🌟عجائب المرض🌟 (أردو)🇵🇰

تركي بن عبدالله الميمان
1446/08/21 - 2025/02/20 20:48PM

            بے شک تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں، ہم اسی کی حمد بیان کرتے ہیں، اسی سے مدد چاہتے ہیں، اسی سے بخشش طلب کرتے ہیں اور اسی کی طرف توبہ کرتے ہیں۔ ہم اپنے نفسوں کی برائیوں اور اپنے اعمال کی خرابیوں سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔ جسے اللہ ہدایت دے دے تو کوئی اسے گمراہ نہیں کر سکتا، اور جسے وہ گمراہ کر دے تو کوئی اسے ہدایت نہیں دے سکتا۔

             میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ اللہ ان پر، ان کے آل اور صحابہ کرام پر درود و سلام بھیجے اور انہیں کثرت سے سلامتی عطا فرمائے۔

            حمد وثناء کے بعد: اللہ سے ڈرو اور اس کی نگرانی اختیار کرو، کیونکہ تقویٰ بھلائی اور ثواب کا ذریعہ ہے، اور برائی و عذاب سے نجات کا سبب ہے! اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَلَوْ أَنَّهُمْ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَمَثُوبَةٌ مِنْ عِنْدِ اللهِ خَيْرٌ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ﴾"اور اگر وہ ایمان لے آتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو یقیناً اللہ کے ہاں سے ملنے والا ثواب کہیں بہتر ہوتا، کاش وہ جانتے!" البقرة: 103

            اے مسلمانو!یہ دنیا مصیبتوں اور آزمائشوں پر بنی ہے، چنانچہ کوئی بھوک میں مبتلا ہے، کوئی خوف میں، کسی کو اپنے عزیز کے بچھڑنے کا صدمہ ہے، کسی کو مال کے نقصان کا سامنا ہے، اور کوئی صحت کے ختم ہونے کی آزمائش میں مبتلا ہے! اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿الَّذِي خَلَقَ المَوْتَ والحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُم أَحسَنُ عَمَلًا﴾"جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون بہتر عمل کرتا ہے۔" الملک: 2

            اور آزمائش اور امتحان کی ایک قسم جسمانی بیماریوںکا لاحق ہونا بھی ہے! اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ونَبْلُوكُمْ بالشَّرِّ والخَيْرِ فِتْنَةً وإِلَيْنَا تُرْجَعُونَ﴾"اور ہم تمہیں برائی اور بھلائی کے ذریعے آزماتے ہیں، اور تم ہماری ہی طرف لوٹائے جاؤ گے۔" الأنبياء: 35

            اور بیماری کی عجیب بات یہ ہے کہ وہ گناہوں کی معافی اور درجات کی بلندی کا سبب بنتی ہے۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا: (مَا مِنْ مُسْلِمٍ يُصِيبُهُ أَذًى، مَرَضٌ فَمَا سِوَاهُ؛ إِلَّا حَطَّ اللهُ لَهُ سَيِّئَاتِهِ، كَمَا تَحُطُّ الشَّجَرَةُ وَرَقَهَا)"کوئی مسلمان ایسا نہیں جسے کوئی تکلیف پہنچے، چاہے وہ بیماری ہو یا کچھ اور، مگر اللہ اس کے ذریعے اس کے گناہ معاف کر دیتا ہے، جیسے درخت اپنے پتّے گراتا ہے۔" رواه البخاري (5660)، ومسلم (2571)

            اور فرمایا: (ما يَزَالُ البَلَاءُ بِالمُؤْمِنِ والمُؤْمِنَةِ، في نَفْسِهِ ووَلَدِهِ ومَالِهِ؛ حتَّى يَلْقَى اللهَ وما عَلَيْهِ خَطِيْئَةٌ!)"مؤمن مرد اور عورت پر آزمائشیں آتی رہتی ہیں، اس کی جان، اس کے اولاد اور اس کے مال میں، یہاں تک کہ وہ اللہ سے اس حال میں ملتا ہے کہ اس پر کوئی گناہ باقی نہیں رہتا!" رواه الترمذي (2399)

