🌟أمنيات الأموات🌟أوردو🇵🇰
تركي بن عبدالله الميمان
پہلا خطبہ:
بیشک تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، ہم اس کی حمد بیان کرتے ہیں، اس سے مدد مانگتے ہیں، اس سے بخشش طلب کرتے ہیں اور اس کی طرف توبہ کرتے ہیں۔ جسے اللہ ہدایت دے، اسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا، اور جسے وہ گمراہ کر دے، اس کے لیے کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں۔
حمد و ثناء کے بعد:
میں آپ سب کو اور اپنے آپ کو اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے کی نصیحت کرتا ہوں۔ یہ نیک لوگوں کا شعار ہے، خوف زدہ لوگوں کے لیے امن ہے، کامیابی کا ذریعہ ہے اور فلاح کا دروازہ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿أْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا وَاتَّقُوا اللهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ﴾
"گھروں میں ان کے دروازوں سے آیا کرو اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو تاکہ تم فلاح پا سکو۔"سورہ بقرہ، آیت 189
اللہ کے بندو:
ہر انسان کے لیے اس دنیا میں کچھ خواہشات ہوتی ہیں، جن کو وہ پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے اور کچھ اہداف ہوتے ہیں، جن کے حصول میں محنت کرتا ہے۔ لیکن لوگوں کی ایک جماعت ایسی بھی ہے جن کی اس دنیا میں زندگی ختم ہو چکی ہے، انہوں نے دنیا کو چھوڑ دیا اور آخرت کو دیکھ لیا۔ وہ دنیا میں لوگوں کے درمیان تھے، اب وہ زمین کے نیچے ہیں۔ آؤ، ہم مردوں کی خواہشات کو جانیں!
اے مسلمانوں:
مردوں کی سب سے بڑی خواہش (یہ ہے کہ دنیا میں واپس آ جائیں)۔ نیک لوگ مزید نیکیوں کی آرزو رکھتے ہیں اور کوتاہیکرنے والے گناہوں سے توبہ کرنے کی آرزو کرتے ہیں، مگر افسوس در افسوس! اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:﴿وَلَيْسَتِ التَّوْبَةُ لِلَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئَاتِ حَتَّى إِذَا حَضَرَ أَحَدَهُمُ المَوْتُ قَالَ إِنِّي تُبْتُ الآنَ﴾"اور توبہ ان لوگوں کے لیے نہیں جو برے کام کرتے ہیں، یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کے پاس موت آتی ہے تو وہ کہتا ہے کہ اب میں توبہ کرتا ہوں۔"سورہ النساء، آیت 18
ابراہیم تیمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:( میں نے اپنے آپ کو جہنم میں تصور کیا، زقوم کا پھل کھا رہا ہوں اور پیپ پی رہا ہوں)، تو میں نے اپنے نفس سے کہا: (اے نفس، کیا چیز چاہتی ہے؟) تو اس نے کہا: (دنیا میں لوٹ کر ایسا عمل کرنا جس سے میں اِس عذاب سے بچ سکوں!)۔ میں نے کہا: (تو تم دنیا میں ہو اور تمہاری یہ خواہش پوری ہو سکتی ہے، پس عمل کرو!)۔محاسبة النفس، ابن أبي الدنيا (26)، الزهد، الإمام أحمد (2106)، الزهد الكبير، البيهقي (392)
نیک لوگوں کی خواہشات میں سے ایک یہ بھی ہے:
جب ان کو قبر میں داخل کیا جاتا ہے اور وہ اپنے جنتی مقام کو دیکھتے ہیں تو وہ چاہتے ہیں کہ اپنی قوم اور اہل خانہ کو اس کے بارے میں بتائیں۔ اللہ تعالیٰ نے ایک نیک شخص کے بارے میں فرمایا: ﴿قِيلَ ادْخُلِ الجَنَّةَ قَالَ يَا لَيْتَ قَوْمِي يَعْلَمُونَ * بِمَا غَفَرَ لِي رَبِّي وجَعَلَنِي مِنَ المُكْرَمِينَ﴾"کہا گیا: جنت میں داخل ہو جا۔ تو اس نے کہا: کاش! میری قوم جانتی کہ میرے رب نے مجھے معاف کر دیا اور مجھے عزت والوں میں سے بنا دیا۔"سورہ یٰسین، آیات 26-27
مفسرین رحمھم اللہ کہتے ہیں: اس شخص نے اپنی قوم کو زندہ اور مردہ نصیحت کی اور یہ چاہا کہ اس کی قوم اس کے انجام کو جان لے، تاکہ وہ بھی اس کے ایمان کی طرح ایمان لائیں اور اس کے حال کی طرح ہو جائیں۔ تفسير الطبري (20/509)، تفسير القرطبي (15/20)، نظم الدرر، البقاعي (16/114)، فتح القدير الشوكاني (4/420).
