وجود باری تعالی پر ایمان

سيف الرحمن التيمي
1442/08/02 - 2021/03/15 14:53PM

موضوع الخطبة: الإيمان بوجود الله

الخطيب : فضيلة الشيخ ماجد بن سليمان الرسي/حفظه الله

لغة الترجمة: الأردو

المترجم : سیف الرحمن التيمي (@Ghiras_4T)

خطبہ کا موضوع:

اللہ تعالى کے وجود پر ایمان

پہلا خطبہ:

إن الحمد الله، نحمده ونستعينه،ونعوذ بالله من شرور أنفسنا ومن سيئات أعمالنا،من يهده الله فلا مضل له،ومن يضلل فلا هادي له،وأشهد أن لا إله الإ الله وحده لا شريك له وأشهد أن محمدا عبده ورسوله.

(يا أيها الذين آمنوا اتقوا الله حق تقاته ولا تموتن الإ وانتم المسلمون)

 (يا أيها الناس اتقوا ربكم الذي خلقكم من نفس واحدة وخلق منها زوجها وبث منهما رجالا كثيرا ونساء واتقوا الله الذي يتسائلون به والارحام إن الله كان عليكم رقيبا)

 (يا أيها الذين آمنوا اتقوا الله وقولوا قولا سديدا يصلح لكم اعمالكم ويغفر لكم ذنوبكم ومن يطع الله ورسوله فقد فاز فوزا عظيما)

حمد وصلاة کے بعد:

سب سے بہترین کلام اللہ کا کلام ہے،اور سب سے بہترین طریقہ محمد ﷐  کا طریقہ ہے،سب سے بدترین چیز دین میں ایجاد کردہ بدعتیں ہیں،اور(دین میں)ہر ایجاد کردہ چیز بدعت ہے،اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے۔

اے مسلمانو! اللہ تعالی سے ڈرو اور اس کو ہمیشہ نگراں جانو‘ اس کی اطاعت کرو اور اس کی نافرمانی سے گریزاں رہو‘ جان رکھو کہ اللہ تعالی پر ایمان لانے کے چار تقاضے ہیں: اس پاک وبرتر ذات کے وجود پر ایمان لانا‘ دوسرا: اس کی ربوبیت پر ایمان لانا‘ تیسرا: اس کی الوہیت پر ایمان لانا‘ چوتھا: اس کے اسماء وصفات پر ایمان لانا‘ اس خطبہ  میں ہم صرف اللہ تعالی کے وجو د پر ہی گفتگو کریں گے۔

اللہ پاک وبرتر کے وجود پر ایمان لانے  کے دلائل : فطری ‘ عقلی‘ شرعی اور حِسی  ہر طرح کے  ہیں۔

رہی  بات فطرت کا اللہ کے وجود پر دلالت کرنے کی تو یہ بات جان لینی چاہئے کہ ہر مخلوق بغیر سابقہ فکر اور تعلیم کے   اپنے خالق پر ایمان کےساتھ ہی پیدا ہوتی ہے‘   کتاب الہی میں اللہ تعالی کا یہ فرمان اس پر دال ہے :  (وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِنْ بَنِي آدَمَ مِنْ ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَأَشْهَدَهُمْ عَلَى أَنْفُسِهِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ قَالُوا بَلَى شَهِدْنَا)

ترجمہ: جب آپ کے رب نے اوﻻد آدم کی پشت سے ان کی اوﻻد کو نکالا اور ان سے ان ہی کے متعلق اقرار لیا کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ سب نے جواب دیا کیوں نہیں! ہم سب گواه بنتے ہیں۔

یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ انسان کی فطرت میں اللہ تعالی کےوجودپر ایمان لانا داخل ہوتا ہے‘ اس فطرت کے تقاضے سے وہی شخص منحرف ہوتا ہے جس کے دل  میں  خارجی اثر لاحق ہوتا ہے‘ کیوں کہ نبی ﷐ کاارشاد گرامی ہے: "ہر بچہ کی پیدائش فطرت پر ہوتی ہے پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں"([1])۔

یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ انسان کو جب نقصان لاحق ہوتا ہے تو وہ اپنی طبیعت وفطرت کے بموجب فورا پکار اٹھتا ہے: (اے اللہ!)‘ عہد نبوی ﷐میں مشرکین بھی اللہ تعالی کے وجود کا اقرار کرتے تھے‘ جیسا کہ اللہ تعالی نے ان کے بارے میں ارشاد فرمایا:  (وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ خَلَقَهُمْ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ)

