🌟الثبات على الطاعات🌟 أوردو🇵🇰

تركي بن عبدالله الميمان
1446/10/11 - 2025/04/09 20:02PM

            بے شک تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، ہم اس کی حمد بیان کرتے ہیں، اس سے مدد طلب کرتے ہیں، اس سے بخشش مانگتے ہیں اور اس کی طرف توبہ کرتے ہیں۔ جسے اللہ ہدایت دے، اسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا، اور جسے وہ گمراہ کر دے، اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا۔

            میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں۔ اللہ ان پر، ان کے اہلِ بیت، صحابہ کرام اور قیامت تک ان کے پیروکاروں پر درود و سلام اور برکت نازل فرمائے۔

            حمد وثناء کے بعد! پس اللہ سے ڈرو اور اس کا تقویٰ اختیار کرو اور اس کی نگرانی میں رہو (یعنی ہر وقت اللہ کو اپنے اوپر نگران سمجھو)، کیونکہ تقویٰ خیر اور نیکی اور ثواب کا سبب ہے، اور برائی اور عذاب سے نجات کا ذریعہ ہے؛اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَلَوْ أَنَّهُمْ آمَنُوا وَاتَّقَوا لَمَثُوبَةٌ مِنْ عِنْدِ اللهِ خَيْرٌ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ﴾"اور اگر وہ ایمان لاتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو اللہ کے ہاں سے ملنے والا ثواب ضرور بہتر ہوتا، کاش کہ وہ جان لیتے۔"سورة البقرة، آیت 103

            اے اللہ کے بندو!شریعت کے  مقاصد میں سے یہ بھی ہے کہ عبادت پر ہمیشگی اختیار کی جائے اگرچہ وہ عبادت تھوڑی ہی کیوں نہ ہو،

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿الَّذِينَ هُمْ عَلَى صَلاتِهِمْ دَائِمُون﴾"جو اپنی نماز پر ہمیشگی اختیار کرتے ہیں"سورة المعارج، آیت 23

            اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (أَحَبُّ العَمَلِ إلى اللهِ: ما دَاوَمَ عَلَيهِ صَاحِبُهُ وإِنْ قَلَّ)"اللہ کے نزدیک سب سے پسندیدہ عمل وہ ہے جس پر اس کا کرنے والا ہمیشگی اختیار کرے اگرچہ وہ عمل تھوڑا ہی ہو۔" رواه البخاري (43)، ومسلم (785)

             پابندی اور تسلسل نیک لوگوں کی صفات میں سے ہے۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل کیسا تھا؟تو انہوں نے فرمایا:(كَانَ عَمَلُهُ دِيمَةً) "ان کا عمل مسلسل رہتا تھا (یعنی ہمیشہ کرتے تھے) رواه البخاري (6466)، ومسلم (783)

             ہمیشہ کے لیے عبادت کو چھوڑ دینا (بالکل ترک کر دینا) مذموم (یعنی برا عمل) ہے۔اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے بارے میں فرمایا جنہوں نے رہبانیت اختیار کی: ﴿فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَايَتِهَا﴾"پھر انہوں نے اس کی جیسی حفاظت کرنی چاہیے تھی، ویسی حفاظت نہیں کی۔"
سورة الحدید، آیت 27

            امام شاطبی رحمہ اللہ نے کہا: (إِنَّ عَدَمَ مُرَاعَاتِهِمْ لَهَا؛ هُوَ تَرْكُهَا بَعدَ الدُّخُولِ فِيهَا)"انہوں نے اس (رہبانیت) کی حفاظت نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس میں داخل ہونے کے بعد اسے چھوڑ دینا۔" الموافقات (2/405).

            اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (يَا عَبْدَ اللهِ، لا تَكُنْ مِثْلَ فُلاَنٍ؛ كَانَ يَقُومُ اللَّيْلَ، فَتَرَكَ قِيَامَ اللَّيلِ)"اے عبداللہ! فلاں کی طرح نہ بن جانا؛ وہ رات کو قیام کرتا تھا، پھر اس نے قیام اللیل کو چھوڑ دیا۔" رواه البخاري (1152)

             وقتی طور پر عبادت کا رک جانا، تو اس کا کرنے والا معذور ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: : (إِنَّ لِكُلِّ شَيْءٍ شِرَّةٌ، ولِكُلِّ شِرَّةٍ فَتْرَةٌ، فَإِنْ كانَ صَاحِبُهَا سَدَّدَ وقَارَبَ؛ فَارْجُوهُ)"بیشک ہر چیز کے لیے ایک وقت جوش و جذبہ ہوتا ہے، اور ہر جوش و جذبہ کے بعد ایک کمزوری (سستی) آتی ہے، پس اگر اس کا صاحب درستگی اور میانہ روی کے ساتھ عمل کر رہا ہو، تو اس کے لیے امید رکھو۔"رواه الترمذي (2453)

            علماء نے کہا: (الشِرَّة: الحِرْصُ على الشَّيْءِ، والنَّشَاطُ فِيهِ. والفَتْرَة: أي الوَهَنُ والضَعْف. والمعنَى: أَنَّ العَابِدَ يُبَالِغُ في العِبَادَةِ في أَوَّلِ أَمْرِهِ، وكُلُّ مُبَالِغٍ؛ يَفْتُرُ و  لَوْ بَعْدَ حِينٍ)"شِرَّة کا معنیٰ ہے: کسی چیز میں رغبت اور سرگرمی۔اور فَتْرَة کا مطلب ہے: سستی اور کمزوری۔اور معنی یہ ہے کہ عبادت کرنے والا شروع میں عبادت میں بہت محنت کرتا ہے، اور ہر محنت کرنے والا آخرکار تھک جاتا ہے، اگرچہ کچھ وقت بعد ہی کیوں نہ ہو۔" مرقاة المفاتيح، علي القاري (8/3336).

             میانہ روی اور اعتدال انسان کے اعمال کو ثابت قدم بناتے ہیں۔اہلِ علم نے کہا: (مَنِ اقْتَصَدَ في مُدَاوَمَتِهِ، واحْتَرَزَ مِنَ الإِفْرَاطِ والتَّفْرِيطِ؛ فَيُرْجَى أَنْ يَكُونَ مِنَ الفَائِزِينَ، فَإِنَّ مَنْ سَلَكَ الطَّرِيقَ المُتَوَسِّطَ؛ يَقْدِرُ على مُدَاوَمَتِهِ)"جس نے عبادت میں میانہ روی اختیار کی اور زیادتی اور کوتاہی سے بچا، تو امید ہے کہ وہ کامیاب لوگوں میں سے ہو گا، کیونکہ جو درمیانی راستہ اختیار کرتا ہے وہی اس پر ہمیشگی اختیار کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔" مرقاة المفاتيح، علي القاري (8/3336)

             جب کبھی آپ  اپنی طرف سے نشاط (چستی اور عبادت کا شوق) دیکھو؛ تو نرمی کے ساتھ آگے بڑھو، اور جب کبھی آپ سستی (اور کمزوری) دیکھو؛ تو اعتدال کی طرف لوٹ آؤ۔ اور تھوڑا مگر ہمیشہ رہنے والا عمل، بہت زیادہ مگر ٹوٹ جانے والے عمل سے بہتر ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: (خُذُوا مِنَ الأَعْمَالِ ما تُطِيقُونَ)’’لوگوں! اتنا عمل کرو جتنا تم کر سکتے ہو۔‘‘رواه البخاري (5861)، ومسلم (782)

            امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: (أَي: تُطِيقُونَ الدَّوَامَ عَلَيهِ بِلَا ضَرَر، وفِيهِ دَلِيلٌ على الحَثِّ على الاِقتِصَادِ في العِبَادَةِ، واجْتِنَابِ التَّعَمُّقِ. والقَلِيلُ الدَّائِمُ، خَيرٌ مِنَ الكَثِيرِ المُنْقَطِعِ؛ لِأَنَّ بِدَوَامِ القَلِيلِ؛ تَدُومُ الطَّاعَةُ، بِحَيثُ يَزِيدُ على الكَثِيرِ المُنْقَطِعِ، أَضْعَافًا كَثِيرَةً!)’’یعنی اتنا عمل کرو جس پر تم بغیر نقصان اور تکلیف کے ہمیشگی اختیار کر سکو، اور اس میں دلیل ہے عبادت میں اعتدال اختیار کرنے کی ترغیب پر، اور حد سے تجاوز کرنے سے بچنے پر۔ اور تھوڑا مگر ہمیشہ رہنے والا عمل، زیادہ مگر ٹوٹ جانے والے عمل سے بہتر ہے۔ کیونکہ تھوڑے عمل کے دوام کے ساتھ اطاعت بھی ہمیشہ رہتی ہے، یہاں تک کہ وہ عمل کثیر مگر منقطع (چھوٹ جانے والے) عمل سے کئی گنا زیادہ ہو جاتا ہے۔‘‘شرح مسلم (6/70-71)
             سختی اور تکلف (بڑھ چڑھ کر عمل کرنا)؛ یہ عمل کے چھوڑنے اور پیچھے رہ جانے کا سبب بنتے ہیں۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا: (سَدِّدُوا وقَارِبُوا، واغْدُوا ورُوحُوا، وشَيْءٌ مِنَ الدُّلجَةِ، والقَصْدَ القَصْدَ تَبْلُغُوا)’’سیدھے رہو اور قریب قریب عمل کرو، اور صبح و شام عبادت کرو، اور رات کے کسی حصے میں بھی عبادت کرو، اور اعتدال اختیار کرو، اعتدال اختیار کرو، تم منزل مقصود تک پہنچ جاؤ گے۔‘‘ رواه البخاري (39)

            علامہ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: (سَدِّدُوا: أي اقْصُدُوا بِعَمَلِكُمُ الصوابَ. وقَارِبُوا: أَي لا تُجهِدُوا أَنفُسَكُم في العِبَادَةِ؛ لِئَلَّا يُفْضِيَ بِكُم ذلك إلى المَلَالِ؛ فَتَتْرُكُوا العَمَل. "واغْدُوا ورُوْحُوا".  الغُدُو: السَّيْرُ مِنْ أَوَّلِ النهارِ. والرَّوَاح: السَّيْرُ مِنْ نِصْفِ النهار. والدُّلْجـَة: سَيْرُ اللَّيل. وفيهِ: الحَثُّ على الرِّفْقِ في العِبَادَةِ. وعَبَّرَ بِمَا يَدُلُّ على السَّيْرِ؛ لِأَنَّ العَابِدَ كالسَّائِرِ إلى مَحَلِّ إِقَامَتِهِ -وهُوَ الجَنَّة-. والقَصْدَ القَصْدَ: أَيِ الزَمُوا الطرِيقَ الوَسَط)’’سددوا: یعنی اپنے عمل کو درست کرو۔ وقاربوا: یعنی عبادت میں اپنے آپ کو مشقت میں نہ ڈالو تاکہ تمہیں اکتاہٹ لاحق ہو اور تم عمل چھوڑ بیٹھو۔ " واغْدُوا ورُوْحُوا ": الغُدُوسے مراد صبح کے وقت سفر ہے، اور الرَّوَاح سے مراد دن کے درمیان کا سفر ہے، اور الدُّلْجـَةرات کا سفر ہے۔اس میں عبادت میں نرمی اور سہولت کی ترغیب ہے۔اور سفر کے الفاظ اس لیے استعمال کیے کیونکہ عابد گویا جنت، اپنے ٹھکانے کی طرف سفر کر رہا ہے۔ والقَصْدَ القَصْدَ: یعنی درمیانہ راستہ اختیار کرو۔‘‘ فتح الباري (11/297)

             نشاط (چستی) کے بعد سستی آنا ایک ضروری اور لازمی امر ہے، اس سے بچنا ممکن نہیں۔لہذا جسے اس کی سستی کسی فرض عبادت سے نہ نکالے، اور نہ اسے کسی حرام کام میں داخل کرے = تو امید کی جاتی ہے کہ وہ پہلے سے بہتر حالت میں لوٹ آئے گا۔حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: (إِنَّ لِهَذِهِ القُلُوبِ إِقْبَالًا وإِدْبَارًا؛ فَإِذَا أَقْبَلَتْ فَخُذُوهَا بِالنَّوَافِلِ، وإِنْ أَدْبَرَتْ فَأَلْزِمُوهَا الفَرَائِض)’’بیشک ان دلوں کے لیے کبھی رغبت (عبادت کی طرف جھکاؤ) اور کبھی بےرغبتی (دور ہو جانا) ہوتی ہے، جب دلوں میں رغبت پیدا ہو؛ تو نفل عبادت سے فائدہ اٹھاؤ، اور جب وہ پیچھے ہٹ جائیں؛ تو انہیں فرض عبادت پر جماؤ۔‘‘ مدارج السالكين، ابن القيم (3/122)

