صحابہ کرام کے دس امتیازات وخصائص
سيف الرحمن التيمي
موضوع الخطبة: من حقوق المصطفى (صلى الله عليه وسلم) توقير صحابته
(الخصائص العشرة للصحابة رضي الله عنهم)
الخطيب : فضيلة الشيخ ماجد بن سليمان الرسي/حفظه الله
لغة الترجمة: الأردو
المترجم: سيف الرحمن حفظ الرحمن التيمي (@Ghiras_4T)
موضوع:
مصطفى صلی اللہ علیہ وسلم کے حقوق میں آپ کے صحابہ کا احترام بھی شامل ہے
(صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دس امتیازات وخصائص)
پہلا خطبہ:
إن الحمد لله نحمده ، ونستعينه ونستغفره، ونعوذ بالله من شرور أنفسنا ومن سيئات أعمالنا، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أن محمدا عبده ورسوله.
حمد وصلاۃ کے بعد:
سب سے بہترین کلام اللہ کا کلام ہے، اور سب سے بہترین طریقہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے، سب سے بدترین چیز دین میں ایجاد کردہ بدعتیں ہیں، اور (دین میں) ہر ایجاد کردہ چیز بدعت ہے، ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے۔
اے مسلمانو! اللہ تعالی سے ڈرو اور اس کا خوف ہمہ وقت دلوں میں زندہ رکھو، اس کی اطاعت کرو، اس کی نافرمانی سے بچو، جان رکھو کہ اہل سنت والجماعت کے بنیادی عقائد میں یہ شامل ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی تعظیم کی جائے، ان کی تابعداری کی جائے، ان کے حقوق کو جانا جائے اور ان کی پیروی کی جائے، ان کی اچھی تعریف کی جائے ، ان کے لیے استغفار کیا جائے، ان کے باہمی اختلاف کے تعلق سے خاموشی اختیار کی جائے ، ان سے دشمنی رکھنے والوں سے دشمنی رکھی جائے، ان میں سے کسی کے بارے میں جو بری خبریں منقول ہیں او رجنہیں بعض تاریخ دانوں نے یا جاہل راویوں نے یا گمراہ شیعوں اور بدعتیوں نے نقل کیا ہے،ان سے اعراض برتا جائے، کیوں کہ صحابہ کرام اس مقام پر فائز ہیں کہ ان میں سے کسی صحابی کا بر ا تذکرہ نہ کیا جائے اور نہ ان کے کسی عمل کی شناعت بیان کی جائے ، بلکہ ان کی نیکیاں اور ان کی سیرت کے قابل ستائش پہلوؤں کو ذکر کیا جائے اور اس کے علاوہ ہر ( نا زیبا) چیز سے خاموشی اختیار کی جائے[1]۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "اہل سنت والجماعت کے اصول میں سے ہے کہ ان کے دل اور ان کی زبانیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے تئیں پاک اور صاف ہوتی ہیں، جیسا کہ اللہ تعالی نے ان کے تعلق سے اس آیت کریمہ میں ارشاد فرمایا:
(وَالَّذِينَ جَاءُوا مِنْ بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِلَّذِينَ آمَنُوا)
ترجمہ: ان کے لئے جو ان کے بعد آئیں جو کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لا چکے ہیں اور ایمان داروں کی طرف سے ہمارے دل میں کینہ (اور دشمنی) نہ ڈال ، اے ہمارے رب ! بے شک تو شفقت ومہربانی کرنے والا ہے۔[2]
