نماز کا طریقہ (۱)

سيف الرحمن التيمي
1443/06/04 - 2022/01/07 16:25PM

نماز کا طریقہ (۱)

ایسی  غلطیاں جو حرام ہیں

الحمد لله الملك الديان، الرحيم الرحمن، الحمد لله عدد ما خلق وملء ما خلق، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له أكرمنا ببعثة سيد المرسلين، وجعلنا من خير أمة أخرجت للعالمين وأشهد أن محمداً عبد الله ورسوله بيّن لأمته طرق الخيرات و حذر من أبواب الآثام والسيئات صلى الله وبارك عليه وعلى آله وأصحابه والتابعين ومن تبعهم بإحسان إلى يوم الدين.

حمد وصلاۃ کے بعد:

میں آپ کو اور اپنے آپ کو اللہ کا تقوی اختیار کرنے کی وصیت کرتا ہوں، کیوں کہ قبر کی انسیت کے لیے یہ بہترین توشہ ہے اور قیامت کے دن کے لئے سب سے افضل ذخیرہ ہے، اے اللہ! ہماری مغفرت فرما، ہم سے غفلت او ر اعراض  کو دور کردے اور ہم پر یہ احسان کر کہ  ہم نصیحت پکڑیں اور تیری طرف متوجہ ہو جائیں: ﴿ اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَهُمْ فِي غَفْلَةٍ مُعْرِضُونَ ﴾ [الأنبياء: 1]

ترجمہ:لوگوں کے حساب کا وقت قریب آگیا، پھر بھی وہ بے خبری میں منہ پھیرے ہوئے ہیں۔

ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ خبر دی ہے کہ قیامت کے دن بندہ سے سب سے پہلے نماز کا حساب لیا جائے گا، اگر وہ قبول ہوگئی تو سارے اعمال قبول ہو جائیں گے، اور اگر وہ رد ہوگئی تو خائب وخاسر ہوگا، نماز کی عظیم مرتبت ہم سے مخفی نہیں، وہ دین اسلام کا ستون ہے، اس سلسلے میں قرآن وحدیث میں بہت سے نصوص وارد ہوئے ہیں۔

ہمارے نبی علیہ الصلاۃ والسلام نماز کا خوب اہتمام کیا کرتے تھے، آپ سے یہ توجہ اور اہتمام صحابہ  رضی اللہ عنہم نے اخذ کیا، یہاں تک کہ انہوں نے نماز نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی  نہایت باریک تفاصیل پیش کی، یہاں تک کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم، آپ کی انگلیوں کی حرکت اور سری نمازوں میں  تلاوت کے وقت آپ کی دھاڑی کے ہلنے کی تفصیل بھی بیان کی، کیوں نہ ہو جب کہ آپ کا فرمان ہے: "جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے اسی طرح نماز پڑھو"۔جیسا کہ صحیح بخاری میں آیا ہے۔نماز ادا کر لینے کا صرف اعتبار نہیں ہے، بلکہ نماز قائم کرنے کا حکم دیا گیا ہے، اس کا طریقہ یہ ہے کہ نماز کو اس کے شروط، ارکان ، واجبات اور سنن کے ساتھ ادا کیا جائے، مسلمان کو چاہئے کہ نماز کا فقہ وفہم حاصل کرے، اس کے مختلف اذکار یاد کرے، تاکہ اسے نماز  قائم کرنے کی توفیق  ملے اور  وہ نماز  کے عظیم اجر وثواب اور بیش بہا فضائل سے  سرفراز ہو ۔ الحمد للہ حصول علم کے بہت سے وسائل میسر ہوچکے ہیں، ان میں سے کچھ پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں، تو کچھ دیکھنے سے اور کچھ سننے سے ، کچھ مطول ہیں تو کچھ مختصر۔

ایمانی بھائیو! میں آپ کے سامنے کچھ ایسی غلطیاں ذکر کر رہا ہوں جن کا ارتکاب کرنا حرام ہے، اس کے باوجود انہیں ہم زیادہ تر دہرایا کرتے ہیں، جس کی وجہ سے نماز کا ثواب کم ہوجاتا اور بعض دفعہ نماز ہی باطل ہوجاتی ہے، نمازیوں کے اجر وثواب متفاوت ہوتے ہیں، بایں طور کہ جس کی نماز میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی جس قدر ہوتی پیروی ہے، وہ جس قدر دل جمعی اور خشوع وخضوع کے ساتھ نماز ادا کرتا ہے ، اسی کے بقد راجر وثواب سے بھی ہمکنار ہوتا ہے، عمار بن یاسر کی حدیث میں آیا ہے:"بندہ نماز تو پڑھتا ہے لیکن اس  کو  اس کا دسواں حصہ ملتا ہے ، نواں حصہ، آٹھواں حصہ، ساتواں حصہ، چھٹا، پانچواں، چوتھا، تیسرا اور نصف حصہ"۔اسے البانی نے صحیح کہا ہے۔