ترجمہ: اگر آپ ان سے دریافت کریں کہ انہیں کس نے پیدا کیا ہے؟ تو یقیناً یہ جواب دیں گے کہ اللہ نے۔

اس سلسلے میں بہت سی آیتیں وارد ہوئی ہیں۔

رہی بات عقل کاوجود باری تعالی پر دلالت کرنے کی تو حقیقت یہ ہے کہ ان  تمام سابقہ اور بعد میں آنے والی مخلوقات کا کوئی نہ کوئی خالق ضرور ہے جس نے انہیں وجود میں لایا‘ کیوں کہ یہ ناممکن ہے کہ کوئی جان خود کو خود سے تخلیق کرے‘ عدم اپنے آپ کو پیدا نہیں کر سکتا‘ کیوں کہ وہ اپنے وجود سے قبل معدوم تھا‘ تو وہ اپنے علاوہ دیگر مخلوقات کا خالق کیسے ہوسکتا ہے؟!

اسی طرح ان مخلوقات کا بغیر کسی خالق کے اچانک سے وجود میں آجانا دو اسباب کی بنا پر ناممکن ہے‘ پہلا سبب: ہر واقع ہونے والی چیز  کے لئے واقع کرنے والے کا ہونا ضروری ہے ‘ اس پر عقل اور شریعت دونوں  دلالت کرتی ہیں‘ فرمان باری تعالی ہے: (أَمْ خُلِقُوا مِنْ غَيْرِ شَيْءٍ أَمْ هُمُ الْخَالِقُونَ)

ترجمہ: یا یہ بغیر کسی (پیدا کرنے والے) کے خود بخود پیدا ہوگئے ہیں؟ یا یہ خود پیدا کرنے والے ہیں؟

دوسرا سبب: ان مخلوقات کا اس بے مثال نظام‘ باہمی ہم آہنگی اور اسباب ومسببات کے مابین   آپسی تعلق کے ساتھ وجود میں آنا  اور  کائنات کی تمام مخلوقات کا آپس میں اس طرح مربوط ہونا کہ اس میں کسی طرح کا ٹکڑاؤ اور تصادم نہیں‘ یہ اس بات کی سخت نکیر کرتا ہے کہ یہ  مخلوقات بغیر کسی خالق کے اچانک وجود میں آگئیں‘  کیوں کہ اچانک وجود میں آنے والی  چیز اپنے وجود حقیقی میں کسی نظام پر قائم نہیں ہوتی ‘ تو بھلا اپنی بقا اور ترقی کی حالت میں اس قدر منتظم کیسے ہوسکتی ہے؟! اللہ تعالی کے فرمان کو غور سے سنیں: (لَا الشَّمْسُ يَنْبَغِي لَهَا أَنْ تُدْرِكَ الْقَمَرَ وَلَا اللَّيْلُ سَابِقُ النَّهَارِ وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ)

ترجمہ: نہ آفتاب کی یہ مجال ہے کہ چاند کو پکڑے اور نہ رات دن پرآگے بڑھ جانے والی ہے، اور سب کے سب آسمان میں تیرتے پھرتے ہیں۔

کسی دیہاتی سے پوچھا گیا کہ تم نے اپنے رب کو کیسے جانا؟

تو اس نے جواب دیا: مینگنی اونٹنی پر دلالت کرتی ہے ‘ گوبر گدہے پر دلالت کرتا ہے‘ نقشِ پا  مسافر پر دلالت کرتا ہے ‘    تو کیا ستاروں سے مزین آسمان‘ کشادہ شاہراہوں  سے آراستہ روئے زمین ‘ موجیں مارتے ہوئے سمندر‘  سننے اور دیکھنے والے خالق پر دلالت نہیں کرتے ؟