حدیث میں آیا ہے:
جب مؤمن کو اس کی قبر میں جگہ دی جاتی ہے اور وہ اپنی جنت میں مقام کو دیکھتا ہے، تو وہ کہتا ہے: دَعُونِي حَتَّى أَذْهَبَ فَأُبَشِّرَ أَهْلِي! (مجھے جانے دو تاکہ میں اپنے اہل کو خوشخبری دوں)۔ رواه أبوداود (4751)، وصحّحه الألباني في صحيح أبي داود.
شہداء کی خواہشات میں سے ایک یہ ہے:
شہید یہ چاہتا ہے کہ اسے دنیا میں واپس لایا جائے اور بار بار قتل کیا جائے، کیونکہ وہ شہادت کی فضیلت کو دیکھتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مَا أَحَدٌ يَدْخُلُ الجَنَّةَ يُحِبُّ أَنْ يَرْجِعَ إلى الدُّنْيَا، وَلَهُ مَا عَلَى الأَرْضِ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا الشَّهِيدُ، يَتَمَنَّى أَنْ يَرْجِعَ إلى الدُّنْيَا، فَيُقْتَلَ عَشْرَ مَرَّاتٍ؛ لِمَا يَرَى مِنَ الكَرَامَةِ!"کوئی بھی جنت میں داخل ہو کر دنیا میں واپس آنا پسند نہیں کرے گا، چاہے زمین کی ہر چیز اس کے لیے ہو، مگر شہید یہ چاہے گا کہ دنیا میں واپس آئے اور دس مرتبہ قتل ہو، اِس اکرام کی وجہ سے( جو وہ شہادت کے وقت )دیکھتا ہے!" رواه البخاري (2817).
مردوں کی خواہشات میں سے ایک یہ بھی ہے:
کہ زیادہ سے زیادہ نمازیں پڑھیں۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک قبر کے پاس سے گزرے اور فرمایا: "مَن صاحبُ هذا القبر؟" (یہ قبر کس کی ہے؟) فقالوا: "فلانٌ"، لوگوں نے کہا: (فلاں کی)۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فقال ﷺ: "ركعتانِ أحبُّ إلى هذا من بقيةِ دُنياكم!" (اس شخص کے لیے دنیا کی باقی چیزوں سے دو رکعت نماز زیادہ محبوب ہیں)۔ رواه الطبراني في الأوسط (920)، وصحّحه الألباني في صحيح الترغيب (391).
اور مردوں کی سب سے بڑی خواہشات میں سے ایک یہ بھی ہے:
بدکاروں کی سب سے بڑی آرزو، جب وہ اس دنیا کو الوداع کہہ رہے ہوتے ہیں، توبہکر کے واحد قہار کی طرف لوٹنے کی ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿وَحِيلَ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ مَا يَشْتَهُونَ﴾"اور ان کے اور ان کی خواہشات کے درمیان رکاوٹ کھڑی کر دی گئی۔"سورہ سبأ، آیت 54
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: طَلَبُوا الرَّجْعَةَ إلى الدُّنْيَا، والتَّوْبَةَ مِمَّا هُمْ فِيهِ (انہوں نے دنیا میں لوٹنے کی خواہش کی اور اس گناہ سے توبہ کی بھی جس میں وہ مبتلا تھے)۔ تفسير ابن كثير (6/528)
جب کافر اپنے انجام کو موت کے وقت جان لیتا ہے اور اسے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی حالت باطل پر ہے،تو وہ یہ آرزو کرتا ہے کہ وہ مسلمانوں میں سے ہوتا اور اپنے رب العالمین کی اطاعت کرتا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿حَتَّى إِذَا جَاءَ أَحَدَهُمُ المَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ* لَعَلِّي أَعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ﴾"یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کے پاس موت آتی ہے تو وہ کہتا ہے: اے میرے رب! مجھے واپس بھیج دے۔ تاکہ میں اس میں نیک عمل کر سکوں جو میں نے چھوڑا ہے۔"سورہ المؤمنون، آیات 99-100
حضرت قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: مَا تَمَنَّى أَنْ يَرْجِعَ لِيَجْمَعَ الدُّنْيَا ويَقْضِيَ الشَّهَوَاتِ، ولَكِنْ تَمَنَّى أَنْ يَرْجِعَ فَيَعْمَلَ بِطَاعَةِ اللهِ؛ فَرَحِمَ اللهُ امْرَءًا عَمِلَ فِيمَا يَتَمَنَّاهُ الكَافِرُ إِذَا رَأَى العَذَابَ!(اس نے یہ آرزو نہیں کی کہ دنیا میں واپس جا کر مال جمع کرے اور خواہشات پوری کرے، بلکہ اس نے یہ آرزو کی کہ دنیا میں واپس جا کر اللہ کی اطاعت کرے؛ پس اللہ اس شخص پر رحم فرمائے جو اس چیز میں عمل کرے جس کی آرزو ،کافر عذاب دیکھ کر کرتا ہے)۔ تفسير البغوي (5/428).
