رمضان کی بیس خصوصیات

سيف الرحمن التيمي
1442/10/07 - 2021/05/19 11:47AM

موضوع الخطبة  :الخصائص العشرون لشهر رمضان

الخطيب        : فضيلة الشيخ ماجد بن سليمان الرسي/ حفظه الله

لغة الترجمة      : الأردو

المترجم          :سيف الرحمن التيمي ((@Ghiras_4T

 

پہلا خطبہ

إن الحمد لله نحمده ، ونستعينه، ونعوذ بالله من شرور أنفسنا ومن سيئات أعمالنا، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أن محمدا عبده ورسوله.

حمد وثنا کے بعد!

سب سے بہترین کلام اللہ کا کلام ہے، اور سب سے بہترین طریقہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے، سب سے بدترین  چیز  دین میں  ایجاد کردہ بدعتیں ہیں، اور (دین میں) ہر ایجاد کردہ چیز بدعت ہے، ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے۔

·       اے مسلمانو! میں آپ کو ا ور خود کو اللہ کے تقوی کی وصیت کرتا ہوں،  یہی وہ وصیت ہے جو پہلے اور بعد کے تمام لوگوں کو کی گئی ، فرمان باری تعالى ہے: (ولقد وصينا الذين أوتوا الكتاب من قبلكم وإياكم أن اتقوا الله)

ترجمہ: واقعی ہم نے ان لوگوں کو جو تم سے پہلے کتاب دیئے گئے تھے اور تم کو بھی یہی حکم کیا ہے کہ اللہ سے ڈرتے رہو ۔

·       اس لئے اللہ تعالی سے ڈریں اور اس سے خائف رہیں، اس کی اطاعت کریں اور اس کی نافرمانی سے گریز کریں، جان رکھیں کہ  الله تعالى جو چاہتا ہے اپنے اختیار سے  پیدا کرتا ہے،  جیسا اس عزیز وبرتر کی حکمت کا تقاضہ ہوتا ہے ، چنانچہ اس نے بعض فرشتوں کو بعض پر فوقیت دی، بعض کتابوں کو بعض پر برتری عطا کی، بعض انبیاء کو بعض  دیگر انبیاء پر فضیلت بخشی، بعض جگہوں او ر وقتوں  کو بعض پر فوقیت دی،  اسی طرح ماہ رمضان کو دیگر مہینوں پر برتری عطا فرمائی، یہ بندوں کے تئیں اللہ کی رحمت ہے کہ اس نے ان کے لئے خیر وبھلائی کے مواقع مہیا فرمائے ، جن میں نیکیوں کے اجر وثواب کئی گنا بڑھا دئیے جاتے ہیں، برائیاں مٹائی جاتی ہیں، اور جنت میں درجات بلند کئے جاتے ہیں۔

اے اللہ کے بندو! گزشتہ خطبہ میں یہ بیان کیا گیا تھا کہ اللہ تعالی نے روزے کو دس عظیم  حکمتوں کی بنیاد پر مشروع کیا ہے([1])، بلکہ روزےکی حکمتیں اس سے بھی زیادہ ہیں،  ان میں سب سے عظیم حکمت وہ ہے جس کا ذکر اللہ تعالی نے اپنے اس فرمان میں کیا ہے: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمْ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُون﴾.

ترجمہ: اے ایمان والو! تم پر روزے رکھنا فرض کیا گیا، جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے، تاکہ تم تقوی اختیار کرو۔

·       جب یہ ثابت ہوگیا تو یہ بھی جان لیں-اللہ آپ پر اپنی رحمت کی برکھا برسائے-کہ رمضان کے روزے کی بیس خصوصیات ہیں، چنانچہ اس کی چند خصوصیات یہ ہیں:

۱-روزہ اسلام کا چوتھا رکن ہے، عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: "اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے: یہ گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں، اور نماز قائم کرنا، زکاۃ دینی، حج کرنا، اور رمضان کے روزے رکھنا"([2])۔

۲-روزے کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ اسلام سے ماقبل کی تمام شریعتوں میں مشروع تھا، جو اس کی عظمت ِشان کی دلیل ہے ، اللہ تعالی کا فرمان ہے: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمْ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُون﴾.

