اسلاف کرام کے نزدیک سنت نبویہ کی حفاظت کے پندرہ وسیلے
سيف الرحمن التيمي
اسلاف کرام کے نزدیک
سنت نبویہ کی حفاظت کے پندرہ وسیلے
تالیف:
ابو ھمام محمد بن علی الصومعی البیضانی
ترجمہ:
سیف الرحمن حفظ الرحمن تیمی
رسرچ اسکالر جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
مقدمہ
إن الحمد لله، نحمده ونستعينه ونستغفره، ونعوذ بالله من شرور أنفسنا وسيئات أعمالنا، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أن محمدا عبده ورسوله صلى الله عليه وعلى آله وصحبه أجمعين، وعلى من سار على نهجهم واقتفى أثرهم إلى يوم الدين.
أما بعد:
گمراہی اور شک کے دلدل میں پھنسے وہ لوگ جن کو اللہ نے حق سے بے بصیرت اور راہ ہدایت سے گمراہ کر دیا-جب ان کے دل سید المرسلین –صلی اللہ علیہ وعلى آلہ وصحابتہ أجمیعن-کی سنت سے تنگ پڑگئے-تو انہوں نے احادیث نبویہ کو طعن وتشنیع کا نشانہ بنانا شروع کردیا، چنانچہ احادیث کو جمع کرنے کے لیے جو سب سے صحیح کتاب تالیف کی گئی ، اس پر انہوں نے تہمت کے نشتر برسائے، کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ امت اسلامیہ کے نزدیک اس کا بڑا مقام ومرتبہ ہے اور اس کے تعلق سے ان کا اجماع ہے کہ وہ کتاب اللہ کے بعد سب سے صحیح ترین کتا ب ہے، سوائے ان چند احادیث کے جن پر بعض علماء نے نقد کیا ہے، ان کے اس طعن وتشنیع کا مقصد یہ تھا کہ اس کتاب کی شبیہ خراب کی جائے اور اس کا مقام گھٹا دیا جائے تاکہ اس کے بعد حدیث کی دیگر کتابوں کو نشانہ بنانا ان کے لیے آسان ہوجائے ،ناممکن ہے کہ ان کا یہ مقصد پورا ہوجائے، کیوں کہ ہمارے عزیز وبرتر پروردگار نے اپنے دین کی حفاظت کی ذمہ داری اپنے اوپر لی ہے، اللہ تعالی اپنی معزز کتاب میں فرماتا ہے:
{إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُون}[الحجر:9]
ترجمہ: ہم نے ہی اس قرآن کو نازل فرمایا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔
ہمارے نبی کی سنت دینِ اسلام کا حصہ ہے، کیوں کہ وہ وحی ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَى}[النجم:3]
{إِنْ هُوَ إِلاَّ وَحْيٌ يُوحَى}[النجم:4]
ترجمہ: وہ اپنی خواہش سے کوئی بات نہیں کہتے ہیں۔وہ تو صرف وحی ہے جو اتاری جاتی ہے۔
نیز فرمان باری تعالی ہے:
{قُلْ إِنَّمَا أُنذِرُكُم بِالْوَحْيِ وَلاَ يَسْمَعُ الصُّمُّ الدُّعَاء إِذَا مَا يُنذَرُون}[الأنبياء:45]
ترجمہ:کہہ دیجئے ! میں تو تمہیں اللہ کی وحی کے ذریعہ آگا ہ کر رہا ہوں ، مگر بہرے لوگ بات نہیں سنتے جب کہ انہیں آگاہ کیا جائے گا۔
امام ابو محمد بن حزم رحمہ اللہ رقم طراز ہیں: "اللہ تعالی نے یہ خبر دی ہے کہ نبی کی ساری باتیں وحی ہیں، اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ وحی ذکر ہے، اور قرآنی آیت کے مطابق ذکر محفوظ ہے، لہذا یہ درست ہے کہ آپ کی تمام باتوں کو اللہ عزیز وبرتر نے محفوظ فرمایا ہے، یہ ہمارے لیے اس بات کی ضمانت ہے کہ آپ کی احادیث کا ادنی ترین حصہ بھی ضائع نہیں ہو سکتا، بلکہ آپ کی ساری احادیث ہم تک منتقل ہوچکی ہیں"([1])۔