محترام حضرات! نماز میں کی جانی والی غلطیوں میں سے یہ بھی ہے کہ: امام سے پہلے مقتدی کوئی حرکت کرے، بخاری نے مرفوعا روایت کیا ہے: "کیا تم میں سے کوئی جب امام سے پہلے اپنا سر اٹھاتا ہے تو اسے  ڈرنا چاہئے کہ کہیں اللہ تعالی اس کا سر گدھے کے سر جیسا  نہ بنادے یا اس کی شکل گدھے کی شکل نہ بنادے"۔ اس حدیث میں سختی کے ساتھ اس بات سے منع کیا گیا ہے کہ امام سے پہلے مقتدی  نماز کا کوئی عمل انجام دے۔ بعض نمازی امام کے ایک سلام پھیرتے ہی فوت شدہ رکعت ادا کرنے کے لئے کھڑا ہوجاتے ہیں، جبکہ یہ ممنوع ہے، انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں: "ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری نماز پڑھائی اور نماز سے فراغت کے بعد ہماری طرف رخ کیا اور فرمایا: "لوگو! میں تمہارا امام ہوں، تم مجھ سے پہلے نہ  بڑھو  نہ رکوع میں، نہ سجدہ میں، نہ قیام میں اور نہ سلام پھیرنے میں "۔اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

ایک غلطی یہ بھی ہے کہ بعض نمازی  کہتے ہیں: "اللہ وکبّر" بلکہ فقہاء کا اس بابت اختلاف ہے کہ اس کی نماز ہوگی بھی یا نہیں، اس لئے مسلمان کو چاہئے کہ اس کا اہتمام کرے اور نماز میں احتیاط سے کام لے۔

ایک غلطی یہ بھی ہے کہ: ناک کی بجائے صرف پیشانی کے بل پر سجدہ کیا جائے، علماء کے درمیان ایسے نمازی کی صحت میں اختلاف ہے، بعض لوگ بسا اوقات سجدہ کی حالت میں پاؤں اٹھا کر پنڈلی کھجلانے لگتے ہیں اور اسی درمیان سجدہ ختم بھی ہوجاتا ہے اور ان کا پاؤں اٹھا ہی رہتا ہے، اس طرح سات اعضاء پر ان کاسجدہ مکمل نہیں ہوتا!

ایک غلطی یہ ہے کہ : ارکان کے دوران منتقل ہونے کے لئے بلند آواز سے تکبیر انتقال پڑھی جائے، جس سے دوسرے لوگوں کو تشویش ہوتی ہے، اسی طرح نماز کے درمیان اذکار اور آیات  بلند آواز سے پڑھی جائیں، اس سے بھی تشویش ہوتی اور دوسروں کو تکلیف پہنچتی ہے  اور تکلیف پہنچانا حرام ہے جیسا کہ معلوم بات ہے، یہ اس شخص پر بھی نافذ ہوگا جو مسجد میں بلند آواز سے قرآن پڑھے، دیکھا گیا ہے کہ بعض نمازی صف کے کنارے میں جاکر نماز پڑھتے تاکہ بلند آواز سے تلاوت کرنے والے کی تشویش سے بچ سکے، ابن باز سے درج ذیل سوال کیا گیا: جمعہ کے وقت مسجد میں بلند آواز سے قرآن کی تلاوت کرنا جائز ہے؟

شیخ نے جواب دیا: "مسلمان کے لئے یہ جائز نہیں کہ مسجد یا دوسری جگہ پر بلند آواز سے تلاوت کرے اگر اس کی آواز سے اس کے آس پاس نماز پڑھنے والوں  یا تلاوت کرنے والوں کو تشویش ہوتی ہو، بلکہ سنت یہ ہے کہ  اس طرح تلاوت کرے کہ دوسروں کو اذیت نہ  ہو، کیوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ ایک دن لوگوں کے پا س مسجد میں تشریف لائے اور وہ بلند آواز سے تلاوت کر رہے تھے،  تو آپ نے فرمایا: " اے لوگو! تم سب اللہ سے  سرگوشی کرر ہو اس لئے تم ایک دوسرے سے بڑھ کر بلند آواز سے تلاوت نہ کرو" ۔ یا فرمایا: "تم میں سے کوئی دوسرے پر اپنی آواز بلند نہ کرے"۔آپ رحمہ اللہ کا قول ختم ہوا۔ البتہ فرض نماز کے بعد  بلند آواز سے اذکار پڑھنا سنت ہے۔

اے اللہ! ہمیں دین کا فقہ وفہم عطا کر، ہمیں تفسیر کا علم عطا کر، ہمیں، ہمارے والدین، اور تمام زندہ ومردہ مسلمانوں کو معاف فرما اے غور! اے رحیم!