اور مردوں کی خواہشات میں سے ایک یہ بھی ہے:
کہ وہ صدقات دیں کیونکہ اس میں عظیم ثواب ہے اور عذاب سے نجات ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿وَأَنْفِقُوا مِنْ مَا رَزَقْنَاكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ المَوْتُ فَيَقُولَ رَبِّ لَوْلَا أَخَّرْتَنِي إِلَى أَجَلٍ قَرِيبٍ فَأَصَّدَّقَ وَأَكُنْ مِنَ الصَّالِحِينَ﴾"اور اس میں سے خرچ کرو جو ہم نے تمہیں دیا ہے، اس سے پہلے کہ تم میں سے کسی کے پاس موت آ جائے، پھر وہ کہے: اے میرے رب! مجھے تھوڑی مدت تک مہلت دے، تو میں صدقہ کروں اور نیکوکاروں میں سے بن جاؤں۔"سورہ المنافقون، آیت 10
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: هُوَ الرَّجُلُ المُؤْمِنُ إِذَا نَزَلَ بِهِ المَوْتُ، ولَهُ مَالٌ لَمْ يُزَكِّهِ، ولَمْ يَحُجَّ مِنْهُ، وَلَمْ يُعْطِ حَقَّ اللهِ فِيهِ؛ فَيَسْأَلُ الرَّجْعَةَ عِنْدَ المَوْتِ؛ لَيَتَصَدَّقَ مِنْ مَالِهِ ويُزَكِّيَ (یہ ایک مؤمن شخص ہے جس کے پاس مال ہے، لیکن اس نے اس سے زکوٰۃ نہیں دی اور نہ اس سے حج کیا اور نہ ہی اس میں سے اللہ کا حق ادا کیا؛ پس وہ موت کے وقت واپس آنے کی آرزو کرے گا تاکہ اپنے مال سے صدقہ کر سکے اور زکوٰۃ دے)۔ تفسير الطبري (22/672)
اور مردوں کی خواہشات میں سے ایک یہ بھی ہے:
طاعات کو بڑھانا اور عبادات میں لذت پانا! جب حضرت عامر بن عبداللہ رحمہ اللہ کو موت آئی، تو وہ رونے لگے۔ لوگوں نے پوچھا: (آپ کیوں رو رہے ہیں؟) تو انہوں نے کہا: (میں موت کے خوف سے نہیں اور نہ دنیا کی خواہش میں رو رہا ہوں، بلکہ میں گرمی کے دنوں میں پیاسا رہنے اور سرد راتوں میں قیام کرنے پر رو رہا ہوں)۔ الطبقات الكبرى، ابن سعد (7/79)
میں یہ بات کہتا ہوں، اور میں اللہ سے اپنے اور آپ سب کے لیے ہر گناہ کی بخشش مانگتا ہوں؛ پس اسی سے بخشش طلب کریں، بے شک وہی بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔
دوسرا خطبہ:
تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں اس کے احسانات پر، اور شکر ہے اس کی توفیق اور کرم نوازی پر۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، اور یہ کہ محمد اس کے بندے اور رسول ہیں۔
اللہ کے بندو! جلدی کرو اس مختصر زندگی سے فائدہ اٹھانے میں، جب تک تمہاری روحیں تمہارے جسموں میں ہیں، کیونکہ زندگی کی نعمت کا شعور اللہ کے ذکر، شکر اور اس کی عبادت کو بہتر بنانے کی طرف بلاتا ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: "إِذَا قَامَ أَحَدُكُمْ عَنْ فِرَاشِهِ، فَلْيَقُلْ: الحَمْدُ لِلهِ الَّذِي عَافَانِي في جَسَدِي، وَرَدَّ عَلَيَّ رُوحِي، وأَذِنَ لِي بِذِكْرِهِ ’’جب تم میں سے کوئی اپنے بستر سے اٹھے، تو کہے: الحمد للہ، جس نے میرے جسم کو عافیت دی، اور میری روح کو واپس لوٹایا، اور مجھے اپنے ذکر کی اجازت دی۔‘‘ رواه الترمذي وحسّنه (3401).