۱-اے مومنو! صحابہ کرام کو دیگر لوگوں پر یہ فضیلت وبرتری حاصل ہے کہ اللہ نے تمام بنی نوع انسانی میں انہیں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کے لئے چنا، انہیں دنیا وی زندگی میں آپ کے دیدا ر سے شاد کام ہونے، آپ کے دہن مبارک سے حدیث پاک کو سماعت کرنے ، آپ سے شریعت اور دینی احکام کو اخذ کرنے، آپ سے تربیت حاصل کرنے، اور آپ جس نور وہدایت کے ساتھ مبعوث کئے گئے ، اسے (دنیا والوں تک) کامل ترین شکل میں پہنچانے کا خصوصی شرف بخشا ، ان کے فضائل میں یہ بھی شامل ہے کہ آپ کے ساتھ جہاد کرنے اور اسلام کی نشرو اشاعت اور اس کی طرف لوگوں کو دعوت دینے کی وجہ سے انہیں اجر عظیم سے سرفراز کیا گیا، ان کے بعد آنے والوں کو جتنا اجر وثواب ملے گا، انہیں بھی اس کے مثل اجر وثواب پہنچے گا، کیوں کہ یہ بات معلوم ہے کہ جو شخص ہدایت وراستی کی دعوت دیتا ہے ، اسے اتنا ہی اجر ملتا ہے جتنا اس پر چلنے والے کو ملتا ہے، اور اس اجر کی وجہ سے ان متبعینِ ہدایت کے اجر وثواب میں کوئی کمی نہیں ہوتی ہے۔
۲- اے مسلمانو! اللہ تعالی نے صحابہ کرام کی نہایت عمدہ تعریف وتوصیف کی ہے ، توریت وانجیل اور قرآن کریم میں ان کے ذکرکو بلند فرمایا ہے، اور ان سے مغفرت اور اجر عظیم کا وعدہ کیا ہے، فرمان باری تعالی ہے:
(مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُودِ ذَلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنْجِيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَآزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَى عَلَى سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْهُمْ مَغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا)
ترجمہ: محمد اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کےساتھ ہیں کافروں پر سخت ہے ، آپس میں رحم دل ہیں، تو انہیں دیکھے گا کہ رکوع اور سجدے کر رہے ہیں، اللہ تعالی کے فضل اور رضا مندی کی جستجو میں ہیں، ان کا نشان ان کے چہروں پر سجدوں کے اثر سے ہے ، ان کی یہی مثال تورات میں ہے اور ان کے مثال انجیل میں ہے ، مثل اس کھیتی کے جس نے اپنا انکھوا نکالا پھر اسے مضبوط کیا اور وہ موٹا ہوگیا پھر اپنے تنے پر سیدھا کھڑا ہوگیا اور کسانوں کو خوش کرنے لگا تاکہ ان کی وجہ سے کافروں کوچڑائے ،ان ایمان والوں اور نیک اعمال والوں سے اللہ نے بخشش کا اور بہت بڑ ے ثواب کا وعدہ کیا ہے۔
قرطبی رحہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: "یہ ایک مثال ہے جسے اللہ نے صحابہ کرام کے تعلق سے پیش کیا ہے، جس کے معنی یہ ہیں کہ وہ پہلے بہت تھوڑے ہوں گے ، پھر ان کی تعداد بڑھ جائے گی اور وہ بہت تعداد میں ہوں گے، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کمزوری وناتوانی کی حالت میں دین کی طرف بلانا شروع کیا ، تو یکے بعد دیگرے لوگ آپ کی دعوت کو قبول کرنے لگے یہاں تک کہ آپ کی دعوت مضبوط ہوگئی، بالکل اس پودے کی طرح جو بیج بونے کے بعد كمزور نظر آتا ہے، پھر دھیرے دھیرے اس میں تقویت آتی جاتی ہے یہاں تک کہ اس کا تنا اور اس کی شاخیں مضبو ط ہوجاتی ہیں، اس طرح یہ ایک نہایت درست مثال اور واضح ترین بیان ٹھہرا۔ (معمولی تصرف کے ساتھ قرطبی کا قول ختم ہوا)
۳-اللہ کے بندو! صحابہ کرام کی عظمت شان ورفعت مقام کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اللہ نے انہیں تقوی کی بات پر جمائے رکھا، اللہ تعالی فرماتا ہے:( وَأَلْزَمَهُمْ كَلِمَةَ التَّقْوَى وَكَانُوا أَحَقَّ بِهَا وَأَهْلَهَا وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا)
