المتعففون والمتسولون (أردو)
تركي بن عبدالله الميمان
تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، ہم اسی کی حمد بیان کرتے ہیں، اسی سے مدد مانگتے ہیں، اسی سے مغفرت طلب کرتے ہیں اور اسی کی طرف توبہ کرتے ہیں۔ ہم اپنے نفسوں کی شرارتوں اور اپنے اعمال کی برائیوں سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔ جسے اللہ ہدایت دے اسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا، اور جسے وہ گمراہ کر دے اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔
میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ اللہ ان پر، ان کے آل اور صحابہ پر کثرت سے سلامتی نازل فرمائے۔
حمد و ثناء کے بعد: پس اللہ سے ڈرو اور اس کی نگرانی اختیار کرو، کیونکہ تقویٰ بھلائی اور ثواب کا سبب ہے، اور برائی اور عذاب سے نجات کا ذریعہ ہے! اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَلَوْ أَنَّهُمْ آمَنُوا واتَّقَوْا لَمَثُوبَةٌ مِنْ عِنْدِ اللهِ خَيْرٌ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ﴾"اور اگر وہ ایمان لے آتے اور تقویٰ اختیار کرتے، تو یقیناً اللہ کے ہاں سے ملنے والا ثواب بہتر ہوتا، کاش وہ جانتے!" سورۃ البقرہ: 103
اللہ کے بندو: کچھ محتاج اور فقیر لوگ عجیب ہوتے ہیں؛ وہ اپنی ضرورت کو اسی طرح چھپاتے ہیں جیسے ہم میں سے کوئی اپنی ستر کو چھپاتا ہے! یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں سے سوال کرنے اور ان کے مال کا مطالبہ کرنے سے بچتے ہیں۔
اور متعفف (سوال سے بچنے والا) کے لیے اتنا ہی شرف کافی ہے کہ اللہ نے اس کی عفت کا تذکرہ کیا، جبکہ لوگ اس سے غافل ہوتے ہیں! اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿يَحْسَبُهُمُ الجاهِلُ أَغْنِياءَ مِنَ التَّعَفُّفِ تَعْرِفُهُمْ بِسِيماهُمْ لا يَسْئَلُونَ النَّاسَ إِلْحافاً﴾ "جاہل انہیں ان کے بچنے (عفت) کی وجہ سے مالدار سمجھتا ہے، تم ان کو ان کے چہروں سے پہچان سکتے ہو، وہ لوگوں سے چمٹ کر سوال نہیں کرتے!" سورۃ البقرہ: 273
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (لَيْسَ المسكينُ الذي تَرُدُّهُ التَّمْرَةُ والتَّمْرَتَانِ، والأَكْلَةُ والأَكْلَتَانِ، ولَكِنَّ المسكينَ: المتعفِّفُ الذي لا يَسْأَلُ الناسَ شيئًا، ولا يَفْطِنُونَ بِهِ فَيُعْطُوْنَه!)"مسکین وہ نہیں جو ایک یا دو کھجوروں، یا ایک یا دو لقموں سے لوٹا دیا جائے، بلکہ حقیقی مسکین وہ ہے جو سوال کرنے سے بچتا ہے، اور لوگ اسے (اس کی حالت نہ سمجھ کر) کچھ نہیں دیتے!" بخاری و مسلم
اور لوگوں کے مال سے بچنا ان کی محبت حاصل کرنے اور ان کی نفرت سے محفوظ رہنے کا ذریعہ ہے!رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (اِزْهَدْ فِيما في أَيْدِي الناسِ؛ يُحبَّكَ الناسُ) "لوگوں کے ہاتھوں میں جو کچھ ہے، اس سے بے رغبت ہو جاؤ، لوگ تم سے محبت کریں گے۔" ابن ماجہ
ابن عبد البرؒ نے کہا:(في هذا: نَهْيٌ عَنِ السُّؤَالِ، وأَمْرٌ بِالقَنَاعَةِ والصَّبْرِ)"اس حدیث میں سوال سے منع اور قناعت و صبر کا حکم دیا گیا ہے۔"
شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ نے فرمایا: (أَعْظَمُ مَا يَكُونُ العَبْدُ قَدْرًا وحُرْمَةً عِنْدَ الخَلْقِ: إذَا لَمْ يَحْتَجْ إلَيْهِم، ومَتَى احْتَجْتَ إلَيْهِمْ -ولَوْ في شَرْبَةِ مَاءٍ- نَقَصَ قَدْرُكَ عِنْدَهُمْ!) "جب بندہ لوگوں سے بے نیاز ہوتا ہے، تو ان کے ہاں اس کی عزت و حرمت زیادہ ہوتی ہے، اور جب وہ لوگوں کا محتاج بن جاتا ہے – خواہ پانی کے ایک گھونٹ کے لیے ہی کیوں نہ ہو – تو ان کے ہاں اس کی قدر گھٹ جاتی ہے!"