 

دوسرا خطبہ:

الحمد...

حمد وصلاۃ کے بعد:نمازیوں کی ایسی غلطیاں جن کا ارتکاب کرنا حرام ہے: سب سے سنگین غلطی یہ ہے کہ نماز کی حالت میں، رکوع کےوقت ، رکوع سے اٹھتے ہوئے، سجدہ کی حالت میں اور سجدہ میں اعتدال کرتے ہوئے  جلدی کرے اور اطمینان سے کام نہ لے ، وہ حدیث جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غلط طریقہ سے نماز پڑھنے والے کو (نماز کا طریقہ سکھایا) اس میں ہے کہ: "جاکر پھر سے نماز پڑھو کیوں کہ تم نے نماز نہیں پڑھی"۔جیسا کی صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں آیا ہے۔

ایک ایسی غلطی جس کے بارے میں بعض علماء نے کہا کہ اس سے نماز باطل ہوجاتی ہے، وہ یہ کہ: قیام کی حالت میں اتنا جھکنا کہ رکوع کی حد تک پہنچ جائے، اگر قیام کی حالت میں آپ کا روما ل گر جائے  اور آپ کو اس کی ضرورت ہو تو آپ اپنے پاؤں سے اسے اٹھائیں، یا رکوع کا یا جلوس کا انتظار کریں۔

اے نمازیو! فرض نماز میں قیام کرنا ایک رکن ہے، جو شخص بیماری یا بڑھاپے کی وجہ سے قیام کرنے سے عاجز ہو تو اسے چاہئے کہ زمین پریا کرسی پر بیٹھ  کرنماز پڑھے۔البتہ ایسا شخص جس کو کھڑے ہونے کی وجہ سے کوئی نقصان نہ پہنچتا ہو، اس کے لئے فرض نماز بیٹھ کر پڑھنا جائز نہیں، اس بات پر توجہ دینا بھی ضروری ہے کہ: اگر  اسے قیام کرنے کی قدرت نہ ہو تو اس کا یہ عذر رکوع اور سجدہ کی حالت میں کرسی  پر بیٹھنا جائز نہیں بناتا ۔اور اگر رکوع اور سجدہ کی ہیئت اختیار کرنے سے وہ عاجز ہو تویہ عذر  اس کے لئے قیام نہ کرنے اور قیام کی حالت میں کرسی پر بیٹھنے کوجائز نہیں بناتا۔ کیوں کہ نماز کے واجبات کے تعلق سے قاعدہ یہ ہے کہ: نمازی  جو عمل کرنے پر قادر ہو، اس پر وہ عمل کرنا واجب ہو۔اور جسے کرنے سے عاجز ہو تو اس کا وجوب اس سے ساقط ہوجاتا ہے۔ نمازیو ں کی ایک غلطی یہ ہے کہ: نماز میں کثرت سے حرکت کی جائے۔فقہائے کرام کہتے ہیں کہ پے درپے بغیر ضرورت کی  بکثرت حرکت کرنے سے نماز باطل ہوجاتی ہے۔

اے میرے احباب! میں اس خطبہ کا اختتام اس تنبیہ کے ساتھ کرنا چاہتا ہوں کہ ارکان کے درمیان تکبیراتِ انتقال میں مشروع طریقہ یہ ہےکہ دو ارکان کے درمیان تکبیر کہی جائے، مثال کے طور پر  جب رکوع یا سجدہ کرنا چاہے تو جھکنے کے وقت ہی تکبیر کا آغاز کرے، یہ ایک غلطی ہے کہ دوسرے رکن تک پہنچنے کے بعد تکبیر کہے، کیوں کہ یہ تکبیر دو رکنوں کے درمیان منتقل ہونے کی تکبیر ہے، اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں نماز قائم کرنے کی توفیق دے، اے اللہ! ہمیں ہمارے علم سے فائدہ پہنچا...۔

 

 

المرفقات

1641572712_نماز کا طریقہ - ۱.pdf

المشاهدات 876 | التعليقات 0