عید الفطر سے متعلق دس اہم نکات
سيف الرحمن التيمي
موضوع الخطبة :عشر وقفات مع عيد الفطر
الخطيب : فضيلة الشيخ ماجد بن سليمان الرسي/ حفظه الله
لغة الترجمة : الأردو
المترجم :سيف الرحمن التيمي ((@Ghiras_4T
عنوان:
عید الفطر سے متعلق دس اہم نکات
إن الحمد لله نحمده ، ونستعينه، ونعوذ بالله من شرور أنفسنا ومن سيئات أعمالنا، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أن محمدا عبده ورسوله.
حمد وثنا کے بعد!
سب سے بہترین کلام اللہ کا کلام ہے، اور سب سے بہترین طریقہ محمد کا طریقہ ہے، سب سے بدترین چیز دین میں ایجاد کردہ بدعتیں ہیں، اور (دین میں) ہر ایجاد کردہ چیز بدعت ہے، ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے۔
۱-اے اللہ کے بندو! اللہ تعالی سے کما حقہ ڈرو اور اس کا تقوی اختیار کرو، اسلام کو مضبوطی سے تھام لو، اور اللہ تعالی کی حمد وثنا بیان کرو کہ اس نے ماہ رمضان کے اختتام تک پہنچایا، اللہ کی قسم یہ ایک نعمت ہے ، تمہارے رب کا فرمان ہے: (وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ)
ترجمہ: وه چاہتا ہے کہ تم گنتی پوری کرلو اور اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہدایت پر اس کی بڑائیاں بیان کرو اور اس کا شکر کرو۔
۲-اے مسلمانو! یقینا اللہ تعالی نے سچ فرمایا کہ رمضان صرف : (گنتی کے چند دن ہیں)، یہ ایام کتنی سرعت سے گزر جاتے ہیں، یہ شب وروز گزر گئے اور ہم سے رخصت ہوگئے، آپ کو محسوس ہوا کہ کیسے یہ دن گزر گئے ؟ کیا آپ کو احساس ہوا کہ کتنی جلدی یہ شب وروز بیت گئے؟
۳-اے مومنو! آپ کو مبارک ہو کہ آپ نے اس مہینے کے روزے رکھے، آپ کو مبارک ہو کہ آپ نے اس ماہ کی راتوں میں قیام کیا، آپ کو مبارک ہو کہ آپ اس ماہ کے اختتام کو پہنچ گئے، جبکہ بہت سے لوگ وفات پاگئے اور انہیں رمضان کا یہ آخری حصہ نصیب نہ ہوسکا، اللہ کے بیش بہا انعام واحسان پر ہم اس کی حمد وثنا بیان کرتے ہیں۔
۴- اے مسلمانو! آپ سب کو وہ خوشی مبارک ہو جو ہمیں اسلام کے اس عظیم رکن یعنی رمضان کے روزوں کو ادا کرنے کے بعدماہِ رمضان کے اخیر میں حاصل ہوتی ہے، آپ اللہ کی بڑائی بیان کرتے، اس کی وحدانیت اور عظمت کے گیت گاتے ہیں، آپ اللہ سے امیدکرتے ہیں کہ آپ کی نیکیوں میں اضافہ ہوا ہوگا، آپ کے گناہ معاف اور درجات بلند ہوئے ہوں گے۔
۵-اے اللہ کے بندو! اللہ تعالی کی حکمت ہے کہ اس نے دو عظیم مناسبتوں کے بعد ہمارے لیے دو عیدیں مشروع فرمائیں، روزے مکمل کرنے کے بعد ہم عید الفطر مناتے ہیں اور حج مکمل کرنے کے بعد عید الاضحى مناتے ہیں، ہماری عیدیں دین وعبادت، نماز وتکبیر،زکاۃِ نفس (جان کی قربانی) اور زکاۃِ فطر سے عبارت ہیں،یہ خوشی بھی ہے اور صلہ رحمی بھی، آپسی ملاقات، باہمی الفت ومحبت، ماضی کی لغزشوں سے درگزر اور از سر نو تعلقات استوار کرنے، کینہ کپٹ اور حقد وحسد کو فراموش کرنے کا عمدہ موقع ہے، جس شخص کو کسی رشتہ دار یا دوست واحباب سے بغض ونفرت ہو یا بے تعلقی ہوگئی ہو تو اس دن کو غنیمت جان کر رشتہ جوڑےاور از سر نو تعلق قائم کرے او ردلوں میں خوشیوں کے رنگ بھرے۔