اور ایک بندے کے لیے نامناسب ہے کہ وہ بندوں سے سوال کرے، جبکہ اسے اپنے رب کے پاس اپنی ہر ضرورت پوری کرنے کا ذریعہ مل سکتا ہے! اللَّهُ يَغْضَبُ إِنْ تَرَكْتَ سُؤَالَهُ - وبَنِيُّ آدَمَ حِينَ يُسْأَلُ يَغْضَبُ "اللہ ناراض ہوتا ہے اگر تم اس سے سوال نہ کرو - اور بنی آدم (انسان) جب اس سے مانگا جائے تو وہ ناراض ہو جاتا ہے!"
متعفف ہونے کے فوائد میں سے یہ ہے کہ اس کا چہرہ ذلت و رسوائی سے محفوظ رہتا ہے!رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (لا تَزالُ المَسْأَلَةُ بأَحَدِكُمْ حتَّى يَلْقَى اللهَ، ولَيْسَ في وَجْهِهِ مُزْعَةُ لحْمٍ) "آدمی سوال کرتے کرتے اللہ سے اس حال میں ملے گا کہ اس کے چہرے پر گوشت کا کوئی ٹکڑا نہیں ہوگا!" مسلم
ابن القیمؒ نے کہا: (المَسأَلَةُ في الأَصلِ حَرَامٌ، وإِنَّمَا أُبِيحَتْ لِلْحَاجَةِ والضَّرُورَةِ؛ لِأَنَّهَا ظُلْمٌ في حَقِّ الرُّبُوبِيَّةِ، وفي حَقِّ المَسْؤولِ، وفي حَقِّ السَّائِلِ) "اصل میں سوال کرنا حرام ہے، مگر ضرورت اور حاجت کی بنا پر اس کی اجازت دی گئی ہے؛ کیونکہ یہ ربوبیت (اللہ کی قدرت) کے حق میں، سوال کیے جانے والے کے حق میں، اور سوال کرنے والے کے حق میں ظلم ہے!"
متعفف ہونے کا ایک اور فائدہ یہ ہے کہ انسان احسان جتلانے سے محفوظ رہتا ہے، اور اس کی ہمت بلند ہوتی ہے، کیونکہ جب وہ کسی سے مانگتا ہے تو وہ اس کا قیدی بن جاتا ہے!رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (اليَدُ العُلْيَا: خَيْرٌ مِنَ اليَدِ السُّفْلَى) "اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے!" بخاری و مسلم
ابن بطالؒ نے کہا: (وفِيهِ نَدْبٌ إلى التَّعَفُّفِ عَنِ المَسْأَلَةِ، وحَضٌّ على مَعَالِي الأُمُور)"اس حدیث میں سوال سے بچنے کی ترغیب ہے، اور بلند اخلاق و عزائم کی حوصلہ افزائی ہے۔"
ابن تیمیہؒ نے فرمایا: (كُلَّمَا قَوِيَ طَمَعُ العَبدِ في فَضْلِ اللهِ: قَوِيَتْ عُبُودِيَّتُهُ لَهُ، وحُرِّيَّتُهُ مِمَّا سِوَاهُ: كَمَا أَنَّ طَمَعَ العَبْدِ في المَخْلُوقِ يُوجِبُ عُبُودِيَّتَهُ لَهُ؛ كَمَا قِيلَ: "اسْتَغْنِ عَمَّنْ شِئْتَ تَكُنْ نَظِيرَهُ، وأَحْسِنْ إلى مَنْ شِئْت تَكُنْ أَمِيرَهُ؛ وَاحْتَجْ إلَى مَنْ شِئْتَ تَكُنْ أَسِيرَهُ") "جتنا زیادہ بندے کی امید اللہ کے فضل پر ہوگی، اتنا ہی وہ اللہ کی عبادت میں مضبوط ہوگا اور غیر اللہ سے آزاد ہوگا، اور جتنا زیادہ بندے کی امید مخلوق سے ہوگی، وہ اتنا ہی ان کا غلام بن جائے گا! جیسا کہ کہا گیا ہے:’جس سے بے نیاز ہو جاؤ، تم اس کے ہم مرتبہ بن جاؤ گے،جس پر احسان کرو، تم اس پر حکمران بن جاؤ گے،اور جس کے محتاج ہو جاؤ، تم اس کے قیدی بن جاؤ گے!'
