فرائض اور نوافل کی عظمت واہمیت
سيف الرحمن التيمي
موضوع الخطبة : تعظيم صلاة الفريضة وصلاة الليل
الخطيب : حسام بن عبد العزيز/ حفظه الله
لغة الترجمة : الأردو
المترجم :سيف الرحمن التيمي((@Ghiras_4T
موضوع:
فرائض اور نوافل کی عظمت واہمیت
پہلا خطبہ:
إن الحمد لله نحمده ونستعينه ونستغفره ونعوذ بالله من شرور أنفسنا ومن سيئات أعمالنا من يهده الله فلا مضل له ومن يضلل فلا هادي له وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له وأشهد أن محمدا عبده ورسوله ﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّهَ وَابْتَغُواْ إِلَيهِ الْوَسِيلَةَ وَجَاهِدُواْ فِي سَبِيلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ﴾ [المائدة: 35]
حمد وثنا کے بعد!
معزز حضرات یہ بات مخفی نہیں کہ وادیاں اور نہر یں جب جاری وساری ہوں توان کا حسن وجمال دلوں کو بھاتا ہے کیوں کہ اس کے بہت سے بڑے بڑے فوائد ہیں، عربوں کے نزدیک وادی کا جاری ہونا خوشی ومسرت کے مواقع میں سے ہوا کرتا ہے جس میں وہ فراخی اور بے تکلفی سے کام لیتے ہیں، مدینہ کے اندر وادی عقیق جب جاری ہوتی تو لوگ خوشی کے مارے گھروں سے نکل جاتے اور اس کے حسین منظر سے لطف اندوز ہوتے تھے، ان میں باپردہ خواتین بھی ہوتیں، اس مقدمہ کے بعد آئیے ہم ایک حدیث نبوی پر غور کرتے ہیں، تاکہ ہم صحابہ کرام کے اس احساس وشعور کو سمجھ سکیں جو ان کے اندر اس حدیث کو سننے کے بعد پیدا ہوا تھا، چنانچہ آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے ایک دن فرمایا: "اگر تم میں سے کسی کے دروازے پر کوئی نہر جاری ہو جس میں وہ ہر روز پانچ مرتبہ نہاتا ہو تو تم کیا کہتے ہو کہ یہ کام اس پر کچھ بھی میل کچیل چھوڑے گا؟" ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: ایسا کرنے سے کچھ بھی میل کچیل باقی نہیں رہے گا۔(یقینا کوئی بھی غلاظت اور گندگی باقی نہیں رہے گی اگر وہ میٹھے اور بہتے ہوئے پانی میں نہائے ۔ یقینا وہ پاک صاف رہے گا)۔ (صحابہ نے عرض کیا کہ : اس کے جسم پر کوئی گندگی نہیں رہے گی)۔صحابہ کرام سے آپ نے فرمایا: "پانچوں نمازوں کی یہی مثال ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے ذریعے سے گناہوں کو مٹا دیتا ہے"۔متفق علیہ
اللہ اکبر، یقینا وہ نماز ہی ہے جس کے بارے میں قیامت کے دن سب سے پہلے بندہ سے سوال کیا جائے گا، یقینا وہ نماز ہی ہے جس کے بار ےمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے وقت پر ادا کرنا اللہ کے نزدیک سب سے محبوب عمل ہے، یقینا وہ اسلام کا ستون ہے، یقینا وہ نماز ہی ہے جسے قائم کرنے پر آپ بیعت لیا کرتے تھے، یقینا وہ ایسی عبادت ہے جس کی عظمت شان کے پیش نظر اس کی ادائیگی کے لیے طہارت کوشرط قرار دیا گیا ہے ، اور اس مسئلہ میں اختلاف نہیں ہے، یہی وہ عبادت ہے جو مکلف سے ساقط نہیں ہوتی جب تک کہ اس کی عقل بحال رہے، وہ ایسی عبادت ہے