۶-اے مومنو! آپ کو ہماری عید کی یہ (پاکیزہ) خوشی مبارک ہو اور جو مشرک اورگمراہ اقوام کی عیدوں میں نہیں پائی جاتی، بلکہ ان کی عیدیں ان کے گناہ او راللہ سے دوری میں مزید اضافہ کردیتی ہیں۔
اللہ کے بندو! ان رحمتوں سے خوش ہوجائیں، اللہ تعالی فرماتاہے: (قُلْ بِفَضْلِ اللَّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُوا)
ترجمہ: آپ کہہ دیجئے کہ بس لوگوں کو اللہ کے اس انعام اور رحمت پر خوش ہونا چاہئے۔
اللہ سے مزید (رحمت وبرکت کی ) دعا کریں ۔
۷-اے مسلمانو! (عید کے دن) زیب وزینت اختیار کریں او رخوشبو سےخود کو معطر کریں، امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں : (میں نے اہل علم سے سنا کہ وہ عطر اور زیب وزینت کو ہر عید میں مستحب سمجھتے تھے)([1])۔
۸-اے مومنو! اپنے گھروں کو اور اپنے دلوں کو کھول کر رکھیں، ایک دوسرے کے لیے دعا کریں کہ اللہ سب کے عمل کو شرف قبولیت سے نوازے، ایک دوسرے کو مبارکباد پیش کریں، صحابہ کرام ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے ہوئے کہاکرتے تھے: تقبل اللہ منا ومنکم (اللہ تعالی ہمارے اور آپ کے نیک اعمال قبول فرمائے )۔
۹-اے مسلمانو! ماضی کی لغزشوں کو درگزر کرنا ایک عظیم ترین عبادت واطاعت ہے، اللہ تعالی نے اس پر بے شمار اجرووثواب مرتب فرمائے ہیں، اللہ فرماتا ہے: (فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ)
ترجمہ: جو معاف کردے اور اصلاح کرلے اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے۔
چنانچہ اللہ نے (اس عمل پر) بے حساب اجروثواب کا وعدہ فرمایا ، جس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ عمل بڑا عظیم ہے۔
اے مومنو! نفوس (دلوں) کی اصلاح اور ان کا تزکیہ ایک افضل ترین عبادت ہے، اس پر اللہ نے فلاح وکامرانی مرتب کیا ہے، فرمان باری تعالی ہے: (قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاهَا وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسَّاهَا)
ترجمہ: جس نے اسے پاک کیا وه کامیاب ہوااور جس نے اسے خاک میں ملا دیا وه ناکام ہوا۔
اللہ کے بندو! جن اعمال سے خوشی میں اضافہ ہوتا ہے ، ان میں یہ بھی ہے کہ سماجی تعلقات بہتر بنائے جائیں، ان کی تجدید کی جائے ، ان میں مضبوطی لائی جائے، پورے سال کے درمیان دلوں میں نفرت وکینہ کے جو غبار جم گئے ہیں، ان سے دلوں کو پاک وصاف کیا جائے، مبارکباد ہے اس شخص کے لیے جو عید کو غنیمت جان کر بکھرے ہوئے شوہر بیوی کے تعلقات درست کردے، آپس میں دوری کے شکار دو د لوں کو باہم جوڑ دے، جس کی وجہ سے ان کے خاندان میں خوشی کی لہر دوڑ جائے، یا کوئی خون معاف کردے، یا قرض چکا دے، یا رشتہ داروں کی آپسی ناچاقی کو دور کردے۔
اے اللہ! تمام تعریفات تجھے ہی زیبا ہیں کہ تو نے ہمارے اوپر ماہ ِ رمضان کے اختتام اور عید کو پہنچنے کا انعام کیا ، اسے اپنی اطاعت کی راہ میں ہمارے لیے معاون کردے ، اے اللہ ! ہمیں اپنی محبت او رہر اس عمل کی محبت عطا کر جو تجھ سے قریب کردے ، میں اپنی یہ بات کہتے ہوئے اپنے لیے اور آپ سب کے لیے مغفرت طلب کرتا ہوں ، آپ بھی اس سے مغفرت طلب کریں ، یقینا وہ بڑا معاف کرنے والا اور نہایت مہربان ہے۔
دوسرا خطبہ:
الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده، أما بعد:
۱۰-اے اللہ کے بندو! آپ جان رکھئے –اللہ آپ پر رحم فرمائے-کہ سب سے بڑی خوشی اس وقت حاصل ہوگی جب آپ اللہ تعالی سے نیک اعمال کے ساتھ ملاقات کریں گے، اللہ تعالی جنتیوں سے فرمائے گا: اے جنت والو! جنتی جواب دیں گے: ہم حاضر ہیں اے ہمارے پروردگار! تیری سعادت حاصل کرنے کے لیے۔ اللہ تعالیٰ پوچھے گا :کیا اب تم لوگ خوش ہوئے؟ وہ کہیں گے: اب بھی بھلا ہم راضی نہ ہوں گے کیونکہ اب تو، تو نے ہمیں وہ سب کچھ دے دیا جو اپنی مخلوق میں سے کسی کو نہیں دیا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ: میں تمہیں اس سے بھی بہتر چیز دوں گا۔ جنتی کہیں گے: اے رب! اس سے بہتر اور کیا چیز ہو گی؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ :اب میں تمہارے لیے اپنی رضا مندی کو ہمیشہ کے لیے دائمی کر دوں گا یعنی اس کے بعد کبھی تم پر ناراض نہیں ہوں گا([2])۔
۱۱-اے مومنو! رمضان اصلاح کا اور ہمیشہ کے لیے اللہ تعالی سے رشتہ استوار کرنے کا بہترین موقع ہے ، اس لیے آپ عبادت میں لگے رہیں، رمضان کے ساتھ عبادت نہیں ختم ہوتی ، بلکہ موت کے بعد عمل کا سلسلہ ختم ہوتا ہے: (وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتَّى يَأْتِيَكَ الْيَقِينُ)
ترجمہ: اپنے رب کی عبادت کرتے رہیں یہاں تک کہ آپ کو موت آجائے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: (اللہ کی بارگاہ میں سب سے زیادہ پسند وہ عمل ہے جسے پابندی سے ہمیشہ کیا جائے، خواہ وہ کم ہی ہو)([3])۔
اے مسلمانو! رمضان کے بعد بھی عمل صالح پر قائم ودائم رہنا اللہ کی توفیق اور قبولیتِ عمل کی علامت ہے، اس کے برعکس صرف موسم ہی موسم عمل کا بازار گرم کرنا کم علمی اور توفیق الہی سے دوری کی دلیل ہے، کیوں کہ جو رمضان کا رب ہے وہی تمام مہینوں کا بھی رب ہے، کسی سلف سے اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو شخص رمضان میں خوب عبادت کرتا ہے اور غیر رمضان میں عبادت ترک کردیتا ہے، تو انہوں نے جواب دیا: یہ بہت ہی بری قوم ہے جو صرف رمضان میں اللہ کو جانتی ہے۔
اے مومنو! مسلمانوں کی ایک افضل صفت یہ ہے کہ وہ فرمانبرداری کرتے ہیں، فرمانبرداری یہ ہے کہ عبادت پر ثابت قدم رہا جائے اور اس پرہمیشگی برتی جائے ، اللہ نے فرمانبرداری کرنے والوں کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا : (إِنَّ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَالْقَانِتِينَ وَالْقَانِتَاتِ وَالصَّادِقِينَ وَالصَّادِقَاتِ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِرَاتِ وَالْخَاشِعِينَ وَالْخَاشِعَاتِ وَالْمُتَصَدِّقِينَ وَالْمُتَصَدِّقَاتِ وَالصَّائِمِينَ وَالصَّائِمَاتِ وَالْحَافِظِينَ فُرُوجَهُمْ وَالْحَافِظَاتِ وَالذَّاكِرِينَ اللَّهَ كَثِيرًا وَالذَّاكِرَاتِ أَعَدَّ اللَّهُ لَهُمْ مَغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا)