            ایک شخص نے نبی کریم ﷺ سے عرض کیا: : (يَا رَسُولَ اللهِ، أَرَأَيْتَ هَذِهِ الأَمْرَاضَ الَّتِي تُصِيبُنَا؛ ماذَا لَنَا مِنْهَا؟)"یا رسول اللہ! یہ بیماریاں جو ہمیں لاحق ہوتی ہیں، ان کے بدلے میں ہمیں کیا ملتا ہے؟"آپ ﷺ نے فرمایا: (كَفَّارَاتٌ) "یہ کفارہ ہیں!"اس نے پوچھا: (وإِنْ قَلَّتْ؟)"اگرچہ وہ معمولی ہوں؟"آپ ﷺ نے فرمایا: (وَإِنْ شَوْكَةً فَمَا فَوْقَهَا)"ہاں! یہاں تک کہ اگر کانٹا بھی چبھ جائے تو وہ بھی کفارہ ہے۔" (رواه أحمد (11183)، وابن حبان (2928)

            اور جو چیزیں گناہوں کو مٹاتی اور خطاؤں کو پاک کرتی ہیں ان میں سے ایک بخار اور تپش بھی ہے۔چنانچہ نبی کریم ﷺ ام سائب کے پاس تشریف لے گئے اور ان سے فرمایا: (مَا لَكِ يَا أُمَّ السَّائِبِ تُزَفْزِفِينَ؟)  "اے ام سائب! تم کیوں کانپ رہی ہو؟" -یعنی لرز رہی ہو-انہوں نے عرض کیا: (الحُمَّى، لَا بَارَكَ اللهُ فِيهَا)"بخار ہے، اللہ اس میں برکت نہ دے!"تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا:: (لا تَسُبِّي الحُمَّى؛ فَإِنَّهَا تُذْهِبُ خَطَايَا بَنِي آدَمَ: كَمَا يُذْهِبُ الكِيرُ خَبَثَ الحَدِيدِ)"بخار کو برا نہ کہو، کیونکہ یہ بنی آدم کی خطائیں ایسے دور کر دیتا ہے جیسے بھٹی لوہے کے میل کو دور کرتی ہے!" رواه مسلم (2575)

            اور بیماری کی عجیب باتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ یہ بلند درجات کی سیڑھی بن سکتی ہے!نبی کریم ﷺ نے فرمایا: : (إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا سَبَقَتْ لَهُ مِنَ اللهِ مَنْزِلَةٌ لَمْ يَبْلُغْهَا بِعَمَلِهِ؛ ابْتَلَاهُ اللهُ في جَسَدِهِ، أَوْ في مَالِهِ، أو في وَلَدِهِ؛ ثُمَّ صَبَّرَهُ على ذَلِكَ؛ حَتَّى يُبْلِغَهُ المَنْزِلَةَ الَّتِي سَبَقَتْ لَهُ مِنَ الله)"بے شک جب کسی بندے کے لیے اللہ کے ہاں کوئی بلند درجہ مقرر ہوتا ہے، مگر وہ اس کے عمل سے وہاں نہیں پہنچ پاتا، تو اللہ اسے اس کے جسم، مال یا اولاد میں آزمائش میں مبتلا کر دیتا ہے، پھر اسے اس پر صبر عطا فرماتا ہے، یہاں تک کہ اسے اس بلند درجے تک پہنچا دیتا ہے جو اس کے لیے مقدر تھا!" (رواه أبو داود (3090)

