عرفہ کے د ن کی خصوصیات
سيف الرحمن التيمي
موضوع الخطبة :خصائص يوم عرفة
الخطيب : فضيلة الشيخ ماجد بن سليمان الرسي/ حفظه الله
لغة الترجمة : الأردو
المترجم :سيف الرحمن التيمي((@Ghiras_4T
موضوع:
عرفہ کے د ن کی خصوصیات
پہلا خطبہ:
إن الحمد لله نحمده ، ونستعينه، ونعوذ بالله من شرور أنفسنا ومن سيئات أعمالنا، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أن محمدا عبده ورسوله.
اے مسلمانو! اللہ تعالی سے ڈرو اور اس کاخوف اپنے ذہن ودل میں زندہ رکھو، اس کی اطاعت کرو اور اس کی نافرمانی سے بچتے رہو، جان رکھو کہ مخلوقات پر اللہ کی ربوبیت کا ایک مظہر یہ بھی ہے کہ وہ جس مخلوق کو چاہتا ہے ، باعظمت بنادیتاہے، خواہ وہ مخلوق کوئی شخص ہو، یا جگہ ہو، یا وقت ہو ، یا عبادت ہو، ا س کے پیچھے کوئی حکمت کارفرما ہوتی ہے جسے وہی پاک وبرتر اللہ جانتا ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے: (وَرَبُّكَ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ وَيَخْتَارُ مَا كَانَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ)
ترجمہ: آپ کا رب جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے چن لیتا ہے۔
ہم اس خطبے میں ان شاء اللہ گفتگو کریں گے کہ اللہ نے عرفہ کے د ن کو کن عظمتوں اور کن دس خصوصیات سے سرفراز کیا ہے:
۱-پہلی خصوصیت:عرفہ کا دن ، دین اسلام کی تکمیل اور نعمت کے مکمل ہونے کا دن ہے، طارق بن شہاب سے مروی ہے کہ ایک یہودی عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور ان سے کہا: اے امیر المؤمنین! تمہاری کتاب (قرآن) میں ایک ایسی آیت ہے جسے تم پڑھتے رہتے ہو ، اگر وہ آیت ہم یہودیوں پر نازل ہوتی تو ہم اس دن کو عید کا دن ٹھہرا لیتے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: وہ کون سی آیت ہے؟ یہودی بولا: یہ آیت: (الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا)
ترجمہ: آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور دین اسلام کو تمہارے لیے پسند کر لیا۔
حضرت عمر نے کہا: "ہم اس دن اور اس مقام کو جانتے ہیں جس میں یہ آیت نبی پر نازل ہوئی ۔ یہ آیت جمعہ کے دن اتری جب آپ عرفات میں کھڑے تھے"([1])۔
۲-عرفہ کے دن کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں دو مقامات پر اس کی قسم کھائی ہے، اللہ عظیم بڑی چیز کا ہی قسم کھاتا ہے، اللہ تعالی کے اس فرما ن میں مشہود سے مراد یہی دن ہے: ( وشاهد ومشهود) ، چنانچہ ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا: (شاہد سے مرادہ جمعہ کا دن اور مشہود سے مراد عرفہ کا دن اور موعود سے مراد قیامت کا دن ہے)([2])۔
اللہ کے بندو! اللہ کے فرمان : (والشفع والوتر) میں وَتر سے مراد بھی یومِ عرفہ ہی ہے، جابر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (آیت میں) عَشرسے مراد ذو الحجہ کے دس دن ہیں، وَتر سے مراد عرفہ کا دن او رشفع سے مراد قربانی کا دن ہے([3])۔
۳-عرفہ کے دن کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس دن کا روزہ دو سال کے گناہوں کا کفارہ ہے، ابو قتادۃ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "عرفہ کے دن کا روزہ ، میں اللہ سے امید رکھتا ہوں کہ پچھلے سال اور اگلے سال کے گناہوں کا کفارہ بن جائے گا"([4])۔
