قیامت کے دن تم سے اس نعمت کے بارے میں سوال ہو گا (نعمتِ طعام)

سيف الرحمن التيمي
1443/07/03 - 2022/02/04 20:15PM

موضوع الخطبة                :لتسألن عن هذا النعيم يوم القيامة

الخطيب                        : حسام بن عبد العزيز/ حفظه الله

لغة الترجمة                     : الأردو

المترجم                         :سيف الرحمن التيمي((@Ghiras_4T

موضوع:

قیامت کے دن تم سے اس نعمت کے بارے میں سوال ہو گا

(نعمتِ طعام)

پہلا خطبہ:

الحمد لله الغنيِ الخبير الصبور البصير الحليم القدير، نحمده حمداً كثيراً طيباً مباركاً فيه، ملء السموات وملء الأرض، ونحمده عدد ما خلق وملء ما خلق، وأشهد ألا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير، وأشهد أن محمداً عبده ورسوله، شكر ربه بالفعال وبالمقال صلى الله عليه وسلم وبارك وعلى آله وأصحابه.

حمد وثنا کے بعد!

میں آپ کو اور اپنے آپ کو اللہ کا تقوی اختیا ر کرنے اور ایسے کاموں کی تگ ودو کرنے کی وصیت کرتا ہوں جن سے ہمارے دلوں اور اعضاء وجوارح  پر تقوی کا مظہر نمایاں ہو: ﴿يَاأَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمْ وَاخْشَوْا يَوْمًا لَا يَجْزِي وَالِدٌ عَنْ وَلَدِهِ وَلَا مَوْلُودٌ هُوَ جَازٍ عَنْ وَالِدِهِ شَيْئًا إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا وَلَا يَغُرَّنَّكُمْ بِاللَّهِ الْغَرُورُ﴾ [لقمان: 33]

ترجمہ: لوگو! اپنے رب سے ڈرو اور اس دن کا خوف کرو جس دن باپ اپنے بیٹے کو کوئی نفع نہ پہنچا سکے گا اور نہ بیٹا اپنے باپ  کا  ذرا سا بھی نفع کرنے والا ہوگا (یاد رکھو ) اللہ کا وعدہ سچا ہے (دیکھو) تمہیں دنیا کی زندگی دھوکے میں نہ ڈالے اور نہ دھوکے باز (شیطان) تمہیں دھوکے میں ڈال دے۔

ایمانی بھائیو! رسول اللہ ﷺ ایک دفعہ رات یا دن کو باہر نکلے اور آپ ﷺ نے ابوبکر اور  عمر رضی اللہ عنہما کو دیکھا تو پوچھا کہ تمہیں اس وقت کون سی چیز گھر سے نکال لائی ہے؟ انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ! بھوک کے مارے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میں بھی اسی وجہ سے نکلا ہوں، چلو۔ پھر وہ آپ ﷺ کے ساتھ چلے، آپ ﷺ ایک انصاری کے دروازے پر آئے، وہ اپنے گھر میں نہیں تھا۔ اس کی عورت نے آپ ﷺ کو دیکھا تو اس نے خوش آمدید کہا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ فلاں شخص (اس کے خاوند کے متعلق فرمایا) کہاں گیا ہے؟ وہ بولی کہ ہمارے لئے میٹھا پانی لینے گیا ہے ۔اتنے میں وہ انصاری مرد آ گیا تو اس نے رسول اللہ ﷺ اور آپ ﷺ کے دونوں ساتھیوں کو دیکھا تو کہا کہ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ آج کے دن کسی کے پاس ایسے مہمان نہیں ہیں جیسے میرے پاس ہیں۔ پھر گیا اور کھجور کا ایک خوشہ لے کر آیا جس میں گدر، سوکھی اور تازہ کھجوریں تھیں اور کہنے لگا کہ اس میں سے کھائیے پھر اس نے چھری لی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ دودھ والی بکری مت کاٹنا۔ اس نے ایک بکری کاٹی اور سب نے اس کا گوشت کھایا اور کھجور بھی کھائی اور پانی پیا۔ جب کھانے پینے سے سیر ہوئے تو رسول اللہ ﷺ نے سیدنا ابوبکر اور عمرسے فرمایا کہ قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، قیامت کے دن تم سے اس نعمت کے بارے میں سوال ہو گا کہ تم اپنے گھروں سے بھوک کے مارے نکلے اور نہیں لوٹے یہاں تک کہ تمہیں یہ نعمت ملی(اس فضل پر سوال ضرور ہوگا) ۔ (مسلم)