ترجمہ: اے ایمان والو! تم پر روزے رکھنا فرض کیا گیا، جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے، تاکہ تم تقوی اختیار کرو۔

۳-روزے کی ایک  خصوصیت یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اسے اپنی طرف منسوب کیا ہے، جوکہ تمام عبادتوں میں اس کی منفرد قدر ومنزلت پر دلالت کرتا ہے، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ابن آدم کا ہر عمل اس کا ہے سوا ئے روزہ کے کہ یہ میرا ہے اور میں خود اس کا بدلہ دوں گا ....  "۔

اللہ کے بندو!  اللہ تعالی کا تمام عبادتوں  کی بجائے  روزے کو خصوصیت کے ساتھ  اپنی طرف منسوب کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالی کے نزدیک یہ معزز او رمحبوب عبادت ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس عبادت میں اللہ تعالی کے تئیں بندے کا جذبہ اخلاص ظاہر وعیاں رہتا ہے، کیوں کہ روزہ بندے اور اس کے رب کے درمیان ایک راز ہے ، جس سے اللہ کے سوا کوئی واقف نہیں ہوتا، روزے دار خلوت و تنہائی میں ان چیزوں کو استعمال کرنے پر قادر ہوتا ہے جنہیں اللہ نے روزے کی وجہ سے حرام ٹھہرایا ہے، لیکن وہ ان کے استعمال سے باز رہتا ہے، کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ اس کا ایک رب ہے جو خلوت میں بھی   اسے دیکھ رہا ہےاور اس نے ان چیزوں کو اس پر حرام کیا ہے، چنانچہ وہ اللہ کے عذاب سے خوف کھاتے ہوئے اور اس کے اجر وثواب کی امید رکھتے  ہوئے   ان چیزوں کو  ترک کردیتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اللہ نے بندے کے اس اخلاص کی داد دی ہے اور تمام عبادتوں کی بجائے اس کے روزے کو  خصوصی طور پر اپنے لئے خاص کیا ہے۔

۴-رمضان کے روزے کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اللہ تعالی نے اس كے اجر وثواب کو  اپنی طرف منسوب کیا ہے اور فرمایا: ( میں ہی اس کا بدلہ دوں گا)،  چنانچہ  اجر وثواب کو اپنی ذات کریمہ کی طرف منسوب کیا اور کسی  تعداد کی تحدید نہیں فرمائی جس طرح دیگر اعمال صالحہ  میں اجر وثواب کی تحدید کی گئی ہے‘ مثلا یہ نہیں کہا کہ روزے کا ثواب دس گنا دیا جائے گا‘ بلکہ اجروثواب کو مطلقاً بیان کیا‘   جوکہ اس کی قدر ومنزلت پر دلالت کرتا ہے، وہ پاک وبرتر اللہ تمام کرم فرماؤں سے زیادہ کریم او رسارے داتاؤں سے بڑھ کر سخی وفیاض ہے، نوازش نوازنے والے کی عظمت کے بقدر ملتی ہے ۔

۵-روزے کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس میں صبر کی تینوں قسمیں یکجا ہوجاتی ہیں، اللہ کی اطاعت پر صبر، اللہ کی محرمات  (سے باز رہنے ) پر صبر، اور اللہ کی اذیت بخش تقدیروں پر صبر جیسے  بھوک وپیاس کی شدت اور  جسم وجاں کی کمزوری، اس طور پر روزہ دار کا  شمار ان صابروں میں ہوتا ہے جن کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا: (إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ)([3])

ترجمہ: صبر کرنے والوں ہی کو ان کا پورا پورا بےشمار اجر دیا جاتا ہے۔

۶-روزے کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ  اللہ تعالی نے روزہ داروں کے لئے جنت میں ایک ایسا دروازہ تیار کر رکھا ہے جس سے ان کے علاوہ کوئی نہیں داخل ہوگا، سہل بن سعد رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جنت کا ایک دروازہ ہے جسے ریان کہتے ہیں۔ قیامت کے دن اس دروازہ سے صرف روزہ دار ہی جنت میں داخل ہوں گے، ان کے سوا اور کوئی اس میں سے نہیں داخل ہو گا، پکارا جائے گا کہ روزہ دار کہاں ہیں؟ وہ کھڑے ہو جائیں گے۔ ان کے سوا اس سے اور کوئی نہیں اندر جانے پائے گا اور جب یہ لوگ اندر چلے جائیں گے تو یہ دروازہ بند کر دیا جائے گا پھر اس سے کوئی اندر نہ جا سکے گا"([4])۔

