🌟((وجآءكم النذير))🌟أوردي🇵🇰

تركي بن عبدالله الميمان
1446/07/09 - 2025/01/09 22:02PM

عنوانِ خطبہ:اور تمہارے پاس ڈرانے والا آیا                                                                                                    بتاریخ: 10 رجب 1446ھ/10 جنوری 2025
​بیشک تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، ہم اسی کی حمد بیان کرتے ہیں، اسی سے مدد طلب کرتے ہیں، اسی سے بخشش چاہتے ہیں، اور اسی کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ ہم اپنے نفسوں کی برائیوں اور اپنے اعمال کی خرابیوں سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔ جسے اللہ ہدایت دے، اسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا، اور جسے اللہ گمراہ کر دے، اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔

​ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان پر، ان کے آل اور صحابہ پر بے شمار درود و سلام نازل فرمائے۔

​حمد وثناء کے بعد:اللہ سے ڈرو، جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے، اور اسے خلوت و جلوت میں اپنا نگہبان سمجھو۔ اور یہ جان لو کہ دنیا فنا ہونے والی ہے، باقی رہنے والی نہیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿قُلْ مَتَاعُ الدُّنْيا قَلِيلٌ والآخِرَةُ خَيْرٌ لِمَنِ اتَّقَى﴾ "کہہ دو: دنیا کا ساز و سامان تھوڑا ہے اور آخرت بہتر ہے اُن کے لیے جو اللہ سے ڈرتے ہیں"۔ النساء: 77

​اللہ کے بندو! یہ اللہ کی اپنے بندوں پر رحمت ہے کہ اس نے ان کی طرف آیات اور ڈرانے والے بھیجے تاکہ وہ یہ نہ کہیں کہ﴿مَا جَاءَنَا مِنْ بَشِيرٍ وَلا نَذِيرٍ﴾ "ہمارے پاس کوئی خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا نہیں آیا"۔ المائدۃ:19

​ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: (لا أَحَدَ أَحَبُّ إِلَيْهِ العُذْرُ مِنَ اللهِ، ومِنْ أَجْلِ ذلك: بَعَثَ المُبَشِّرِينَ والمُنْذِرِين)"اللہ کو معذرت پیش کرنا سب سے زیادہ محبوب ہے، اور اسی وجہ سے اس نے خوشخبری دینے والوں اور ڈرانے والوں کو بھیجا"۔ بخاري (7416)، مسلم (1499)

​اللہ نے محمد ﷺ کو خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ۔تاکہ بندوں کی حجت ختم ہو جائے۔ تفسير القرطبي (14/354)

​ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ على اللهِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ﴾"تاکہ لوگوں کے پاس رسولوں کے بعد اللہ کے خلاف کوئی حجت نہ رہے"۔ النساء: 165
​بعض مفسرین نے اللہ کے اس فرمان﴿وجَآءَكُمُ النَّذِير﴾ "اور تمہارے پاس نذیر آیا" تفسير البغوي (6/425)کی تفسیر کرتے ہوئے کہا: (أَي الرَّسُولُ ﷺ؛ فَلَمْ تُجِيْبُوا، وأَصرَرتُم على الشِّركِ والمعَاصِي!)"اس سے مراد رسول ﷺ ہیں؛ لیکن تم نے ان کی دعوت قبول نہ کی اور شرک و نافرمانی پر اصرار کیا"۔ أيسر التفاسير، أبو بكر الجزائري (4/357)

​لمبی عمر بھی انسان کے لیے نذیر ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿أوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ مَا يَتَذَكَّرُ فِيهِ مَنْ تَذَكَّرَ وجَآءَكُمُ النَّذِيرُ﴾"کیا ہم نے تمہیں اتنی عمر نہیں دی تھی کہ اس میں نصیحت حاصل کرنے والا نصیحت حاصل کر لیتا، اور تمہارے پاس ڈرانے والا بھی آیا تھا؟" فاطر : 37
​شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: (وفي هذا دَلِيلٌ على أنَّهُ كُلَّما طالَ بالإنسانِ العُمُر: كانَ أَولَى بالتَّذَكُّرِ؛ لأنَّه لا يَدرِي متى يموتُ؟!)"یہ آیت اس بات پر دلیل ہے کہ جوں جوں انسان کی عمر بڑھتی ہے، وہ نصیحت لینے کے زیادہ لائق ہوتا ہے، کیونکہ اسے نہیں معلوم کہ وہ کب موت سے ہمکنار ہوسکتا ہے"۔ شرح رياض الصالحين (2/139)

