غزوہ تبوک

سيف الرحمن التيمي
1443/06/04 - 2022/01/07 16:20PM

موضوع الخطبة            : غزوة تبوك

الخطيب                   : فضيلة الشيخ حسام بن عبد العزيز الجبرين/ حفظه الله

لغة الترجمة                : الأردو

المترجم                    :شفاء الله الياس التيمي((@Ghiras_4T

موضوع:

غزوہ تبوک

پہلا خطبہ:

الحمد لله رب الأرض ورب السماء، جعل الدنيا دار عمل لا دار جزاء، وأشهد أن لا إله إلا الله.

خلق السماوات والأرض في ستة أيام وكان عرشه على الماء، وأشهد أن محمداً عبده ورسوله خاتم الأنبياء وقدوة الأتقياء صلى الله وسلِّم وبارك عليه وعلى آله وصحابته الأجلاء.

حمد وصلاة کے بعد!

میں خود کو اور آپ کو اللہ پاک کے تقوی کی وصیت کرتا ہوں،کیوں کہ تقوی قبر میں،حشر کے دن،بعث بعد الموت، اور پل صراط سے  سے گزرتے وقت ڈر وخوف دور کرنے والی نہایت ہی  بہتر ین چیز ہے: ﴿ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ﴾ [آل عمران: 200]

ترجمہ:اے ایمان والو! تم ثابت قدم رہو اور ایک دوسرے کو تھامے رکھو اور جہاد کے لئے تیار رہو اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو تاکہ تم مراد کو پہنچو۔

اے ایمانی بھائیو!لوگ گرم موسم میں پریشان رہتے ہیں جب کہ گھر،مساجد،باز اور گاڑیاں  ہر جگہ اے سی کا انتظام ہوتا ہے،اے شریفوں کی جماعت!ہم اور آپ ایک ایسے نبوی واقعہ پر غور کرتے ہیں جو  سخت گرمی میں واقع ہوا۔

(ہجرت کے)نویں سال ماہ رجب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام کو روم سے  جنگ کرنے کی تیاری کا حکم دیا،جب آپ کو یہ خبر ملی کہ رومی لوگ شامیوں  کے ساتھ مسلمانوں کے خلاف جنگ کے لیے جمع ہوچکے ہیں،تیاری کا حکم ایسے سخت گرمی کے زمانے میں ہوا،جب پھل  پل چکا تھا اور لوگ اپنے پھلوں کے درمیان  اور ان کے  سائے تلے رہنا پسند کرتے تھے۔

آپ علیہ الصلاة والسلام نے اللہ کی راہ میں(مال) خرچ کرنے پر ابھارا،چنانچہ خیرات کرنے والے حضرات نے اس میدان میں سبقت کیا۔چنانچہ عثمان رضی اللہ عنہ ایک ہزار دینار لے کر آئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں ڈال دیا،اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر آج کے بعد عثمان کوئی بھی  عمل کرے ، اسے کوئی نقصان نہ پہنچے گا۔

حضرت عمر نے اپنا نصف مال اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہما نے اپنا سارا مال صدقہ کردیا،حضرت عبد الرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ بہت سارا مال لے کر آئے، اور حضرت عثمان نے تین سو اونٹ مع ساز وسامان کے صدقہ کیا،اور ان اصحاب کے علاوہ دیگر حضرات نے بھی بہت سے مال صدقہ میں پیش کیے،اور عورتوں نے اپنی استطاعت کے مطابق اپنے زیورات بھیج دئے۔

ابو مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:"ہمیں صدقے کا حکم دیا گیا"۔انہوں نے فرمایا: "ہم اپنے پیٹھ پر(صدقہ کے مال)اٹھایا کرتے تھے"۔انہوں نے کہا :ابو عقیل نے نصف صاع صدقہ دیا۔وہ مزید کہتے ہیں:  ایک شخص  ان سے زیادہ چیز یں لے کر آیا۔چنانچہ منافقوں نے کہا:"اللہ اس طرح کے صدقہ سے بے نیاز ہے،دوسرے شخص نے ایسا صرف ریا ونمود کی بنیاد پر کیا ہے،چنانچہ یہ آیت نازل ہوئی:

﴿ الَّذِينَ يَلْمِزُونَ الْمُطَّوِّعِينَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ فِي الصَّدَقَاتِ وَالَّذِينَ لَا يَجِدُونَ إِلَّا جُهْدَهُمْ ﴾ [التوبة: 79]

ترجمہ:جو لوگ ان مسلمانوں پر طعنہ زنی کرتے ہیں جو دل کھول کر خیرات کرتے ہیں اور ان لوگوں پر جنہیں سوائے اپنی محنت مزدوری کے اور کچھ میسر نہیں۔(اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے)۔