۷-روزہ کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ وہ جہنم سے بچانے والی  ڈھال ہے، عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلى اللہ علیہ کو وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: " روزه جہنم سے بچانے والی ڈھال ہے ، جس طرح تم میں سے کوئی  جنگ کے میدان میں ڈھال سے اپنا بچاؤ کرتا ہے"([5])۔

۸-روزہ کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ  اس سے گناہ معاف ہوتے ہیں، حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ  صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " انسان کی  جو آزمائش (فتنہ) اس کے گھر، مال اور پڑوس میں ہوتی ہے اس کا کفارہ، نماز، روزہ، صدقہ اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر جیسی نیکیاں بن جاتی ہیں"([6])۔

(انسان کی  جو آزمائش (فتنہ) اس کے گھر، مال اور پڑوس میں ہوتی ہے) یعنی ان کے حقوق کوادا کرنے ، ان کو اد ب اور علم کے زیور سے آراستہ کرنے کے سلسلے میں کوتاہی کرنے سے جو گناہ مرتب ہوتے ہیں، ان گناہوں کو روزہ جیسی عبادت مٹا دیتی ہے ، چنانچہ اللہ تعالی اس کی کوتاہی کو در گزر فرماتا ہے۔

(امر اور نہی) سے مراد بھلائی کا حکم دینا او ربرائی سے روکنا ہے۔

۹-ماہ رمضان کے روزوں  کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ مسلمانوں پر  یہ روزے آسان کردئے گئے ہیں، بایں طور کہ    روزہ دار جب یہ محسوس کرتا ہے کہ اس کے آس پاس کے تمام لوگ روزے سے ہیں، تو یہ احساس اس کےلئے روزہ رکھنا آسان کردیتا ہے اور اس کے اندر اس عبادت کے تئیں نشاط پیدا کرتا ہے۔

۱۰-روزہ کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ  اللہ تعالی نے روزہ کی حالت میں اللہ تعالی خصوصیت کے ساتھ روزہ دارکی دعا قبول کرتا ہے، اس کی دلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث ہے: "تين دعائیں ضرور قبول ہوتی ہیں: باپ کی دعا، روزہ دار کی دعا، مسافر کی دعا"([7])۔

نیز آپ    صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " اللہ تعالیٰ تین قسم کے لوگوں کی دعا رد نہیں کرتا: انصاف کرنے والا حکمراں، روزہ دار یہاں تک کہ وہ افطار کرلے، اور مظلوم"([8])۔

۱۱-ماہ رمضان کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ جو شخص ایمان  کے ساتھ احتسابِ  اجر (ثواب کی نیت) سے   ماہِ رمضان میں قیام  کرتاہے ، اس کے پچھلے گناہ معاف کردئے جاتے ہیں، ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " جس نے ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے رمضان میں قیام اللیل کی، یعنی نماز تراویح پڑھی اس کے پچھلے گناہ بخش دئیے جائیں گے"([9])۔

نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :  "جو شخص امام کے ساتھ قیام کرے یہاں تک کہ وہ فارغ ہو جائے تو اللہ تعالیٰ اس شخص کے حق میں پوری رات کے قیام (کا ثواب) لکھے گا"([10])۔

۱۲-رمضان  کی ایک خصوصیت یہ  بھی  ہے کہ  جو شخص ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھتا ہے  ، اس کے تمام پچھلے گناہ معاف کردئے جاتے ہیں، ابو ہریرۃ رضی اللہ  عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" جس نے رمضان کے روزے ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے رکھے اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیئے جائیں گے"([11])۔

ابو ہریرۃ رضی اللہ  عنہ سے مروی ہے کہ  نبی  صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر چڑھے اور تین  مرتبہ آمین کہا ، آپ سے دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا:  ميرے پا س جبرئیل تشریف لائے اور فرمایا: (جس نے ماہِ  رمضان کو پایا اور اس کی مغفرت نہ ہوسکی  اور وہ جہنم میں داخل ہوا۔ اللہ اسے –اپنی رحمت سے دور کردے-، آپ آمین کہیے ) تو میں نے آمین کہا ([12])۔

ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے: "جب (انسان) کبیرہ گناہوں سے اجتناب کر رہا ہو تو پانچ نمازیں ، ایک جمعہ (دوسرے ) جمعہ تک اور ایک رمضان دوسرے رمضان تک ، درمیان کے عرصے میں ہونے والے گناہوں کو مٹانے کا سبب ہیں"([13])۔

۱۳-ماہ رمضان کی ایک خصوصیت یہ ہے  کہ اس مہینے میں صدقہ کرنا مستحب ہے، ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے  كہ: " نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خیرات کرنے میں سب سے زیادہ سخی تھے اور رمضان میں آپ کی سخاوت کی تو کوئی حد ہی نہیں تھی"([14])۔

۱۴-رمضان کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس میں عمرہ کا ثواب کئی گنا بڑھا دیا جاتا ہے ، ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے ایک انصاری عورت سے کہا: ”جب رمضان آئے تو اس میں عمرہ کر لو، کیونکہ (ماہ رمضان میں) ایک عمرہ ایک حج کے برابر ہوتا ہے“([15])۔

۱۵-ماہ رمضان کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ  رمضان کی ہر رات میں اللہ تعالی اپنے کچھ بندوں کو جہنم سے آزادی کا پروانہ عطا کرتا ہے ، ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :" جب ماہ رمضان کی پہلی رات آتی ہے، تو شیطان اور سرکش  جن جکڑ دیئے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں، ان میں سے کوئی بھی دروازہ کھولا نہیں جاتا۔ اور جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں، ان میں سے کوئی بھی دروازہ بند نہیں کیا جاتا، پکارنے والا پکارتا ہے: خیر کے طلب گار! آگے بڑھ، اور شر کے طلب گار! رک جا اور آگ سے اللہ کے بہت سے آزاد کئے ہوئے بندے ہیں (تو ہو سکتا ہے کہ تو بھی انہیں میں سے ہو) اور ایسا (رمضان کی) ہر رات کو ہوتا ہے"([16])۔

جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ ہر افطار کے وقت کچھ لوگوں کو جہنم سے آزاد کرتا ہے اور یہ (رمضان کی) ہر رات کو ہوتا ہے“([17])۔‏‏‏‏

۱۶-رمضان کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس مہینے میں جنت کے دروازے کھول دئے جاتے، جہنم کے دروازے بند کردئے جاتے او رشیطانوں کو بیڑیوں میں جکڑ دیا جاتا ہے، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو  جنت کے تمام دروازے کھول دیئے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور شیاطین کو زنجیروں سے جکڑ دیا جاتا ہے"([18])۔

۱۷-ماہ رمضان کی ایک  خصوصیت یہ ہے کہ اس میں کثرت سے قرآن کی تلاوت کرنا مستحب ہے، سلف صالحین رضوا ن اللہ علیہم  کا طریقہ تھا کہ  وہ  نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا کرتے ہوئے رمضان میں ختمِ قرآن کا نہایت اہتمام کیا کرتے تھے کیوں کہ جبریل ہر سال رمضان کے مہینے میں آپ کےساتھ قرآن کا دورہ کیا کرتےتھے۔

۱۸-روزے کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ روزہ  قیامت کے دن بندے کے حق میں یہ سفارش کرے گا کہ اس کے درجات بلند کردئے جائیں اور اس کے گناہ مٹا دئے جائیں‘  عبد الله بن عمرو رضی  الله عنهما  سے مروی ہے کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  روزے اور قرآن قیامت کے دن بندے کے حق میں سفارش کریں گے‘ روزہ کہے گا: ( اے میرے پروردگار! میں نے اسے کھانے پینے اور شہوت کی چیزوں سےباز رکھا‘ اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما)۔

قرآن کہے گا:(اے میرے پروردگار! میں نے اسے رات کے وقت نیند سے باز رکھا‘ اس کے حق میں میری سفارش قبول کرلے)  چنانچہ دونوں کی سفارش قبول کرلی جائے گی([19])۔

۱۹-رمضان کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ روزہ دا ر کے منہ کی بو  اللہ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی زیادہ پسندیدہ ہے ‘  ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے! روزہ دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی زیادہ بہتر ہے"([20])۔

۲۰-روزے کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اللہ تعالی روزہ دار کو دو خوشیوں سے نوازتا ہے‘ ایک خوشی جب وہ افطار کرتا ہے اور دوسری خوشی  جب وہ اپنے رب سے ملاقات کرے گا‘ ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: روزہ دار کو دو خوشیاں حاصل ہوں گی (ایک تو جب) وہ افطار کرتا ہے تو خوش ہوتا ہے اور (دوسری) جب وہ اپنے رب سے ملاقات کرے گا تو اپنے روزے کا ثواب پا کر خوش ہو گا([21])۔

·       ہم اللہ تعالی سے دعا کرتے ہیں کہ ہمیں رمضان کے روزے اسی طرح رکھنے کی توفیق دے جس طرح اسے پسند ہے ، نیز اپنے ذکر ، شکر او رحسنِ عبادت  میں ہماری مدد فرمائے ۔

·       اللہ تعالی مجھے اور آپ کو قرآن مجید کی برکتوں سے بہرہ مند فرمائے ، مجھے اور آپ کو اس کی آیتوں اور حکمت پر مبنی نصیحت سے فائدہ پہنچائے، میں اپنی یہ بات کہتے ہوئے اللہ تعالی سے اپنی لئے اور آپ سب کے لئے مغفرت طلب کرتا ہوں، آپ بھی اس سے مغفرت طلب کریں، یقینا وہ خوب توبہ قبول کرنے والا اور بہت معاف کرنے والا ہے۔

دوسرا خطبہ:

الحمد لله وكفى، وسلام على عباده الذين اصطفى، أما بعد:

۲۱-ماہ رمضان کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ  اسی میں قرآن نازل ہوا، فرمان باری تعالی ہے:   (شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ)

ترجمہ: ماه رمضان وه ہے جس میں قرآن اتارا گیا۔

رمضان میں بھی  شب قدر میں  قرآن نازل ہوا، اللہ تعالی فرماتاہے : (إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ)

ترجمہ: یقیناً ہم نے اسے شب قدر میں نازل فرمایا۔

۲۲-رمضان کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس میں شب قدر  ہوتی ہے ، جو کہ ایک عظیم الشان رات ہے ، اس میں قرآن لوح محفوظ سے بیت العزت  کی  طرف اتارا گیا جو آسمان دنیا میں ہے ،  ا س کے بعد حالات ووقائع کے اعتبار سے تھوڑا تھوڑا نازل ہوتا رہا ۔

·       اسے قدر کی رات اس لئے کہا جاتا ہے کہ  وہ بڑی قدر ومنزلت والی رات ہے، جیسا کہا جاتا ہے : (فلاں شخص بر ا عظیم مرتبہ کا حامل ہے)،  اس طرح قدر کی طرف لیلۃ کی اضافت کسی چیز  کو اس کی صفت کی طرف منسوب کرنے کے قبیل سے ہے۔

ایک قول کے مطابق اسے قدر کی رات اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس میں پورے سال کا فیصلہ کیا جاتا ہے ، جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: (فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ)

ترجمہ: اسی رات میں ہر ایک مضبوط کام کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔

ابن قیم کہتے ہیں کہ: "یہی قول درست ہے"([22])۔([23])

·       اللہ تعالی نے شب قدر کو بابرکت رات سے موصوف کیا ہے، جیسا کہ اللہ تعالی نے نزول قرآن کے تعلق سے فرمایا :  (إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُبَارَكَةٍ)

ترجمہ: ہم نے اس کو مبارک رات میں نازل فرمایا۔

·       شب قد ر کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ  اس میں فرشتےزمین پر  نازل ہوتے ہیں ، فرمان باری تعالی ہے :  (تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا)

ترجمہ: س میں روح (الامین) اور فرشتے اترتے ہیں۔

اس آیت میں الروح سے مراد جبریل ہیں، ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں رقم طراز ہیں: یعنی: اس رات چونکہ کثرت سے برکت نازل ہوتی ہے ، اس لئے فرشتے بھی کثیر تعداد میں اترتے ہیں،  برکت ورحمت کے ساتھ ہی فرشتے بھی نازل ہوتے ہیں،نیز یہ فرشتے تلاوت قرآن کے وقت بھی نازل ہوتے ہیں، علمی حلقات کو اپنے احاطے میں لے لیتے ہیں، صدق وسچائی کے ساتھ طالب علم  کی تعظیم میں ان کے لئے اپنے پر بچھا دیتے ہیں ۔انتہی