​نذیر کی اقسام میں سے ایک چالیس سال کی عمر کو پہنچنا بھی ہے۔ تفسير القرطبي (7/276) یہ عمر کی تکمیل کا وقت ہے۔ اس کے بعد انسان گھٹاؤ، زوال اور کمزوری کی طرف بڑھتا ہے۔ نوادر الأصول، الحكيم الترمذي (2/156)

​ابن جوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: (فَمَنْ بَلَغَ الأَربعينَ: اِنْتَهَى تَمَامُه، وقَضَى مَنَاسِكَ الأَجَل، ولم يَبْقَ إلَّا الاِنحِدَار إلى الوَطَن! فينبغي له عندَ تمامِ الأربعين: أنْ يَجْعَلَ جُلَّ هِمَّتِهِ: التزوّد للآخِرَة، ويَأْخُذَ في الاِستِعدَادِ للرَّحِيل)"جو چالیس سال کی عمر کو پہنچ جائے، اس کا کمال مکمل ہو گیا، اور زندگی کے ایام گزر چکے، اب صرف واپس جانے کا وقت باقی رہتا ہے۔ لہٰذا چالیس سال کی عمر کے بعد انسان کو چاہیے کہ اپنی زیادہ تر توجہ آخرت کے لیے زادِ راہ جمع کرنے اور موت کی تیاری پر مرکوز کرے"۔ صيد الخاطر (278).

​اللہ نے ساٹھ سال کی عمر کو آخری معذرت اور انتباہ کی حد قرار دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿أوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ مَا يَتَذَكَّرُ فِيهِ مَنْ تَذَكَّرَ وجَآءَكُمُ النَّذِيرُ﴾"کیا ہم نے تمہیں اتنی عمر نہیں دی تھی کہ اس میں نصیحت حاصل کرنے والا نصیحت حاصل کر لیتا، اور تمہارے پاس ڈرانے والا بھی آیا تھا؟" فاطر : 37
​حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: (معناه: أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ سِتِّينَ سَنَةً؟!)"اس کا مطلب یہ ہے کہ کیا ہم نے تمہیں ساٹھ سال عمر نہیں دی؟" رياض الصالحين، النووي (57)
​نبی کریم ﷺ نے فرمایا: (أَعْذَرَ اللهُ إلى امْرِئٍ أَخَّرَ أَجَلَهُ؛ حَتَّى بَلَّغَهُ سِتِّينَ سَنَةً)"اللہ نے اس شخص کے لیے معذرت کو ختم کر دیا جس کی عمر کو اس نے ساٹھ سال تک پہنچا دیا۔" رواه البخاري (6419)

​امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: (مَنْ عَمَّرَهُ اللهُ سِتِّينَ سَنَةً: لَمْ يَبْقَ لَهُ عُذْرٌ يَتَمَسَّكُ بِه؛ لِأَنَّ السِتِّينَ: مُعْتَرَكُ العِبَاد، وهُوَ سِنُّ الِاستِسلَامِ لِله، وتَرَقُّب لِقَائِه)" جسے اللہ نے ساٹھ سال کی عمر تک زندگی دی، اس کے لیے کوئی عذر باقی نہیں رہتا جسے وہ تھام سکے، کیونکہ ساٹھ سال کی عمر بندوں کے امتحان کی جگہ ہے، اور یہ وہ عمر ہے جب انسان اللہ کے سامنے جھکنے اور اس سے ملاقات کرنے کی تیاری کرتا ہے۔" تفسير القرطبي (7/276)

​ساٹھ سال کی عمر کے بعد انسان موت کی وادی میں داخل ہو جاتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: (أَعْمَارُ أُمَّتِي مَا بَيْنَ السِتِّينَ إلى السَّبْعِينَ؛ وأَقَلُّهُمْ مَنْ يَجُوزُ ذلك)"میری امت کی عمریں ساٹھ سے ستر سال کے درمیان ہیں، اور ان میں کم ہی لوگ اس سے آگے جاتے ہیں۔" رواه الترمذي (3550)
​ابن جوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: (فإذا بَلَغَ السِتّينَ؛ فَقَدْ أَعْذَرَ اللهُ إليهِ في الأَجَلِ: فَلْيُقْبِلْ بِكُلِّيَّتِهِ على جَمْعِ زَادِهِ، وتَهْيئَةِ آلاتِ السَّفَر، ولْيَعْتَقِدْ أَنَّ كلَّ يَومٍ يَحْيَا فيهِ غَنِيْمَة!)"جب کوئی شخص ساٹھ سال کی عمر کو پہنچ جائے تو اللہ نے اس کے لیے عذر کو ختم کر دیا۔ اسے چاہیے کہ وہ پوری توجہ کے ساتھ آخرت کے لیے زادِ راہ جمع کرے، سفر کی تیاری کرے، اور یہ سمجھ لے کہ ہر دن جو اسے زندگی میں مل رہا ہے، ایک غنیمت ہے۔" صيد الخاطر (278)