            اور بیماری کی عجیب باتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ یہ صحت و عافیت کا ذریعہ بن سکتی ہے!بسا اوقات جسم بیماریوں سے ہی صحت یاب ہوتے ہیں! چنانچہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: (وكثيرًا ما تَكُونُ الآلامُ أَسبَابًا لِلْصِحَّة، وهذا شَأْنُ أَكْبَرِ أَمرَاضِ الأَبدَان؛ فَهَذِهِ الحُمَّى فيها مِنَ المنَافِعِ لِلأَبدَانِ ما لا يَعْلَمُهُ إِلَّا الله، وفِيْهَا مِنْ إِذَابَةِ الفَضَلَاتِ وإِخْرَاجِهَا، ما لا يَصِلُ إِلَيهِ دَوَاءٌ غَيرُهَا! أَمَّا انتِفَاعُ القَلْبِ والرُّوحِ بالآلامِ والأَمرَاض؛ فَأَمْرٌ لا يُحِسُّ بِهِ إِلَّا مَنْ فِيهِ حَيَاة، فَصِحِّةُ القُلُوبِ والأَرْوَاح؛ مَوقُوفَةٌ على آلامِ الأَبدَانِ ومَشَاقِّهَا، وقَدْ أَحْصَيْتُ فَوَائِدَ الأَمرَاض؛ فَزَادَت على مَائَةِ فَائِدَة!)"اکثر ایسا ہوتا ہے کہ درد اور تکلیف صحت کا سبب بن جاتی ہے، اور یہی اکثر جسمانی بیماریوں کا حال ہے۔ چنانچہ بخار میں جسم کے لیے ایسے فوائد ہیں جنہیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اس سے جسم کی فاسد رطوبات پگھل جاتی ہیں اور خارج ہو جاتی ہیں، جنہیں کوئی اور دوا اس طرح نہیں نکال سکتی! جیسے دلوں اور روحوں کی صحت بھی جسموں کی تکلیفوں پر موقوف ہے۔ میں نے بیماریوں کے فوائد کا احصاء کیا تو وہ سو سے زائد نکلے!" شفاء العليل (250)

            اور بیمار کے ساتھ اللہ کی رحمت میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس کے وہ نیک اعمال لکھے جاتے ہیں جو وہ صحت مند اور تندرست ہونے کی حالت میں کیا کرتا تھا، اور ان میں کوئی کمی نہیں کی جاتی!نبی کریم ﷺ نے فرمایا: (إذَا مَرِضَ العَبدُ أو سَافَر؛ كُتِبَ لَهُ مِنَ الأَجْرِ مِثْلُ مَا كَانَ يَعْمَلُ صَحِيحًا مُقِيمًا)"جب بندہ بیمار ہوتا ہے یا سفر کرتا ہے تو اس کے لیے وہی اجر لکھ دیا جاتا ہے جو وہ صحت مند اور مقیم ہونے کی حالت میں کیا کرتا تھا!" رواه البخاري (2996)

            ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: (يَنْبَغِي لِلْعَاقِلِ -ما دَامَ في حالِ الصِحَّةِ والفَرَاغ-؛ أَنْ يَحْرِصَ على الأَعمَالِ الصَّالِحَة، حتى إذا عَجَزَ عَنهَا لمرَضٍ أو شُغل؛ كُتِبَت لَهُ كَامِلَة)"عقل مند انسان کے لیے ضروری ہے کہ جب تک وہ صحت مند اور فارغ ہو، نیک اعمال میں محنت کرے، تاکہ جب وہ کسی بیماری یا مشغولیت کی وجہ سے ان سے عاجز ہو جائے، تب بھی اس کے لیے پورے اعمال لکھے جائیں!" شرح رياض الصالحين (2/189)

