رمضان کی دس حکمتیں

سيف الرحمن التيمي
1443/08/21 - 2022/03/24 08:40AM

موضوع الخطبة: عشر حكم من رمضان

الخطيب        : فضيلة الشيخ ماجد بن سليمان الرسي/ حفظه الله

لغة الترجمة      : الأردو

المترجم          :سيف الرحمن التيمي ((@Ghiras_4T

 

پہلا خطبہ

إن الحمد لله نحمده ، ونستعينه، ونعوذ بالله من شرور أنفسنا ومن سيئات أعمالنا، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أن محمدا عبده ورسوله.

حمد وثنا کے بعد!

سب سے بہترین کلام اللہ کا کلام ہے، اور سب سے بہترین طریقہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے، سب سے بدترین  چیز  دین میں  ایجاد کردہ بدعتیں ہیں، اور (دین میں) ہر ایجاد کردہ چیز بدعت ہے، ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے۔

1.        اے مسلمانو! میں آپ کو ا ور خود کو اللہ کے تقوی وخشیت کی وصیت کرتا ہوں،  یہی وہ وصیت ہے جو پہلے اور بعد کے تمام لوگوں کو کی گئی ، فرمان باری تعالى ہے: (ولقد وصينا الذين أوتوا الكتاب من قبلكم وإياكم أن اتقوا الله)

ترجمہ: واقعی ہم نے ان لوگوں کو جو تم سے پہلے کتاب دیئے گئے تھے اور تم کو بھی یہی حکم کیا ہے کہ اللہ سے ڈرتے رہو ۔

·       اس لئے اللہ تعالی سے ڈریں اور اس سے خائف رہیں، اس کی اطاعت کریں اور اس کی نافرمانی سے گریز کریں، جان رکھیں کہ اللہ تعالی کی اپنے بندوں پر یہ رحمت ہی ہے کہ  ان کے لئے خیر وبھلائی کے مواقع مہیا کیا، جن میں نیک اعمال  پر کئی گنا اجر وثواب ملتا ہے ،  برے اعمال معاف کئے جاتے ہیں، اور جنت میں مومنوں کے درجات بلند کیے جاتے ہیں۔

·       اے اللہ کے بندو! اللہ تعالی نے اپنی حکمت کے پیش نظر بندوں کے لئے ماہ رمضان کو  مشروع کیا، جس میں طلوع فجر سے غروب آفتاب تک انسان کھانے پینے او ر جماع کرنے سے رکا رہتا ہے۔

۱-اللہ تعالی نے بڑی حکمتوں کے پیش نظر روزے کو مشروع کیا ہے([1])، ان میں سب سے بڑی  حکمت تقوی کا حصول ہے: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمْ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُون﴾.

ترجمہ: اے ایمان والو! تم پر روزے رکھنا فرض کیا گیا، جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے، تاکہ تم تقوی اختیار کرو۔

آیت سے معلوم ہوا کہ روزے کی مشروعیت کی حکمت یہ ہے کہ تقوی اختیار کیا جائے، تقوی یہ ہے کہ بندہ اپنے اور عذاب الہی کے درمیان بچاؤ کی دیوار قائم کرے ، بایں طور کہ اوامر کو بجالائے اور نواہی سے اجتناب کرے۔

۲-روز ہ کی ایک حکمت یہ ہے کہ وہ نعمتوں کا شکر ادا کرنے کا ذریعہ ہے، کیوں کہ روزہ نام  ہے کھانے ، پینے اور جماع سے نفس کو باز رکھنے کا ،  جو کہ  بڑی بیش بہا  نعمتیں ہیں،  لیکن روزے کی حالت میں ان سے باز رہنے سے انسان کو ان کی قدر ومنزلت کا احساس ہوتا ہے، جب انسان ان نعمتوں سے محروم ہوتا ہے تو ان کی اہمیت اور قدر ومنزلت  سمجھ میں آتی ہے ، چنانچہ  حالتِ صیام میں ان سے باز رہنا ان نعمتوں پر اللہ کا شکر ادا کرنے پر آمادہ کرتا ہے۔