۴-عرفہ کے دن کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ حرمت کے مہینے میں واقع ہوتا ہے، اس سے پہلے بھی حرمت والا مہینہ آتا ہے اور اس کے بعد بھی حرمت والا مہینہ آتا ہے۔
۵-عرفہ کے دن کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ جہنم سے رہائی کا دن ہے، اس دن اللہ (بندوں سے) قریب ہوتا ہے، او راللہ تعالی فرشتوں کے سامنے عرفہ میں وقوف کرر ہے حاجیوں پر فخر ومباہات کا اظہار کرتا ہے، یہ تین خصوصیات ہیں جن کا ذکر ایک ہی حدیث میں آیا ہے، چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ عزوجل عرفہ کے دن سے زیادہ کسی اور دن بندوں کو آگ سے آزاد نہیں کرتا۔اللہ عزوجل (بندوں سے ) قریب ہوتا ہے ، پھر اور قریب ہوتا ہے ، پھر ان کی وجہ سے فرشتوں کے سامنے اظہار فخر فرماتا ہے اور کہتا ہے : یہ لوگ کیا چاہتے ہیں؟"([5])۔
عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالی عرفہ کی شام میں عرفہ میں وقوف کررہے حاجیوں پر فرشتوں کے سامنے اظہار فخر کرتاہےاور کہتاہے: دیکھو ! میرے بندے پراگندہ بال اور غبار آلود (یعنی سفر کی مشقت برداشت کرکے ) میرے دربار میں حاضر ہوگئے([6])۔
ابن رجب رحمہ اللہ فرماتے ہیں: عرفہ کا د ن جہنم سے رہائی کا دن ہے، اس دن اللہ تعالی عرفہ میں موجود حاجیوں اور دیگر ممالک کے دیگر مسلمانوں کو جہنم سے رہائی کا پروانہ عطا کرتاہے، اسی لئے اس کے بعد جو دن آتا ہے وہ تمام مسلمانوں کے لئے عید کا دن ہے ، خواہ وہ میدان عرفہ میں موجود ہوں یا نہیں، کیوں کہ اس دن جہنم سے رہائی اور مغفرت کی حصولیابی میں وہ باہم مشترک ہوتے ہیں۔([7])انتہی۔
۶-عرفہ کے دن کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس دن کی جانے والی دعا کی قبولیت کا امکان زیادہ ہوتا ہے، عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی کریم نے فرمایا: "سب سے بہتر دعاعرفہ والے دن کی دعا ہے اور میں نے اب تک جو کچھ (بطور ذکر) کہا ہے اور مجھ سے پہلے جو دوسرے نبیوں نے کہا ہے ان میں سب سے بہتر دعا یہ ہے : "لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير"([8])۔
۷-عرفہ کے دن کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ عشر ذی الحجہ کے درمیان واقع ہوتا ہے، جوکہ سال کے تمام دنوں سے افضل دن ہیں، جیسا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" ذو الحجہ کے دس دنوں کے مقابلے میں دوسرے کوئی ایام ایسے نہیں جن میں نیک عمل اللہ کو ان دنوں سے زیادہ محبوب ہوں"۔لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! اللہ کی راہ میں جہاد کرنا بھی نہیں؟ آپ نے فرمایا: "اللہ کی راہ میں جہاد کرنا بھی نہیں، سوائے اس مجاہد کے جو اپنی جان اور مال دونوں لے کر اللہ کی راہ میں نکلا پھر کسی چیز کے ساتھ واپس نہیں آیا"([9])۔
۸-عرفہ کے دن کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس دن حج کا سب سے عظیم رکن ادا کیا جاتا ہے، جوکہ وقوفِ عرفہ ہے، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے : "حج عرفات میں ٹھہرنا ہے"([10])۔
۹-عرفہ کے دن کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس دن مسلمان دنیا کے مختلف گوشوں سے آکر ایک ہی جگہ پر جمع ہوتے ہیں، اور ایک ہی فریضہ کو ادا کرتے ہیں جو نہ کسی دوسرے دن میں ادا کیا جا سکتا ہے، نہ کسی دوسری جگہ پر اور نہ کسی دوسری عبادت میں یہ اجتما عی مظاہرہ ہوتا ہے، یہ اسلامی شعائر کے ظہور اور اس کی سربلندی کا مظہر ہے، نیز یہ شیطان کی پسپائی کا بھی سبب ہے ، کیوں کہ وہ دیکھتا ہے کہ (بندوں پر ) رحمتیں نازل ہورہی ہیں اور (ان کے ) گناہ معاف کئے جار ہے ہیں (جس کی وجہ سے اسے پسپائی ہوتی ہے)۔