مچھر اللہ تعالی کی ایک عجیب مخلوق  ہے ‘ اللہ تعالی نے اس کے اندر بھی بہت سی حکمتیں پوشیدہ رکھی ہیں‘ اللہ نے اس کے اندر قوت حافظہ ‘  سوچ وفکر کی صلاحیت‘ چھونے‘ دیکھنے اور سونگھنے کی صلاحیت  ودیعت فرمائی ہے‘   اس  کے اندر  غذا پہنچنے کی جگہ بنائی ہے‘   اس کے اندر پیٹ‘ رگیں‘ دماغ اور ہڈیاں ودیعت کی ہیں‘ پاک ہے وہ ذات جس نے اندازہ کیا اور پھر راہ دکھائی اور کوئی چیز بےکار نہیں بنائی ۔

ايك شاعر نے  اپنے  حمدیہ قصیدے میں لکھا ہے:

يا من يرى مدَّ البعوض جناحها          في ظلمة الليل البهيم الأليل

ويرى مناظ عروقها في نحرها              والمخ من تلك العظام النحّل

ويرى خرير الدم في أوداجها              متنقلا من مفصل في مفصل

ويرى وصول غذى الجنين ببطنها في ظلمة الأحشا بغير تمقّل

ويرى مكان الوطء من أقدامها           في سيرها وحثيثها المستعجل

ويرى ويسمع حِس ما هو دونها          في قاع بحر مظلم متهوّل

امنن علي بتوبة تمحو بها                 ما كان مني في الزمان الأول([2])

ترجمہ: اے وہ (پالنہار) جو نہایت تاریک رات کے اندھیرے میں بھی مچھر کے پر پھیلانے کو دیکھتا ہے۔اے وہ (پالنہار!) جو اس مچھر کی گردن میں رگوں کے سنگم کو  دیکھتا ہے اور اس کی باریک  ہڈیوں  پر چڑھے گوشت کو بھی دیکھتا ہے۔اس کی رگوں کے اندر دوڑ رہے خون کو دیکھتا ہے جو (جسم کے ) ایک حصے سے دوسرے حصے کی طرف منتقل ہوتا ہے۔مچھر کے شکم میں پرورش پانے والے جنین کو  انتڑیوں کی تاریکی کے درمیان بغیر کسی تکلیف ومشقت کے دیکھتا ہے ۔جب وہ چلتا اور تیز بھاگتا ہے تو اس  کی جائے قدم  کو بھی وہ دیکھتا ہے‘  اس سے بھی  باریک ترین مخلوق کو وہ دیکھتا اور سنتا ہے جو تاریک او رہولناک سمندر کی گہرائی میں ہوتی ہے‘ اے (پالنہار!) میری توبہ قبول فرما اور میرے تمام سابقہ گناہوں کو معاف فرمادے۔

خلاصہ یہ کہ  جب یہ مخلوقات خود اپنے آپ کو پیدا نہیں کرسکتیں اور نہ اچانک (بغیر خالق کے)  وجود میں آسکتی ہیں‘ تو یہ طے ہوگیا کہ اس کاایک خالق  ضرور ہے‘ جو کہ اللہ رب العالمین ہے۔

اللہ تعالی نے اس عقلی اور قطعی دلیل کو سورۃ الطور میں ذکر کیا ہے‘ چنانچہ  فرمایا: (أَمْ خُلِقُوا مِنْ غَيْرِ شَيْءٍ أَمْ هُمُ الْخَالِقُونَ)

ترجمہ: کیا یہ بغیر کسی (پیدا کرنے والے) کے خود بخود پیدا ہوگئے ہیں؟ یا یہ خود پیدا کرنے والے ہیں؟

یعنی: وہ بغیر خالق کے نہیں پیدا ہوئے ہیں‘ اور نہ ہی خود اپنے آپ کو پیدا کیا ہے‘ چنانچہ معلوم ہوا کہ ان کاخالق اللہ تبارک وتعالی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ جب جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷐ کو سورۃ الطور کی تلاوت کرتے ہوئے سنااور آپ ان آیات تک پہنچے: (أَمْ خُلِقُوا مِنْ غَيْرِ شَيْءٍ أَمْ هُمُ الْخَالِقُونَ أَمْ خَلَقُوا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بَلْ لَا يُوقِنُونَ أَمْ عِنْدَهُمْ خَزَائِنُ رَبِّكَ أَمْ هُمُ الْمُصَيْطِرُونَ) اس وقت جبیر مشرک تھے‘ انہوں نے کہاکہ: قریب تھا کہ میرا دل اڑ جائے ‘ یہ پہلا موقع تھا جب میرے دل میں ایمان نے جگہ بنائی "([3])۔