اس طرح منافقوں کے شر سے نہ کوئی امیر محفوظ رہا  اور  نہ کوئی غریب۔

منافقوں نے ایک مسجد بنائی تاکہ وہاں جمع ہوکر  سازشیں رچ سکیں،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے انہوں نے اس مسجد میں نماز کی ادائیگی کا مطالبہ کیا،وہ لوگ یہ سمجھ لیے کہ انہوں نے یہ مسجد کمزوروں کی رعایت میں تعمیر کی ہے تاکہ وہ مسجد نبوی کے مقابلے میں (بستی سے)  زیادہ قریب ہو ،چنانچہ  قرآن نازل ہوا اور ان منافقوں کی قلعی کھل گئی:

﴿ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مَسْجِدًا ضِرَارًا وَكُفْرًا وَتَفْرِيقًا بَيْنَ الْمُؤْمِنِينَ وَإِرْصَادًا لِمَنْ حَارَبَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ مِنْ قَبْلُ وَلَيَحْلِفُنَّ إِنْ أَرَدْنَا إِلَّا الْحُسْنَى وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ ﴾ [التوبة: 107]

ترجمہ:اور بعض ایسے ہیں جنہوں نے ان اغراض کے لیے مسجد بنائی ہے کہ ضرر پہنچائیں اور کفر کی باتیں کریں اور ایمانداروں میں تفریق ڈالیں اور اس شخص کے قیام کا سامان کریں جو اس سے پہلے سے اللہ اور رسول کا مخالف ہے، اور قسمیں کھا جائیں گے کہ بجز بھلائی کے اور ہماری کچھ نیت نہیں، اور اللہ گواه ہے کہ وه بالکل جھوٹے ہیں۔

جب مسلمان نکلنے کے لیے تیار ہوگئے تو منافقوں کی ایک جماعت نے کہا:گرمی میں مت نکلو،اس پر  اللہ کا یہ فرمان نازل ہوا:

﴿ فَرِحَ الْمُخَلَّفُونَ بِمَقْعَدِهِمْ خِلَافَ رَسُولِ اللَّهِ وَكَرِهُوا أَنْ يُجَاهِدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَقَالُوا لَا تَنْفِرُوا فِي الْحَرِّ قُلْ نَارُ جَهَنَّمَ أَشَدُّ حَرًّا لَوْ كَانُوا يَفْقَهُونَ ﴾ [التوبة: 81]

ترجمہ:پیچھے ره جانے والے لوگ رسول اللہ ﴿صلی اللہ علیہ وسلم﴾ کے جانے کے بعد اپنے بیٹھے رہنے پر خوش ہیں انہوں نے اللہ کی راه میں اپنے مال اور اپنی جانوں سے جہاد کرنا ناپسند رکھا اور انہوں نے کہہ دیا کہ اس گرمی میں مت نکلو۔ کہہ دیجئے کہ دوزخ کی آگ بہت ہی سخت گرم ہے، کاش کہ وه سمجھتے ہوتے۔

اسی دوران  کچھ غریب ونادار مومن آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سواری کا مطالبہ کرنے لگے تاکہ اس پر سوار ہوسکیں،جب آپ نے ان سے معذرت کردی تو غم میں ان کی آنکھیں نم ہوگئیں،باوجود اس کے کہ  انہوں نے کوئی گناہ نہیں کیا بلکہ وہ عاجز ونادار تھے:

﴿ وَلَا عَلَى الَّذِينَ إِذَا مَا أَتَوْكَ لِتَحْمِلَهُمْ قُلْتَ لَا أَجِدُ مَا أَحْمِلُكُمْ عَلَيْهِ تَوَلَّوْا وَأَعْيُنُهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ حَزَنًا أَلَّا يَجِدُوا مَا يُنْفِقُونَ ﴾ [التوبة: 92]

ترجمہ:ہاں ان پر بھی کوئی حرج نہیں جو آپ کے پاس آتے ہیں کہ آپ انہیں سواری مہیا کر دیں تو آپ جواب دیتے ہیں کہ میں تو تمہاری سواری کے لئے کچھ بھی نہیں پاتا، تو وه رنج وغم سے اپنی آنکھوں سے آنسو بہاتے ہوئے لوٹ جاتے ہیں کہ انہیں خرچ کرنے کے لیے کچھ بھی میسر نہیں۔