ترجمہ: اللہ تعالی نے مسلمانوں کو تقوی کی بات پر جمائے رکھا اور وہ اس کے اہل اور زیادہ مستحق تھے اور اللہ تعالی ہر چیز کو خوب جانتاہے۔
چنانچہ اللہ نے یہ خبردی کہ انہیں تقوی کی بات پر جمائے رکھا، جوکہ کلمہ (لا الہ الا اللہ) ہے ، انہیں کلمہ توحید کے حقوق اور ان کی بجاآوری کا پابند بنایا، اور انہوں نے ان حقوق کو بجالایا، پھر اللہ نے یہ خبردی کہ وہ اس تقوی کے دوسروں کے مقابلہ میں زیادہ حقدار تھے، یعنی وہ اس بات کے حقدار تھے کہ انہیں تقوی سے متصف کیا جائے، کیوں کہ ان کے دل خیر وبھلائی سے معمور تھے۔
۴-صحابہ کرام کی عظمت ومرتبت کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اللہ نے یہ بھی خبر دی ہے کہ اگر لوگ اسی طرح ایمان لے آئیں جس طرح صحابہ نے ایمان لایا تو وہ ہدایت یاب ہوجائیں گے، فرمان باری تعالی ہے:
(فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنْتُمْ بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوْا)
ترجمہ: اگر وہ تم جیسا ایمان لائیں تو ہدایت پائیں۔
۵- صحابہ کرام کی عظمت ومرتبت کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اللہ تعالی نے صحابہ کرام کے تعلق سے یہ گواہی دی ہے کہ وہی سچے مومن ہیں، اور اللہ گواہ کے طور پر کافی ہے، فرمان باری تعالی ہے:( وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالَّذِينَ آوَوْا وَنَصَرُوا أُولَئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ)
ترجمہ: جو لوگ ایمان لائے اور ہجر ت کی اور اللہ تعالی کی راہ میں جہاد کیا اور جنہوں نے پناہ دی اور مدد پہنچائی ، یہی لوگ سچے مومن ہیں، ان کے لئے بخشش ہے اور عزت کی روزی۔
۶- صحابہ کرام کی عظمت ومرتبت کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ قرآن کریم میں دو جگہوں اللہ نے یہ ذکر کیا ہے کہ اللہ ان سے راضی ہوگیا، وہ دو آیتیں یہ ہیں: (لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِي قُلُوبِهِمْ فَأَنْزَلَ السَّكِينَةَ عَلَيْهِمْ وَأَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِيبًا)
ترجمہ: یقینا اللہ تعالی مومنوں سے خوش ہوگیا جب کہ وہ درخت تلے تجھ سے بیعت کرر ہے تھے۔ ان کے دلوں میں جو تھا اسے اس نے معلو م کر لیا اور ان پر اطمینان نازل فرمایا اور انہیں قریب کی فتح عنایت فرمائی۔
دوسری جگہ سورہ توبہ: (وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ )
ترجمہ: جو مہاجرین اور انصار سابق اور مقدم ہیں او رجتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پیرو ہیں اللہ ان سب سے راضی ہوا اور وہ سب اس سے راضی ہوئے اور اللہ ان کے لئے ایسے مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوگی جن میں ہمیشہ رہیں گے ، یہ بڑی کامیابی ہے۔
