جنازہ کے بعض  احکام ومسائل

سيف الرحمن التيمي
1443/08/21 - 2022/03/24 08:35AM

موضوع الخطبة         : من أحكام الجنازة

الخطيب                : حسام بن عبد العزيز/ حفظه الله

لغة الترجمة             : الأردو

المترجم                  :سيف الرحمن التيمي((@Ghiras_4T

موضوع:

جنازہ کےبعض  احکام ومسائل

 پہلا خطبہ:

الحمد لله العزيز الغفار متولي الأبرار ومهلك الفجار ﴿ يَوْمَ تُبَدَّلُ الأَرْضُ غَيْرَ الأَرْضِ وَالسَّمَاوَاتُ وَبَرَزُواْ للّهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ ﴾ وأشهد ألا إله إلا الله وحده لا شريك له وأشهد أن محمدا عبده ورسوله المبعوث بجوامع الكلم خاتم الرسل من العرب والعجم صلى الله عليه وعلى آله وصحبه وسلم تسليما كثيرا

حمد وثنا کے بعد!

إلَهِي تَحَمَّلْنَا ذُنُوبًا عَظِيْمَةً

أَسَأْنا وقصَّرْنا وجُودُكَ أعْظَمُ

سَتَرْنَا مَعَاصِيْنا عن الخلقِ غَفْلَةً

وأنتَ تَرانَا ثُمَّ تَعْفُو وتَرْحَمُّ

وَحَقِّك ما فِيْنَا مُسِيءٌ يَسُرُّهُ

صُدُودُكَ عَنْهُ بلْ يَخَافُ ويَنْدَمُ

إلَهِي فَجُدْ واصْفحَ وأَصْلِحْ قلُوبنا

فأنْتَ الذِيْ تُولِيْ الجَمِيلَ وَتُكْرِمُ

ترجمہ: الہی! ہم نے بڑے بڑے گناہ  کیے۔ہم سے غلطیاں  اور کوتاہیاں سرزد ہوئیں،  لیکن تیری سخاوت وفیاضی بڑی عظیم ہے۔

تونے ہمارے گناہوں کو مخلوق کی نظر سے چھپائے رکھا   جب کہ تو نے ہمیں غفلت میں مبتلا پایا،  اس کے بعد تونے  ہمارے ساتھ عفو ودرگزر سے کام لیا اور رحم وکرم  کا معاملہ فرمایا۔

اے حق تعالی! ہم میں سے کوئی نہیں جو اس بات سے خوش  ہو کہ تو اس سے اپنی نظر کرم پھیر لے، بلکہ اسے خوف وندامت ہوتی ہے۔

الہی! تو سخاوت فرما، عفو ودرگزر فرما اور ہمارےد لوں کی اصلاح فرما۔ توہی احسان    وانعام کرتااور  عزت واکرام سے نوازتا ہے۔

میرے ایمانی بھائیو! ہمارے پروردگار کی شریعت نے شادی کی ترغیب دی ہے، دیندار اور اخلاق مند شخص کا انتخاب کرنے اور دین داری اور اخلاق کو شادی کا معیار بنانے پر ابھارا ہے،  شریعت نے تربیت اور اچھی پرورش کا اہتمام کرنے کا حکم دیا ہے اور ہماری شریعت نے لوگوں کے باہمی  رشتے   کو مضبوط وپائیدار بنانے پر توجہ دی ہے، چنانچہ مختلف قسم کے حقوق اور آداب مشروع کیے ہیں، او رہر طرح کی ایذارسانی سے منع فرمایا ہے، جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ رب تعالی   اپنے بندوں پر کتنی  توجہ اور عنایت فرماتا ہے، ان کی ولادت سے قبل، دوران طفولت  ، ایام شباب اور بڑھاپے کے دوران سارے مراحل میں اس پر اپنی عنایت برقرار رکھتا ہے، بلکہ اللہ کی عنایت زندوں کے ساتھ مردوں کو بھی حاصل ہوتی ہے، چنانچہ اللہ نے وفات سے پہلے، دوران وفات (حالت نزع میں) اور وفات کے بعد   الگ الگ احکام مشروع کیے ہیں،  جس سے یہ ظاہر  ہوتا ہے کہ   جو شخص وفات پاتا ہے اس پر اللہ کا کتنا لطف وکرم  ہوتا ہے،  اللہ تعالی اس کی عزت وکرامت کی حفاظت کرتا  اور  اس  کے ساتھ حسن سلوک روا رکھتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسےکلمہ توحید کی تلقین کرنا، کفن دینا، اس کی نماز جنازہ پڑھنا، سکون واطمینان اور خشوع وخضوع کے ساتھ اس کے جنازہ میں  چلنا، اور اس کے لیے دعائے مغفرت کرنا مشروع قرار دیا گیا ہے۔ آج ہماری گفتگو کا موضوع ہے : وفات سے متعلق بعض احکام اور سنتیں :