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ  کو اپنا جانشین مقرر فرمایا تو انہوں نے عرض کیا: آپ مجھے بچوں اور عورتوں میں چھوڑ کر جاتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: "کیا تم اس بات پر خوش نہیں کہ میرے پاس تمہارا وہی درجہ ہو جو موسٰی کے ہاں ہارون  کا تھا۔ صرف اتنا فرق ہے کہ میرے بعد کوئی دوسرا نبی نہیں ہو گا"۔(اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے)

پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چلے،آپ کے ساتھ صحابہ کرام  بھی تھے،جن کی تعداد تیس ہزار یا اس سے زائد تھی،اور ان کے ساتھ دس ہزار گھوڑے تھے،ان کے پاس سواری کی کمی تھی ، یہاں تک کہ دو دو تین تین آدمی ایک گھوڑے پر سوار تھے، نبی ﷺ جب مقامِ حجر،ثمود کی بستی(جو آج عُلاکے علاقہ سے قریب ہے)سے گزرے تو فرمایا: "جن لوگوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے ان کی رہائش گاہوں میں مت جاؤ، مگر روتے ہوئے وہاں سے گزرجاؤ، مبادا تم اسی عذاب سے دوچار ہو جاؤجو ان پر آیا تھا"۔ پھر آپ نے سواری پر بیٹھے بیٹھے اپنی چادر سے چہرے کو ڈھانپ لیا۔(بخاری،مسلم)صحابہ کرام کو حکم دیا گیا کہ عذاب یافتہ لوگوں کی بستی کے پانی سے انہوں نے اونٹ کے لئے جو چارے تیار کئے تھے انہیں  پھینک  دیں اور پانی بہا دیں،اور اس کنواں سے پانی حاصل کریں،جہاں اوٹنی آتی تھی،ایک منافق نے صحابہ کرام کے بارے میں  کہا کہ ہم نے اپنے ان ساتھیوں جیسے لوگوں کو نہیں دیکھا جو پیٹ کے زیادہ فکر مند ہیں، اور زبان کے بے حد جھوٹے ہیں  اور دشمن سے مڈ بھیڑ کے وقت بزدلی کا مظاہرہ کرتے ہیں،ااور مخشن  بن حمیر نے کہا:بنو اصفر کے جلاد کو  تم عربوں کی طرح سمجھتے ہو جو اپنے ہی لوگوں سے جنگ کرتے ہیں؟اللہ کی قسم مومنوں میں ڈر وخوف پیدا کرنے کے لیے کل ہم تمہیں رسیوں میں جکڑ کر پٹائی کریں گے،تو یہ آیت نازل ہوئی: ﴿ وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ لَيَقُولُنَّ إِنَّمَا كُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ قُلْ أَبِاللَّهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ * لَا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيمَانِكُمْ إِنْ نَعْفُ عَنْ طَائِفَةٍ مِنْكُمْ نُعَذِّبْ طَائِفَةً بِأَنَّهُمْ كَانُوا مُجْرِمِينَ ﴾ [التوبة: 65، 66]

ترجمہ:اگر آپ ان سے پوچھیں تو صاف کہہ دیں گے کہ ہم تو یونہی آپس میں ہنس بول رہے تھے۔ کہہ دیجئے کہ اللہ، اس کی آیتیں اور اس کا رسول ہی تمہارے ہنسی مذاق کے لئے ره گئے ہیں؟تم بہانے نہ بناؤ یقیناً تم اپنے ایمان کے بعد بے ایمان ہوگئے، اگر ہم تم میں سے کچھ لوگوں سے درگزر بھی کر لیں تو کچھ لوگوں کو ان کے جرم کی سنگین سزا بھی دیں گے۔

بیان کیا جاتا ہے کہ مخشن نے  توبہ کرلیا اور یمامہ کے دن شہید کیا گیا۔

جب صحابہ کرام تبوک پہونچے تو وہاں کسی کو نہیں پایا،اس لیے کہ جب رومیوں کو اس فوج کی آمد کی خبر ہوئی تو انہوں نے اپنے شہروں کی پناہ لینے میں ہی عافیت سمجھی تاکہ محفوظ رہ سکیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ضرورت محسوس نہ ہوئی کہ ان کے شہر میں انہیں تلاش کریں، اور اس علاقہ میں آپ نے کم وبیش بیس رات قیام کیا۔