ترجمہ: (جو لوگ خدا کے آگے سر اطاعت خم کرنے والے ہیں یعنی) مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں اور مومن مرد اور مومن عورتیں اور فرماں بردار مرد اور فرماں بردار عورتیں اور راست باز مرد اور راست باز عورتیں اور صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں اور فروتنی کرنے والے مرد اور فروتنی کرنے والی عورتیں اور خیرات کرنے والے مرد اور اور خیرات کرنے والی عورتیں اور روزے رکھنے والے مرد اور روزے رکھنے والی عورتیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں اور خدا کو کثرت سے یاد کرنے والے مرد اور کثرت سے یاد کرنے والی عورتیں۔ کچھ شک نہیں کہ ان کے لئے خدا نے بخشش اور اجر عظیم تیار کر رکھا ہے۔
۱۲-اے اللہ کے بندو! رمضان کے بعد شوال کے چھ روزے رکھنا سنت اور مستحب ہے اور اللہ تعالی نے اس پر اجر عظیم کا وعدہ فرمایا ہے ، جیسا کہ ابو ایوب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے رمضان کے روزے رکھے ، پھر اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے تو یہ (پورا سال) مسلسل روزے رکھنے کی طرح ہے([4])۔
شوال کے چھ روزے کی ایک بڑی حکمت یہ ہے کہ رمضان کے فرض روزوں میں جو کمی رہ جاتی ہے ، ان نفلی روزوں سے اس کی تلافی ہوجاتی ہے، کیوں کہ روزہ دار سے کوئی نہ کوئی کوتاہی یا گناہ سرزد ہوہی جاتا ہے جو فرض روزے کو متاثر کردیتا ہے، چنانچہ نفلی روزے سے فرض روزے کی یہ کمی دور ہوجاتی ہے۔
عید سے متعلق یہ دس (سے زائد) نکات ہیں ، بندہ مسلم کو چاہئے کہ عید الفطر کے موقع پر انہیں ذہن نشیں رکھے، تاکہ عید عبادت میں بدل جائے ، صرف رسم و رواج نہ رہے۔
اے اللہ ! ہمارے گناہوں کو او رہم سے ہمارے کاموں میں جو بے جا زیادتی ہوئی ہے ، اسے بھی معاف فرما، اے اللہ! ہمیں جہنم سے نجات کا پروانہ عطا کر، اے اللہ! جنت کو ہمارا ٹھکانہ بنادے، ہمیں فردوس بریں کا وارث ومکیں بنا، ہمیں بغیر حساب وکتاب اور بغیر کسی عذاب کے جنت میں داخل فرما، اے کریم وفیاض پروردگار! اے اللہ! ہمیں جہنم سے آزاد کردے، ہمیں ہمارے گناہوں سے اسی طرح پاک وصاف کردے جس طرح ہماری ماؤں نے ہمیں جنا تھا، اے اللہ! ہمارے اس اجتماع کو گناہوں کی مغفرت، عمل کی قبولیت اور محنت کی اجابت وشکر گزاری کے ساتھ ختم فرما، اے اللہ! ہمارے ملک کو اور مسلمانوں کے تمام ممالک کو امن وامان ، سکون و اطمنان اور خوشحالی و شادابی کا گہوارہ بنادے، اے اللہ! رمضان کے بعد بھی ہمیں اعمالِ صالحہ پر ثابت قدم رکھ اور ہمیں اپنا تابعِ فرمان بنا۔ ہماری عید کو خوشی کا سرچشمہ بنا، ہماری زندگی کو خوشحال کردے، ہمیں صحت وعافیت اور امن وسکون کے ساتھ بار بار اطاعت وبرکت کا موسم عطا کر۔
اللهم صل على محمد وعلى آل محمد، سبحان ربنا رب العزة عما يصفون، وسلام على المرسلين، الحمد لله رب العالمين.
از قلم:
ماجد بن سلیمان الرسی
۱ شوال ۱۴۴۲ھ
شہر جبیل-سعودی عرب
00966505906761
مترجم: سیف الرحمن تیمی
([1]) ابن رجب کی کتاب شرخ البخاری (۶/۶۸)‘ ط: ابن الجوزی-الدمام
([2]) بخاری (۶۵۴۹) اور مسلم (۲۸۲۹) نے اسے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔
([3]) بخاری (۵۸۶۱) نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے۔
([4]) مسلم(۱۱۶۴)
Attachments
1621425070_عید سے متعلق دس نکات.pdf