تعجب خیر بات یہ ہے کہ سنت نبویہ میں طعن وتشنیع کرنے والوں نے کسی بھی حدیث پر علمِ حدیث کے اصول وقواعد کی روشنی میں تنقید نہیں کی ہے، بایں طور کہ جس حدیث کو انہوں نے طعن وتشنیع کا نشانہ بنایا، اس کی کوئی ایسی علت ذکر کرتے جو متقدمین علمائے حدیث سے مخفی رہ گئی ہو، چنانچہ کوئی موقوف حدیث ان کی تحقیق سے مرفوع ثابت ہوئی ہو، یا کوئی مرسل حدیث ان کی بحث وجستجو کے بعد موصول قرار پائی ہو، اور اس طرح کے دیگر ان اصول وضوابط (کو انہوں نے پیش نظر رکھا ہو ) جو اہل فن کے نزدیک مشہور ومعروف ہیں۔لیکن حقیقت میں ان کے طعن وتشنیع کا محور نفسانی خواہشات ہیں، جو شخص ہوائے نفس کی بنیاد پر سنت نبویہ پر طعن وتشنیع کے نشتر چلائے وہ راہ مستقیم سے گمراہ ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{ وَلاَ تَتَّبِعِ الْهَوَى فَيُضِلَّكَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ}[ص:26]
ترجمہ: اپنی نفسانی خواہش کی پیروی نہ کرو ورنہ تمہیں اللہ کی راہ سے بھٹکا دے گی۔
نیز فرمان باری تعالی ہے:
{أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَهَهُ هَوَاهُ وَأَضَلَّهُ اللَّهُ عَلَى عِلْمٍ وَخَتَمَ عَلَى سَمْعِهِ وَقَلْبِهِ وَجَعَلَ عَلَى بَصَرِهِ غِشَاوَةً فَمَن يَهْدِيهِ مِن بَعْدِ اللَّهِ أَفَلاَ تَذَكَّرُون}[الجاثية:23]
ترجمہ: کیا آپ نے اسے بھی دیکھا؟ جس نے اپنی خواہشِ نفس کو اپنا معبود بنا رکھا ہے اور باوجود سمجھ بوجھ کے اللہ نے اسے گمراہ کردیاہے اور اس کے کان او ردل پر مہر لگادی ہے اور اس کی آنکھ پر بھی پردہ ڈال دیا ہے، اب ایسے شخص کو اللہ کے بعد کو ن ہدایت دے سکتا ہے؟
اللہ عزیز وبرتر نے سچ فرمایا کہ :
{ فَإِنَّهَا لاَ تَعْمَى الأَبْصَارُ وَلَكِن تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُور}[الحج:46]
ترجمہ: بات یہ ہے کہ صرف آنکھیں ہی اندھی نہیں ہوتیں بلکہ وہ دل اندھے ہوجاتے ہیں جو سینوں میں ہیں۔
میں نے سنت نبویہ میں طعن وتشنیع کرنے والوں کے آخری گروہ ، جن کے دلوں کو اللہ نے حق کو پہچاننے سے اندھا کردیا ہے –اور وہ نہایت جاہل ونا اہل لوگ ہیں-کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ: "صحیح بخاری اور قرآن کریم کے درمیان تعارض اور ٹکڑاؤ ہے"، مجھے نہیں پتہ کہ تعارض اور ٹکڑاؤ سے ان کی مراد کیا ہے؟ نیز اس طرح کا جاہل ونادان انسان اس تعارض کو کیسے سمجھ سکتا ہے؟ ! اگر اس کے پاس ایسا کوئی علم ہے تو ہمارے سامنے اس تعارض کو پیش کیوں نہیں کرتا! در اصل یہ نفسانی خواہش اور سنت نبویہ سے حقد وحسد کا نتیجہ ہے جس نے انہیں حق کو پہچاننے سے بے بصیرت کردیا ہے۔
مؤلف: جب میں نے دیکھا کہ یہ خبطی گروہ اپنی نادانی کا مظاہرہ کر رہا ہے –اور حالات ایسے ہیں کہ علم ودانش سے بے بہرہ لوگ ان کی باتوں کو سچ بھی مان سکتے ہیں-تو میں نے یہ عزم وارادہ کیا کہ ایسے چند وسائل کو معرض تحریر میں لاؤں جن کو اختیار کرکے ہمارے اسلاف کرام رحمہم اللہ سنت نبویہ کی حفاظت کیا کرتے تھے ، تاکہ ان وسائل کو جان کر اپنے دین کے تئیں غیرت رکھنے والا مسلمان یہ سمجھ سکے کہ نبی کی جو صحیح احادیث ہم تک پہنچی ہیں،ان احادیث کے اسانید او ررواۃ کے تعلق سے ہمارے اسلاف کرام اور علمائے عظام کی تحقیق وجستجو اور بحث وتمحیص کے بعد ہی وہ حدیثیں ہم تک پہنچی ہیں، یہ جاننے کے بعد اس کے اندر ان احادیث کی صحت کا یقین بڑھ جائے گا، ان پر عمل کرنے کے تئیں اس کے دل میں مزید اطمینان پیدا ہوگا، نیز وہ اس بات سے بھی واقف ہوجائے گا کہ سنت نبویہ میں طعن وتشنیع کرنے والوں کا طریقہ غلط ہے اور وہ جاہل ونادان ہیں جن کی طرف نظر التفات کرنا اور ان کی بیہودہ او ر بے بنیاد باتوں پر کان دھرنا عبث اور بے کار ہے، یہ تو ان لوگوں کی بات ہوئی جو ان کے شبہات کے جال میں پھنسنے سے پہلے ہی حقیقت سے آگا ہ ہوجاتے ہیں، لیکن جو شخص ان کے دام فریب میں آگیا ہو اس کے لئے نجات کی راہ یہی ہے کہ اس کے دل میں جن شبہات نے جگہ بنالیا ہو، ان کے تعلق سے علمائے کرام سے سوال کریں ، تاکہ وہ اس کے سامنے حق واضح کرسکیں اور اس کے دل سے باطل دور ہوسکے، توفیق یافتہ وہی ہے جسے اللہ اپنی توفیق سے نوازے۔
غور وفکر کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ دشمنان ِ سنت کی تین قسمیں ہیں:
پہلی قسم: جن کا کوئی دین ومذہب نہیں، بلکہ وہ ملحد اور حق سے بے راہ ہیں۔
دوسری قسم: جو دنیاوی مفاد اور ذاتی مصلحت کی خاطر ان ملحد اور گمراہ لوگوں کی پیروی کرتے ہیں۔
تیسری قسم: جو دشمنانِ سنت کے شبہات سے متاثر ہوگئے اور یہ گمان کرنے لگے کہ وہی حق پر ہیں، چنانچہ گمراہ ہوگئے۔
عجِبتُ لمبتاع الضلالة بالهدى وللمشتري دنياه بالدين أعجب
وأعجب من هذين من باع دينه بدنيا سواه فهو في ذين أخيب
ترجمہ: مجھے تعجب ہے اس شخص پر جو ہدایت کے بدلے گمراہی خرید تا ہے، اور اس سے بھی زیادہ تعجب اس شخص پر ہے جو دین بیچ کر دنیا خریدتا ہے۔ان دونوں سے بھی زیادہ تعجب اس پر ہے جو دوسرے کی دنیا بنانے کے لئے اپنا دین بیچ دیتا ہے ، یقینا یہ ان دونوں سے بھی زیادہ ناکام ونامراد ہے۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں گمراہی سے محفوظ رکھے، گمراہ کے شکار مسلمانوں کو راہ حق کی رہنمائی فرمائے، ہمارے بیٹے اور بیٹیوں کو فاجروں اور بدکاروں کے شبہات سے محفوظ رکھے، انہیں دین کی بصیرت عطا کرے، دشمنانِ سنت کی سازشوں کو خود ان کے ہی سینے میں لوٹا دے، انہیں ہلاک ورسوا کرے، ان کے درمیان دشمنی پیدا کردے اور ان کی تدبیر کو خود ان کی تباہی کا پیش خیمہ بنادے ، یقینا اللہ تعالی اس کا اہل اور اس پر قادر ہے۔
میں نے اس کتاب کو جس نام سے موسوم کیا ہے ، وہ ہے: "اسلاف کرام کے نزدیک سنت نبویہ کی حفاظت کے پندرہ وسیلے"([2])۔
کتاب کے اخیر میں بطور ضمیمہ "صحیح بخاری" کا مختصر تعارف داخل کردیا ہے۔
والحمد لله رب العالمين
از قلم:
أبو همام محمد بن علي الصومعي البيضاني
عفا الله عنه بمنه وكرمه وإحسانه
۸/۴/۱۴۴۲ھ
([1]) "الإحکام فی أصول الأحکام" (۱/۹۸)، ناشر: "مطبعۃ النضہۃ"، قاہرۃ، تصحیح: احمد محمد شاکر
([2]) سنت نبویہ کی حفاظت کے باب میں یہ وسائل سب سے اہم اور نمایاں ترین مقام رکھتے ہیں، ان کے علاوہ اور بھی بہت سے وسائل ہیں (جن کو اس کتاب میں ذکر نہیں کیا گیا ہے)، میں نے پوری کوشش کی ہے کہ ان وسائل کو آسان اسلوب میں پیش کیا جائے تاکہ قاری کو سمجھنے میں کوئی دشواری نہ ہو۔
المرفقات
1643984061_اسلاف کرام کے نزدیک سنت نبویہ کی حفاظت کے پندرہ وسیلے.pdf