مشعل نبوت (۸)  احسان کی حفاظت

سيف الرحمن التيمي
1443/08/21 - 2022/03/24 08:37AM

موضوع الخطبة                : من مشكاة النبوة (8)

الخطيب               : حسام بن عبد العزيز/ حفظه الله

لغة الترجمة            : الأردو

المترجم                :شفاء الله الياس التيمي((@Ghiras_4T

موضوع:

مشعل نبوت (۸) 
احسان کی حفاظت

پہلا خطبہ:

الحمدُ لله برحمته اهتدى المُهتدونَ، وبعدلِهِ وحكمَتِهِ ضلَّ الضَالونَ، وأشهدُ أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له لا يُسألُ عمَّا يفعلُ وهم يُسألونَ، وأشهدُ أنَّ محمدًا عبدُ الله ورسولُه، ترَكنا على مَحجَّةٍ بَيضَاءَ ليلها كنهارها لا يزيغ عنها إلا هالك، صلَّى الله وسلَّم وباركَ عليه، وعلى آله وأصحابِه وأتباعِه بإحسانٍ إلى يومٍ لا ينفعُ فيه مالٌ ولا بنونَ إلاَّ مَنْ أتى اللهَ بِقلبٍ سَلِيمٍ.

حمد وثنا کے بعد!

حمد وصلاة کے بعد!

میں  آپ کو اور خود کو تقوی الہی کی وصیت کرتا ہوں، کیوں کہ  جو تقوی الہی پیدا کرے گا اسے باطل کے درمیان حق کی معرفت حاصل ہوگی،اللہ اس کے گناہوں کو  مٹا دے گا اور  اس کے درجات کو بلند فرمائے گا:

﴿ يِا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إَن تَتَّقُواْ اللّهَ يَجْعَل لَّكُمْ فُرْقَانًا وَيُكَفِّرْ عَنكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ وَاللّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ ﴾ [الأنفال29].

ترجمہ:اے ایمان والو! اگر تم اللہ سے ڈرتے رہو گے تو اللہ تعالیٰ تم کو ایک فیصلہ کی چیز دے گا اور تم سے تمہارے گناه دور کر دے گا اور تم کو بخش دے گا اور اللہ تعالیٰ بڑے فضل والا ہے۔

اے رحمان کے بندو!جنگ بدر کا آغاز اخلاقی درس سے ہوتا ہے اسی طرح اس کا خاتمہ بھی اخلاقی درس کے ساتھ ہوتا ہے۔

یہ کوئی حیرت انگیز بات نہیں کیوں کہ یہ ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے ہوا جنہیں مکارم اخلاق کی تکمیل کے لئے مبعوث کیا گیا،آپ جنگ کی استثنائی  صورت حالت میں  بھی مکارم اخلاق کی تکمیل کا خیال رکھا  کرتے تھے۔

جہاں تک پہلے درس کی بات ہے تو اس کا تعلق ابتدائے جنگ کے قبل سے ہے،وہ اس طرح کہ مسلمانوں کے نفوس  ظلم کی تلخی  اور اللہ اور اس کے رسول سے دشمنی رکھنے والوں کے بغض وعناد سے لبریز   تھے،سیرت رسول میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بیان کیا گیا ہے کہ:جو ابو البختری بن ہشام سے ملاقات کرے،وہ اسےقتل نہ کرے"! اس کا سبب یہ بتایا گیا کہ وہ مشرکوں  میں سب سے زیادہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف دینے سے باز رہتا تھا، اس کا ظلم پر مبنی اس عہد وپیمان کو توڑنے میں شاندار  کردار  تھا جو بنو ہاشم سے قطع تعلق  کرنے اور انہیں(شعب ابی طالب)میں محصور کرنے کے لیے لکھاگیاتھا۔

اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے اس طرح کا موقف اختیار کیا۔

جہاں تک دوسرے درس کی بات تو اس کا تعلق جنگ کے بعد سے ہے،جب مسلمانوں کو فتح ونصرت ہاتھ آئی،اور اس کے نتیجے میں ستر ایسے قیدی ہاتھ لگے جن میں کچھ لوگ ایسے تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑی دشمنی رکھتے تھے اور آپ کو بہت زیادہ اذیت دیا کرتے تھے۔ جیسے نضر بن حارث اور عقبہ بن محیط ،مکہ میں ان مجرموں کے جرم وبربریت اور ان کی اذیت،کمزور مسلمانوں کے ساتھ ان  کا جور وستم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ان کی بدزبانی کا دردناک  داستان اب تک مسلمانوں کے ذہنوں میں تازہ تھا،جس کی وجہ سے وہ رنجیدہ تھے،دلوں  میں غیض وغضب تھا،اور مومنوں کے دل بھڑاس نکالنے کے لیے کسی ایسے اقدام کے درپے تھے جس کے ذریعہ ان کے دل کا غصہ ٹھنڈ پڑجائے۔لیکن ان سب کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ ان قیدیوں کے بارے میں فرمارہے ہیں:"اگر مطعم بن عدی زندہ ہوتا اور وہ ان نجس اور گندے لوگوں کی سفارش کرتا تو میں اس کی سفارش سے انھیں چھوڑ دیتا"۔(بخاری)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی اعلان یہ کہا ہے کہ یہ تمام کے تمام پروانہ آزادی حاصل کرلیتے اگر مطعم زندہ ہوتا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے کہا: اے محمد!آپ میری خاطر انہیں چھوڑ دیجیے،یہ جاننے کے باوجود کہ اس کی موت شرک  کی حالت میں ہوئی ہے،لیکن  ہم اب بھی یہ جانتے ہیں  کہ وہ سخی وفیاض  اور بامروت انسان تھا،اس کی ایک جھلک یہ ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طائف سے واپسی ہورہی تھی تو اس شخص نے آپ کی حمایت اور حفاظت فرمائی،جس کے سامنے قریش کو جھکنا پڑا،اور اہل قریش  نے مطعم سے کہا:آپ ہی وہ شخص ہیں جس نے اپنے عہد وپیمان کی حفاظت نہیں کی۔

انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے بعد قریش کے لوگوں کو جمع کیا اور ان سے کہا:"تم لوگ محمد کے ساتھ جو کرنا تھا وہ کرچکے،اب تم ان کو تکلیف پہنچانے  سے پورے طور پر باز آجاؤ"۔

اے ایمانی بھائیو!آئیے ہم ان نبوی واقعات کے بعض نکات پر غور وفکر کرتے ہیں:

1- سنگین حالات میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے اچھے اخلاق سے پیش آنے والوں کے لیے وفاداری ‘  حسن برتاؤ   اور اچھے اخلاق کا ذکر اور اس کا مظاہرہ  ، جنگی تصادم کی حالت،اور تناؤ، مڈبھیڑ  اور غیظ وغضب کے لمحات میں بھی آپ نے ان اخلاق کو فراموش نہیں کیا۔

2-جنگی مڈبھیڑ  اور غصے کی حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا  اس طرح کی گفتگو کرنا یہ واضح کرتا ہے  کہ آپ کا یہ نظریہ اخاقی اصول  ومبادی کا حصہ ہے،نہ کہ کوئی سیاسی  تکنیک ہے،بلکہ یہ ایسی قیادت وسیادت ہے جو اصول ومبادی پر قائم ہے۔

3-رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم(اپنے خلاف)ان مشرکین کی باتوں کو ان کے قرابت داروں کے درمیان نہیں سناتے تھے،بلکہ آپ اپنے مومن صحابہ کرام کو مخاطب فرماتے تھے،تاکہ آپ (اپنے منفرد تربیتی اسلوب کے ذریعے)ان کے نفوس  میں ان اخلاقی خصلتوں کی آبیاری کرسکیں،تاکہ وہ اس کے اہل اور زیادہ مستحق قرار پائیں اور  انہیں ان اخلاق  کا     بہتر سے بہتر بدلہ مل سکے،نیز یہ نبوی ہدایت رہنمائی بھی ہے کہ  وہ انصاف کے معیاروں پر کاربند رہیں اور لوگوں   کا جو مقام ومرتبہ ہے وہ انہیں ضرور دیں۔

 

اللہ مجھے اور آپ کو قرآن وحدیث اور ان میں موجود ہدایت وحکمت کی باتوں سے  فائدہ پہنچائے،اللہ سے توبہ واستغفار کیجیے یقینا وہ بہت زیادہ بخشنے والا ہے۔

 

دوسرا خطبہ:

الحمد لله القائل لرسوله ﴿ وَإِنَّكَ لَعَلى خُلُقٍ عَظِيمٍ ﴾ [القلم: 4]، وصلى الله وسلم وبارك عليه وعلى آله وأصحابه .

حمد وصلاة کے بعد!

چوتھا نکتہ:صحابہ کرام  انصاف اور  حقوق کی حفاظت  کا معنی ومطلب سمجھ چکے تھے حتی کہ ان لوگوں نے اس معیار کو ان حضرات ساتھ بھی برقرا ر رکھا جن لوگوں نے   دین ووطن میں ان کی مخالفت کی،چنانچہ عمروبن العاص رضی اللہ عنہ رومیوں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "ان کے اندر پانچ خوبیاں پائی جاتی ہیں"پھر انہوں نے اخلاق واطوار کے معیاراور قیادت کے اسباب وذرائع سے متعلق ان کی  پانچ خصلتوں کا ذکر کیا،یہ حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ ہیں جنہوں نے مطعم بن عدی کی وفات پر ان کے لئے مرثیہ کہا،جس میں اس کے ان کارناموں کو ذکر کیا جن میں اس نے داد تحسین حاصل کی۔

اخیر میں اے میرے ایمانی بھائیو!جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ  انصاف کے   اعلی ترین  معیار کو  ان لوگوں کے تئیں اختیار کیا جن کے مابین اور آپ کے مابین  حد فاصل شرک اکبر تھا،تو ہمیں اس بات کی زیادہ ضرورت ہے کہ ہم اس معیار کو    اپنے ان بھائیوں کے لیے اختیار  کریں جن کے ساتھ ہمارے اتفاق واتحاد کے اسباب ہماری تفریق کے اسباب سے کہیں زیادہ ہیں،اور جن سے قریب ہونے کے اسباب   دوری کے اسباب سے کہیں زیادہ ہیں،اللہ ہمیں اچھے اخلاق کی رہنمائی فرمائے۔

خطیب:           فضیلۃ الشیخ حسام بن عبد العزیز الجبرین

مترجم:             شفاء اللہ الیاس تیمی

[email protected]

views 762 | Comments 0