            اور جس طرح عافیت ایک نعمت ہے، اسی طرح بیماری بھی ایک نعمت ہے، بشرطیکہ انسان اس پر صبر کرے!نبی کریم ﷺ نے فرمایا: : (عَجَبًا لِأَمْرِ المُؤْمِنِ؛ إِنَّ أَمْرَهُ كُلَّهُ لهُ خَيرٌ، وليسَ ذلكَ لِأَحَدٍ إلَّا للمُؤْمنِ: إِنْ أصَابَتْهُ سَرَّاءُ شَكَرَ فكانتْ خَيرًا لهُ، وإنْ أصَابتهُ ضَرَّاءُ صَبرَ فكانتْ خَيرًا له)"مؤمن کا معاملہ عجیب ہے! اس کے ہر حال میں بھلائی ہے، اور یہ کسی کے لیے نہیں، سوائے مؤمن کے! اگر اسے خوشی ملے تو وہ شکر کرتا ہے، تو یہ اس کے لیے بہتر ہوتا ہے، اور اگر اسے کوئی تکلیف پہنچے تو وہ صبر کرتا ہے، تو یہ بھی اس کے لیے بہتر ہوتا ہے!" رواه مسلم (2999)

            بے شک بیماری کی عجیب باتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ مریض کو اللہ کی معیت(قرب) حاصل ہوتی ہے!حدیث میں ہے: إِنَّ اللهَ U يَقُولُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ: يَا ابْنَ آدَمَ، مَرِضْتُ فَلَمْ تَعُدْنِي، "بے شک اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا: اے ابنِ آدم! میں بیمار ہوا تھا، لیکن تُو نے میری عیادت نہ کی!" قَالَ: يَا رَبِّ، كَيْفَ أَعُودُكَ وأَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِينَوہ کہے گا: "اے میرے رب! میں تیری کیسے عیادت کرتا، حالانکہ تو تو تمام جہانوں کا رب ہے؟"! قال: أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ عَبْدِي فُلَانًا مَرِضَ فَلَمْ تَعُدْهُ، أَمَا عَلِمْتَ أَنَّكَ لَوْ عُدْتَهُ؛ لَوَ                     جَدْتَنِي عِنْدَهُ؟)اللہ فرمائے گا: "کیا تجھے معلوم نہیں تھا کہ میرا فلاں بندہ بیمار تھا، لیکن تُو نے اس کی عیادت نہ کی؟ کیا تجھے معلوم نہیں کہ اگر تُو اس کے پاس جاتا، تو مجھے اس کے پاس پاتا؟!" رواه مسلم (2569)

            ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: : (إِنَّ المَرِيضَ لَا بُدَّ أَنْ يَكْسِرَهُ المَرَضُ، فَإِذَا كَانَ مُؤْمِنًا: كَانَ اللهُ عِنْدَهُ! فَالمَرِيضُ لَهُ مَدَدٌ مِنَ اللهِ، وهذا المَدَدُ بِحَسَبِ انْكِسَارِهِ وانْطِرَاحِهِ بَيْنَ يَدَيْ رَبِّهِ U؛ فَإِنَّ العَبْدَ أَقْرَبُ مَا يَكُونُ مِنْ رَبِّهِ؛ إِذَا انْكَسَرَ قَلْبُهُ)"بیماری مریض کو ضرور توڑ دیتی ہے، اور جب وہ مؤمن ہوتا ہے، تو اللہ اس کے پاس ہوتا ہے! مریض کو اللہ کی مدد حاصل ہوتی ہے، اور یہ مدد اس کے اللہ کے سامنے ٹوٹنے اور جھکنے کے مطابق ہوتی ہے، کیونکہ بندہ اپنے رب کے سب سے زیادہ قریب اسی وقت ہوتا ہے جب اس کا دل ٹوٹا ہوا ہو!" مدارج السالكين (1/307)، زاد المعاد (4/85-86)