- اے اللہ کے بندو! یہ وہ دس خصلتیں ہیں جن سے اللہ نے عرفہ کے دن کو مختص فرمایا ہے، اس کے مقام ومرتبہ اور عظمت واہمیت کے پیش نظر، اس لئے ہمیں ان فضیلتوں کو اعمال صالحہ کے ذریعہ حاصل کرنے کے لئے اللہ کی مدد طلب کرنی چاہئے، ان سے اپنے دامنِ مراد کو بھرنے کے لئے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرنی چاہئے، اور اللہ سے اجروثواب کی امیدرکھنی چاہئے، کیونکہ آج عمل کا موقع ہے اور حساب وکتاب نہیں، اور کل حساب ہوگا اور عمل کا موقع نہیں: (سَابِقُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا كَعَرْضِ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ أُعِدَّتْ لِلَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ)
ترجمہ: آؤ دوڑو اپنے رب کی مغفرت کی طرف اور اس جنت کی طرف جس کی وسعت آسمان وزمین کی وسعت کے برابر ہے ، یہ ان کے لیے بنائی گئی ہے جو اللہ پر اور اس کے رسولوں پر ایمان رکھتے ہیں۔
- الله تعالی مجھے اور آپ سب کو قرآن کی برکتوں سے بہرہ مند فرمائے ، مجھے اور آپ سب کو اس کی آیتوں اور حکمت پر مبنی نصیحت سے فائدہ پہنچائے ، میں اپنی یہ بات کہتے ہوئے اللہ تعالی سے مغفرت کا خواستگار ہوں، آپ بھی اس سے مغفرت طلب کریں، یقینا وہ خوب معاف کرنے والا بڑا مہربان ہے۔
دوسرا خطبہ:
الحمد لله على فضله وإحسانه، والشكر له على توفيقه وامتنانه، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له تعظيما لشأنه، وأشهد أن محمدا عبده ورسوله، صلى الله عليه وعلى آله وأصحابه وسلم تسليما كثيرا. أما بعد:
- اے مومنو! آپ یہ جان رکھیں کہ عرفہ کے دن دعاکرنی کی جو فضیلت آئی ہے ، وہ پوری دنیا کے لئے عام ہے ، یہ فضیلت صرف ان حاجیوں کے لئے خاص نہیں جو عرفات میں وقوف کرتے ہیں، کیوں کہ یہ وقت کی فضیلت ہے، البتہ اس میں کوئی شک نہیں کہ جو حجاج عرفہ کے میدان میں ہوتے ہیں انہیں جگہ اور وقت دونوں کی فضیلت حاصل ہوتی ہے۔
- اللہ کے بندو! عرفہ کے دن ذکر واذکار او ردعاء ومناجات کا اہتمام کرنے میں جو چیزیں معاون ہو سکتی ہیں، ان میں یہ بھی ہے کہ حسبِ استطاعت ظہر کے بعد سے مغرب کے وقت تک مسجد میں ٹھہرا جائے ، عرفہ کے دن یہ بھی مشروع ہے کہ نماز کے بعد تکبیرِ مقیَّد کا التزام کیا جائے ، غیر حاجیوں کے لئے یہ تکبیر عرفہ کے دن فجر کی نماز سے لیکر تیرہ ذو الحجہ کے دن عصر کی نماز کے اختتام تک مشروع ہے، رہی بات حاجیوں کی تو ان کے لئے تکبیر کا آغاز عرفہ کےدن ظہر اور عصر کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد ہوتا ہے، جب حاجی نماز سے فارغ ہوجائے تو تین دفعہ استغفار کرے ، پھر یہ دعا پڑھے: (اللهم أنت السلام ومنك السلام، تبارك يا ذا الجلال والإكرام) ، پھر تکبیر کا آغاز کرے اور کہے: (الله أكبر، الله أكبر، لا إله إلا الله ، الله أكبر، الله أكبر ولله الحمد)۔