ایلہ والے آپ کے پاس آئے اور آپ سے صلح کی اور آپ کو جزیہ (ٹیکس) دیا،اسی طرح اہل جرباء اور اذرَح  والے بھی آپ کے پاس آئے اور  آپ کو جزیہ دیا،آپ نے ان کے لئے  ایک خط لکھا اور مدینہ لوٹ گئے،اور صحابہ کرام کو  مسجدِ ضرار کو منہدم کرنے اور جلانے کا  حکم دیا،جسے منافقوں نے تعمیر کیا تھا،جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  مدینہ کے قریب پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مدینہ میں بہت سے ایسے لوگ ہیں کہ جہاں بھی تم چلے اور جس وادی کو بھی تم نے طے  کیا وہ (اپنے دل سے) تمہارے ساتھ ساتھ تھے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اگرچہ ان کا قیام اس وقت بھی مدینہ میں ہی رہا ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، وہ مدینہ میں رہتے ہوئے بھی (اپنے دل سے تمہارے ساتھ تھے) وہ کسی عذر کی وجہ سے رک گئے تھے۔(بخاری)مسلم کی روایت میں ہے:وہ اجر و ثواب میں تمہارے شریک ہوئے ہیں۔

دوسرا خطبہ:

 الحمد لله...

حمد وصلاة کے بعد!

اے اسلامی بھائیو!آپ کے سامنے سابقہ گفتگو سے مستفاد بعض فائدے پیش کیے جاتے ہیں،جن میں سے پہلا فائدہ یہ ہے کہ:

 اس میں صحابہ کرام کی فضلیت اور کار خیر میں  ان کی سبقت اور ان کی مالی وجانی قربانیوں کا ذکر ہے۔

ایک دوسرا فائدہ یہ ہے کہ نفاق بڑا خطرناک جرم ہے،سورہ براء ت میں بہت ساری آیتیں ان کے نفاق کی  فضیحت بیان کرتی ہیں۔

ایک فائدہ یہ ہے کہ کار خیر میں ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش کرنا  مشروع ہے،جب حضرت عمر  اپنے مال  کا نصف حصہ لےکر آئے تو انہوں نے کہا:  آج میں ابو بکر سے سبقت لے جاؤں گا۔

ایک اور فائدہ یہ ہے کہ بہت سے صحابہ کرام   کی ظاہری فضیلتیں معلوم ہوتی ہیں۔ ان میں خلفائے  راشدین بھی ہیں۔

ایک فائدہ یہ ہے کہ  مونوں کا مزاق اڑانے سے بچنا چاہئے اور اس کے انجام بد سے ہوشیار رہنا چاہئے کیوں کہ اللہ نے اسے اللہ، اس کی آیتوں اور اس کے رسول کا استہزاء قرار دیا ہے۔

اور دوسرا فائدہ یہ ہے کہ منافقوں کی خباثت،ان کے  عظیم شر اور مکر وفریب کا پتا چلتا ہے،اور یہ کہ وہ لوگ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ خیر کا ارادہ رکھتے ہیں اور جھوٹی قسم بھی کھاتے ہیں ،اللہ پاک نے ان کے اوصاف کو قرآن میں ذکر کیا ہے،اور صراحت کے ساتھ ان کے ناموں کو بیان نہیں کیا،تاکہ مسلمان ان سے گریز کر سکیں،اسماء ہر زمانے اور لوگوں کے اختلاف کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں،لیکن جہاں تک ان کے اوصاف کی بات ہے تو صفتیں ہمیشہ ایک ہی رہتی ہیں۔

ایک فائدہ یہ ہے کہ  جو عذاب یافتہ لوگوں کی بستی سے گزرے اسے چاہئے  کہ وہ عبرت حاصل کرتے ہوئے  اور روتے ہوئے وہاں سے گزرے۔

ایک فائدہ یہ ہے کہ تالیفِ قلب اور  اتحاد قائم کرنا ایک عظیم  ہدف ہے،کیوں کہ مسجد ضرار جسے منہدم کردیا گیا، کا ایک مقصد یہ بھی  تھا کہ مومنوں کے درمیان تفریق پیدا کی جائے۔﴿ وَتَفْرِيقًا بَيْنَ الْمُؤْمِنِينَ ﴾ [التوبة: 107]

ترجمہ: اور ایمانداروں میں تفریق ڈالیں۔

اس سے یہ فائدہ بھی  ظاہر ہوتا ہے کہ عمل کے اندر نیک نیتى کی اہمیت ہے کیوں کہ جو عذر کی وجہ سے مسلمانوں کے ساتھ نہ جاسکے،اللہ نے انہیں بھی اجر سے نوازا۔

ایک آخری فائدہ یہ کہ مومنوں کا مذاق اڑانا منافقوں  کا شیوہ ہے اور  افواہ پھیلانا اور خوف پیدا کرنا ان کا ایک دوسرا  طریقہ  ہے۔

مترجم:

شفاء اللہ الیاس تیمی

([email protected])

المرفقات

1641572430_غزوہ تبوک.pdf

المشاهدات 1217 | التعليقات 0