جو دل کے ساتھ تمام اعضاء وجوارح سے بھی ادا کی جاتی ہے، وہ ایسی عبادت ہے کہ (مصیبت کے وقت) جس کا سہارا لینے اور اس کے ذریعہ اللہ کی مدد طلب کرنے کا حکم دیا گیا ہے ، وہ صبر کے قائم مقام ہے، وہ ایسا فریضہ ہے جسے دن ورات میں پانچ دفعہ ادا کیا جاتا ہے، یہی وہ نماز ہے جس کی پابندی کرنے والے اپنے گناہوں کی وجہ سے اگر جہنم میں داخل بھی ہوئے تو ان کی پیشانیوں کو جلانا جہنم پر حرام قرار دیا گیا ہے، یقیناً وہ بندہ اور اس کے رب کے درمیان رابطہ اور مناجات ہے، یقینا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی امت کے لیے آخری وصیت ہے، بے شک وہ ایسی عبادت ہے جو بلند مقام (آسمان میں) اور مبارک موقع (نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسراء ومعراج کے موقع) سے فرض کیا گیا ، وہ ایسی عبادت ہے جسے اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر بلا واسطہ فرض کیا، وہ ایسی عبادت ہے کہ اسے ادا کرنے والے کے لیے فرشتے اس وقت تک دعا کرتے رہتے ہیں جب تک کہ وہ جائے نماز پر بیٹھا رہتا ہے اور اس کا وضو نہیں ٹوٹتا اور وہ کسی کوتکلیف نہیں دیتا، وہ ایسی عبادت ہے جسے جنگ کی حالت میں بھی جماعت کے ساتھ اداکرنا فرض ہے، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور آپ کی راحت جان ہے، اسی نماز کا حکم اللہ نے موسی علیہ السلام کو ہم کلامی کے وقت دیا، اسی کے ذریعہ عیسی علیہ السلام آغوش مادر میں گویا ہوئے، خلیل نے اپنے لیے اور اپنی اولاد کے لیے اسی کو قائم کرنے کی دعا مانگی اور شعیب کی قوم کو تعجب ہوا کہ اس نماز کا اثر اس کے معبودوں اور تاجروں پر بھی پڑنے لگا ہے۔
میرے ایمانی بھائیو! نماز کے تعلق سے بہت سے صحیح نصوص وارد ہوئے ہیں جن میں ترغیب وترہیب آئی ہے، اس تعلق سے مختلف احادیث بھی آئی ہیں، ہم آپ کے سامنے کچھ نصوص پیش کر رہے ہیں جن سے ہمارے ایمان میں اضافہ ہوگا اور ان فرائض کے ذریعہ اللہ نے ہمارے اوپر جو فضل واحسان کیا ہے ،اس کا ہمیں ادراک ہوگا، آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا: "جس نے صبح کی نماز ادا کی ، وہ اللہ کے ذمے میں آگیا ، (دعا ہے )اللہ تم سے اپنے ذمے کے حوالے سے کوئی مطالبہ نہ کرے کیونکہ جس سے وہ اپنے ذمے میں سے کسی چیز کا مطالبہ کر لے ، اسے پالیتا ہے ، پھر اسے اوندھے منہ جہنم کی آگ میں ڈال دیتا ہے ۔،، (مسلم) عشا اور فجر کی نماز کے تعلق سے آپ نے فرمایا:" جس نے عشاء کی نماز باجماعت ادا کی تو گویا اس نے آدھی رات کا قیام کیا اور جس نےصبح کی نماز (بھی ) جماعت کے ساتھ پڑھی تو گویا اس نے ساری رات نماز پڑھی۔،، (مسلم) فجر اور عصر کے بارے میں آپ نے فرمایا: "جو شخص دو ٹھنڈے وقتوں کی نماز پابندی سے ادا کرے ، وہ جنت میں جائے گا" ( بخاری ومسلم)۔