اللہ تعالی مجھے اور آپ کو قرآ ن کی برکت سے مالا مال کرے ‘ مجھے اور آپ سب کو اس کی آیتوں اور حکمت پر مبنی نصیحت سے فائدہ پہنچائے ‘ میں اپنی یہ بات کہتے ہوئے اللہ تعالی سے اپنے لئے اور آپ سب کے لئے مغفرت طلب کرتا ہوں‘ آپ بھی اس سے بخشش طلب کریں‘  یقینا وہ  بہت زیادہ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔

دوسرا خطبہ:

الحمد لله وحده ‘ والصلاة والسلام على من لا نبي بعده، أما بعد:

اے مسلمانو! رہی بات وجود باری تعالی کی  شرعی دلیل کی تو  تمام آسمانی کتابیں اس پر دال ہیں‘  چونکہ یہ کتابیں ایسےاحکام کے ساتھ نازل ہوئیں جو مخلوق کے مصالح ومفاد پر مشتمل ہیں‘ اس لئے یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ  ایسے پروردگار کی طرف سے ہیں جو حکمت والا ہے او راپنی مخلوق کے مصالح ومفاد سے واقف ہے‘ اسی طرح ان کے اندر کائنات کی ایسی خبریں دی گئی ہیں کہ حقیقت حال اس کی تصدیق کرتی ہے ‘ یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ وہ ایسے پروردگار کی طرف سے ہے جو ہر اس چیز کو پیدا کرنے پر قادر ہے جس کی اس نے خبر دی ہے۔

نیز قرآن کی باہمی ہم آہنگی‘ اس میں تضاد کا نہ پایا جانا اور اس کے بعض حصے کا بعض حصوں کی تصدیق کرنا  اس بات کی قطعی دلیل ہے کہ وہ حکمت اور علم والے پروردگار کی طرف سے ہے‘ اللہ تعالی فرماتا ہے: (أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللَّهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا)

ترجمہ: کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے؟ اگر یہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو یقیناً اس میں بہت کچھ اختلاف پاتے۔

یہ اس ذات کے وجود کی دلیل ہے جس نے قرآن کے ذریعہ کلام کیا اور وہ اللہ تعالی کی ذات ہے۔

رہی بات  وجود باری تعالی کی  حسی دلیل کی تو  اس کی دو قسمیں ہیں: ایک تویہ کہ: ہم سنتے اور دیکھتے ہیں   کہ (اللہ تعالی) پکارنے والوں کی پکار  کو سنتا  اور  مصیبت زدوں  کی مدد  کرتا  ہے ‘  جو اللہ تعالی کے وجود کی ایک ٹھوس دلیل ہے‘  کیوں کہ دعا کی قبولیت سے پتہ چلتا ہے کہ ایک پروردگار ہے جو اپنے پکارنے والوں کی پکار کو سنتااور اسے پورا کرتا ہے‘ اللہ تعالی فرماتا ہے: (وَنُوحًا إِذْ نَادَى مِنْ قَبْلُ فَاسْتَجَبْنَا لَهُ)

ترجمہ: نوح کے اس وقت کو یاد کیجئے جبکہ اس نے اس سے پہلے دعا کی ہم نے اس کی دعا قبول فرمائی۔

نیز فرمان باری تعالی ہے :( إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ )

ترجمہ: اس وقت کو یاد کرو جب کہ تم اپنے رب سے فریاد کررہے تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے تمہاری سن لی۔