۷- صحابہ کرام کی عظمت ومرتبت کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ وہ امت میں دین کے سب سے بڑے فقیہ تھے، کیوں کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نگرانی میں تربیت پائی تھی، نزول قرآن کا مشاہدہ کیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ ان میں سے چار مقدّم صحابہ کرام –جوکہ خلفائے راشدین ہیں- کی سنت قابل اتباع ہے، ان کے بعد آنے والوں کو چاہئے کہ ان کی پیروی کریں، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ اللہ کا تقویٰ اختیار کیے رہنا اور اپنے حکام کے احکام سننا اور ماننا ، خواہ كٹے ہوئے اعضاء والا کوئی حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو۔ بلاشبہ تم میں سے جو میرے بعد زندہ رہا وہ بہت اختلاف دیکھے گا ، چنانچہ ان حالات میں میری سنت اور میرے خلفاء کی سنت اپنائے رکھنا ، خلفاء جو اصحاب رشد و ہدایت ہیں ، سنت کو خوب مضبوطی سے تھامنا ، بلکہ ڈاڑھوں سے پکڑے رہنا ، نئی نئی بدعات و اختراعات سے اپنے آپ کو بچائے رکھنا ، بلاشبہ ہر نئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے ۔ “([3])
۸-صحابہ کرا م کی عظمت شان کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اللہ تعالی نے اپنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ان صحابہ کرام سے مشورہ لینے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا: (وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ)
ترجمہ: کام کا مشورہ ان سے کیا کریں ، پھر جب آپ کا پختہ ارادہ ہوجائے تو اللہ تعالی پر بھروسہ کریں۔
۹- صحابہ کرا م کی عظمت شان کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ ان کے بعد آنے والے مسلمانوں کو اللہ نے یہ رہنمائی فرمائی ہے کہ وہ ان کے لئے استغفار کیا کریں اور مومنوں کے تئیں اپنے دلوں میں کینہ کپٹ نہ رکھیں، ارشاد ربانی ہے: (وَالَّذِينَ جَاءُوا مِنْ بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ)
ترجمہ: ان کے لئے جو ان کے بعد آئیں جو کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لا چکے ہیں اور ایمان داروں کی طرف سے ہمارے دل میں کینہ (اور دشمنی ) نہ ڈال، اے ہمارے رب ! بے شک تو شفقت ومہربانی کرنے والا ہے۔
۱۰- صحابہ کرا م کی عظمت شان کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ واضح فرمایا کہ صحابہ کرام کا زمانہ سب سے بہترین زمانہ تھا، فرمایا: "سب لوگوں میں بہتر میرے زمانے کے لوگ ہیں، پھر جو ان کے قریب ہیں، پھر جو ان کے قریب ہیں"[4]۔
صحیح مسلم کے الفا ظ ہیں: "میری امت کے سب سے بہترین لوگ وہ ہیں جن کے درمیان میں بھیجا گیا ہوں"۔
۱۱-صحابہ کرام کی عظمت شان اور رفعت مقام کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ ان کا اجروثواب ان کے بعد آنے والوں کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے:"میرے صحابہ کو برا بھلا نہ کہو ، کیوں کہ تم میں کوئی احد پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کرے تو وہ ان کے مد یا نصف مد کے برابر نہیں پہنچ سکتا[5]"[6]۔
اس حدیث میں نصیف کا لفظ آیا ہے جس کے معنی نصف حصہ کے ہیں، اور مد ایک صاع کے چوتھے حصے کو کہتے ہیں، حدیث کا مطلب یہ ہے کہ صحابی کا صدقہ اگر ایک مُد ہو تو اس کا ثواب ان کے بعد آنے والوں کے صدقہ کے ثواب سے کہیں بڑھ کر ہے ، خواہ ان کا صدقہ اُحد پہاڑ کے برابر ہی کیوں نہ ہو۔