متعفف ہونے کا ایک اور فائدہ یہ ہے کہ دنیا و آخرت میں مطلوبہ نعمت حاصل ہوتی ہے!رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (مَنْ يَتَقَبَّلُ لي بِوَاحِدَةٍ، وأَتَقَبَّلُ لَهُ بالجنَّةِ؟) فقال ثوبانُ t: (أنا)، قال ﷺ: (لا تَسْأَلِ النَّاسَ شيئًا)؛ فَكانَ ثَوبانُ يَقَعُ سَوْطُهُ وهُوَ رَاكِبٌ، فلا يقولُ لِأَحَدٍ نَاوِلْنِيهِ، حتَّى يَنْزِلَ فَيَأْخُذَهُ!"جو مجھ سے ایک بات کی ضمانت دے، میں اس کے لیے جنت کی ضمانت دیتا ہوں؟"ثوبانؓ نے عرض کیا: "میں دیتا ہوں!"آپ ﷺ نے فرمایا: "کسی سے کچھ نہ مانگو!"چنانچہ ثوبانؓ کا حال یہ تھا کہ اگر ان کا کوڑا بھی گرتا، تو کسی سے یہ نہ کہتے کہ اٹھا دو، بلکہ خود اتر کر اٹھاتے۔
متعفف ہونے میں مدد دینے والے اسباب میں سے صبر اور قناعت ہے۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (مَنْ يَسْتَعْفِفْ يُعِفَّهُ اللهُ، ومَنْ يَسْتَغْنِ يُغْنِهِ اللهُ، ومَنْ يَتَصَبَّرْ يُصَبِّرْهُ اللهُ) "جو عفت چاہے گا، اللہ اسے عفیف بنا دے گا، جو بے نیازی چاہے گا، اللہ اسے غنی بنا دے گا، اور جو صبر کرے گا، اللہ اسے صبر عطا کرے گا!"
سوال سے بچنے میں مدد دینے والے اسباب میں جدوجہد اور محنت بھی شامل ہے۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (والذي نَفْسِي بِيَدِهِ؛ لَأَنْ يَأْخُذَ أَحَدُكُمْ حَبْلَهُ، فَيَحْتَطِبَ على ظَهْرِهِ؛ خَيْرٌ لَهُ مِن أَنْ يَأْتِيَ رَجُلًا فَيَسْأَلَهُ) "اللہ کی قسم، اگر تم میں سے کوئی اپنی پیٹھ پر لکڑی کا گٹھا اٹھائے اور اسے بیچے، تو یہ اس کے لیے بہتر ہے کہ وہ کسی سے سوال کرے!"
ابن حجرؒ نے کہا: (فِيهِ الحَضُّ على التَّعَفُّفِ عَنِ المَسْأَلَةِ والتَّنَزُّهِ عَنْهَا، ولَوِ امْتَهَنَ المَرْءُ نَفْسَهُ في طَلَبِ الرِّزْقِ، ولَوْلَا قُبْحُ المَسْأَلَةِ؛ لَمْ يُفَضَّلْ ذَلِكَ عَلَيْهَا) " اس میں سوال سے بچنے اور اس سے پرہیز کرنے کی ترغیب دی گئی ہے، چاہے انسان روزی کمانے میں مشقت ہی کیوں نہ اٹھائے۔ اور اگر سوال کرنا ناپسندیدہ نہ ہوتا تو اس پر محنت و مشقت کو فضیلت نہ دی جاتی۔!"
