عمل صالح اور تقوی کی توفیق کے اسباب

سيف الرحمن التيمي
1443/03/03 - 2021/10/09 05:07AM

موضوع الخطبة : أسباب التوفيق للعمل الصالح والتقوى

الخطيب        : فضيلة الشيخ حسام بن عبد العزيز الجبرين/ حفظه الله

لغة الترجمة     : الأردو

المترجِم         :شفاء الله التيمي((@Ghiras_4T

موضوع:

عمل صالح اور تقوی کی توفیق کے اسباب:

الحمدُ لله برحمته اهتدى المُهتدونَ، وبعدلِهِ وحكمَتِهِ ضلَّ الضَالونَ، وأشهدُ أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له لا يُسألُ عمَّا يفعلُ وهم يُسألونَ، وأشهدُ أنَّ محمدًا عبدُ الله ورسولُه، ترَكنا على مَحجَّةٍ بَيضَاءَ لا يزيغُ عنها إلاَّ جاهلٌ أو صاحبُ هوى مفتون، صلَّى الله عليه وعلى آله وأصحابِه وأتباعِه بإحسانٍ إلى يوم الدين وسلم تسليما كثيرًا.

حمد وثنا کے بعد!

میں خود کو اور آپ کو تقوی الہی کی وصیت کرتا ہوں: ﴿ وَاتَّقُواْ يَوْمًا تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللّهِ ثُمَّ تُوَفَّى كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَهُمْ لاَ يُظْلَمُونَ ﴾ (البقرة:281)

ترجمہ: اور اس دن سے ڈرو جس میں تم سب اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹائے جاؤگے اور ہر شخص کو اس کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔

اے میرے احباب!ہم میں سے ہر کوئی جنت کی خواہش رکھتا ہے اور جنت کے بلند وبالا مقام پر فائز ہونے والے خوش نصیبوں میں شامل ہونا چاہتا ہے، ہم میں سے ہر کوئی جہنم سے خوف کھاتا ہے اور ہر نماز میں جہنم اور عذابِ قبر سے پناہ مانگتا ہے،لیکن ہماری حالت یہ ہے کہ ہم بہت ساری  اطاعت  وبندگی میں کوتاہی کرتے ہیں،یا تو ان اعمال کو بالکلیہ ترک کردیتے  ہیں یا انہیں شاذ ونادر ہی انجام دیتے ہیں یا ان کی ادائیگی میں کوتاہی سے کام لیتے ہیں،بسااوقات ہماری حالت یہ ہوتی ہے کہ ہم اللہ کے منع کردہ حدود کی پامالی کرتے ہیں،اسی طرح توبہ واستغفار  میں بھی ہم کوتاہی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

آئیے ہم ایسے (موضوع پر) گفتگو کرتے ہیں جس سے ممکن ہے کہ اللہ تعالی  متکلم اور سامع  دونوں کو فائدہ پہنچائے،کیوں کہ بسااوقات ایسا ہوتا ہے کہ جن کے پاس بات پیش کی جاتی ہےوہ پیش کرنے والے سے زیادہ سمجھدار ہوتے ہیں!