             عبادت کے بعد سستی آ جانا (یعنی دل کی کمزوری یا عبادت میں کمی واقع ہونا) — اس میں بہت سی حکمتیں ہیں جن کی تفصیل کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: (وفي هذه الفَتَرَاتِ الَّتِي تَعْرِضُ لِلسَّالِكِينَ: يَتَبَيَّنُ الصَّادِقُ مِنَ الكَاذِبِ؛ فالكَاذِبُ: يَنْقَلِبُ على عَقِبَيْهِ، ويَعُودُ إلى طَبِيعَتِهِ وهَوَاهُ! والصادِقُ: يَنْتَظِرُ الفَرَجَ، ولَا يَيْأَسُ مِنْ رَوْحِ اللهِ، ويُلْقِي نَفْسَهُ بِالبابِ طَرِيحًا ذَلِيلًا: كالإِنَاءِ الفَارِغِ؛ فإذا رَأَيتَ اللهَ أَقَامَكَ في هذا المَقَامِ، فَاعْلَم أَنَّهُ يُرِيدُ أَنْ يَرْحَمَكَ ويَمْلَأَ إِنَاءَكَ)"اور یہ سستی اور کمزوری کے اوقات، جو اللہ کے راستے پر چلنے والوں پر آتے ہیں، ان کے ذریعے سچا اور جھوٹا الگ ہو جاتا ہے۔
پس جھوٹا انسان (ان اوقات میں) اپنی ایڑیوں کے بل پلٹ جاتا ہے اور اپنی اصل طبیعت اور خواہشات کی طرف لوٹ جاتا ہے۔اور سچا انسان (ان اوقات میں) اللہ کی رحمت کا انتظار کرتا ہے، اور اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہوتا، اور اپنے آپ کو اللہ کے دروازے پر گرا دیتا ہے، عاجزی اور انکساری کے ساتھ —جیسے خالی برتن ہوتا ہے —پس اگر تم دیکھو کہ اللہ نے تمہیں اس حالت میں قائم رکھا ہے، تو جان لو کہ وہ تم پر رحم فرمانا چاہتا ہے، اور تمہارے دل کے برتن کو (اپنی رحمت سے) بھر دینا چاہتا ہے۔" مدارج السالكين (3/122)

            تھوڑے تھوڑے قیام اللیل(یعنی رات کی نماز) پر مداومت اختیار کرنا اس سے بہتر ہے کہ آدمی زیادہ پڑھے مگر اس پر پابندی نہ کرے (یعنی کبھی پڑھے اور کبھی چھوڑ دے)۔

            شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:(اسْتَحَبَّ الأَئِمَّةُ أَنْ يَكُونَ لِلرَّجُلِ عَدَدٌ مِنَ الرَّكَعَاتِ، يَقُومُ بِهَا مِنَ اللَّيلِ لا يَتْرُكُهَا؛ فَإِنْ نَشِطَ أَطَالَهَا، وإِنْ كَسِلَ خَفَّفَهَا، وإِذَا نَامَ عَنْهَا صَلَّى بَدَلَهَا مِنَ النهَار)"ائمہ نے پسند فرمایا ہے کہ ہر آدمی کے لئے رات کی نماز میں کچھ رکعات مقرر ہوں، جنہیں وہ پابندی کے ساتھ ادا کرے اور کبھی ترک نہ کرے۔ پس جب وہ چست ہو تو ان رکعات کو لمبا کرے، اور جب سستی ہو تو ان کو ہلکا کرے،اور اگر کسی رات نیند کی وجہ سے رہ جائے تو دن میں ان کی قضاء کرے۔" مجموع الفتاوى، ابن تيمية (22/283)
            ابن قیم رحمہ اللہ نے فرمایا: والمُدَاوَمَةُ على القَلِيْلِ،يَحْمِيْكَ مِنَ التَّخَلُّفِ الطَّوِيْل؛ فَالعَبْدُ لا يَزَالُ في التَّقَدُّمِ أو التَّأَخُّرِ، ولا وُقُوْفَ في الطَّرِيقِ الْبَتَّة! " تھوڑے عمل پر پابندی اختیار کرنا انسان کو لمبی غیر حاضری (یعنی عبادت سے دوری) سے بچا لیتا ہے۔کیونکہ بندہ ہمیشہ یا تو آگے بڑھ رہا ہوتا ہے یا پیچھے ہٹ رہا ہوتا ہے،اور اللہ کے راستے میں رکنا بالکل نہیں ہوتا"۔ الفوائد، ابن القيم (193)

