہوشی طاری ہو گی"([1])۔
حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بہترین دن جس میں سورج نکلتا ہے جمعے کا ہے‘ اسی دن آدم کو پیدا کیا گیا تھا اور اسی دن انہیں جنت میں داخل کیا گیا اور اسی میں انہیں اس سے نکالا گیا (خلافت ارضی سونپی گئی) اور قیامت بھی جمعے کے دن ہی برپا ہوگی"([2])۔
۲-جمعہ کے دن کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ وہ لوگوں کے یکجا ہونے اور ایک دوسرے کو آغاز وانجام کی یاد دہانی کرانے کا دن ہے‘ اللہ پاک وبرتر نے ہر امت کے لئے ہفتے میں ایک دن مشروع فرمایا جس میں وہ عبادت کے لئے خود کو فارغ رکھتے او رایک دوسرے کو آغاز وانجام اور جزاوسزا کی تذکیر کرنے کے لئے یکجا ہوتے تھے‘ اس اجتماع کے ذریعے وہ اس دن کو یاد کرتے جب سب سے بڑا مجمع اللہ رب العالمین کے سامنے اکھٹا ہوگا ‘ اس غرض و غایت کو پورا کرنے والا سب سے مناسب دن جمعہ ہی تھا‘ چنانچہ اللہ نے اس امت کی فضیلت او رمقام ومرتبہ کے پیش نظر اس دن کو ان کے لئے ہی ذخیرہ رکھا‘ اس دن ان کا اکھٹا ہونا مشروع فرمایا تاکہ وہ اطاعت وعبادت کریں اور تخلیق کی حکمت اور اپنی زندگی کے مقصد کو یاد کریں‘ دنیا کی چند روزہ زندگی کی حقیقت کو سمجھیں اور اس دن کو یاد کریں جب آسمان وزمین لپیٹ لئے جائیں گے اور تمام چیزیں اسی حالت پر لوٹ جائیں گی جس حالت پر اللہ نے ان کا آغاز کیا تھا‘ یہ اللہ کا برحق وعدہ اور سچا فرمان ہے‘ یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن فجر کی نماز میں سورۃ (الم تنزیل) اور (ھل أتی على الإنسان) کی تلاوت کیا کرتے تھے‘ کیوں کہ ان دونوں سورتوں میں دنیا کے آغاز وانجام ‘ مخلوقات کو میدان حشر میں جمع کرنے اور قبروں سے اٹھا کر انہیں جنت وجہنم میں لے جانے کا تذکرہ کیا گیا ہے([3])۔
۳-جمعہ کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ وہ ایسی عید ہے جو ہر ہفتے لوٹ کر آتی ہے‘ جیسا کہ حدیث میں آیا ہے‘ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " بے شک یہ عید کا دن ہے، اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لیے اسے عید کا دن قرار دیا ہے، لہٰذا جو کوئی جمعہ کے لیے آئے تو غسل کر کے آئے، اور اگر خوشبو میسر ہو تو لگا لے، اور تم لوگ اپنے اوپر مسواک کو لازم کر لو"([4])۔
۴-جمعہ کے دن کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اللہ تعالی نے سب سے افضل امت کو اس سے سرفراز فرمایا اور ان کے لئے ہی اسے ذخیرہ رکھا‘ جوکہ امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے ‘ باقی دیگر امتوں سے اس دن کو اوجھل رکھا‘ ابو ہریرۃ او رحذیفہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو لوگ ہم سے پہلے تھے اللہ تعالی نے انہیں جمعہ کی راہ سے ہٹا دیا ‘ اس لئے یہود کے لئے ہفتے کا دن ہوگیا او رنصاری کے لئے اتوار کا دن۔پھر اللہ تعالی نے ہمیں (اس دنیا میں لایا) او رجمعے کے دن کی طرف ہماری رہنمائی فرمادی"([5])۔