اے رحمان کے بندو!نیک اعمال اور تقوی الہی کی توفیق کا ایک سبب یہ ہے کہ: اللہ کے سامنے اپنی حاجت وفقیری کا اظہار کیا جائے اور ہر طرح کی طاقت وقوت سے اظہارِ براءت کیا جائے،توفیق الہی سے سرفراز ہونے کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ اللہ پاک کےتئیں اپنی حاجت وفقیری کے احساس ‘ اور اپنے عزیز وبرتر پروردگار کی ہدایت اور توفیق کی شدید حاجت سے دل کو معمور رکھا جائے اور  اپنی ناتوانی و جہالت کا اعتراف کیا جائے۔یہ احساس اور اعتراف انسان کو عمل صالح کی توفیق کے ایک عظیم ترین سبب تک لے جاتا ہے اور وہ ہے: کثرت سے اور الحاح وزاری کے ساتھ اللہ سے   ہدایت کی دعا  کرنا ۔ کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ   نے اپنی راہِ  مستقیم کی ہدایت کی دعا ‘ قرآن کریم کی عظیم ترین  سورۃ  میں ذکر  کیا ہے،اور اس کی تلاوت کو نماز کا رکن بنادیا ہے،اور یہ نماز توحید کے بعد  سب سے عظیم فریضہ ہے،پھر آپ غور کریں  کہ   نبی صلی اللہ علیہ وسلم کتنی کثرت سے ہدایت  کی دعا کرتے،عبادت کی بجاآوری کی مدد مانگتے،خیر وبھلائی کے کاموں کو انجام دینے اوربرائیوں سے باز رہنے کی دعا کرتے  ، نفس اور شیطان کے شر سے پناہ مانگتے تھے۔

حدیث قدسی میں آیا ہے:"اے میرے بندو! تم سب گمراہ ہو،سوائے اس کے جسے میں ہدایت دوں ،اس لیے تم سب مجھ سے ہدایت مانگومیں تمہیں ہدایت دوں گا"۔(اسے مسلم نے روایت کیا ہے)

نیز قرآن کریم میں بھی آیا ہے: ﴿ اللَّهُ يَجْتَبِي إِلَيْهِ مَن يَشَاءُ وَيَهْدِي إِلَيْهِ مَن يُنِيبُ ﴾ (الشورى:13)

ترجمہ:اللہ تعالی جسے چاہتا ہے اپنا برگزیدہ بناتا ہے اور جو بھی اس کی طرف رجوع کرے وہ اس کی صحیح رہنمائی کرتاہے۔

تقوی اور نیک اعمال کی توفیق کا ایک سبب دل کی صالحیت اور نیک نیتی بھی ہے: "سنو! جسم میں ایک ٹکڑا ہے، اگر ٹھیک رہا تو سارا جسم ٹھیک رہا اور اگر وہ بگڑ گیا تو سارا جسم بگڑ گیا۔ سنو! وہ دل ہے"۔ (بخاری ومسلم)

نیز قرآن میں آیا ہے: ﴿ يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّمَن فِي أَيْدِيكُم مِّنَ الأَسْرَى إِن يَعْلَمِ اللّهُ فِي قُلُوبِكُمْ خَيْرًا يُؤْتِكُمْ خَيْرًا مِّمَّا أُخِذَ مِنكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ وَاللّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴾ (الأنفال:70)

ترجمہ:اے نبی! اپنے ہاتھ تلے کے قیدیوں سے کہہ دو کہ اگر اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں میں نیک نیتی دیکھے گا تو جو کچھ تم سے لیا گیا ہے اس سے بہتر تمہیں دے گا اور پھر گناه بھی معاف فرمائے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے ہی۔

اے مومن بھائیو!عمل صالح کی توفیق کے اسباب میں سے یہ بھی ہے کہ بندے کو جتنا میسر ہو اتنا  عمل ضرور کرے اور اس  پر ہمیشگی برتے،کیوں کہ  حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے:"رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا: اللہ تعالی کوکون ساعمل زیادہ پسند ہے؟ آپ نے فرمایا:"جسے ہمیشہ کیا جا ئے اگر چہ کم ہو"۔(مسلم)

  معلوم ہوا کہ دائمی عمل‘ اگر کم بھی ہو تو اس سے ایمان کو غذا فراہم ہوتی‘ نفس کا تزکیہ ہوتا اور عمل میں بڑھوتری ہوتی ہے۔

عکرمہ کہتے ہیں:"حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ(کا معمول تھا کہ)وہ روزانہ بارہ ہزار مرتبہ سبحان اللہ پڑھا کرتے تھے"۔