مجھے نہیں پتہ کہ کس  بات  پر  تعجب کروں خیر البشر اور آپ کے اصحاب گرامی قدر کی بھوک پر یا اس نعمت پر جو ایک دستر خوان پر تین قسم کی غذا کی  شکل میں تھی!

اللہ المستعان...اللہ کے واسطے مجھے بتائیے کہ آپ کے دستر خوان پر عموما کتنے قسم کے کھانے ہوا کرتے ہیں!

اے اللہ! اپنے حق کے تعلق سے  ہماری کوتاہی کو در گزر فرما اور ہمیں اپنی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کی توفیق ارزانی کر!

معزز حضرات! کسی الکٹرانک اخبار میں ایک تکلیف دہ خبر نشر ہوئی‘ جس میں بتایا گیا کہ سعودی عرب اشیائے خوردونوش کو ضائع کرنے میں عالمی سطح پر ایک نمبر  پر ہے! مملکہ میں  برباد کی جانے والی غذا  کی قیمت  "۴۹.۸۳۳" ارب ریال سالانہ ہے  جیسا کہ غذائی بربادی کو کنٹرول سے متعلق قائم کردہ ورک شاپ میں وزرات برائے زراعت کے ذریعہ  پیش کردہ رپورٹ میں درج کیا گیا ہے‘  اللہ کے بندو! کیا یہ معقول بات ہے کہ حرمین کی سرزمین جہاں وحی کا نزول ہوا ‘ وہ اسراف اور نعمت کی ناقدری میں ایک نمبر پر رہے؟!

عیش پسندی اور فضول خرچی کرنے والا شخص اپنے باپ دادا کی بھوک کو کیسے بھول جاتا ہے!  کیا اسے نہیں پتا کہ اسی ملک میں ایسے لوگ بھی گزرے ہیں جنہیں اگر مردہ گدہا مل جاتا تو وہ خوش ہوجاتے بلکہ سب سے چھپا کرر کھتے اور اسے  نوچ نوچ کر اور کیڑے مکوڑے جھاڑ جھاڑ کر  بھونتے اور کھاتے تھے‘ جیسا کہ ایسا کرنے والے کے پوتے نے مجھے بتایا[1]۔ اس پوتے نے مجھے بتایا کہ اس کی نانی ایک دفعہ اس بات پر روپڑی کہ دہی کا پیالہ دستر خوان پر چھوڑ دیا گیا اور اس میں کچھ دہی باقی تھا‘ انہوں نے روتے ہوئے  بھوک کے قصے بیان کیے اور بتایا کہ انہوں نے ایک ایسے آدمی کو بھی دیکھا ہے جو اپنی بیٹی کو شادی کے لیے پیش کرر ہا تھا محض اس لیے کہ کوئی اسے پیٹ بھر کھانا دے دے!   لیکن اسے کوئی نہیں ملا ‘ اور وہ لڑکی  کچھ ہی دنوں کے بعد فوت ہوگئی – اللہ اس پررحم فرمائے۔

کیا نعمت کی ناقدری کرنے والا شخص یہ نہیں جانتا کہ اس ملک میں ایسے بھی لوگ رہتے تھے جنہیں کئی کئی دنوں تک کھانا نہیں ملتا تھا اور کچھ لوگ تو بھوک کی تاب نہ لاکر فوت ہوگئے!

