🌟القوي الأمين🌟 أردو🇵🇰

تركي بن عبدالله الميمان
1446/06/03 - 2024/12/05 21:36PM

عنوانِ خطبہ:اہلیت اور امانت داری کا پیکر                                                   بتاریخ: 5 جمادی الثانی1446ھ/6 دسمبر 2024
پہلا خطبہ:
​بے شک تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، ہم اس کی تعریف کرتے ہیں، اسی سے مدد مانگتے ہیں، اسی سے معافی طلب کرتے ہیں اور اسی کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ جس کو اللہ ہدایت دے، اسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا، اور جسے وہ گمراہ کر دے، اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔

​حمد وثناء کے بعد:میں آپ سب کو اور اپنے آپ کو اللہ کے تقویٰ کی وصیت کرتا ہوں، خواہ پوشیدہ ہو یا ظاہر۔ تقویٰ مشکلات سے نجات کا ذریعہ اور فتنوں سے بچانے والی چیز ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَتَّقُوا اللهَ يَجْعَلْ لَكُمْ فُرْقَانًا ويُكَفِّرْ عَنكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ ويَغْفِرْ لَكُمْ﴾ "اے ایمان والو! اگر تم اللہ سے ڈرو گے تو وہ تمہارے لیے فرقان (حق و باطل میں فرق کرنے کی بصیرت) پیدا کرے گا، تمہارے گناہ مٹا دے گا اور تمہیں معاف کرے گا۔" سورۂ انفال: 29

​اللہ کے بندو!اہلیت اور امانت دو ایسی صفات ہیں جنہیں ہر کام اور ذمہ داری میں مدنظر رکھا جانا چاہیے، کیونکہ ہر خرابی ان دونوں کے ختم ہونے یا ان میں سے کسی ایک کے نہ ہونے سے پیدا ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ القَوِيُّ الأَمِينُ﴾"بے شک بہترین آدمی جسے آپ ملازم رکھیں، وہ ہے جو اس کا اہل اور امانت دار ہو۔" سورۂ قصص: 26
​اور یوسف علیہ السلام نے کہا: ﴿اجْعَلْنِي على خَزَائِنِ الْأَرْضِ إِنِّي حَفِيظٌ عَلِيمٌ﴾"مجھے زمین کے خزانوں پر مقرر کر دیجیے، بے شک میں حفاظت کرنے والا اور علم رکھنے والا ہوں۔" سورۂ یوسف: 55

​علامہ سعدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: يُؤْخَذُ مِنْ هاتَيْنِ الآيَتَيْن: أَنَّهُ ينبغي أَنْ يَتَخَيَّرَ في الولاياتِ مَنْ جَمَعَ الوَصْفَين: القُوَّةَ والأَمَانَةَ؛ فَبِالأمانَةِ: تَتِمُّ الثِّقَة؛ وبِالقُوَّةِ والكَفَاءِةِ: يُتْقَنُ العَمَل، فَإِنْ وجَدَ الجامِعَ لِلْوَصْفَيْن: فَلْيَسْتَمْسِكْ بِغَرْزِه"ان دونوں آیات سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ حکومت اور ذمہ داریوں کے لیے ایسے افراد کا انتخاب کیا جائے جو اہلیت اور امانت دونوں صفات کے حامل ہوں۔ امانت سے اعتماد قائم ہوتا ہے اور قوت و مہارت سے کام مکمل کیا جاتا ہے۔ اگر ایسا شخص مل جائے جو ان دونوں صفات کو جمع کرتا ہو تو اسے مضبوطی سے تھام لینا چاہیے۔" تيسير اللطيف المنان في خلاصة تفسير القرآن (125)

​ماہر اور امانت دار: وہ شخص ہے جو حلال کی تلاش کرتا ہے، اور حرام سے ڈرتا ہے؛ وہ اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ رزق اللہ کے ہاتھ میں ہے، اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ معصیت کے ذریعے حاصل نہیں کیا جا سکتا، اور جو شخص حرام سے بچتا ہے، اللہ اُسے اس سے بہتر بدلہ دیتا ہے۔﴿ومَنْ يَتَّقِ اللهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا* ويَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لا يَحْتَسِبُ﴾"اور جو شخص اللہ سے تقویٰ اختیار کرتا ہے، اللہ اُس کے لیے رستہ نکالتا ہے اور اُسے ایسی جگہ سے رزق عطا کرتا ہے جس کا وہ گمان بھی نہیں کرتا" سورۂ طلاق: 2-3