نیک عمل اور تقوی کی توفیق کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ بندہ  اللہ کے  اس احسان وفضل کو ہمہ وقت یاد رکھے کہ اللہ نے انہیں ہدایت سے سرفراز کیا، اس کی مدد ونصرت فرمائی اور اپنی توفیق سے نوازا: ﴿بَلِ اللَّهُ يَمُنُّ عَلَيْكُمْ أَنْ هَدَاكُمْ لِلْإِيمَانِ ﴾ (الحجرات:17)

ترجمہ:بلکہ دراصل اللہ کا تم پر احسان ہے کہ اس نے تمہیں ایمان کی ہدایت کی۔

ایک دوسری آیت میں ہے: ﴿وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ مَا زَكَا مِنكُم مِّنْ أَحَدٍ أَبَدًا وَلَكِنَّ اللَّهَ يُزَكِّي مَن يَشَاءُ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ﴾ (النور21)

ترجمہ: اور اگر اللہ تعالیٰ کا فضل وکرم تم پر نہ ہوتا تو تم میں سے کوئی کبھی بھی پاک صاف نہ ہوتا۔ لیکن اللہ تعالی جسے پاک کرنا چاہے، کر دیتا ہے،اور اللہ سب سننے واﻻ سب جاننے والا ہے۔

اگر بندے کو  نیک عمل کی توفیق ملے  یا  برائی سے دور ی میسر ہو تو  اس توفیق  پر اللہ کی تعریف وتوصیف کرنا  اور اس کا شکر بجالانا بھی  توفیق کا ایک سبب ہے،کیوں کہ  شکر سے نعمتوں میں اضافہ ہوتا ہے اور نیک اعمال ایک عظیم نعمت ہے۔

اعمال صالحہ اور تقوی الہی کی توفیق کا ایک سبب ایمان کو غذا فراہم کرنے والے اعمال کی حرص رکھنا بھی ہے،مثلاً ذکر کی مجلسوں میں شرکت کرنا،اللہ کے اسمائے حسنی کی معرفت حاصل کرنا، کلام الہی کو سننا ،اسی طرح آخرت اور آخرت کی یاد دہانی کرانے والے امور میں غور وفکر کرنا ۔

کیوں کہ حدیث میں آیا ہے:"مریضوں کی تیمارداری کرو،جنازے میں شریک ہوا کرو،یقینا اس سے آخرت کی یاد تازہ ہوتی ہے"۔(اس حدیث  کو البانی نے صحیح کہا ہے)

عمل صالح کی توفیق کے اسباب میں گناہوں سے بچنا بھی ہے،کیوں کہ گناہ بندے کی حرماں نصیبی کی وجہ ہے،اللہ تعالی فرماتا ہے: ﴿فَإِن تَوَلَّوْاْ فَاعْلَمْ أَنَّمَا يُرِيدُ اللّهُ أَن يُصِيبَهُم بِبَعْضِ ذُنُوبِهِمْ ﴾

ترجمہ: اگر یہ لوگ منہ پھیر لیں تو یقین کریں کہ اللہ کا اراده یہی ہے کہ انہیں ان کے بعض گناہوں کی سزا دے ہی ڈالے۔

تقوی کا ایک سبب نماز کو اس کے  ارکان وشروط اور سنن وواجبات کے ساتھ ادا کرنا ہے: ﴿ وَأَقِمِ الصَّلَاةَ إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاء وَالْمُنكَرِ ﴾ (العنكبوت:45)

ترجمہ:نماز قائم کریں،یقینا نماز بےحیائی اور برائی سے روکتی ہے۔

اللہ مجھے اور آپ کو قرآن وحدیث اور ان میں موجود ہدایت وحکمت کی باتوں سے فائدہ پہنچائے، اللہ سے توبہ واستغفار کیجئے۔  یقینا وہ بہت زیادہ بخشنے والا ہے۔

دوسرا خطبہ:

تمام تعریف اس اللہ کے لئے ہے جس کا فرمان ہے: ﴿ فَالْيَوْمَ لَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْئًا وَلَا تُجْزَوْنَ إِلَّا مَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ﴾ (يس:54)

ترجمہ: آج کسی شخص پر کچھ بھی  ظلم نہ کیا جائے گا اور تمہیں نہیں بدلہ دیا جائے گا، مگر صرف ان ہی کاموں کا جو تم کیا کرتے تھے۔

اللہ کی رحمت و سلامتی نازل ہوں  خوشخبری دینے والے اور ڈرانے والے (نبی پر جو) روشن چراغ  (کی مانند ) ہیں‘ اور آپ کے آل و اصحاب پر۔

حمد وصلاة  کے  بعد!

اے رحمان کے بندو!نیکی  اپنی جیسی دوسری نیکی کو  بھی ندا لگاتی ہے ،اور ہمارا رب بڑا بخشنے  والا نہایت قدردان  ہے،اس کا فضل ہی ہے کہ بندہ جب نیک عمل انجام دیتا ہے تو اسے مزید خیر کی توفیق ملتی ہے،کوئی  ایسا شخص ہے جو ہر ہفتے یا ہر تین رات میں قرآن ختم  کرتا ہو اور وہ  اس مرحلہ تک یکبارگی پہنچ گیا ہو؟ نہیں،اس نے  محدود مقدار سے آغاز کیا،لیکن اللہ نے سے ایک کے بعد دوسرے مرحلے میں  مزید  توفیق سے  نوازا ،کیا کوئی ایسا ہے جو اپنے مال کا دسواں،یا چوتھا یا نصف حصہ صدقہ کرتا ہو اور وہ اس مقام  تک ایک ہی بار میں پہنچ گیا ہو؟ نہیں، اس نے  معمولی چیز سے صدقہ دینے کا آغاز کیا لیکن اللہ نے اسے مزید کی توفیق بخشی۔

اے ایمانی بھائیو!اعمال صالحہ کی توفیق کا ایک سبب والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا اور ان کی خوشنودی حاصل کرنا ہے،امام ترمذی،امام ابن حبان اور امام حاکم نے  مرفوعاً روایت کیا ہے:"اللہ کی رضامندی والدین کی رضامندی میں ہے اور اللہ کی ناراضگی والدین کی ناراضگی میں ہے"۔(اس حدیث کو البانی نے صحیح کہا ہے)

اللہ جسے اپنی خوشنودی کے ذریعے عزت بخشتا ہے،اسے اپنے رب کی اجازت سے مزید خیر وبھلائی کی توفیق ملتی ہے۔

نیک عمل کی توفیق   کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ:   انسان وقفے وقفے سے خود کو (نیکی کے کاموں میں) آگے بڑھائے اور ان اوقات سے فائدہ اٹھائے  جن میں نفس عبادت کے لیے نشیط ہوتا ہے،کیوں کہ نفس میں اتار چڑھاؤ ہوتا رہتا ہے،اسی لئے علمائے کرام نے اسے  مستحب  بتایا ہے کہ مسلمان رات میں تین،یا چار،یا پانچ یا  نو یا اس سے زیادہ رکعات ادا کرے،ہر رات ان   نمازوں کی پابندی کرے ،اپنے نشاط اور  دلجمعی کے مطابق نماز لمبی یا مختصر پڑھے۔

نیک عمل کی توفیق کا ایک سبب  کثرت سے خیر وبھلائی کے وہ اعمال کرنا ہے جن کے دروازے اس کے لئے کھول دیے جاتے اور ان کی ادائیگی میں اس کے لئے  آسانی پیداکردی جاتی ہے،چنانچہ کسی  شخص کے لئے روزے کے دروازے وا ہوتے ہیں جبکہ دوسرے  شخص کے لیے صدقہ وخیرات کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں اور تیسرے فرد کے لیے عوام الناس کو فائدے پہنچانے والے دروازے کھول دئے جاتے ہیں۔اسی طرح دیگر لوگوں کے لیے خیر وبھلائی کے الگ الگ  کام آسان کردئے جاتے ہیں.. اسی لیے مسلمان کو چاہئے کہ وہ  کثرت سے ایسے اعمال انجام دے  جن  میں اسے زیادہ مشقت کا سامنا نہ ہو۔