فجر اور عصر کے تعلق سے ہی آپ نے یہ بھی فرمایا: "کچھ فرشتے رات کو اور کچھ دن کو تمہارے پاس یکے بعد دیگرے حاضر ہوتے ہیں اور یہ تمام فجر اور عصر کی نماز میں جمع ہو جاتے ہیں، پھر جو فرشتے رات کو تمہارے پاس حاضر ہوتے ہیں، جب وہ آسمان پر جاتے ہیں تو ان سے ان کا پروردگار پوچھتا ہے: تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا ہے؟ حالانکہ وہ خود اپنے بندوں سے خوب واقف ہے۔ وہ جواب دیتے ہیں: "ہم نے انہیں نماز پڑھتے چھوڑا ہے۔ اور جب ہم ان کے پاس پہنچے تھے، تب بھی وہ نماز پڑھ رہے تھے۔" (بخاری ومسلم) ۔ صحیح مسلم کی مرفوع حدیث ہے: "بےشک تم اپنے پروردگار کو (روزِ قیامت) اسی طرح دیکھو گے جس طرح اس چاند کو دیکھ رہے ہو، اسے دیکھنے میں تمہیں کوئی دقت نہیں ہو گی، لہٰذا اگر تم پابندی کر سکتے ہو تو طلوع آفتاب سے پہلے (فجر کی) اور غروب آفتاب سے پہلے (عصر کی) نمازوں سے مغلوب نہ ہو جاؤ، یعنی پابندی سے انہیں ادا کر سکو تو ضرور کرو۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی: {وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ الغُرُوبِ} [ق: 39] "طلوع آفتاب سے پہلے اور غروب آفتاب سے پہلے اپنے پروردگار کی حمد کے ساتھ تسبیح کرو، یعنی نماز پڑھو"۔
نماز عصر كو ترك كرنے کی سخت وعید آئی ہے، صحیحین کی حدیث ہے: "جس شخص سے نماز عصر فوت ہو گئی، گویا اس کا سب گھر بار اور مال اسباب لٹ گئے" ۔ یہ وعید اس شخص کے لیے ہے جس نے کوتاہی کرتے ہوئے اسے وقت نکلنے کے بعد ادا کیا۔
﴿ فِي بُيُوتٍ أَذِنَ اللَّهُ أَنْ تُرْفَعَ وَيُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ يُسَبِّحُ لَهُ فِيهَا بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ * رِجَالٌ لَا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ وَإِقَامِ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ يَخَافُونَ يَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِيهِ الْقُلُوبُ وَالْأَبْصَارُ * لِيَجْزِيَهُمُ اللَّهُ أَحْسَنَ مَا عَمِلُوا وَيَزِيدَهُمْ مِنْ فَضْلِهِ وَاللَّهُ يَرْزُقُ مَنْ يَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ ﴾ [النور: 36، 38].
ترجمہ: ان گھروں میں جن کے بلند کرنے اور جن میں اپنے نام کی یاد کا اللہ تعالی نے حکم دیا ہے وہاں صبح وشام اللہ تعالی کی تسبیح بیان کرتے ہیں، ایسے لوگ جنہیں تجارت اور خرید وفروخت اللہ کے ذکر سے غافل نہیں کرتی اس دن سے ڈرتے ہیں جس دن بہت سے دل اور بہت سی آنکھیں الٹ پلٹ ہوجائیں گی۔اس ارادے سے کہ اللہ انہیں ان کے اعمال کا بہترین بدلہ دے بلکہ اپنے فضل سے اور کچھ زیادتی فرمائے۔ اللہ تعالی جسے چاہے بے شمار روزیاں دیتا ہے۔
اللہ تعالی مجھے اور آپ کو قرآن وسنت کی برکت سے بہرہ ور فرمائے، ان میں جو آیت اور حکمت کی بات آئی ہے، اس سے ہمیں فائدہ پہنچائے، آپ اللہ سے مغفرت طلب کریں، یقینا وہ خوب معاف کرنے والا ہے۔
دوسرا خطبہ:
الحمد لله وحده وصلى الله وسلم على نبيه وعبده وعلى آله وصحبه.