۳- روزے کی ایک حکمت یہ ہے کہ وہ اللہ کی  محرمات  کو ترک کرنے  کا وسیلہ ہے ،   کیوں کہ روزہ  نفسانی خواہشات کو زیر کرنے اورشدت وحدت اور  کبروغرور سے نفس کو باز رکھنے کا سبب ہے،  جس سے انسان کے اندر حق کو قبول کرنے اور لوگوں کے ساتھ نرمی برتنے کی خوبی پیدا ہوتی ہے،  جب کہ ہمیشہ شکم سیر اور آسودہ رہنے اور  عورتوں سے مباشرت کرنے  سے کبر وغرور  اور کفران نعمتِ   جنم لیتا ہے۔

۴-روزہ کی ایک حکمت یہ بھی ہے کہ وہ شہوت پر غلبہ حاصل کرنے میں نفس کی مدد کرتا ہے ، کیوں کہ نفس جب شکم سیر ہو تو اس میں  شہوت کی خواہش  پیدا ہوتی ہے، اور جب وہ بھوکا ہو تو  شہوت پسندی سے باز رہتا ہے،  اسی لیے نبی صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " اے نوجوانوں کی جماعت! تم میں سے جو بھی نکاح کی طاقت رکھتا ہو تو اسے شادی کر لینا چاہئے کیوں کہ یہ نگاہ نیچا کرتی ہے او ر بدکاری سے بچاتی ہے او رجو نکاح کی طاقت نہ رکھتا ہو وہ روزے رکھ لے کیوں کہ  روزہ شہوت کو توڑنے والا ہے"([2])۔

۵-روزہ  کی ایک حکمت یہ بھی ہے کہ  وہ مسکینوں کے لئے شفقت ورحمت کا ذریعہ ہے،  کیوں کہ روزہ دار جب کچھ دیر کے لیے  بھوک کی تکلیف محسوس کرتا ہے  تو اس کے ذہن میں ان فقیروں اور مسکینوں کی یاد تازہ ہوجاتی ہے جو ہمہ وقت بھوکے  پیاسے ہوتے ہیں،  جس کے نتیجے میں اس کے اندر فقیر ومسکین کے تئیں رحمت ونرمی پیدا ہوتی ہے،  اس کے ساتھ حسن سلوک کرنے  اور  ان پر صدقہ وخیرات کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے، اس طرح روزہ مسکینوں کے لئے شفقت ورحمت اور سماج میں باہمی الفت ومودت کو رواج دینے  کا ذریعہ بن جاتا ہے۔

۶-روزے کی ایک حکمت یہ ہے کہ اس سے شیطان مغلوب اور کمزورہوتا ہے ، انسان کے تئیں اس کا وسوسہ کمزور پڑ جاتا ہے، چنانچہ انسان معصیت کے کام کم کردیتا ہے، کیوں کہ شیطان ابن آدم کی رگوں میں خو ن کی طرح دوڑتا ہے، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی خبر دی ہے([3])، روزے سے  شیطان کا راستہ  تنگ  ہوجاتا جس سے وہ کمزو ر پڑ جاتا اور اس کا غلبہ وتسلط  کم  ہوجاتا ہے،   لہذا دلوں میں خیر وبھلائی کے کام کرنے اور گناہوں سے باز رہنے کا داعیہ اور جذبہ امڈنے لگتا ہے۔

۷-روزہ کی ایک حکمت یہ ہے کہ  روزہ دار شخص اپنے نفس کو ہر گھڑی اللہ تعالی کو یاد رکھنے کا عادی بناتا ہے، چنانچہ روزہ دار  قدرت رکھنے کے باوجود نفسانی خواہشات کو ترک کر دیتاہے ، محض اس علم کی بنیاد پر  کہ  اللہ تعالی اسےدیکھ رہا ہے۔

۸-روزہ کی ایک حکمت یہ ہے کہ وہ مومن کو کثرت سے اطاعت کے کام کرنے کا عادی بناتا ہے، اس لیے کہ اکثر روزے کی حالت میں انسان کثرت سے اطاعت کے کام کرتا ہے، مثلا ً ذکر الہی  ‘  تلاوت قرآن اور نماز ، اس کے نتیجے میں وہ  رمضان کے ساتھ دیگر ایام میں بھی ان عبادتوں کو انجام دینے کا عادی ہوجاتا ہے۔

۹-روزہ کی ایک حکمت یہ بھی ہے کہ اس  کے ذریعے  دنیا اور اس کی شہوتوں سے بے رغبتی پید ا ہوتی ہے اور اللہ تعالی  کے پاس جو اجر وثواب ہے اس کی رغبت پیدا ہوتی ہے۔