﴿ كُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَةُ الْمَوْتِ وَإِنَّمَا تُوَفَّوْنَ أُجُورَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَمَن زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ وَما الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلاَّ مَتَاعُ الْغُرُورِ ﴾ [آل عمران: 185].

 

ترجمہ: ہر جان موت کا مزه چکھنے والی ہے اور قیامت کے دن تم اپنے بدلے پورے پورے دیئے جاؤ گے، پس جو شخص آگ سے ہٹا دیا جائے اور جنت میں داخل کر دیا جائے بے شک وه کامیاب ہوگیا، اور دنیا کی زندگی تو صرف دھوکے کی جنس ہے۔

معزز حضرات! 

جو شخص حالت نزع میں ہو اس کے ارد گرد کے لوگوں کے لیے مستحب ہے کہ اسے کلمہ توحید (شہادت) کی تلقین کریں،  چنانچہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک انصاری شخص کی عیادت فرمائی اور ارشاد فرمایا: اے مامو! آپ کہیے! لا الہ الا اللہ" ۔ اس حدیث کو امام احمد اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اور البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔

دوسری حدیث میں آیا ہے: "اپنے مرنے والوں کو لا الہ الا اللہ کی تلقین کرو ،    موت کے وقت جس شخص کی آخری بات لا الہ الا اللہ ہو وہ کبھی نہ کبھی جنت میں ضرور داخل ہوگا، اگرچہ اس سے قبل اسے جو   بھی لاحق ہو"۔اس حدیث کو البانی نے صحیح کہا ہے۔

یہ بھی مستحب ہے کہ اس کے لیے دعا کریں اور اسے صرف اچھی بات ہی کہیں، آپ علیہ الصلاۃ والسلام فرماتے ہیں: "جب تم مریض یا مرنے والے کے پاس جاؤ تو بھلائی کی بات کہو کیونکہ جو تم کہتے ہو فرشتے اس پر آمین کہتے ہیں"۔ صحیح مسلم

جب اس کی موت واقع ہوجائے تو اس کی آنکھوں کو بند کرنا مسنون ہے، اس کی دلیل ام سلمہ کی حدیث ہے ،  وہ فرماتی ہیں: رسول اللہ ﷺ ابو سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس تشریف لائے،اس وقت ان کی آنکھیں کھلی ہوئیں تھیں تو آپ نے انہیں بند کردیا،پھر فرمایا:"جب روح قبض کی جاتی ہے تو نظر اس کا پیچھاکرتی ہے..."۔ صحیح مسلم

میت کے پورے جسم کو ڈھاکنا بھی مسنون ہے، الا یہ کہ حالت احرام میں وفات پایا ہو تو اس کا سر نہیں ڈھانپا   جائے گا۔ اس کی دلیل عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے ، وہ فرماتی ہیں: جب رسول اللہ ﷺ فوت ہو ئے تو آپ کو دھاری دار یمنی چادر سے ڈھا نپا گیا ۔(بخاری ومسلم)

میت کا چہرہ کھول کر اسے بوسہ لینا جائز ہے، عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے عثمان  بن مظعون کا بوسہ لیا۔ وہ انتقال کر چکے تھے۔ آپ رو رہے تھے یا (راوی نے) کہا: آپ کی دونوں آنکھیں اشک بار تھیں۔ اس حدیث کو ترمذی نے روایت کیا ہے اور البانی نے صحیح کہا ہے۔

نیز میت کے  لیے  مغفرت کی دعا کرنا بھی مشروع ہے، چنانچہ صحیحین میں ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے شاہ حبشہ نجاشی کی موت کے متعلق اسی دن آگاہ کر دیا تھا جس دن اس کا انتقال ہوا۔ اور آپ نے فرمایا: "اپنے بھائی کے لیے مغفرت کی دعا کرو"۔