            اللہ تعالیٰ نے فرمایا:﴿لِمَنْ شَاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَتَقَدَّمَ أَوْ يَتَأَخَّرَ﴾"تم میں سے جو چاہے آگے بڑھے یا پیچھے ہٹے۔"سورۃ المدثر، آیت 37

             نوافل (نفلی عبادات) کی پابندی کرنا فرائض (لازمی عبادات) کی حفاظت کا حصار (یعنی دیوار) ہے، اور ان کی کمی کو پورا کرنے کا ذریعہ ہے۔پس نیکی کے عمل کو ہمیشہ کرتے رہو اگرچہ وہ کم ہی کیوں نہ ہو،اور برائی کے کام سے بچو اگرچہ وہ معمولی کیوں نہ ہو!اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ* وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ﴾"پس جس نے ذرہ برابر نیکی کی، وہ اسے دیکھے گا۔
اور جس نے ذرہ برابر برائی کی، وہ اسے دیکھے گا۔"سورۃ الزلزال، آیت 7-8

            اے اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو عزت عطا فرما، اور شرک اور مشرکین کو ذلت نصیب فرما۔

اے اللہ! اپنے خلفاء راشدین، ہدایت یافتہ اماموں یعنی ابو بکر، عمر، عثمان اور علی سے راضی ہو جا، اور باقی صحابہ کرام، تابعین اور ان کے نیک پیروی کرنے والوں سے بھی قیامت کے دن تک راضی ہو جا۔
اے اللہ! غمزدوں کی غمخواری فرما، اور مصیبت زدوں کی مشکلات دور فرما۔
اے اللہ! ہمارے وطنوں کو امن عطا فرما، اور ہمارے ائمہ اور حکمرانوں کو درست راہ دکھا، اور (ہمارے حکمران اور ان کے ولی عہد) کو اپنی پسندیدہ اور رضا کی راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرما، اور ان کی رہنمائی تقویٰ اور نیکی کی طرف فرما۔
اے اللہ! تو ہی اللہ ہے، تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو غنی ہے اور ہم فقیر ہیں، ہم پر بارش نازل فرما اور ہمیں مایوس لوگوں میں سے نہ بنا۔ اے اللہ! ہم تجھ سے بخشش مانگتے ہیں، بے شک تو بڑا بخشنے والا ہے، تو ہم پر آسمان سے موسلادھار بارش نازل فرما۔
اللہ کے بندو: إِنَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالعَدْلِ وَالإحْسَانِ وَإِيتَآءِ ذِي القُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الفَحْشَاءِ وَالمُنْكَرِ وَالبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ ﴿بیشک اللہ انصاف کا، احسان کا، اور قرابت داروں کو دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برائی اور ظلم سے منع کرتا ہے، وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو﴾۔
پس اللہ کا ذکر کرو وہ تمہیں یاد رکھے گا، اور اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرو وہ تمہیں زیادہ دے گا وَلَذِكْرُ اللهِ أَكْبَرُ وَاللهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُون ﴿اور اللہ کا ذکر سب سے بڑا ہے اور اللہ جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو﴾۔
·         مترجم: محمد زبیر کلیم

·         ( سابق مدرس جامعہ سلفیہ ،فیصل آباد، پاکستان)

·           داعی ومدرس جمعیت ھاد، جالیات عنیزہ۔

·          سعودی عرب

Attachments

1744218080_الثبات على الطاعات - أردو.pdf

1744218118_كتيب -الثبات على الطاعات- أردو.pdf

1744218118_الثبات على الطاعات - أردو.docx

views 34 | Comments 0