​ماہر اور امانت دار آدمی: عوامی مال میں خیانت نہیں کرتا، نہ اس پر تجاوز کرتا ہے اور نہ اپنے کام کو کسی غیرمخصوص مقصد کے لیے استعمال کرتا ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: "إِنَّ رِجَالًا يَتَخَوَّضُونَ في مَالِ اللهِ بِغَيْرِ حَقٍّ؛ فَلَهُمُ النَّارُ يَوْمَ القِيَامَةِ""جو لوگ اللہ کے مال میں ناحق تصرف کرتے ہیں، ان کے لیے قیامت کے دن آگ ہوگی۔" رواه البخاري (3118)

ماہر اور امانت داری آدمی : دنیاوی فائدے کے لیے دین کو نہیں بیچتا اور اپنے دین و عزت کو حرام اور شبہات سے پاک رکھتا ہے، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اللہ اس سے سوال کرے گا: عَنْ مَالِهِ: مِنْ أَيْنَ اكْتَسَبَهُ؟ وفِيمَ أَنْفَقَه؟"مال کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا؟" رواه الترمذي (2417)

​جب دین کمزور ہو جائے اور امانت داری ختم ہو جائے، تو لوگ حلال و حرام کی پروا نہیں کرتے۔ کیونکہ وہ مال کے غلام بن گئے ہیں، اور آخرت سے غافل ہیں! نبی ﷺ نے فرمایا: "لَيَأْتِيَنَّ على النَّاسِ زَمَانٌ، لاَ يُبَالِي المَرءُ بِمَا أَخَذَ المَالَ: أَمِنْ حَلاَلٍ، أَمْ مِنْ حَرَامٍ!""لوگوں پر ایسا وقت آئے گا کہ وہ مال لینے میں یہ پروا نہیں کریں گے کہ وہ حلال ہے یا حرام۔" رواه البخاري (2083)

​ماہر اور امانت دار شخص عہد پورا کرتا ہے اور معاہدوں کو نہیں توڑتا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: "المُسْلِمُونَ على شُرُوطِهِمْ""مسلمان اپنے معاہدوں کے پابند ہیں۔" رواه البخاري (2274)، وأخرجه أبو داود (3594).

​ماہر اور امانت دار شخص اپنی ذمہ داریوں میں خیانت نہیں کرتا، چاہے کام دینے والا اس پر ظلم ہی کیوں نہ کرے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: "أَدِّ الأَمَانَةَ إلى مَنْ ائْتَمَنَكَ، ولَا تَخُنْ مَنْ خَانَكَ""امانت اس شخص کو لوٹا دو جو تم پر اعتماد کرے اور اس سے خیانت نہ کرو جو تم سے خیانت کرے۔" أخرجه أبو داود (3535)، والترمذي (1264)

​ماہر اور امانت دار شخص جانتا ہے کہ حرام مال گندگی ہے، بے برکت اور جلد ختم ہونے والا ہے۔ ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: والأُجْرَةُ اليَسِيرَةُ الحَلَالِ؛ خَيْرٌ مِنَ الأُجْرَةِ الكَثِيرَةِ الحَرَامِ؛ لِأَنَّ الرَّجُلَ إِذَا اكْتَسَبَ مَالًا حَرَامًا؛ لَمْ يُبَارِكِ اللهُ لَهُ فِيْه، وَإِنْ تَصَدَّقَ بِهِ؛ لَمْ يَقْبَلْهُ اللهُ مِنْه!"تھوڑی حلال کمائی، حرام کی زیادہ کمائی سے بہتر ہے۔کیونکہ جب بندہ حرام مال کماتا ہے، اللہ اس میں برکت نہیں دیتا اور اگر صدقہ کرے تو اللہ اسے قبول نہیں کرتا۔" فتاوى نور على الدرب، ابن عثيمين ۔ إِنَّ اللهَ طَيِّبٌ لَا يَقْبَلُ إِلَّا طَيِّبًا"یقیناً اللہ پاک ہے اور وہ صرف پاکیزہ (مال) ہی قبول کرتا ہے۔" رواه مسلم (1015)