معزز حضرات!  میت کا قرض ادا کرنے میں جلدی کرنا مشروع ہے، مسلمان کی عزت واکرام  کا تقاضہ ہے کہ     اسے پردہ پوشی کے ساتھ غسل دیا جائے، اسے کفن پہنایا جائے اور  اس کی لاش کا احترام کیا جائے، چنانچہ حدیث میں آیا ہے: "میت کی ہڈی توڑنا ایسے ہی ہے جیسے زندہ کی توڑنا"۔ اس حدیث کو ابوداود او رنسائی  نے روایت کیا ہے اور البانی نے صحیح کہا ہے۔اسے غسل دینے کا حق سب سے زیادہ اس شخص کو ہے جس کے بارے میں میت نے وصیت کی ہو، کیوں کہ ابو بکر صدیق نے یہ وصیت کی تھی کہ ان کو ان کی زوجہ اسماء بنت عمیس غسل دیں، چنانچہ انہوں نے اس وصیت پر عمل کیا، اسی طرح انس نے یہ وصیت کی کہ ان کو محمد بن سیرین غسل دیں، میت کی بھی اپنی حرمت ہوتی ہے، اس لیے اسے غسل دیتے ہوئے وہاں پر صرف انہی لوگوں کو رہنا چاہئے جن کا رہنا ضروری ہو اور جو غسل دینے میں  شامل ہوں، جو شخص بوسہ دینا چاہے تو غسل کے بعد اور کفن باندھنے سے قبل دے۔

اس مناسبت سے ایک لغوی نکتہ بیان کرنا بھی مناسب معلوم ہوتا ہے: بعض  ماہرین لغت کہتےہیں: انسان کی روح نکل جاتی ہے تو اسے جُثّہ (لاش) کہا جاتا ہے۔غسل اور کفن کے بعد اسے جنازہ کہا جاتا ہے اور دفن کے بعد اسے قبر کہا جاتا ہے۔ مسلمان کا اپنے بھائی پر یہ حق ہے کہ  اس کے جنازہ میں شرکت کرے، چنانچہ صحیح مسلم کی مرفوع حدیث ہے: "مسلمان کے مسلمان پر پانچ حقوق ہیں –ان میں آپ نے یہ بھی ذکر فرمایا-: جنازہ میں شریک ہونا"۔بلکہ جنازہ میں شریک ہونے کا بڑا اجر وثواب ہے، آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا: "جو شخص جنازے میں شریک ہوا یہاں تک کہ نماز جنازہ پڑھا تو اس کے لیے ایک قیراط کا ثواب ہے۔ اور جو کوئی جنازے میں اس کے دفن ہونے تک شریک رہا اسے دوقیراط ثواب ملتا ہے۔،، کہا گیا :یہ دوقیراط کیا ہیں ؟آپ نے فرمایا:" دو بڑے بڑے پہاڑوں کی مانند ہیں۔،،   (بخاری ومسلم)

نَادِ القُصورَ التي أقوَتْ مَعالِمُها

أيْنَ الجسُومُ التي طابَتْ مَطَاعِمُهَا

أيْنَ المُلُوكُ وأبْنَاءُ الملوك ومَن

أَلْهاهُ ناضِرُ دُنياهُ وناعِمُها

أينَ الذين لهَوْا عَمَّا لهُ خُلِقُوا

كَمَا لَهَتْ في مَرَاعِيهَا سَوائِمُهَا

أينَ البيُوتُ التي مِن عَسْجدٍ نُسجَتْ

هَلُ الدنَانيرُ أغنَتْ أمْ دَرَاهِمُهَا

أينَ العُيونُ التي نامَتْ فما انَتَبَهَتْ

وَاهًا لها نَوْمَةً ما هَبَّ نائِمُهَا

ترجمہ: مضبوط ستونوں والے محلوں کو ندا لگائے  کہ وہ لوگ کہاں گئے جن کا کھان پان عمدہ ہوا کرتا تھا۔

وہ باشاد ،  ان کے فرزند  اور تمام لوگ کہاں گئے  جنہیں دنیا کی شادابی نے غافل کردیا تھا۔

کہاں گئے وہ لوگ جومقصد تخلیق سے اسی طرح غافل تھے، جس طرح ان کے چوپائے چراگاہوں میں اپنے انجام سے غافل تھے۔

کہاں ہیں وہ گھر جنہیں سونے کی اینٹوں سے تعمیر کیا گیا؟ کیا دینار ودرہم   ان (کے مکینوں کو موت سے) بے نیاز  کر سکے؟

کہاں ہیں وہ آنکھیں جو سوئیں  تو سوئی رہ گئیں۔آہ وہ نیند جس کے بعد انسان بیدار نہ ہوسکا۔

اے اللہ! توہماری مغفرت فرما، ہم پر رحم کر، اے اللہ! ہم تجھ سے حسن خاتمہ کی دعا کرتے ہیں۔


 

دوسرا خطبہ:

الحمد لله ...