سوال سے بچنے کے اسباب میں سے یہ بھی ہے کہ انسان لوگوں کی حقیقت کو پہچانے، کیونکہ جس سے تم سوال کرتے ہو، وہ بھی تمہاری طرح سوالی ہی ہے!اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿يَا أَيُّهَا النَّاسُ أَنْتُمُ الفُقَرَاءُ إلى اللهِ واللهُ هُوَ الْغَنِيُّ الحَمِيدُ﴾ "اے لوگو! تم سب اللہ کے محتاج ہو، اور اللہ ہی بے نیاز، قابلِ حمد و ثنا ہے!" سورۃ فاطر: 15
متعفف ہونے میں معاون چیزوں میں سے دعا ہے۔رسول اللہ ﷺ کی دعاؤں میں یہ الفاظ تھے: (اللَّهُمَّ إنِّي أَسْأَلُكَ الهُدَى وَالتُّقَى، والعَفَافَ والغِنَى) "اے اللہ! میں تجھ سے ہدایت، تقویٰ، عفت اور بے نیازی کا سوال کرتا ہوں!"
امام نوویؒ نے کہا: (العَفَافُ: هُوَ التَّنَزُّهُ عَمَّا لا يُبَاح. والغِنَى هُنَا: الِاسْتِغْنَاء عَنِ النَّاسِ، وعَمَّا في أَيْدِيهِم)"عفت سے مراد وہ چیزوں سے بچنا ہے جو جائز نہیں، اور غنا (بے نیازی) سے مراد لوگوں اور ان کے مال سے بے نیاز ہونا ہے!"
تو بے شک مسلمان کو چاہیے کہ وہ حقیقی مستحق اور سچے محتاجوں کی تلاش کرے۔ مستقل فتویٰ کمیٹی کے علما نے فرمایا: (إذا غَلَبَ على الظَنِّ أَنَّ السائلَ مِنْ أَهْلِ الزكاة: أُعْطِيَ مِنْهَا، وإِلَّا فَلَا؛ لَكِنْ إذا ادَّعَى السائلُ الفقرَ، وأنتَ لا تَعْلَمُ حالَهُ؛ فلا بأسَ بِإِعْطَائِهِ مِنَ الزكاةِ، إِلَّا أنْ يكونَ قَوِيًّا؛ فَقُلْ لَهُ كما قال ﷺ لِمَنْ سَأَلَاهُ الزكاةَ، وقَدْ رَآهُمَا جَلْدَيْنِ -أي نَشِيْطَيْنِ قَوِيَّيْنِ-: "إنْ شِئْتُمَا أَعْطَيْتُكُمَا؛ ولا حَظَّ فيها لِغَنِيٍّ، ولا لِقَوِيٍّ مُكْتَسِب")"اگر غالب گمان ہو کہ سائل زکاۃ کا مستحق ہے، تو اسے زکاۃ دی جائے، ورنہ نہیں۔ لیکن اگر سائل فقر (غربت) کا دعویٰ کرے اور آپ کو اس کی حالت معلوم نہ ہو، تو زکاۃ دینے میں کوئی حرج نہیں، سوائے اس کے کہ جو طاقتور ہو، تو اس سے وہی کہو جو نبی ﷺ نے ان دو آدمیوں سے فرمایا، جنہوں نے آپ ﷺ سے زکاۃ کا سوال کیا، حالانکہ آپ ﷺ نے انہیں تندرست اور طاقتور پایا— یعنی چست و توانا— تو فرمایا: ’اگر تم دونوں چاہو تو میں تمہیں دے دوں، مگر زکاۃ میں کسی دولت مند اور کسی طاقتور کمائی کرنے والے کا کوئی حصہ نہیں۔‘"
اور لوگوں سے بغیر ضرورت کے سوال کرنا نامناسب ذلت ہے؛ کیونکہ ہر بھلائی اللہ کے ہاتھ میں ہے، بندے کے ہاتھ میں نہیں۔ اور بھلائی کی کنجی دعا اور اللہ کے سامنے عاجزی و انکساری ہے، پس اپنی حاجت اسی خالق سے مانگو جو اسے پورا کرنے والا ہے، اور اس کے سوا کوئی نہیں۔
ابن رجب رحمہ اللہ نے فرمایا: (اِعْلَمْ أَنَّ سُؤَالَ اللهِ دُوْنَ خَلْقِه؛ هُوَ المُتَعيِّنُ عَقْلًا وشَرْعًا؛ وذَلِكَ أَنَّ سُؤَالَ اللهِ عُبُوْدِيَّةٌ عَظِيْمَة؛ لِأَنَّهَا إِظْهَارٌ لِلْاِفْتِقَارِ إِلَيْهِ، وفي سُؤَالِ المَخْلُوْقِ ظُلْم؛ لِأَنَّهُ عَاجِزٌ عَنْ جَلْبِ النَّفْعِ لِنَفْسِهِ؛ فَكَيْفَ يَقْدِرُ على ذَلِكَ لِغَيْرِه؟!)"جان لو کہ اللہ سے مانگنا اور اس کے بندوں سے نہ مانگنا، عقلی و شرعی طور پر لازم ہے، کیونکہ اللہ سے سوال کرنا ایک عظیم عبادت ہے، کیونکہ یہ اس کے سامنے عاجزی اور محتاجی کا اظہار ہے۔ جبکہ مخلوق سے سوال کرنا ظلم ہے، کیونکہ وہ اپنی ذات کے لیے بھی نفع حاصل کرنے سے عاجز ہے، تو وہ کسی اور کے لیے نفع کیسے حاصل کر سکتا ہے؟!"