اپنے اعمال درست کرلو اور اپنی غلطیوں کی تلافی کرلو، کیونکہ یہ کچھ ہی دن ہیں اور تم اپنی دنیا سے کوچ کرو گے، اور اپنے رب سے اپنے اعمال کے ساتھ ملو گے! اللہ فرماتا ہے: ﴿يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ مَا عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَرًا﴾"جس دن ہر نفس اپنے کیے ہوئے نیک عمل کو اپنے سامنے پائے گا۔" آل عمران: 30
دنیا عمل کی جگہ ہےاور آخرت جزا کا گھر ہے۔ جو یہاں عمل نہیں کرے گا، وہاں پچھتائے گا! ہر دن جو تم گزارتے ہو، وہ ایک غنیمت ہے! بعض سلف صالحین نے کہا:لَوْ رَأَيْتَ يَسِيْرَ مَا بَقِيَ مِنْ أَجَلِكَ؛ لَزَهِدْتَ في طُوْلِ أَمَلِكَ، فَاعْمَلْ لِيَوْمِ الْقِيَامَةِ، قَبْلَ الحَسْرَةِ والنَّدَامَةِ ’’اگر تم اپنے بقیہ تھوڑے وقت کو دیکھو تو تم اپنی طویل امیدوں سے بے رغبت ہو جاؤ گے، تو روزِ قیامت کے لیے کام کرلو، حسرت اور ندامت سے پہلے!‘‘ الزهد، الإمام أحمد (511)
اللہ فرماتا ہے: ﴿وأَنْذِرْهُمْ يَوْمَ الحَسْرَةِ إِذْ قُضِيَ الْأَمْرُ وَهُمْ في غَفْلَةٍ وَهُمْ لا يُؤْمِنُونَ* إِنَّا نَحْنُ نَرِثُ الْأَرْضَ ومَنْ عَلَيْها وإِلَيْنا يُرْجَعُونَ﴾ ’’اور انہیں حسرت کے دن سے ڈراؤ جب معاملے کا فیصلہ کردیا جائے گا، اور وہ غفلت میں پڑے ہیں اور ایمان نہیں لاتے۔ ہم ہی زمین اور اس پر موجود سب کے وارث ہیں اور سب ہماری طرف لوٹائے جائیں گے۔‘‘مریم: 39-40
اے اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو عزت عطا فرما، اور شرک اور مشرکین کو ذلت نصیب فرما۔
اے اللہ! اپنے خلفاء راشدین، ہدایت یافتہ اماموں یعنی ابو بکر، عمر، عثمان اور علی سے راضی ہو جا، اور باقی صحابہ کرام، تابعین اور ان کے نیک پیروی کرنے والوں سے بھی قیامت کے دن تک راضی ہو جا۔
اے اللہ! غمزدوں کی غمخواری فرما، اور مصیبت زدوں کی مشکلات دور فرما۔
اے اللہ! ہمارے وطنوں کو امن عطا فرما، اور ہمارے ائمہ اور حکمرانوں کو درست راہ دکھا، اور (ہمارے حکمران اور ان کے ولی عہد) کو اپنی پسندیدہ اور رضا کی راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرما، اور ان کی رہنمائی تقویٰ اور نیکی کی طرف فرما۔
اے اللہ! تو ہی اللہ ہے، تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو غنی ہے اور ہم فقیر ہیں، ہم پر بارش نازل فرما اور ہمیں مایوس لوگوں میں سے نہ بنا۔ اے اللہ! ہم تجھ سے بخشش مانگتے ہیں، بے شک تو بڑا بخشنے والا ہے، تو ہم پر آسمان سے موسلادھار بارش نازل فرما۔
اللہ کے بندو: إِنَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالعَدْلِ وَالإحْسَانِ وَإِيتَآءِ ذِي القُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الفَحْشَاءِ وَالمُنْكَرِ وَالبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ ﴿بیشک اللہ انصاف کا، احسان کا، اور قرابت داروں کو دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برائی اور ظلم سے منع کرتا ہے، وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو﴾۔
پس اللہ کا ذکر کرو وہ تمہیں یاد رکھے گا، اور اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرو وہ تمہیں زیادہ دے گا وَلَذِكْرُ اللهِ أَكْبَرُ وَاللهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُون ﴿اور اللہ کا ذکر سب سے بڑا ہے اور اللہ جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو﴾۔
· مترجم: محمد زبیر کلیم
· داعی ومدرس جمعیت ھاد
· جالیات عنیزہ۔ سعودی عرب
Attachments
1731507505_أمنيات الأموات -اردو- مُردوں کی خواہشات.docx