            اکثر لوگ اپنے جسم کی بیماریوں سے ڈرتے ہیں، لیکن اپنے دل کی بیماریوں کی پروا نہیں کرتے!جبکہ عقل مند مؤمن وہی ہوتا ہے جو صرف جسمانی بیماری سے نہیں، بلکہ دل کی بیماری سے بھی ڈرتا ہے، کیونکہ جسم تو فنا ہو جاتے ہیں، دن گزر جاتے ہیں، اور قبروں میں کچھ باقی نہیں رہتا، سوائے اس کے جو دلوں میں تھا!اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿ يَوْمَ لَا يَنْفَعُ مَالٌ وَلَا بَنُونَ* إِلَّا مَنْ أَتَى اللهَ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ﴾"جس دن نہ مال فائدہ دے گا، نہ بیٹے، مگر وہی کامیاب ہوگا جو اللہ کے پاس سلامت دل لے کر آئے گا!" (الشعراء: 88-89

            اور جو اپنے دل کی عافیت چاہتا ہے، اسے گناہوں کو چھوڑ دینا چاہیے، کیونکہ گناہ دل کے لیے زہر کی مانند ہوتے ہیں!

رَأَيْتُ الذُّنُوبَ تُمِيتُ القُلُوبَ                              میں نے دیکھا کہ گناہ دلوں کو مار دیتے ہیں
وقَدْ يُورِثُ الذُّلَّ إِدْمَانُهَا                                                                                                                                                                                                                            اور ان کا مسلسل ارتکاب ذلت کا سبب بنتا ہے!
وتَرْكُ الذُّنُوبِ حَيَاةُ القُلُوبِ                       گناہوں کو چھوڑ دینا دلوں کی زندگی ہے،
وخَيْرٌ لِنَفْسِكَ عِصْيَانُهَا                                         اور تیرے نفس کے لیے یہی بہتر ہے کہ تو اسے نافرمانی سے روکے!

                                                                                                                        زاد المعاد، ابن القيم (4/186)

            اے اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو عزت عطا فرما، اور شرک اور مشرکین کو ذلت نصیب فرما۔

اے اللہ! اپنے خلفاء راشدین، ہدایت یافتہ اماموں یعنی ابو بکر، عمر، عثمان اور علی سے راضی ہو جا، اور باقی صحابہ کرام، تابعین اور ان کے نیک پیروی کرنے والوں سے بھی قیامت کے دن تک راضی ہو جا۔
اے اللہ! غمزدوں کی غمخواری فرما، اور مصیبت زدوں کی مشکلات دور فرما۔
اے اللہ! ہمارے وطنوں کو امن عطا فرما، اور ہمارے ائمہ اور حکمرانوں کو درست راہ دکھا، اور (ہمارے حکمران اور ان کے ولی عہد) کو اپنی پسندیدہ اور رضا کی راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرما، اور ان کی رہنمائی تقویٰ اور نیکی کی طرف فرما۔
اے اللہ! تو ہی اللہ ہے، تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو غنی ہے اور ہم فقیر ہیں، ہم پر بارش نازل فرما اور ہمیں مایوس لوگوں میں سے نہ بنا۔ اے اللہ! ہم تجھ سے بخشش مانگتے ہیں، بے شک تو بڑا بخشنے والا ہے، تو ہم پر آسمان سے موسلادھار بارش نازل فرما۔
اللہ کے بندو: إِنَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالعَدْلِ وَالإحْسَانِ وَإِيتَآءِ ذِي القُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الفَحْشَاءِ وَالمُنْكَرِ وَالبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ ﴿بیشک اللہ انصاف کا، احسان کا، اور قرابت داروں کو دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برائی اور ظلم سے منع کرتا ہے، وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو﴾۔
پس اللہ کا ذکر کرو وہ تمہیں یاد رکھے گا، اور اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرو وہ تمہیں زیادہ دے گا وَلَذِكْرُ اللهِ أَكْبَرُ وَاللهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُون ﴿اور اللہ کا ذکر سب سے بڑا ہے اور اللہ جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو﴾۔
·         مترجم: محمد زبیر کلیم ( سابق مدرس جامعہ سلفیہ ،فیصل آباد، پاکستان)  داعی ومدرس جمعیت ھاد، جالیات عنیزہ۔ سعودی عرب

 

views 77 | Comments 0