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿مَا يَفْتَحِ اللهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَهَا وَمَا يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ مِنْ بَعْدِهِ وَهُوَ الْعَزِيزُ الحَكِيمُ﴾"اللہ جو بھی رحمت لوگوں کے لیے کھول دے، تو اسے کوئی روکنے والا نہیں، اور جو وہ روک لے، تو اس کے بعد کوئی اسے بھیجنے والا نہیں، اور وہی زبردست، حکمت والا ہے۔" فاطر: 2
اے اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو عزت عطا فرما، اور شرک اور مشرکین کو ذلت نصیب فرما۔
اے اللہ! اپنے خلفاء راشدین، ہدایت یافتہ اماموں یعنی ابو بکر، عمر، عثمان اور علی سے راضی ہو جا، اور باقی صحابہ کرام، تابعین اور ان کے نیک پیروی کرنے والوں سے بھی قیامت کے دن تک راضی ہو جا۔
اے اللہ! غمزدوں کی غمخواری فرما، اور مصیبت زدوں کی مشکلات دور فرما۔
اے اللہ! ہمارے وطنوں کو امن عطا فرما، اور ہمارے ائمہ اور حکمرانوں کو درست راہ دکھا، اور (ہمارے حکمران اور ان کے ولی عہد) کو اپنی پسندیدہ اور رضا کی راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرما، اور ان کی رہنمائی تقویٰ اور نیکی کی طرف فرما۔
اے اللہ! تو ہی اللہ ہے، تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو غنی ہے اور ہم فقیر ہیں، ہم پر بارش نازل فرما اور ہمیں مایوس لوگوں میں سے نہ بنا۔ اے اللہ! ہم تجھ سے بخشش مانگتے ہیں، بے شک تو بڑا بخشنے والا ہے، تو ہم پر آسمان سے موسلادھار بارش نازل فرما۔
اللہ کے بندو: إِنَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالعَدْلِ وَالإحْسَانِ وَإِيتَآءِ ذِي القُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الفَحْشَاءِ وَالمُنْكَرِ وَالبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ ﴿بیشک اللہ انصاف کا، احسان کا، اور قرابت داروں کو دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برائی اور ظلم سے منع کرتا ہے، وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو﴾۔
پس اللہ کا ذکر کرو وہ تمہیں یاد رکھے گا، اور اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرو وہ تمہیں زیادہ دے گا وَلَذِكْرُ اللهِ أَكْبَرُ وَاللهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُون ﴿اور اللہ کا ذکر سب سے بڑا ہے اور اللہ جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو﴾۔
· مترجم: محمد زبیر کلیم ( سابق مدرس جامعہ سلفیہ ،فیصل آباد، پاکستان)
· داعی ومدرس جمعیت ھاد
· جالیات عنیزہ۔ سعودی عرب
***