میں ایسے سبب کے ذریعے اپنی بات ختم کرنا چاہتا ہوں جو شاید عمل صالح کی توفیق کے اسباب میں سب سے اہم سبب ہے،اور وہ سبب ہے ذکر واذکار کے ذریعے شیطان سے تحفظ حاصل کرنا،خصوصا ایسے اذکار کے ذریعے جن کی یہ فضیلت آئی ہے کہ  وہ شیطان سے محفوظ رکھتے ہیں‘  جیسا کہ سو  مرتبہ لا الہ الا اللہ کہنے والی حدیث میں آیا ہے کہ: " ایسا شخص اس دن شیطان سے محفوظ رہتا ہے"‘ نیز گھر سے نکلنے کی دعا پڑھنا،اور سوتے وقت  آیت الکرسی اور دوسری آیتوں کی تلاوت کرنا،عمومی طور پر   اللہ کا ذکر کرنے سے شیطان بھاگتا ہے، شیطان ایسی مخلوق ہے جو اللہ کے ذکر سے دور بھاگتی ہے،اللہ ہمیں شیطان کے شرک اور اس کے پھندے سے محفوظ رکھے: ﴿ وَإِمَّا يَنزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ ﴾ (فصلت:36)

ترجمہ:اور اگر آپ کو کوئی وسوسہ شیطان کی طرف سے آنے لگے تو اللہ کی پناه مانگ لیا کیجئے۔ بلاشبہ وه خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے۔

اب ہم بات ختم کرتے ہیں۔ اے اللہ کے بندو! ہمیں اپنے گناہو ں کامقابلہ نیکیوں سے کرنی چاہئے : ﴿وَأَقِمِ الصَّلاَةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِّنَ اللَّيْلِ إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّـيِّئَاتِ ذَلِكَ ذِكْرَى لِلذَّاكِرِينَ ﴾ (هود:114)

ترجمہ:دن کے دونوں سروں میں نماز برپا رکھ اور رات کی کئی ساعتوں میں بھی۔ یقیناً نیکیاں برائیوں کو دور کر دیتی ہیں۔یہ نصیحت ہے نصیحت پکڑنے والوں کے لئے۔

نیز ہمیں  توبہ واستغفار کے ذریعے اپنے نفس کو گناہوں کی غلاظت سے پاک  وصاف کرنا چاہئے: ﴿ وَاسْتَغْفِرُواْ رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُواْ إِلَيْهِ إِنَّ رَبِّي رَحِيمٌ وَدُودٌ ﴾ (هود:90)

ترجمہ:تم اپنے رب سے استغفار کرو اور اس کی طرف توبہ کرو، یقین مانو کہ میرا رب بڑی مہربانی والا اور بہت محبت کرنے والا ہے۔

اے اللہ! ہم سے ہمارے گناہ اتنے دور کر دے جتنا تو نے مشرق اور مغرب کے درمیان فاصلہ رکھا ہے۔ اے اللہ!ہمیں  ہمارے گناہوں سے اس طرح پاک وصاف کر دے جیسے سفید کپڑا میل کچیل سے پاک صاف کیا جاتا ہے۔ اے اللہ!ہمارے گناہ پانی، برف  اور اولوں سے دھو دے۔

 

اردو ترجمہ:     شفاء اللہ الیاس تیمی

نظر ثانی:           سیف الرحمن تیمی

[email protected]

المرفقات

1633756024_عمل صالح اور تقوی کی توفیق کے اسباب.pdf

المشاهدات 1877 | التعليقات 0