حمد وصلاۃ کے بعد:
اسلامی بھائیو! روزانہ کی پنج وقتہ نمازیں مسلمانوں کے لیے بڑی عظیم نعمتوں کی حامل ہیں، ہمیں رسول اللہ علیہ وسلم نے بہت سی نفلی نمازوں کا بھی حکم دیا اور رغبت دلائی، آپ نے یہ بیان کیا کہ سب سے افضل نماز (نفل) رات کی نماز ہے، آپ علیہ الصلاۃ والسلام سے دریافت کیا گیا: فرض نماز کے بعد کو ن سی نماز افضل ہے ؟آپ ﷺ نے فرمایا:"فرض نماز کے بعد سب سے افضل نماز آدھی رات کی نماز ہے"۔(مسلم) ، سنن ابی داود اور ابن ماجہ کی روایت ہے کہ مسروق نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا کہ رسول ﷺ کس وقت وتر پڑھا کرتے تھے؟ انہوں نے کہا: آپ ﷺ نے سب ہی اوقات میں وتر پڑھے ہیں۔ رات کے شروع میں، درمیان میں اور آخر میں بھی۔ لیکن آخری زندگی میں آپ ﷺ کے وتر سحر کے وقت ہونے لگے تھے"۔صحیحین میں عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے:" رسول اللہ ﷺ نے رات کے ہر حصے میں نماز وتر ادا کی ہے، بالآخر آپ کی نماز وتر وقت سحر تک پہنچ گئی"۔ "جسے ڈر ہو کہ وہ رات کے آخری حصے میں نہیں اٹھ سکے گا،وہ رات کے شروع میں وتر پڑھ لے۔اور جسے امید ہو کہ وہ رات کے آخر میں اٹھ جائے گا،وہ رات کے آخر میں وتر پڑھے کیونکہ رات کے آخری حصے کی نماز کا مشاہدہ کیا جاتا ہے اور یہ افضل ہے۔"۔ (مسلم) جو شخص سونے سے قبل وتر پڑھ لے اور رات کے آخری میں اس کی نیند ٹوٹ جائے تو بغیر وتر کے ہی نماز پڑھے، مسلمان کی زندگی میں نفل نماز کی کیا اہمیت ہے، اس کو اللہ تعالی کے اس فرمان سے سمجھا جا سکتا ہے: ﴿ كَانُوا قَلِيلًا مِنَ اللَّيْلِ مَا يَهْجَعُونَ ﴾
ترجمہ: وہ رات کو بہت کم سویا کرتے تھے۔
یہ سورۃ الذاریات کی آیت ہے جو کہ مکی سورۃ ہے، اس کی اہمیت اس سے بھی ظاہر ہوتی ہے کہ یہی وہ عبادت ہے جس کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے وقت رغبت دلائی ، چنانچہ عبداللہ بن سلام ؓ کہتے ہیں : رسول اللہ ﷺ جب مدینہ تشریف لائے تو لوگ آپﷺ کی طرف دوڑ پڑے، اور کہنے لگے: اللہ کے رسول آگئے، اللہ کے رسول آگئے، اللہ کے رسول آ گئے، چنانچہ میں بھی لوگوں کے ساتھ آیا تاکہ آپﷺ کو دیکھوں (اس وقت وہ یہودی تھے)، پھر جب میں نے آپ ﷺ کا چہرہ مبارک اچھی طرح دیکھا تو پہچان گیا کہ یہ کسی جھوٹے کاچہرہ نہیں ہوسکتا، اور سب سے پہلی بات جو آپﷺ نے کہی وہ یہ تھی : "لوگو! سلام پھیلاؤ، کھانا کھلاؤ اور رات میں جب لوگ سورہے ہوں تونماز پڑھو، تم لوگ سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو گے"۔اسے ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اور البانی نے صحیح کہا ہے۔ اللہ تعالی نے عقل مندوں کی تعریف میں فرمایا: ﴿ أَمَّنْ هُوَ قَانِتٌ آنَاء اللَّيْلِ سَاجِداً وَقَائِماً يَحْذَرُ الْآخِرَةَ وَيَرْجُو رَحْمَةَ رَبِّهِ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُوْلُوا الْأَلْبَابِ ﴾ [الزمر: 9]
ترجمہ: بھلا جو شخص راتوں کے اوقات سجدے اور قیام کی حالت میں (عبادت میں) گزارتا ہو، آخرت سے ڈرتا ہو اور اپنے رب کی رحمت کی امید رکھتا ہو ، (اور جو اس کے برعکس ہو برابر ہوسکتے ہیں) بتاؤ تو علم والے اور بے علم کیا برابر کے ہیں؟ یقینا نصحیت وہی حاصل کرتے ہیں جو عقل مند ہوں ، (اپنے رب کی طرف سے)۔
آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا:”جس شخص نے دس آیتوں سے قیام کیا وہ غافلوں میں شمار نہیں ہوتا۔ اور جو سو آیتوں سے قیام کرے وہ «قانتين» (عابدین) میں لکھا جاتا ہے۔ اور جو ہزار آیتوں سے قیام کرے وہ «المقنطرين» (بےانتہا ثواب جمع کرنے والوں) میں لکھا جاتا ہے۔“۔ اسے ابوداود نے روایت کیا ہے اور البانی نے صحیح کہا ہے۔ اگر مسلمان سورۃ النبا اور سورۃ النازعات پڑھے تو آیتوں کی تعداد سورۃ الفاتحہ سمیت سو ہوجائے گی۔﴿ تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ * فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴾ [السجدة: 16، 17]
ترجمہ: ان کی کروٹیں اپنے بستروں سے الگ رہتی ہیں ، اپنے رب کو خوف اور امید کے ساتھ پکارتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں دے رکھا ہے وہ خرچ کرتے ہیں۔کوئی نفس نہیں جانتا جو کچھ ہم نے ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک ان کے لئے پوشیدہ کر رکھی ہے ، جو کچھ کرتے تھے یہ اس کا بدلہ ہے۔
نیز اللہ پاک نے فرمایا: ﴿ إِنَّ نَاشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئًا وَأَقْوَمُ قِيلًا ﴾ [المزمل: 6].