اللہ کے بندو! نعمت کو برقرار رکھنے  کا طریقہ یہ ہے کہ  اس پر (اللہ کا) شکر ادا کیا جائے: ﴿ وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ وَلَئِنْ كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ ﴾ [إبراهيم: 7]

ترجمہ: اور جب تمہارے پروردگار نے تمہیں آگاہ کردیا کہ اگر تم شکر گزاری کروگے تو بے شک میں تمہیں زیادہ دوں گا اور اگر تم ناشکری کروگے تو یقینا میرا عذاب بہت سخت ہے۔

ہمیں اپنے دلوں میں اللہ کی نعمتوں کو محسوس کرنا چاہئے ‘ اپنی زبانوں سے بکثرت اللہ کی حمد وثنا بیان کرنا چاہئے اور کثرت سے ایسے اعمال کرنا چاہئے جن سے اللہ راضی ہو تا ہے اور اسے ناراض کرنے والے کاموں سے اجتناب کرنا چاہئے ‘ ان چار اعمال کے ذریعہ شکر ادا ہوتا ہے: ﴿ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ وَاشْكُرُوا لِلَّهِ إِنْ كُنْتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ ﴾ [البقرة: 172] 

ترجمہ: اے ایمان والو! جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تمہیں دے رکھی ہیں انہیں کھاؤ‘ پیو اور اللہ تعالی کا شکر کرو‘ اگر تم خاص اسی کی عبادت کرتے ہو۔

نیز اللہ پاک نے فرمایا: ﴿ يَاأَيُّهَا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِي الْأَرْضِ حَلَالًا طَيِّبًا وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ * إِنَّمَا يَأْمُرُكُمْ بِالسُّوءِ وَالْفَحْشَاءِ وَأَنْ تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ ﴾ [البقرة: 168، 169]

ترجمہ: لوگو! زمین میں جتنی بھی حلال اور پاکیزہ چیزیں ہیں انہیں کھاؤ پیو اور شیطانی راہ پر نہ چلو ‘ وہ تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے۔وہ تمہیں صرف برائی  اور بے حیائی کا اور اللہ تعالی پر ان باتوں کو کہنے کا حکم دیتا ہے جن کا تمہیں علم نہیں۔

اللہ عزیز وبرتر نے فرمایا: ﴿ كُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ ﴾ [الأنعام: 142]

ترجمہ: جو کچھ اللہ تعالی نے تم کو دیا ہے ‘ کھاؤ اور شیطان کے قدم بقدم مت چلو ‘ بلا شک وہ تمہارا صریح دشمن ہے۔

اللہ پاک نے اپنا رزق کھانے اور شیطانی راہوں سے بچنے کا حکم دیا ہے اور ان راہوں میں اسراف بھی ہے۔

یہ غمناک کے ساتھ خوفناک بات بھی ہے کہ ہمارا ملک کھانوں کو ضائع کرنے میں ایک نمبر پر ہو‘ کیوں کہ یہ کفران نعمت ہے جس سے نعمت زائل ہوجاتی ہے: ﴿ وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا قَرْيَةً كَانَتْ آمِنَةً مُطْمَئِنَّةً يَأْتِيهَا رِزْقُهَا رَغَدًا مِنْ كُلِّ مَكَانٍ فَكَفَرَتْ بِأَنْعُمِ اللَّهِ فَأَذَاقَهَا اللَّهُ لِبَاسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ بِمَا كَانُوا يَصْنَعُونَ ﴾ [النحل: 112]

ترجمہ: اللہ تعالی اس بستی کی مثال بیان فرماتا ہے جو پورے امن واطمینان سے تھی اس کی روزی اس کے پاس با فراغت ہر جگہ سے چلتی آرہی تھی۔ پھر اس نے اللہ تعالی کی نعمتوں کا کفر کیا تو اللہ تعالی نے اسے بھوک اور ڈر کا مزہ چکھایا جو بدلہ تھا ان کے کرتوتوں کا۔

اس لیے بھی کہ  اللہ نے شکر اداکرنے کا حکم دیا اور اسراف سے منع فرمایا: ﴿ كُلُوا مِنْ ثَمَرِهِ إِذَا أَثْمَرَ وَآتُوا حَقَّهُ يَوْمَ حَصَادِهِ وَلَا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ ﴾ [الأنعام: 141]

ترجمہ: ان سب کے پھلوں میں سے کھا ؤ جب وہ نکل آئے اور اس میں جو حق واجب ہے وہ اس کے کاٹنے کے دن دیا کرو اور حد سے مت گزرو‘ یقینا وہ حد سے گزرنے والوں کو ناپسند کرتا ہے۔