انس بن مالك رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:" ایک شخص منبر کے سامنے والے دروازے سے جمعہ کے دن مسجد نبوی میں آیا۔ رسول اللہ ﷐ کھڑے ہوئے خطبہ دے رہے تھے، اس نے بھی کھڑے کھڑے رسول اللہ ﷐ سے کہا :یا رسول اللہ! (بارش نہ ہونے سے) جانور مر گئے اور راستے بند ہو گئے۔ آپ اللہ تعالیٰ سے بارش کی دعا فرمائیے۔ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷐ نے یہ کہتے ہی ہاتھ اٹھا دیئے۔ آپ ﷐ نے دعا کی: «اللهم اسقنا،‏‏‏‏ ‏‏‏‏اللهم اسقنا،‏‏‏‏ اللهم اسقنا» کہ اے اللہ! ہمیں سیراب کر۔ اے اللہ! ہمیں سیراب کر۔ اے اللہ! ہمیں سیراب کر۔ انس رضی اللہ عنہ نے کہا :اللہ کی قسم کہیں دور دور تک آسمان پر بادل کا کوئی ٹکڑا نظر نہیں آتا تھا اور نہ کوئی اور چیز (ہوا وغیرہ جس سے معلوم ہو کہ بارش آئے گی) اور ہمارے اور سلع پہاڑ کے درمیان کوئی مکان بھی نہ تھا (کہ ہم بادل ہونے کے باوجود نہ دیکھ سکتے ہوں) پہاڑ کے پیچھے سے ڈھال کے برابر بادل نمودار ہوا اور بیچ آسمان تک پہنچ کر چاروں طرف پھیل گیا اور بارش شروع ہو گئی، اللہ کی قسم! ہم نے سورج ایک ہفتہ تک نہیں دیکھا۔ پھر ایک شخص دوسرے جمعہ کو اسی دروازے سے آیا۔ رسول اللہ ﷐ کھڑے ہوئے خطبہ دے رہے تھے، اس شخص نے پھر آپ﷐کو کھڑے کھڑے ہی مخاطب کیا کہ یا رسول اللہ! (بارش کی کثرت سے) مال و منال پر تباہی آ گئی اور راستے بند ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ بارش روک دے۔ پھر رسول اللہ ﷐ نے ہاتھ اٹھائے اور دعا کی «اللهم حوالينا ولا علينا،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ اللهم على الآكام والجبال والآجام والظراب والأودية ومنابت الشجر» کہ یا اللہ اب ہمارے اردگرد بارش برسا ہم سے اسے روک دے۔ ٹیلوں، پہاڑوں، پہاڑیوں، وادیوں اور باغوں کو سیراب کر۔ انہوں نے کہا کہ اس دعا سے بارش ختم ہو گئی اور ہم نکلے تو دھوپ نکل چکی تھی"([4])۔

قبولیت دعا  کا منظر آج بھی دیکھا جا سکتا ہے بشرطیکہ  کوئی صدق دل کے ساتھ اللہ سے لو لگائے  اور قبولیت کے اسباب اختیار  کرے ۔

وجود باری تعالی  کی  حسی دلیل  کی دوسری قسم:   انبیائے کرام کی وہ نشانیاں جو معجزات سے موسوم ہوتی ہیں اور جنہیں لوگ دیکھتے یا سنتے ہیں‘ وہ بھی ان کے بھیجنے والے  یعنی اللہ تعالی کے وجود کی قطعی دلیل ہیں‘  کیوں کہ یہ ایسی چیزیں ہیں جوانسان کے بس سے باہر ہیں‘ انہیں اللہ تعالی اپنے رسولوں کی تائید ونصرت کے طور پر جاری وساری کرتا ہے۔

اس کی مثال : موسی علیہ الصلاۃ والسلام کی نشانی ‘ جب اللہ تعالی نے انہیں یہ حکم دیا کہ وہ اپنی لاٹھی سے سمندر پر دے ماریں تو انہوں نے دے مارا ‘ جس سے بارہ خشک راستے نکل پڑےاو ران کے درمیان پانی پہاڑ کی طرح (ٹھہرا ) تھا‘ اللہ تعالی فرماتا ہے: (فَأَوْحَيْنَا إِلَى مُوسَى أَنِ اضْرِبْ بِعَصَاكَ الْبَحْرَ فَانْفَلَقَ فَكَانَ كُلُّ فِرْقٍ كَالطَّوْدِ الْعَظِيمِ)

ترجمہ: ہم نے موسیٰ کی طرف وحی بھیجی کہ دریا پر اپنی ﻻٹھی مار، پس اسی وقت دریا پھٹ گیا اور ہر ایک حصہ پانی کا مثل بڑے پہاڑ کے ہوگیا۔

اے مسلمانو!چونکہ وجود  باری تعالی کا اقرار کرنا ایک فطری امر ہے جس پر فطرت اور حس دونوں دلالت کرتے ہیں‘ اس لئے رسولو ں نے اپنی قوموں سے کہا :  (أَفِي اللَّهِ شَكٌّ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ)