​سفید بال بھی اللہ کی طرف سے بندوں کے لیے ایک انتباہ ہیں۔ یہ عمر کے اختتام کی شروعات اور رخصتی کے قریب ہونے کی نشانی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿وجَآءَكُمُ النَّذِيرُ﴾"اور تمہارے پاس ڈرانے والا آیا۔" حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اور دیگر مفسرین فرماتے ہیں:: (هُوَ الشَّيْبُ، مَعْنَاهُ: أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ حَتَّى شِبْتُمْ! ويُقَالُ: الشَّيْبُ نَذِيرُ المَوْتِ، ومَا مِنْ شَعَرَةٍ تَبْيَضُّ إِلَّا قالَتْ لِأُخْتِهَا: اسْتَعِدِّي فَقَدْ قَرُبَ المَوْتُ!)"اس سے مراد بڑھاپا ہے، یعنی کیا ہم نے تمہیں اتنی عمر نہیں دی کہ تم بوڑھے ہو گئے؟"کہا جاتا ہے:" کہ سفید بال موت کی خبر دیتے ہیں۔ ہر سفید بال اپنے ساتھ والے کو یہ کہتا ہے:"تیاری کرو، موت قریب آ چکی ہے۔" تفسير البغوي (6/425)، زاد المسير، ابن الجوزي (3/514)، تفسير القرطبي (7/276) (14/353).

​بیماریاں اور تکالیف بھی موت کے آنے کی خبر دیتی ہیں۔ یہ انسان کو موت کے قریب ہونے کا احساس دلاتی ہیں۔علماء فرماتے ہیں: (الأَمرَاضُ كُلُّهَا: مُقَدِّمَاتٌ لِلمَوت، ومُنْذِرَاتٌ بِه؛ وإِنْ أَفْضَتْ إلى سَلامَةٍ: جَعَلَهَا اللهُ مُذَكِّرةً لَه)
"تمام بیماریاں موت کی پیش گوئیاں اور انتباہ ہیں۔ اگرچہ یہ شفایاب بھی ہو جائیں، اللہ انہیں انسان کے لیے نصیحت کا ذریعہ بناتا ہے۔" التيسير بشرح الجامع الصغير، المناوي (1/508)، فيض القدير، المناوي (3/420)

​صحیح عقل بھی انسان کے لیے ایک انتباہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عقل اور یقین کی کمزوری کی علامت یہ ہے کہ انسان نصیحت کرنے والوں کی باتوں سے منہ موڑ لے اور قیامت کے دن سے غافل ہو جائے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿وأَنْذِرْهُمْ يَوْمَ الحَسْرَةِ إذْ قُضِيَ الأمْرُ وهُمْ في غَفلَةٍ وهُمْ لا يُؤْمِنُون﴾"اور انہیں حسرت کے دن سے ڈرا دو، جب معاملہ طے ہو جائے گا اور وہ غفلت میں پڑے ہوں گے اور ایمان نہیں لائیں گے۔"مریم : 39

​میں اپنی بات یہیں ختم کرتا ہوں، اور اللہ سے اپنے لیے اور آپ سب کے لیے ہر گناہ کی معافی مانگتا ہوں۔ آپ بھی اللہ سے معافی مانگیں، بے شک وہی بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔

***

 

 

​تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں، جو اپنے احسانات پر لائق حمد ہے، اور اپنی توفیق و عنایات پر شکر کا مستحق ہے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، اور محمد ﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔

​حمد وثناء کے بعد: زندہ دل اور عقل مند وہی ہے جو اللہ کی آیات اور اس کے انتباہات پر لبیک کہتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کی صفت میں فرمایا: ﴿لِيُنْذِرَ مَنْ كَانَ حَيًّا﴾"تاکہ وہ ہر زندہ دل کو ڈرائے۔"یس:70
​ضحاک رحمہ اللہ نے اس کی تفسیر میں کہا: (مَنْ كَانَ عَاقِلًا)"یعنی وہ جو عقل مند ہو۔" تفسير الطبري (19/481).
​علامہ سعدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: (القَلبُ الحيُّ: هُوَ الَّذِي يَكُونُ القُرْآنُ لِقَلْبِهِ بِمَنْزِلَةِ المَطَرِ لِلأَرضِ الطَيِّبَةِ)"زندہ دل وہ ہے جس کے دل پر قرآن ایسے اثر کرے جیسے اچھی زمین پر بارش اثر کرتی ہے۔" تفسير السعدي (698)