نیز فرمایا: ﴿ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ ﴾ [الأعراف: 31]

ترجمہ:  خوب کھاؤ اور پیو اور حد سے مت نکلو۔ بےشک اللہ حد سے نکل جانے والوں کو پسند نہیں کرتا۔

ہمارے ملک کے تعلق سے اس خبر کا عام ہونا شعوری یا لا شعور ی طور پر اسلام کی بدنامی کا بھی موجب ہے! کیوں کہ سوشل میڈیا پر خبر عام ہوچکی ہے اور ہمارے ملک میں مسلمانوں کا قبلہ ہے جس کی طرف وہ کم از کم پانچ دفعہ روزانہ اپنا رخ کرتے ہیں ‘ اس ملک میں وہ مقدس مقامات بھی ہیں جہاں مسلمان تمام روئے زمین سے حج کرنے کے لیے تشریف لاتے ہیں‘ آپ ہی سوچیں کہ دنیا کا تاثر اس اسلام کے بار ے میں کیا ہوگا  جس کی نمائندگی بلاد حرمین کرتا آتا رہا ہے اور وہی ملک کھانوں کے ضیاع وبربادی میں اول نمبر  پر ہے؟! انا للہ وانا الیہ راجعون۔

اے سخی وفیاض (پروردگار!) اپنے عفو ودرگزر سے ہمیں معاف کردے‘ اے  منّان اے شکور! ہمارے اوپر  اپنے شکر کے ذریعہ احسان فرما۔ اللہ سے آپ سب مغفرت طلب کریں یقینا  وہ خوب معاف کرنے والا ہے۔

دوسرا خطبہ:

الحمد لله.....

حمد وصلاۃ کے بعد:

معزز حضرات! شخصی اور خاندانی بیداری اس روش کو درست کرنے کا سب سے پہلا قدم ہے‘ چنانچہ والدین کو اپنی اولاد کے اندر اور اساتذہ کو اپنے شاگردوں کے اندر اور اسی طرح تمام ذمہ داروں کو اپنے ماتحتوں کے اندر یہ بیداری پیدا  کرنی چاہئے ‘ وہ مشہور شخصیات اور اصحاب قلم جن کو سوشل میڈیا پر شہرت حاصل ہے‘ بیداری کو عام کرنے اور سماج میں اسے پروان چڑھانے میں ان کا بڑا کردار ہے۔مثال کے طور پر یہ فکر عام کی جائے کہ صاف ستھرا کھانے کا بچا ہوا حصہ محفوظ رکھا جائے اور اسے صدقہ کیا جائے۔اگر اس فکر کو رواج دیا گیا تو اس کا بڑا اثر ہوگا۔ غمناک بات تو یہ ہے کہ اسراف وفضول خرچی اور اس بابت برے تصرف کا صدوربعض ایسے حضرات سے بھی ہوتا ہے جو اسوہ ونمونہ (رول ماڈل) کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اگر بیداری پیدا ہوگی تو : گھر کے لوگ اتنا ہی کھانابنائیں گے جتنی ان کو ضرورت ہوگی ‘ اور اگر کچھ بچ بھی جائے تو اسے محفوظ رکھیں گے اوربعد میں  کھائیں گے یا کسی اور کو کھلائیں گے۔ اگر بیداری  بڑھے گی  تو  انسان ہوٹلوں میں اتناہی کھانا آرڈر کرے گا جتنے کی اس کو ضرورت ہوگی اور ویسا نہیں ہوگا جیسا ہم دیکھتے ہیں کہ پلیٹوں میں کھا نا بچا رہتا ہے اور اسے پھینک دیا جاتاہے۔

بیداری کا ایک طریقہ یہ ہے کہ : بچا ہوا صاف ستھرا  کھانا کو پارشل پیکٹ میں پیک کر لیا جائے خواہ ہم کسی ہوٹل میں ہوں یا باغیچہ میں ۔ پارشل پیکٹ ہر سائز میں دستیاب بھی ہے۔ الحمد للہ ۔ بھوکے لوگوں کو کھانا کھلانا چوپایوں کو کھلانے سے زیادہ افضل ہے‘ چہ جائیکہ کھانے کو ڈسٹ بین کے حوالے کردیا جائے۔ یہ بھی بہتر  ہوگا کہ گھروں‘ ہوٹلوں اور اسکولوں میں جو کھانا تقسیم نہیں کیا جا سکتا ہو ‘ اسے پرندوں اور چوپایوں کو دے دیا جائے۔