·       شب قدر کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ  جو شخص اس رات کو نماز  سے آباد کرے، اللہ تعالی نے اس رات قیام کرنے والوں کے لئے جو اجر وثواب  تیار کر رکھا ہے ، اس پر (ایمان رکھتے ہوئے )، اور اجر وثواب ( کی امید  کرتے ہوئے) ، اس کے سارے پچھلے گناہ معاف ہوجاتے ہیں، ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "جو شخص رمضان کے روزے ایمان اور احتساب (حصول اجر و ثواب کی نیت) کے ساتھ رکھے، اس کے  پچھلے تمام گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں"([24])۔

·       شب قدر کی ایک فضیلت یہ ہے کہ  اسے نماز  سے آباد کرنا ہزار مہینوں کی عبادت سے بہتر ہے ، یعنی ۸۳ سال سے بھی زائد ، اللہ تعالی فرماتا ہے :  (ليلة القدر خير من ألف شهر)

ترجمہ: شب قدر ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔

·       نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "رمضان کا مبارک مہینہ تمہارے پاس آ چکا ہے، اللہ تعالیٰ نے تم پر اس کے روزے فرض کر دیئے ہیں، اس میں آسمان کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں، اور سرکش شیاطین کو بیڑیاں پہنا دی جاتی ہیں، اور اس میں اللہ تعالیٰ کے لیے ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے، جو اس کے خیر سے محروم رہا تو وہ بس محروم ہی رہا"([25])۔

۲۳-رمضان کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس کے آخری عشرے میں اعتکاف کرنا مستحب ہے، اعتکاف کے معنی یہ ہیں کہ اللہ کا اطاعت وعبادت کی خاطر مسجد کو لازم پکڑا جائے ‘  عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ : " نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی وفات تک برابر رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کرتے رہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات اعتکاف کرتی رہیں"([26])۔

اعتکاف کرنے کی وجہ یہ تھی کہ آپ شب قدر کی تلاش کرتے ، ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " میں نے اس شب قدر کو تلاش کرنے کے لیے پہلے عشرے کا اعتکاف کیا ، پھر میں نے درمیانے عشرے کا اعتکاف کیا، پھر میرے پاس (جبریل) کی آمد ہوئی تو مجھ سے کہا گیا: وہ آخری دس راتوں میں ہے تو اب تم میں سے جو اعتکاف کرنا چاہے وہ اعتکاف کرلے"([27])۔

۲۴-رمضان کے روزے کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ  اللہ تعالی نے اس کے اختتام میں زکاۃ الفطر کو مشروع کیا ہے، جو روزے  کے درمیان   سرزد  ہونے والى  لغو اور بیہودہ باتوں سے  روزہ دار کو پاک کرتی ہے ، ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر،  صائم کو لغو اور بیہودہ باتوں سے پاک کرنے کے لیے اور مسکینوں کے کھانے کے لیے فرض کیا ہے"([28])۔

·       یہ ماہ رمضان کی بیس سے زائد خصوصیات ہیں، بندہ مسلم کو چاہئے کہ ان کو جانے اور روزہ کے درمیان انہیں  ذہن نشیں رکھے  تاکہ ایمان اور احتساب اجر کے ساتھ روزہ مکمل کرنے میں یہ خصوصیات  معاو ن ثابت ہوں۔

·       آپ  یہ بھی جان رکھیں –اللہ آپ پر اپنی رحمت نازل فرمائے - کہ اللہ  تعالی نے آپ کو ایک بڑی چیز کا حکم دیا ہے، فرمان باری تعالی ہے:

(إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا)

ترجمہ: اللہ تعالی اور اس کے فرشتے اس نبی پر رحمت بھیجتے ہیں ۔اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود بھیجو اور خوب سلام بھی بھیجتے رہا کرو۔