​ماہر اور امانت دار شخص دوسروں کے مال میں سے کچھ نہیں لیتا، چاہے وہ تھوڑا ہی کیوں نہ ہو، کیونکہ وہ آخرت کے عذاب سے ڈرتا ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ: ایک شخص کو ایک تیر لگا جو اسے شہید کر گیا۔ لوگوں نے کہا: هَنِيئًا لَهُ الشَّهَادَةُ
"مبارک ہو اسے شہادت!"نبی ﷺ نے فرمایا: "والَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، إِنَّ الشَّمْلَةَ الَّتِي أَصَابَهَا يَوْمَ خَيْبَرَ مِنَ المَغَانِمِ، لَمْ تُصِبْهَا المَقَاسِمُ؛ لَتَشْتَعِلُ عَلَيْهِ نَارًا!""اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! خیبر کے مال غنیمت میں سے جو چادر تقسیم سے پہلے اس نے چرا لی تھی، وہ قیامت کے دن آگ بن کر اس پر بھڑک رہی ہوگی۔" رواه البخاري (4234)، ومسلم (116).

​علماء فرماتے ہیں: "الشَّمْلَةُ: هِيَ كِسَاءٌ صَغِيرٌ؛ وقَوْله: "لَتَشْتَعِلُ عَلَيْهِ نَارًا": يُحْتَمَلُ أَنْ يَكُونَ اشْتِعَالُ النَّارِ حَقِيقَةً: بِأَن تَصِيرَ الشَّمْلَةُ بِعَينِهَا نَارًا يُعَذَّبُ بِهَا! وَيُحْتَمَلُ: أَنَّهَا سَبَبٌ لِعَذَابِ النَّار! وفِيهِ دَلِيلٌ على تَعْظِيمِ حُقُوقِ الآدَمِيِّينَ، وفِيهِ تَهْدِيدٌ عَظِيمٌ، ووَعِيدٌ جَسِيمٌ؛ في حَقِّ مَنْ يَأْكُلُ مِنَ المَالِ الَّذِي يَتَعَلَّقُ بِهِ حَقُّ جَمْعٍ مِنَ المُسْلِمِينَ: كَمَالِ الأَوْقَافِ، أو بَيْتِ المَالِ"--- الشَّمْلَةُ: یہ ایک چھوٹا کپڑا ہے؛ اور حضور ﷺ کا فرمان: 'لَتَشْتَعِلُ عَلَيْهِ نَارًا' یعنی اس پر حقیقی آگ جل جائے گی، یہ ممکن ہے کہ اس کا مطلب یہ ہو کہ وہ چادر حقیقتاً آگ بن جائے گی اور اس کے ذریعے عذاب دیا جائے گا! اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ آگ کے عذاب کا سبب بنے!اس میں انسانوں کے حقوق کی عظمت کی دلیل ہے اور اس شخص کے لیے ایک عظیم تنبیہ بھی ہے جو ان مالوں کو کھاتا ہے جو مسلمانوں کے مجموعے کے حقوق میں شامل ہوں، جیسے اوقاف کا مال یا بیت المال کا مال۔" التمهيد، ابن عبد البر (2/21)، عمدة القاري، العيني (17/255)، مرقاة المفاتيح، القاري (6/2582)، المصباح المنير، الفيومي (1/323)

​"اگر ایک معمولی چادر کے لیے ایسی وعید ہے، تو ان لوگوں کا کیا حال ہوگا جو ناجائز طور پر بڑی بڑی رقمیں لے لیتے ہیں؟"

​نبی ﷺ نے فرمایا: "كُلُّ جَسَدٍ نَبَتَ مِنْ سُحْتٍ؛ فالنَّارُ أَوْلَى بِهِ"ہر وہ جسم جو حرام مال سے پلا ہو، جہنم اس کے لیے زیادہ مناسب ہے۔" رواه أبو نعيم في الحلية (1/31)، وصحّحه الألباني في صحيح الجامع (4519)

​میں یہ بات کہتا ہوں اور اپنے اور آپ کے لیے اللہ سے معافی مانگتا ہوں، اس سے معافی مانگو، بے شک وہی معاف کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔

 

دوسرا خطبہ:

​تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں، اس کی احسانات پر، اور اسی کا شکر ہے اس کی توفیق اور عنایات پر۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، اور محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں۔