۱۰-روزہ کی ایک حکمت یہ بھی ہے کہ  اس کے ذریعے پوری دنیا میں اللہ کی عباد ت کا مظاہرہ ہوتاہے، آپ دیکھتے ہیں کہ پوری دنیا کے تمام مسلمان اس مہینے میں اجتماعی طور پر روزہ رکھتے ہیں، حتی کہ بے روزہ گناہ گار -اللہ کی پناہ-بھی کھلے عام کھانے پینے کی جرات نہیں کرتا، بلکہ کافر بھی مسلمانوں کے احترام میں ان کے  سامنے کھانے پینے سے گریز کرتا ہے، بے شک اس سے ایک اہم ترین عبادت کاکھلے طور پر  مظاہرہ ہوتا  ہے۔

۱۱-روزہ کی ایک حکمت یہ بھی ہے کہ اس کے ذریعے انسانی جسم کو بہت سے طبی فوائد حاصل ہوتے ہیں، چنانچہ روزہ دل کی دھڑکن کو درست کرتا ہے، خون کو نقصاندہ چربی، کولسٹرول اور حمضیات سے پاک وصاف کرتا ہے،   معدہ کو راحت پہنچاتا ہے، انسان کو موٹاپا سے بچاتا ہے، جسم میں جو زہریلے مواد جمع ہوجاتے ہیں ، ان کو  خارج کرنے  میں مدد کرتا ہے،  بلڈ پریشر اور ذیابطیس(SUGAR) کا توازن بحال رکھتا ہے۔

·       یہ وہ دس حکمتیں ہیں جو روزے کی مشروعیت میں پوشیدہ رکھی گئی ہیں۔

·       اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں رمضان کے روزے اسی طرح رکھنے کی توفیق دے جس طرح اسے پسند ہے،اپنے ذکر و شکر اور حسنِ عبادت  پر ہماری  مدد فرمائے ۔

·       اللہ تعالی ہمیں اور آپ کو قرآن مجید کی برکتوں سے بہرہ مند فرمائے ، ہمیں اور آپ کو اس کی آیتوں اور حکمت پر مبنی نصیحت سے فائدہ پہنچائے ، میں اپنی یہ بات کہتے ہوئے اللہ تعالی سے اپنے لئے اور آپ سب کے لئے ہر گناہ سے مغفرت طلب کرتا ہوں ، آپ بھی اس سے استغفار کریں، یقینا  وہ خوب توبہ قبول کرنے والا اور بہت معاف کرنے والا ہے۔


 

دوسرا خطبہ:

 الحمد لله وكفى، وسلام على عباده الذين اصطفى، أما بعد:

آپ جان رکھیں-اللہ آپ پر رحم فرمائے-کہ نبی صلى اللہ علیہ وسلم کا یہ  طریقہ تھا کہ جب نیا چاند دیکھتے تو فرماتے: "اللهم أهِلَّه علينا باليُمن والإيمان والسلامة والإسلام، ربي وربك الله"([4])

 (یعنی: اے اللہ! تو اسے ہم پر طلوع کر امن، ایمان، سلامتی اور اسلام کے ساتھ، (‏‏‏‏اے چاند!) میرا اور تیرا رب اللہ ہے)۔

آپ جب بھی نیا چاند دیکھتے تو یہ دعا پڑھتے ، خواہ رمضان کا چاند ہو یا کسی اور مہینے کا، ہمیں بھی آپ کی پیروی کرنی چاہئے ، بطور خاص اس لئے کہ اس دعا میں عمل صالح  پر اللہ کی  مدد طلب کی گئی ہے۔

·       اے اللہ کے بندو! جب اللہ تعالی بندے پر یہ انعام کرتا ہے کہ اسے یہ مہینہ مل جائے، تو اسے یہ جاننا  چاہئے کہ  یوں ہی  بے کار اللہ نے اس سے نہیں نوازا ہے،  بلکہ آزمائش کے طور پر نوازا ہے تاکہ جان سکے کہ کیا وہ رمضان  کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے یا نہیں، جسے روزے رکھنا، قیام اللیل کرنا اور اپنے نفس کو راہ مستقیم پر قائم ودائم رکھنا۔