ترجمہ: کیا حق تعالیٰ کے بارے میں تمہیں شک ہے جو آسمانوں اور زمین کا بنانے واﻻ ہے۔

ان تمام باتوں کاخلاصہ یہ ہے کہ   وجود باری تعالی پر ایمان لانا فطرت میں رچی بسی ہے‘ عقل‘ حس اور شریعت میں یہ ایک معلوم امر ہے ‘  اس کا انکار کوئی ملحد ہی کرسکتاہے جس کا دل راہ حق سے پھر گیا ہو‘ ایسے لوگ کم ہیں ۔الحمد للہ

آپ یہ  بھی یاد رکھیں-اللہ آپ کے ساتھ رحم کا معاملہ کرے-کہ اللہ نے آپ کو ایک بہت بڑے عمل کا حکم دیا ہے،اللہ فرماتا ہے: (إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا)

ترجمہ:اللہ تعالی اور اس کے فرشتے اس نبی پر رحمت بھیجتے ہیں،اے ایمان والو!تم(بھی)ان پر درود بھیجو اور خوب سلام(بھی)بھیجتے رہا کرو۔

اے اللہ تو اپنے بندے اور رسول محمد پر رحمت و سلامتی بھیج،تو ان کے خلفائے کرام،تابعین عظام اور قیامت تک اخلاص  کے ساتھ ان کی اتباع کرنے والوں سے راضی ہوجا۔

اے اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو عزت وسربلندی عطا فرما،شرک اور مشرکین کو ذلیل وخوار کر،تواپنے اور دین اسلام کے دشمنوں کو نیست ونابود کر اور اپنے موحدین بندوں کی مدد فرما،اے اللہ! تو ہمیں اپنے ملکوں میں سلامتی عطا کر،ہمارے اماموں اور ہمارے حاکموں کی اصلاح فرما،انہیں ہدایت کی رہنمائی کرنےوالا اور ہدایت پر چلنے والا بنا،اے اللہ !تو تمام مسلمانوں کے حکمراں کو اپنی کتاب کو نافذ کرنےاور اپنے دین کی سربلند کرنے کی توفیق سے نواز اور انہیں ان کے رعایوں کے لیے باعث رحمت بنا۔

اے اللہ!  جو ہمیں اور اسلام اور مسلمانوں کے تئیں شر کا ارادہ رکھے تواسے اپنی ذات میں مشغول کردے،اور اس کے مکر وفریب کو اس کےلئے وبال جان بنا۔

اے اللہ! مہنگائی ،وبا،سود،زنا،زلزلوں اور آزمائشوں کو ہم سے دور کردے اور ظاہری وباطنی فتنوں کی برائیوں کو ہمارے درمیان سے اٹھا لے،خصوصی طور پر ہمارے ملک سے اور عمومی طور تمام مسلمانوں کے ملکوں سے ،اے دونوں جہاں کے پالنہار!

اے اللہ! ہم سے بلا  ومصیبت  کو دور فرما،یقینا ہم مسلمان ہیں۔

اے ہمارے رب! ہمیں دینا میں نیکی دے اور آخرت میں بھی بھلائی عطا فرما،اور عذاب جہنم سے نجات بخش۔

سبحان ربك رب العزة عما يصفون وسلام على المرسلين والحمد لله رب العالمين

از قلم:

ماجد بن سلیمان الرسی

شہر جبیل-سعوی عرب

00966505906761

ترجمہ: سیف الرحمن حفظ الرحمن تیمی

[email protected]

 



 ([1])  اسے بخاری (۱۳۵۹) نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔
 ([2])  ان اشعار کو شہاب الدین احمد الأبشیہی نے اپنی کتاب: "المستطرف فی کل فن مستظرف" ص: ۳۷۴ میں ذکر کیا ہے‘ ناشر: دار الکتب العلمیۃ-بیروت‘ طباعت: اول‘ سنہ۱۴۱۳ھ
 ([3])  بخاری نے  اس کے مختلف حصوں کو  مختلف مقامات پر روایت کیا ہے: (۴۸۵۳) (۴۰۲۳)
 ([4]) اسے بخاری(۱۰۱۹) اور مسلم(۸۹۷) نے روایت کیا ہے۔ 

Attachments

1615819981_وجود باری تعالی پر ایمان.pdf

views 1276 | Comments 0