​دنیا کے حالات کی تبدیلی اور اس کا عارضی ہونا بھی اللہ کی نشانیوں اور تنبیہات میں شامل ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿يَا قَوْمِ إِنَّمَا هَذِهِ الحَيَاةُ الدُّنْيَا مَتَاعٌ وإِنَّ الآخِرَةَ هِيَ دَارُ القَرَار﴾"اے میری قوم! یہ دنیا کی زندگی تو صرف فائدہ اٹھانے کی چیز ہے، اور آخرت ہی ہمیشہ رہنے کا گھر ہے۔"غافر:39
​ابن رجب رحمہ اللہ فرماتے ہیں: (فَمَا عِيبَتِ الدُّنيَا بِأَبْلَغِ مِنْ فَنَائِهَا، وتَقَلُّبِ أَحوَالِهَا؛ وهُوَ أَدَلُّ دَلِيلٍ على زَوَالِهَا: فتَتَبَدَّلُ صِحَّتُهَا بِالسَّقَمِ، ووُجُودُهَا بِالعَدَمِ، وشَبِيبَتُهَا بِالهَرَمِ؛ وحَيَاتُهَا بِالمَوتِ، واجْتِمَاعُهَا بِفُرْقَةِ الأَحبَابِ؛ وكُلُّ ما فَوْقَ التُّرَابِ تُرَاب!)"دنیا پر سب سے بڑا عیب اس کا ختم ہو جانا اور اس کے حالات کا بدل جانا ہے، اور یہ اس کے زوال کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ صحت بیماری میں بدل جاتی ہے،اس کا وجود عدم میں، جوانی بڑھاپے میں، زندگی موت میں، اور عزیزوں کی قربت جدائی میں بدل جاتی ہے۔ وكُلُّ ما فَوْقَ التُّرَابِ تُرَاب ہر وہ چیز جو مٹی پر ہے، خود مٹی بننے والی ہے!"۔  لطائف المعارف (28)

​اے اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو عزت عطا فرما، اور شرک اور مشرکین کو ذلت نصیب فرما۔

• اے اللہ! اپنے خلفاء راشدین، ہدایت یافتہ اماموں یعنی ابو بکر، عمر، عثمان اور علی سے راضی ہو جا، اور باقی صحابہ کرام، تابعین اور ان کے نیک پیروی کرنے والوں سے بھی قیامت کے دن تک راضی ہو جا۔
• اے اللہ! غمزدوں کی غمخواری فرما، اور مصیبت زدوں کی مشکلات دور فرما۔
• اے اللہ! ہمارے وطنوں کو امن عطا فرما، اور ہمارے ائمہ اور حکمرانوں کو درست راہ دکھا، اور (ہمارے حکمران اور ان کے ولی عہد) کو اپنی پسندیدہ اور رضا کی راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرما، اور ان کی رہنمائی تقویٰ اور نیکی کی طرف فرما۔
• اے اللہ! تو ہی اللہ ہے، تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو غنی ہے اور ہم فقیر ہیں، ہم پر بارش نازل فرما اور ہمیں مایوس لوگوں میں سے نہ بنا۔ اے اللہ! ہم تجھ سے بخشش مانگتے ہیں، بے شک تو بڑا بخشنے والا ہے، تو ہم پر آسمان سے موسلادھار بارش نازل فرما۔
• اللہ کے بندو: إِنَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالعَدْلِ وَالإحْسَانِ وَإِيتَآءِ ذِي القُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الفَحْشَاءِ وَالمُنْكَرِ وَالبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ ﴿بیشک اللہ انصاف کا، احسان کا، اور قرابت داروں کو دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برائی اور ظلم سے منع کرتا ہے، وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو﴾۔
• پس اللہ کا ذکر کرو وہ تمہیں یاد رکھے گا، اور اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرو وہ تمہیں زیادہ دے گا وَلَذِكْرُ اللهِ أَكْبَرُ وَاللهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُون ﴿اور اللہ کا ذکر سب سے بڑا ہے اور اللہ جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو﴾۔
• مترجم: محمد زبیر کلیم ( سابق مدرس جامعہ سلفیہ ،فیصل آباد، پاکستان)
• داعی ومدرس جمعیت ھاد
• جالیات عنیزہ۔ سعودی عرب
6

Attachments

1736449252_وجاءكم النذير- اردو- اور تہمارے پاس ڈرانے والا آیا.docx

1736449255_وجاءكم النذير- اردو- اور تہمارے پاس ڈرانے والا آیا.pdf

views 19 | Comments 0