·       لہذا عبادت میں خوب محنت ولگن سے کام لیجئے ، نیکیوں میں اپنی سرگرمی دکھائیے ، کیوں کہ  رمضان گنتی کے چند دنوں پر مشتمل ہے ‘ پھر وہ ہم سے جدا ہوجائے گا‘   اور راہ زنوں اور انسانی شیطانوں  سے ہوشیار رہیئے جو شہوت کی پیروکاری کرتے  ہیں، جو  رمضان میں بھی لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکتے ہیں، بایں  طور کہ  غفلت میں ڈالنے والے پروگرامز نشر کرتے اور اخلاق سوز سیریلز چلاتے ہیں۔

·       سلف صالحین کا وطیرہ تھا کہ وہ رمضان میں درس وتدریس کو بھی ترک کردیا کرتے تھے تاکہ صیام وقیام، ذکر واذکار او رتلاوت قرآن کے لئے خود کو فارغ رکھ سکیں، بھلا اس شخص کا عمل کیسے درست ہوسکتا ہے جو ان چا ر وں  بنیادی اعمال سے پہلو تہی کرتے ہوئے لہو ولعب میں مشغول ہوجائے؟!

·       آپ  یہ بھی جان رکھیں –اللہ آپ پر اپنی رحمت نازل فرمائے - کہ اللہ  تعالی نے آپ کو ایک بڑی چیز کا حکم دیا ہے، فرمان باری تعالی ہے:

(إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا)

ترجمہ: اللہ تعالی اور اس کے فرشتے اس نبی پر رحمت بھیجتے ہیں ۔اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود بھیجو اور خوب سلام بھی بھیجتے رہا کرو۔

اے اللہ !تو اپنے بندے اور رسول محمد پر رحمت و سلامتی بھیج،تو  ان کے  خلفاء ،تابعین عظام اور قیامت تک اخلاص کے ساتھ ان کی  اتباع کرنے والوں سے راضی ہوجا۔ اے اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو عزت وسربلندی عطا فرما،شرک اور مشرکوں کو ذلیل وخوار کر،تواپنے اور دین اسلام کے دشمنوں کو نیست ونابود کردے،اور اپنے موحد بندوں کی مدد فرما۔اے اللہ! ہمیں اپنے ملکوں میں امن وسکون کی زندگی عطا کر،ہمارے اماموں اور ہمارے حاکموں کی اصلاح فرما،انہیں ہدایت کی رہنمائی کرنےوالا اور ہدایت پر چلنے والا بنا۔ اے اللہ!   تمام مسلم حکمرانو ں کو  اپنی کتاب کو نافذ کرنے  اور   اپنے دین کو سر بلند کرنے  کی توفیق ارزانی کر، انہیں ان کے ماتحتوں  کے لئے رحمت بنادے۔

·       اے اللہ ! ہمیں رمضان نصیب فرما اور اس میں روزے رکھنے اور قیام اللیل کرنے میں ہماری مدد فرما،  اے ہمارے پرودگار! ہمیں دنیا میں  نیکی دے اور آخرت میں بھلائی عطا فرما اور ہمیں عذاب جہنم سے نجات بخش۔

سبحان ربك رب العزة عما يصفون وسلام على المرسلين والحمد لله رب العالمين

 تحریر:

ماجد بن سلیمان الرسی

۲۷  شعبان ۱۴۴۲ھ

شہر جبیل-سعودی عرب

0966505906761

ترجمہ: سیف الرحمن حفظ الرحمن تیمی

[email protected]



 ([1])  یہ باب "الإسلام‘ سوال وجواب" ویب سائٹ (http://islamqa.info/ar/26862) اور شیخ محمد بن صالح بن عثیمین رحمہ اللہ کی کتاب "مجالس شہر رمضان" کے باب المجلس التاسع سے اختصار وتصرف کے ساتھ منقول ہے ۔
 ([2])  اسے بخاری (۵۰۶۵) نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔
 ([3])  اسے بخاری(۲۰۳۹) اور مسلم(۲۱۷۵) نے صفیہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے۔
 ([4])  اسے احمد (۱/۱۶۲) نے طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے ‘ اور المسند کے محققین نے حدیث نمبر (۱۳۹۷) کے تحت اسے شواہد کی روشنی میں حسن کہا ہے۔

المشاهدات 1127 | التعليقات 0