حمد وصلاۃ کے بعد:

اسلامی  بھائیو! جنازے سے متعلق ایک مسئلہ یہ ہے کہ  جنازہ کے آگے یا پیچھے چلنا جائز ہے، یہ دونوں ہی حدیث میں وارد ہوئے ہیں، انس بن مالک رضی اللہ عنہ   روایت کرتےہیں کہ: "  میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما کودیکھا کہ یہ لوگ جنازہ کے آگے آگے  اور پیچھے پیچھے چلا کرتے تھے"۔اس حدیث کو ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اور البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔بعض اہل علم نے جنازہ کے پیچھے چلنے کو افضل قرار دیا ہے کیوں کہ جنازہ کی اتباع کرنے کا جو حکم آیا ہے، اس کا یہی تقاضہ ہے، البتہ اس مسئلہ میں وسعت ہے۔

جنازہ میں تیز قدموں سے چلنا سنت ہے، حدیث میں ہے: "جنازے کو جلدی لے کر چلو کیونکہ اگر وہ نیک ہے تو تم اسے خیر کی طرف لے جارہے ہو اور اگر براہے تو بری چیز کو اپنی گردنوں سے اتار کر سبکدوش ہو جاؤگے"۔ (بخاری ومسلم)

قبرستان میں داخل ہوتے وقت یہ دعا پڑھنا مشروع ہے: "السلامُ عليكُمْ دارَ قومٍ مُؤمنينَ. وإنا، إنْ شاء اللهُ، بكمْ لاحقونَ "

اس کی دلیل ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبرستان میں آئے  اور فرمایا: "السلامُ عليكُمْ دارَ قومٍ مُؤمنينَ. وإنا، إنْ شاء اللهُ، بكمْ لاحقونَ "

یعنی: اے ایمان والی قوم کے گھرانے! تم سب پر سلامتی ہو اور ہم بھی ان شاء اللہ تمہیں ساتھ ملنے  والے ہیں۔(مسلم)

میت کے اولیااور اس کےقریبی رشتہ داروں  کو اس بات کا زیادہ حق بنتا ہے کہ وہ میت کو قبر میں اتاریں: ﴿ وَأُوْلُواْ الأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَى بِبَعْضٍ فِي كِتَابِ اللّهِ ﴾

ترجمہ:اور رشتے ناتے والے ان میں سے بعض بعض سے زیادہ نزدیک ہیں اللہ   کے حکم میں۔

سنت یہ ہے کہ  قبر کے پاؤں  کی جانب سے میت کو قبر میں داخل  کیا جائے،  میت کو دائیں پہلو قبلہ رخ  لٹایا جائے،  اور جو شخص اسے لحد میں رکھے وہ یہ دعاپڑھے:"بسم اللہ وعلى سنۃ رسول اللہ "      یا  :" بسم اللہ  وعلى ملۃ رسول اللہ"۔

ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: "نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب مردہ کو قبر میں داخل کرتے تو فرماتے: "بسم اللہ وعلى ملۃ رسول اللہ" ایک دوسری روایت میں ہے: "بسم اللہ وعلى سنۃ رسول اللہ" اس حدیث کو البانی نے صحیح کہا ہے۔

اسی طرح  قبر میں اتارنے کے بعد کفن کی گرہ کھولنا بھی سنت ہے ، اس سلسلے میں عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا ایک اثر آیا ہے، وہ فرماتے ہیں: "جب تم میت کو قبر میں داخل کردو تو گرہ کھول دو"۔

تدفین کے وقت تین لپ  مٹی ڈالنے والی حدیث کی سند  کو بعض اہل علم نے صحیح  اور بعض نے ضعیف قرار دیا ہے اور اس مسئلہ میں وسعت ہے۔