- اے مومنو! یہ ایک بڑا موقع اور ہمارے عزیز وبرتر پروردگار کی رحمت کا جھونکا ہے جو سال میں ایک دفعہ ہی آتا ہے، ہمیں اللہ کے سامنے خیر وبھلائی کا مظاہرہ کرنا چاہئے ، عبادت ، ذکر و اذکار اور دعاء ومناجات کا التزام کرنا چاہئے، کیوں کہ بندہ جب اللہ سے ایک بالشت قریب ہوتا ہے تو اللہ تعالی اس سے ایک گز قریب ہوتا ہے، اور جب بندہ اللہ سے ایک گز قریب ہوتا ہے تو اللہ تعالی اس سے دوگز قریب ہوجاتا ہے، جو اس کی طرف چل کر جاتا ہے ، اللہ تعالی اس کے پاس دو ڑ کر جاتا ہے، یہ حدیث اللہ تعالی کے عظیم فضل واحسان پر دلالت کرتی ہے اور اس بات پر بھی کہ بندے خیر وبھلائی اور عمل صالح کے ذریعہ اللہ تعالی سے قریب ہونے کے لئےجتنی سبقت کرتے ہیں، اس سے کہیں زیادہ تیزی کے ساتھ اللہ تعالی خیر وبھلائی ، اور سخاوت وفیاضی کے ذریعہ بندوں کی طرف بڑھتا ہے۔
- اے اللہ !تو اپنے بندے اور رسول محمد پر رحمت و سلامتی بھیج،تو ان کے خلفاء ،تابعین عظام اور قیامت تک اخلاص کے ساتھ ان کی اتباع کرنے والوں سے راضی ہوجا۔
- اے ہمارے رب! ہم نے اپنا بڑا نقصان کیا اور تیرے سوا کوئی گناہوں کو معاف نہیں کرتا ، تو ہمیں اپنی مغفرت سے نواز اور ہم پر رحم فرما، یقینا تو بہت زیادہ معاف کرنے والا اور خوب رحم کرنے والا ہے۔
- اے اللہ! ہمیں عرفہ کے دن تک پہنچا اور اس دن ذکر واذکار کرنے ، تیرا شکر بجا لانے اور بہتر طریقے سے عبادت کرنے میں ہماری اعانت ومدد فرما۔
- اے ہمارے رب ! ہمیں دنیا میں نیکی دے اور آخرت میں بھی بھلائی عطا فرما اور ہمیں عذاب جہنم سے نجات دے۔
سبحان ربنا رب العزة عما يصفون، وسلام على المرسلين، والحمد لله رب العالمين.
از قلم:
ماجد بن سلیمان الرسی
۶ ذو الحجہ ۱۴۴۲ھ
شہر جبیل-سعودی عرب
00966505906761
مترجم:
سیف الرحمن تیمی
([1]) اسے بخاری (۴۵) اور مسلم (۳۰۱۶) نے طارق بن شہاب سے روایت کیا ہے اور مذکورہ الفاظ مسلم کے روایت کردہ ہیں، بطور فائدہ یہ بھی جان لیں کہ محمد بن جریر طبری نے اپنی تفسیر میں اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے کعب احبارکا یہ قول روایت کیا ہے کہ: اگر اس امت کے علاوہ کسی اور امت پر یہ آیت نازل ہوتی تو وہ اس دن کا خوب اہتمام کرتے اور اسے اپنی عید بنا لیتے اور اکٹھا ہوکر اس کا جشن مناتے، حضرت عمر نے کہا: اے کعب! یہ کونسی آیت ہے؟ انہوں نے کہا: (الیوم أکملت لکم دینکم)، حضرت عمر نے کہا: مجھے اس دن کا علم ہے جس دن یہ آیت نازل ہوئی، اس مقام کا بھی علم ہے جہاں یہ نازل ہوئی، جمعہ کے دن، عرفہ کے میدان میں یہ آیت نازل ہوئی، اور یہ دونوں ہی ہمارے لئے عید ہیں، الحمد للہ۔
([2]) اسے احمد (۷۹۷۳) نے روایت کیا ہے اور "المسند" کے محققین نے اسے صحیح کہا ہے۔
([3]) اسے احمد (۱۴۵۱۱) نے روایت کیا ہے اور "المسند" کے محققین نے حسن کہا ہے۔
([4]) اسے مسلم (۱۱۶۲) نے روایت کیا ہے۔
([5]) اسے مسلم (۱۳۴۸) نے روایت کیا ہے۔
([6]) اسے احمد (۲/۲۲۴) نے روایت کیا ہے اور البانی نے "صحیح الترغیب والترھیب" میں حدیث نمبر (۱۱۵۳) کے تحت صحیح کہا ہے۔
([7]) "لطائف المعارف"-المجلس الثانی فی یوم عرفۃ مع یوم النحر
([8]) اسے ترمذی (۳۵۸۵) نے روایت کیا ہے اور البانی نے "الصحیحۃ" (۱۵۰۳) میں اسے حسن کہا ہے۔
([9]) اسے بخاری (۹۶۹) اور احمد (۱/۳۳۸-۳۳۹) نے روایت کیا ہے اور مذکورہ الفاظ بخاری ہی کے روایت کردہ ہیں۔
([10]) اسے نسائی (۳۰۱۶) وغیرہ نے عبد الرحمن بن یعمر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے اور البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
Attachments
1627442821_عرفہ کے دن کی خصوصیات.pdf