۵-جمعہ کے دن کی ایک خصوصیت وفضیلت یہ ہے کہ اس دن جماعت کے ساتھ فجر کی نماز پڑھنا ہفتےکی تمام نمازوں سے بہتر ہے‘ ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اللہ کے نزدیک تمام نمازوں میں سب سے افضل یہ ہے کہ جمعہ کے دن فجر کی نماز جماعت سے پڑھی جائے "([6])۔
اس فضیلت کا سبب یہ ہے کہ فجر کی نماز پنج وقتہ نمازوں میں سب سے افضل ہے‘ جمعہ کا دن تمام دنوں سے افضل ہے‘ جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا تنہا نماز پڑھنے سے افضل ہے‘ اس لئے (جمعہ کی باجماعت نمازِ فجر کو تمام نمازوں پر ) یہ مطلق فضیلت حاصل ہے۔
۶-جمعہ کے دن کی ایک خصوصیت یہ ہے اس دن فجر کی نماز میں پہلی رکعت کے اندر سورۃ سجدۃ اور دوسری رکعت میں سورۃ انسان کی تلاوت کرنا سنت ہے ‘ ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : "نبی صلى اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن فجر کی نماز میں پہلی رکعت کے اندر (الم تنزیل) اور دوسری رکعت میں (هَلْ أَتَى عَلَى الْإِنْسَانِ حِينٌ مِنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْئًا مَذْكُورًا) کی تلاوت کیا کرتے تھے"([7])۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں : نبی صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کو فجر کی نماز میں ان دو سورتوں کی تلاوت اس لئے کیا کرتے تھے کہ اس دن جو کچھ ہوا اور ہونے والا ہے اس کی خبر ان سورتوں میں دی گئی ہے ‘ ان میں آدم کی تخلیق ‘ روز آخرت اور بندوں کے اٹھائے جانے کا ذکر ہے اور یہ سب جمعہ کے دن رونما ہونے والے واقعات ہیں ‘ چنانچہ ان سورتوں کی تلاوت کے ذریعے امت کو ان واقعات کی تذکیر کرائی جاتی ہے جو اس دن رونما ہوئے یا ہونے والے ہیں۔([8])انتہی۔
۷-جمعہ کے دن کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس دن (خصوصیت کے ساتھ) سورۃ کہف کی تلاوت کی جاتی ہے‘ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی مرفوع روایت ہے: "جو شخص جمعہ کے دن سورۃ کہف کی تلاوت کرتا ہے اس کے لئے دوجمعہ کے درمیان (کی مدت) نور سے روشن ہو جاتی ہے"([9])۔
۸-جمعہ کے دن کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس میں قبولیتِ دعا کی گھڑی پائی جاتی ہے‘ جس میں اگر کوئی بندہ مسلم اللہ سے کچھ مانگتا ہے تو اللہ اسے ضرور نوازتا ہے‘ صحیحین میں ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " جمعہ کےدن ایک ایسی ساعت (گھڑی) آتی ہے کہ جو مسلمان بندہ بھی اس کو پالیتا ہے اور اس میں وہ کسی بھی خیر وبھلائی کا سوال کرتا ہے تو اللہ اسے وہ ضرور عطا فرماتا ہے" ‘ فرمایا کہ :" وہ مختصر گھڑی ہوتی ہے"([10])۔ یعنی بہت تیزی سے گزر جاتی ہے۔
۹-جمعہ کے دن کی ایک خصوصیت اور فضیلت یہ ہے کہ جو شخص جمعہ کے دن یا رات میں وفات پا تا ہے تو اللہ تعالی اسے قبر کے فتنے سے محفوظ رکھتا ہے ‘ عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو مسلمان جمعہ کے دن یا جمعہ کی رات کو مرتا ہے، اللہ اسے قبر کے فتنے سے محفوظ رکھتا ہے"([11])۔
۱۰-جمعہ کے دن کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس میں جمعہ کی نماز ہوتی ہے جوکہ ایک افضل اور بڑی شان وشوکت والی نماز ہے‘ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں خصوصاً اس نماز کے لئے ندا لگانے کا تذکرہ فرمایا ہے ‘ فرمان باری تعالی ہے: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ)