ہوٹل مالکان کے لیے میرا یہ مشورہ ہے اور ممکن ہے کہ ان کے لیے مناسب بھی ہو: دیکھا گیا ہے  کہ فل پلیٹ چاول (جیسا کہ اصطلاح رائج ہے) ایک شخص  کی کفایت سے زیادہ ہوتا ہے اور غالب اوقات میں ایک انسان اس کا نصف حصہ بھی نہیں کھا پاتا ‘ مشورہ یہ ہے کہ  ہوٹل والے ایک فرد کے لیے دو وزن کے کھانے تیار کریں‘ کم وزن کے کھانے کی قیمت کم ہو ‘ اسی طرح جو زائد ہو اس کی قیمت زیادہ ہو۔

تاجروں او ردودھ اور غذا بنانے والی کمپنیوں کے مالکان کو یہ مشورہ ہے کہ کم قیمت میں چھوٹے حجم کی بوتلیں پروڈکٹ کریں۔ کیا وجہ ہے کہ دہی نصف ریال کا نہیں ملتا ‘ اور یہی حال لسی وغیرہ کا ہے۔ روٹی اور بریڈ چھوٹے سائز میں کیوں نہیں ملتا جس کی قیمت بھی آدھی ہو۔

اللہ کی نعمت ہے کہ شہروں میں حفظان نعمت کے پروجیکٹ عام ہیں‘ تاکہ محفلوں اور بطور خاص بڑے اجتماعات میں جو کھانے بچ جاتے ہیں‘ انہیں محتاجوں تک پہنچایا جا سکے ۔

 ایمانی بھائیو!  جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحیح حدیث میں دستر خوان پر گرے ہوئے کھانے کو صاف کرکے کھانے کا حکم دیا ہے  تو بھلا صاف ستھرا کھانے کے بارے میں آپ کیا تصور کرتے ہیں؟!  حدیث ہے کہ: "جب تم میں سے کسی سے لقمہ گر جائے تو جو کچھ اسے لگ گیا ہے ‘ اسے صاف کرکے کھالے اور اسے شیطان کے لیے نہ چھوڑے او رجب کھانے سے فارغ ہو تو اپنی انگلیاں چاٹ لے" (مسلم )

راوی حدیث انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : "آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں پیالہ صاف کرکے کھانے کا حکم دیا"۔ یعنی اچھی طرح صاف کرکے اور باقی ماندہ کھانے کو پوچھ پوچھ کر کھانے کا حکم دیا ۔ نعمت کے تئیں کم سے کم تر ذمہ داری یہ ہے کہ اسے پرندوں اور جانوروں کے لیے چھوڑ دیا جائے ممکن ہے اللہ ہماری گرفت نہ کرے : ﴿ كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ وَلَا تَطْغَوْا فِيهِ فَيَحِلَّ عَلَيْكُمْ غَضَبِي وَمَنْ يَحْلِلْ عَلَيْهِ غَضَبِي فَقَدْ هَوَى ﴾ [طه: 81]

ترجمہ: تم ہماری دی ہوئی پاکیزہ روزی کھاؤ اور اس میں حدسے آگے نہ بڑھو ور نہ تم پر میرا  غضب نازل ہوگا اور جس پر میرا غضب نازل ہوجائے یقینا وہ تبا ہ ہوا۔

 

آپ﷐ پر درود وسلام بھیجتے رہیں۔

صلى اللہ علیہ وسلم

 

از قلم:

فضیلۃ الشیخ حسام بن عبد العزیز الجبرین

مترجم:

سیف الرحمن تیمی

[email protected]



[1] اس پوتے نے مجھے شخصی طور پر یہ بات سنہ ۱۴۳۷ھ میں بتائی۔

المرفقات

1644005687_قیامت کے دن تم سے اس نعمت کے بارے میں سوال ہو گا.pdf

المشاهدات 1447 | التعليقات 0