​حمد وثناء کے بعد:بلاشبہ مہارت اور امانت، انسان کو شبہات سے بچنے کی دعوت دیتی ہیں، تاکہ وہ اللہ سے اس حال میں ملاقات کرے کہ اس کا دامن گناہوں سے پاک ہو اور دل سلامتی پر قائم ہو۔ عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں رَدُّ دِرْهَمٍ مِنْ شُبْهَةٍ، أَحَبُّ إليَّ مِنْ أَنْ أَتَصَدَّقَ بِمِائَةِ أَلْفِ دِرْهَم "شبہ والے ایک درہم کو لوٹانا، میرے نزدیک ایک لاکھ درہم صدقہ کرنے سے بہتر ہے۔" إحياء علوم الدين، الغزالي (2/91)

​مہارت اور امانت رکھنے والا انسان مال کو حلال طریقے سے حاصل کرتا ہے اور اسے اپنے دل کے بجائے اپنے ہاتھ میں رکھتا ہے، تاکہ اس سے اپنے رب کی رضا کے کاموں میں فائدہ اٹھا سکے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: "نِعْمَ المالُ الصَّالِح، لِلرَّجُلِ الصَّالح ""پاکیزہ مال بہترین ہے نیک آدمی کے لیے۔"

​آخر میں، بلاشبہ ماہر اور امانت دار شخص ایک بہترین نمونہ ہے، جس کی پیروی لوگ کرتے ہیں، تاکہ وہ ایک دوسرے کا ہاتھ بٹائیں اور اس شخص کے خلاف متحد رہیں جو وطن کی امانت اور اس کے ایمان، سلامتی اور اسلام کے ساتھ کھیلنا چاہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿فَإِنْ أَمِنَ بَعْضُكُمْ بَعْضًا فَلْيُؤَدِّ الَّذِي اؤْتُمِنَ أَمَانَتَهُ وَلْيَتَّقِ اللهَ رَبَّهُ ﴾پھر اگر کوئی کسی پر بھروسہ کرے تو جس پر بھروسہ کیا گیا ہے، وہ اپنی امانت ادا کرے اور اللہ سے ڈرے جو اس کا رب ہے۔ سورۂ بقرہ: 283

​اے اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو عزت عطا فرما، اور شرک اور مشرکین کو ذلت نصیب فرما۔

• اے اللہ! اپنے خلفاء راشدین، ہدایت یافتہ اماموں یعنی ابو بکر، عمر، عثمان اور علی سے راضی ہو جا، اور باقی صحابہ کرام، تابعین اور ان کے نیک پیروی کرنے والوں سے بھی قیامت کے دن تک راضی ہو جا۔
• اے اللہ! غمزدوں کی غمخواری فرما، اور مصیبت زدوں کی مشکلات دور فرما۔
• اے اللہ! ہمارے وطنوں کو امن عطا فرما، اور ہمارے ائمہ اور حکمرانوں کو درست راہ دکھا، اور (ہمارے حکمران اور ان کے ولی عہد) کو اپنی پسندیدہ اور رضا کی راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرما، اور ان کی رہنمائی تقویٰ اور نیکی کی طرف فرما۔
• اے اللہ! تو ہی اللہ ہے، تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو غنی ہے اور ہم فقیر ہیں، ہم پر بارش نازل فرما اور ہمیں مایوس لوگوں میں سے نہ بنا۔ اے اللہ! ہم تجھ سے بخشش مانگتے ہیں، بے شک تو بڑا بخشنے والا ہے، تو ہم پر آسمان سے موسلادھار بارش نازل فرما۔
• اللہ کے بندو: إِنَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالعَدْلِ وَالإحْسَانِ وَإِيتَآءِ ذِي القُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الفَحْشَاءِ وَالمُنْكَرِ وَالبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ ﴿بیشک اللہ انصاف کا، احسان کا، اور قرابت داروں کو دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برائی اور ظلم سے منع کرتا ہے، وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو﴾۔
• پس اللہ کا ذکر کرو وہ تمہیں یاد رکھے گا، اور اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرو وہ تمہیں زیادہ دے گا وَلَذِكْرُ اللهِ أَكْبَرُ وَاللهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُون ﴿اور اللہ کا ذکر سب سے بڑا ہے اور اللہ جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو﴾۔
• مترجم: محمد زبیر کلیم
• داعی ومدرس جمعیت ھاد
• جالیات عنیزہ۔ سعودی عرب
5

 

المرفقات

1733423799_القوي الأمين-اردو-- اہلیت اور امانت داری کا پیکر.docx

1733423802_القوي الأمين-اردو-- ماہر اور امانت دار.pdf

المشاهدات 30 | التعليقات 0