ترجمہ: اے وه لوگو جو ایمان ﻻئے ہو! جمعہ کے دن نماز کی اذان دی جائے تو تم اللہ کے ذکر کی طرف دوڑ پڑو اور خرید وفروخت چھوڑ دو۔ یہ تمہارے حق میں بہت ہی بہتر ہے اگر تم جانتے ہو۔
۱۱-جمعہ کے دن کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس میں صدقہ کا اجروثواب کئی گنا بڑھا کردیا جاتا ہے‘ عبد الرزاق نے اپنی کتاب "المصنف" میں کعب رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے ‘ وہ کہتے ہیں: جمعہ کےدن صدقہ کرنا دیگر تمام دنوں کے صدقہ سے بہتر ہے۔ابن ابی شیبہ نے اپنی کتاب "المصنف" میں ان سے روایت کیا ہے کہ: جمعہ کے دن صدقہ کا اجروثواب کئی گناہ بڑھ جاتاہے۔
ابن القیم رحمہ اللہ رقم طراز ہیں : جمعہ کے دن کا صدقہ دیگر تمام دنوں کے صدقہ سے ممتاز ہے‘ ہفتہ کے دیگر دنوں کے مقابلے میں جمعہ کے دن صدقہ کرنا اسی طرح ہے جس طرح سال کے دیگر مہینوں کے مقابلے میں رمضان میں صدقہ کرنا‘ میں نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ –قدس اللہ روحہ-کو دیکھا کہ جب وہ جمعہ کے لئے نکلتے تو گھر میں جو کچھ بھی روٹی وغیرہ ہوتی اسے ساتھ لے لیتے اور راستے میں چھپا کر اسے صدقہ کرتے ‘ میں نے ان کو فرماتے ہوئے سنا: اگر اللہ تعالی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سرگوشی ومناجات سے پہلے صدقہ کرنے کا حکم دیا ہے ‘ تو اللہ تعالی کی سرگوشی ومناجات سے پہلے صدقہ کرنا زیادہ افضل اور اولى ہے([12])۔انتہی
۱۲-جمعہ کے دن کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس میں کثرت سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود وسلام بھیجنا مستحب ہے ‘ کیوں کہ اس دن آپ پر درود بھیجنے کی جو فضیلت ہے وہ دوسرے عمل کی نہیں ہے‘ وہ اس لئے کہ امت محمدیہ کو اس دنیا میں جو بھی دنیا وی اور اخروی خیر وبھلائی حاصل ہوئی ‘ وہ آپ ہی کے ذریعہ حاصل ہوئی‘ اس لئے آپ کے شکر وسپاس اور آپ کے حقوق کا ادنی حصہ یہ ہے کہ جمعہ کی رات اور دن میں کثرت سے آپ پر درود وسلام بھیجا جائے ‘ نیز آپ پر درود بھیجنے کے جو معنی ومطلب ہیں ان کو بھی ذہن نشیں رکھا جائے ‘ وہ یہ ہے کہ آپ کے لئے حسنِ تعریف‘ رفعتِ منزلت اور آسمان وزمین میں آپ کے ذکر ِخیر کی دعا کی جائے ۔
جمعہ کے دن کی یہ چند خصوصیات ہیں‘ جن کی وجہ سے جمعہ کا دن اللہ تعالی اور مخلوق کے نزدیک عظیم مقام ومرتبہ کا حامل اور تمام دنوں کا سردار ہے۔
اللہ تعالی مجھے اور آپ کو قرآن کی برکتوں سے بہرہ مند فرمائے ‘ مجھے اور آپ کو اس کی آیتوں اور حکمت پر مبنی نصیحت سے فائدہ پہنچائے ‘ میں اپنی یہ بات کہتے ہوئے اللہ سے مغفرت طلب کرتا ہوں ‘ آپ بھی اس سے مغفرت طلب کریں‘ یقینا وہ خوب معاف کرنے والا بڑا مہربان ہے۔
دوسرا خطبہ:
الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده، أما بعد:
آپ یہ بھی جان رکھیں –اللہ آپ پر اپنی رحمت نازل فرمائے - کہ اللہ تعالی نے آپ کے لئے جمعہ کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر کثرت سے درود بھیجنا مشروع قرار دیا ہے‘ فرمان باری تعالی ہے:
(إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا)
ترجمہ: اللہ تعالی اور اس کے فرشتے اس نبی پر رحمت بھیجتے ہیں ۔اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود بھیجو اور خوب سلام بھی بھیجتے رہا کرو۔
اے اللہ !تو اپنے بندے اور رسول محمد پر رحمت و سلامتی بھیج،تو ان کے خلفاء ،تابعین عظام اور قیامت تک اخلاص کے ساتھ ان کی اتباع کرنے والوں سے راضی ہوجا۔ اے اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو عزت وسربلندی عطا فرما،شرک اور مشرکوں کو ذلیل وخوار کر،تواپنے اور دین اسلام کے دشمنوں کو نیست ونابود کردے،اور اپنے موحد بندوں کی مدد فرما۔اے اللہ! ہمیں اپنے ملکوں میں امن وسکون کی زندگی عطا کر،ہمارے اماموں اور ہمارے حاکموں کی اصلاح فرما،انہیں ہدایت کی رہنمائی کرنےوالا اور ہدایت پر چلنے والا بنا۔ انہیں نیک وصالح مشیر فراہم کر ۔اے اللہ! مسلمانوں کو وبا کی ایسی شدت لاحق ہوئی ہے جسے تیرے سوا کوئی نہیں جانتا‘ اے اللہ! تو ہم سے اس وبا کو دور فرمادے ‘ یقینا ہم مسلمان ہیں‘ اے اللہ ! اس وبا سے جو مسلمان فوت ہوگئے ‘ ان پر اپنی رحمتیں نازل فرما اور ان میں سے جو بیمار ہیں‘ انہیں شفایاب کردے۔
اے ہمارے پرودگار! ہمیں دنیا میں نیکی دے اور آخرت میں بھلائی عطا فرما اور ہمیں عذاب جہنم سے نجات بخش۔
عباد الله، إن الله يأمر بالعدل والإحسان وإيتاء ذي القربى وينهى عن الفحشاء والمنكر والبغي، يعظكم لعلكم تذكرون، فاذكروا الله العظيم يذكركم، واشكروه على نعمه يزدكم، ولذكر الله أكبر، والله يعلم ما تصنعون.
تحریر:
ماجد بن سلیمان الرسی
۱۹ ذی القعدۃ ۱۴۴۱ھ
شہر جبیل-سعودی عرب
0966505906761
ترجمہ: سیف الرحمن حفظ الرحمن تیمی
([1]) اسے ابوداود (۱۰۴۳) نے روایت کیا ہے اور البانی نے "صحیح ابی داود" (۱۰۴۷) میں اسے صحیح کہا ہے۔
([2]) صحیح مسلم (۸۵۴)
([3]) یہ ابن القیم کا قول ہے ‘ دیکھیں: زاد المعاد: ۱/۴۲۱-۴۲۲ اختصار اور معمولی تصرف کے ساتھ۔
([4]) اسے ابن ماجہ (۱۰۹۸) نے روایت کیا ہے اور البانی نے "صحیح ابن ماجہ" میں اسے حسن کہا ہے۔
([5]) صحیح مسلم (۸۵۶)
([6]) اسے بیہقی نے شعب الإیمان (۲۷۸۳) میں روایت کیا ہے اور البانی نے "صحیح الجامع" (۱۱۱۹) اور الصحیحۃ (۱۵۶۶) میں اسے صحیح کہا ہے۔
([7]) بخاری (۸۹۱) ‘ مسلم (۸۸۰)‘ مذکورہ الفاظ مسلم کے روایت کردہ ہیں۔
([8]) زاد المعاد: ۱/۳۷۵
([9]) اسے حاکم نے "المستدرک" (۲/۳۶۸) میں اور بیہقی (۳/۲۴۹) نے ان کے طریق سے روایت کیا ہے اور البانی نے الإرواء (۳/۹۳) میں اسے صحیح کہا ہے اور راجح قرار دیا ہے کہ یہ حدیث ابو سعید پر موقوف ہے۔
([10]) اسے بخاری (۹۳۵) اور مسلم (۸۵۲) نے روایت کیا ہے اور مذکورہ الفاظ مسلم کے روایت کردہ ہیں۔
([11]) اسے ترمذی (۱۰۸۰) نے روایت کیا ہے اور البانی نے "أحکام الجنائز" (ص۴۹-۰) میں لکھا ہے کہ حدیث مجموعی طرق کے اعتبار سے حسن یا صحیح ہے۔
([12]) زاد المعاد: ۱/۴۰۷
المرفقات
1618850422_جمعہ کی خصوصیات اور فضیلتیں.pdf