اللہ کے بندو! ہمارے اور ان کے صدقات میں اس فرق کی وجہ یہ ہے کہ صحابی کے صدقہ وخیرات میں حد درجہ اخلاص اور ان کی نیت میں بے پناہ سچائی تھی۔
خلاصہ یہ کہ صحابہ کرام کو دیگر لوگوں پر دس خوبیوں کی وجہ سے فضیلت وبرتی حاصل ہے:
۱-اللہ نے انہیں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کے لئے منتخب کیا ۔
۲-انہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار اور آپ کی صحبت حاصل ہوئی۔
۳-نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان سے محبت کرتے تھے۔
۴-وہ تمام لوگوں میں سب سے بہتر اور افضل تھے۔
۵-ان کی فضیلت وبرتری کا ذکر توریت وانجیل اور قرآن مجید میں آیا ہے اور ان تمام کتابوں میں ان کی تعریف کی گئی ہے۔
۶-انہوں نے اسلام لانے میں سبقت کی۔
۷-انہوں نے اللہ ، دین اسلام اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جان ومال اور آل واولاد کی قربانی پیش کی ، رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو انہوں نے حوصلہ دیا اور آپ کے پائے ثبات میں تزلزل نہیں آنے دیا، اور دین اسلام کے قیام کی راہ میں پیش آنے والی ہر تکلیف کو برداشت کیا ۔
۸-وہ ان تمام قابلِ ستائش اوصاف سے متصف تھے جنہیں انہوں نے بلا واسطہ طور پر مشکاۃِ نبوت سےاخذ کیا تھا اور ان کی تربیت پائی تھی۔
۹-انہوں نے قرآن وسنت کو (اپنے سینوں میں) محفوظ کیا اور دنیا والوں تک انہیں پہنچایا، اور انہیں کے سبب قیامت تک پوری دنیا میں اسلام پھیلتا رہے گا۔
۱۰-وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد دین الہی کے سب سے زیادہ جانکار تھے، جس بات پر ان کا اجماع ہوگیا اس کی خلاف ورزی کوئی نہیں کرسکتا۔یہ وہ دس خوبیاں ہیں جن کے سبب صحابہ کرام کو اپنے سے قبل اور اپنے بعد کے دیگر تمام لوگوں پر خصوصیت وفوقیت حاصل ہے ، جو شخص ان خصوصیات کو جان لے اور انہیں سمجھ جائے وہ اسلام میں صحابہ کرام کے مقام ومرتبہ سے بھی واقف ہوجائے گا او راس کے دل میں ان کی محبت اور تعظیم کا دروازہ بھی کھل جائے گا ۔
اللہ تعالی مجھے اور آپ کو قرآنِ عظیم کی برکت سے مالا مال کرے، مجھے اور آپ کو اس کی آیتوں اور حکمت پر مبنی نصیحت سے فائدہ پہنچائے، میں اپنی یہ بات کہتے ہوئے اللہ سے اپنے لئے اور آپ سب کے لئے ہر طرح کےگناہ سے توبہ واستغفار کرتا ہوں ، آپ بھی اللہ سے مغفرت طلب کریں، یقینا وہ خوب توبہ قبول کرنے والا اور بہت بخشنے والاہے۔
دوسرا خطبہ: مقام ومرتبہ میں صحابہ کے درمیان باہمی تفاوت ودرجہ بندی
الحمد لله وکفى، وسلام على عباده الذين اصطفى، أما بعد:
مسلمانو ! اللہ تعالی سے ڈرو اور اس کا خوف اپنے د ل میں ہمہ وقت زندہ رکھو، اور جان رکھو کہ صحابہ اپنے مراتب و فضائل میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔اہل سنت الجماعت اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ نبی کے بعد اس امت میں سب سے بہتر ابوبکر ہیں پھر عمر پھر عثمان اور پھر علی ہیں ،اہل سنت والجماعت انصار پر مہاجرین کو فوقیت دیتے ہیں کیوں کہ مہاجرین کو اسلام قبول کرنے میں سبقت حاصل ہے ،پھر ان کے بعد انصار کا مرتبہ ہے ( جنہوں نے اسلام قبول کیا اور ) اللہ کے رسول کو پناہ دی اور اپ کی مدد کی ۔ اہل سنت و الجماعت فتح [7]سے پہلے خرچ کرنے اور جنگ کرنے والوں کو فتح کے بعد خرچ کرنے اور جنگ کرنے والوں پر فوقیت دیتے ہیں اور وہ اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ اہل بدر جن کی تعداد تین سو تیرہ کے قریب تھی، ان کے بارے میں اللہ نے فرمایا ہے:
ترجمہ: " تم جو چاہو کرو، میں نے تم سب کو معاف کر دیا"[8]۔
نیز یہ بھی ایمان رکھتے ہیں کہ درخت کے نیچے یعنی حدیبیہ کے مقام پر شجرۃ الرضوان کے نیچے بیعت کرنے والوں میں سے کوئی جہنم میں نہیں جائے گا اور ان کی تعداد چودہ سو سے زائد تھی، ، وہ ان کے لئے جنت کی گواہی دیتے ہیں جن کے لئے اللہ کے رسول نے گواہی دی ہے جیسے عشرہ مبشرہ اور دیگر صحابہ کرام۔
امت پر صحابہ کرام کے حقوق کا خلاصہ
اے مومنو! خلاصہ کلام یہ کہ صحابہ کے ہم پر چار حقوق ہیں :
پہلا حق: ان سے محبت کرنا اور ان سے راضی رہنا۔ دوسرا حق: اس بات پر ایمان رکھنا کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے بہترین لوگ تھے۔ تیسرا حق: ان کے باہمی اختلافات کے تعلق سے زبان بند رکھنا۔چوتھا حق: ان کے سلسلے میں بدعتیوں کی جو افتراپردازیاں ہیں، ان کا دفاع کرناجیسے روافض اور ان کے نقش قدم پر چلنے والے دیگر فرقوں کی ریشہ دوانائیاں۔
آپ یہ بھی جان رکھئے -اللہ آپ سب پر رحم کرے -کہ اللہ نے آپ سب کو ایک عظیم کا م کا حکم دیا ہے : (إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا)
ترجمہ: اللہ تعالی اور اس کے فرشتے اس نبی پر رحمت بھیجتے ہیں ۔اے ایمان والو! تم (بھی ) ان پر درود بھیجو او رخوب سلام (بھی) بھیجتے رہا کرو۔
اللہ کے بندو ! اللہ تعالی عدل کا ، بھلائی کا اور قرابت داروں کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی کے کا موں ، نا شائستہ حرکتوں اور ظلم وزیادتی سے روکتا ہے۔اللہ عظیم و برتر کا ذکر کرو ، وہ بھی تمہارا ذکر کرے گا، اس کی نعمتوں پر شکریہ ادا کرو، وہ تمہیں اور نوازے گا، یقینا اللہ تعالی کا ذکر سب سے بڑی چیز ہے اور اللہ تعالی تمہارے کاموں سے خوب واقف ہے۔
از قلم:
ماجد بن سلیمان الرسی
۱۲ ربیع الثانی سنہ ۱۴۴۲ھ
شہر جبیل، سعودی عرب
ترجمہ:
سیف الرحمن تیمی
[1] معمولی تصرف کے ساتھ ماخوذ از:"الشفا" از: قاضی عیاض، چھٹا باب:آپ کی توقیر میں یہ بھی شامل ہے کہ آپ کے صحابہ کی تعظیم کی جائے اور ان کی تابعدار ی کی جائے۔
[2] ابن تیمیہ کا یہ قول "العقیدۃ الواسطیہ" سے ماخوذ ہے۔
([3]) اس حدیث کو ابن حبان (۱/۱۷۹) نے روایت کیا ہے اور مذکورہ الفاظ اسی کے روایت کردہ ہیں، نیز ابوداود (۴۶۰۷)، ترمذی (۲۶۷۶)، ابن ماجہ (۴۲) اور احمد (۴/۱۲۶-۱۲۷) وغیرہ نے اسے روایت کیا ہے اور البانی نے صحیح کہا ہے۔
اسے بخاری (۲۶۵۲) اور مسلم (۲۵۳۳) نے عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔[4]
دیکیھں: النہایۃ[5]
اسے بخاری (۳۶۷۳) اور مسلم ( ۲۵۴۱) نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے اور اسی باب کی حدیث ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے ، جسے مسلم (۲۵۴۰) نے روایت کیا ہے۔[6]
یعنی: فتح حدیبیہ[7]
اسے بخاری (۳۰۰۷) اور مسلم (۲۴۹۴) نے علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔[8]