سنت یہ ہے کہ قبر کو زمین سے تھوڑا سا تقریبا ایک بالشت کے برابر بلند رکھا جائے ، اس طرح کہ وہ کوہان جیسا نمایاں ہو،  قبر پر کنکڑ  ڈال کر  پانی چھڑکنا بھی سنت ہے تاکہ مٹی بیٹھ جائے، قبر کے دونوں طرف کوئی چیز بطور علامت کے گاڑنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔تدفین کے بعد میت کے لیے  مغفرت اور ثابت قدمی کی دعا کرنا مسنون ہے، چنانچہ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ: نبی کریم ﷺ جب میت کو دفن کر کے فارغ ہو جاتے تو قبر پر رکتے اور فرماتے ” اپنے بھائی کے لیے  مغفرت اور ثابت قدمی کی دعا کرو  بے شک اب اس سے سوال کیا جائے گا ۔ “ اس حدیث کو ابوداود نے روایت  کیا ہے اور البانی نے صحیح کہا ہے۔

قبر پر بیٹھنا اور اس پر چلنا حرام ہے ، جیسا کہ صحیح مسلم کی حدیث ہے: "تم میں سے کوئی انگارے پر(اس طرح) بیٹھ جائے کہ وہ اس کے کپڑوں کو جلا کر اس کی جلد تک پہنچ جائے ،اس کے حق میں اس سے بہتر ہے کہ وہ کسی قبر پر بیٹھے۔"

میرے اسلامی بھائیو! جنازہ کا منظر پر سکون ،  خشوع    آمیز   اور لوگوں کے لیے باعث عبرت ہواکرتا ہے۔ جلیل القدر تابعی  قیس بن عباد فرماتے ہیں: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ جنازہ کے پاس آواز بلند کرنا مکروہ سمجھتے تھے۔

براء بن عازب کی روایت ہے، وہ فرماتے ہیں: "  ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک انصاری کے جنازے میں گئے۔ ہم قبر کے پاس پہنچے تو ابھی لحد تیار نہیں ہوئی تھی، تو رسول اللہ ﷺ بیٹھ گئے اور ہم بھی آپ ﷺ کے اردگرد بیٹھ گئے۔ گویا کہ ہمارے سروں پر پرندے ہوں (نہایت پر سکون اور خاموشی سے بیٹھے تھے۔)"۔

طیبی فرماتے ہیں: یہ اس بات کا کنایہ ہے کہ وہ خاموشی کے ساتھ  اپنا سر جھکائے ہوئے تھے، او ردائیں بائیں نہیں دیکھ رہے تھے۔

یعنی:  گویا ان میں سے ہر ایک کے سر پر   پرندہ بیٹھا ہو جسے وہ شکار کرنا چاہ رہا ہو اس لیے  ذرا بھی حرکت نہ کر رہا ہو۔

ہمارا مشاہدہ ہے کہ بعض جنازوں میں آوازیں بلند ہوتی ہیں، لوگ بہت زیادہ وعظ ونصیحت کرتے  نظر آتے ہیں بلکہ بعض دفعہ فون کی گھنٹیاں مسلسل بجتی رہتی ہیں۔ اور سب سے برا یہ کہ ہنسی مذاق کی آواز تک سنائی دیتی ہے۔

میت کے اہل خانہ کو  تعزیت کرنا بھی مسنون ہے ، تعزیت ہر جگہ جائز ہے، بازار میں، گھر میں ،مسجد میں  اور جائے عمل وغیر میں۔

یہ بھی جان رکھیں کہ تعزیت کی سنتوں میں سے یہ نہیں ہے کہ جس کی تعزیت کریں  اس کے سر کا بوسہ بھی  لیں، کیوں کہ مصافحہ اور بوسہ عام ملاقات  میں   ہوا کرتے ہیں ،  اگر عام لوگ صرف مصافحہ کرنے پر اکتفا کریں اور قریبی رشتہ دار ہی بوسہ لیں تو اس شخص کے لیے زیادہ آسانی ہوگی جس کی تعزیت کی جاتی ہے، بطور خاص ایسے حالات میں جبکہ تعزیت کرنے والوں کی کثرت ہو۔

صلى اللہ علیہ وسلم

از قلم:

فضیلۃ الشیخ حسام بن عبد العزیز الجبرین

مترجم:

سیف الرحمن تیمی

[email protected]

views 948 | Comments 0