ترجمہ: بےشک رات کا اٹھنا دل جمعی کے لیے انتہائی مناسب ہے اور بات کو بہت کو درست کردینے والا ہے۔
رات کی نماز کا ایک فائدہ یہ ہے کہ دل میں اس کا گہرا اثر ہوتا ہے۔زبان سے درست بات نکلتی ہے ، ابن کثیر فرماتے ہیں: ﴿ إِنَّ نَاشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئًا وَأَقْوَمُ قِيلًا ﴾ اس آیت کامطلب یہ ہےکہ: "دن کے بالمقابل رات کی نماز کے دوران قرآن کی تلاوت کرنے میں اور اسے سمجھنے میں دل دماغ زیادہ حاضر رہتا ہے ، کیوں کہ دن کے وقت لوگ ادھر ادھر منتشر ہوتے ہیں، شور وغوغا ہوتا ہے اور کسب معاش کا وقت رہتا ہے"۔انتہی۔اللہ پاک نے فرمایا:
﴿ وَتَوَكَّلْ عَلَى الْعَزِيزِ الرَّحِيمِ * الَّذِي يَرَاكَ حِينَ تَقُومُ * وَتَقَلُّبَكَ فِي السَّاجِدِينَ * إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ ﴾ [الشعراء: 217 - 220]
ترجمہ: اپنا بھروسہ غالب مہربان اللہ پر رکھ۔ جو تجھے دیکھتا ہے جبکہ تو کھڑا ہوتا ہے۔اور سجدہ کرنے والو ں کے درمیان تیرا گھومنا پھر نا بھی ۔ وہ بڑا ہی سننے والا اور خوب ہی جاننے والا ہے۔
آپ علیہ الصلاۃ والسلام کی حدیث ہے: "ہمارا بزرگ و برتر پروردگار ہر رات آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے جب رات کی آخری تہائی باقی رہ جاتی ہے۔ اور آواز دیتا ہے: کوئی ہے جو مجھ سے دعا کرے میں اسے قبول کروں؟ کوئی ہے جو مجھ سے مانگے میں اسے عطا کروں؟ کوئی ہے جو مجھ سے مغفرت طلب کرے تو میں اسے معاف کر دوں؟" (بخاری ومسلم)۔
﴿ وَأَقِمِ الصَّلَاةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِنَ اللَّيْلِ إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ ذَلِكَ ذِكْرَى لِلذَّاكِرِينَ ﴾ [هود: 114].
ترجمہ: دن کے دونوں سروں میں نماز برپارکھ اور رات کی کئی ساعتوں میں بھی ، یقینا نیکیاں برائیوں کو دور کردیتی ہیں ۔ یہ نصیحت ہے نصیحت پکڑنے والوں کے لئے۔
از قلم:
فضیلۃ الشیخ حسام بن عبد العزیز الجبرین
مترجم:
سیف الرحمن تیمی
Attachments
1645193972_فرائض اور نوافل کی عظمت واہمیت.docx