اے اللہ !تو اپنے بندے اور رسول محمد پر رحمت و سلامتی بھیج،تو  ان کے  خلفاء ،تابعین عظام اور قیامت تک اخلاص کے ساتھ ان کی  اتباع کرنے والوں سے راضی ہوجا۔ اے اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو عزت وسربلندی عطا فرما،شرک اور مشرکوں کو ذلیل وخوار کر،تواپنے اور دین اسلام کے دشمنوں کو نیست ونابود کردے،اور اپنے موحد بندوں کی مدد فرما۔اے اللہ! ہمیں اپنے ملکوں میں امن وسکون کی زندگی عطا کر،ہمارے اماموں اور ہمارے حاکموں کی اصلاح فرما،انہیں ہدایت کی رہنمائی کرنےوالا اور ہدایت پر چلنے والا بنا۔ اے اللہ!   تمام مسلم حکمرانو ں کو  اپنی کتاب کو نافذ کرنے  اور   اپنے دین کو سر بلند کرنے  کی توفیق ارزانی کر، انہیں ان کے ماتحتوں  کے لئے رحمت بنادے۔

اے ہمارے پرودگار! ہمیں دنیا میں  نیکی دے اور آخرت میں بھلائی عطا فرما اور ہمیں عذاب جہنم سے نجات بخش۔

سبحان ربك رب العزة عما يصفون وسلام على المرسلين والحمد لله رب العالمين

 تحریر:

ماجد بن سلیمان الرسی

 ۴  رمضان  ۱۴۴۲ھ

شہر جبیل-سعودی عرب

0966505906761

ترجمہ: سیف الرحمن حفظ الرحمن تیمی

[email protected]



 ([1])  یہ باب "الإسلام‘ سوال وجواب" ویب سائٹ (http://islamqa.info/ar/26862) اور شیخ محمد بن صالح بن عثیمین رحمہ اللہ کی کتاب "مجالس شہر رمضان" کے باب المجلس التاسع سے اختصار وتصرف کے ساتھ منقول ہے ۔
 ([2])  اسے بخاری (۸) اور مسلم (۱۶) نے روایت کیا ہے اور مذکورہ الفاظ مسلم کے روایت کردہ ہیں۔
 ([3])  مجالس شہر رمضان‘ از: ابن عثیمین رحمہ اللہ‘ معمولی تصرف کے ساتھ
 ([4])  اسے بخاری (۱۸۹۶) اور مسلم(۱۱۵۲) نے روایت کیا ہے اور مذکورہ الفاظ بخاری کے روایت کردہ ہیں۔
 ([5])  اسے امام احمد (۴/۲۲) نے روایت کیا ہے اور "المسند" کے محققین نے کہا: اس کی سند مسلم کی شرط پر صحیح ہے۔
 ([6])  اسے بخاری (۵۲۵) اور مسلم (۱۴۴) نے روایت کیا ہے۔
 ([7])  اسے بیہقی (۳/۳۴۵) نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے اور البانی نے "الصحیحۃ: ۱۷۹۷) میں اس کی تخریج کی ہے۔
 ([8])  اسے احمد (۹۷۴۳) وغیرہ نے  حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے اور "المسند" کے محققین نے کہا: یہ حدیث کثرت طرق اور شواہد کی بنیاد پر صحیح ہے۔
 ([9])  اسے بخاری (۳۷) اور مسلم (۷۶۰) نے روایت کیا ہے۔
 ([10])  اسے ابوداود (۱۳۷۵) وغیرہ نے ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے اور شیخ شعیب رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے۔
 ([11])  اسے بخاری (۳۸) اور مسلم (۷۶۰) نے روایت کیا ہے۔
 ([12])  اسے احمد (۲/۲۴۶-۲۵۴)  اور  ابن خزیمہ (۳/۱۲۹)  نے  روایت کیا ہے‘ اس کی اصل صحیح مسلم میں  حدیث نمبر (۲۵۵۱) کے تحت آئی ہے‘ البانی نے "صحیح الترغیب والترہیب" (۹۷۷) میں کہا کہ: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
 ([13])  اسے مسلم (۲۳۳) نے روایت کیا ہے۔
 ([14])  اسے بخاری (۶) اور مسلم (۲۳۰۸) نے روایت کیا ہے۔
 ([15])  اسے بخاری (۱۷۸۲) اور مسلم (۱۲۵۶) نے روایت کیا ہے۔
 ([16])  اسے ترمذی (۶۸۲) اور ابن ماجہ(۱۶۴۲) نے روایت کیا ہے اور شیخ البانی نے "صحیح الجامع" (۷۵۹) میں اسے حسن کہا ہے۔
 ([17])  اسے احمد (۲۲۲۰۲) اور ابن ماجہ (۱۶۴۳) نے روایت کیا ہے  اور مذکورہ الفاظ ابن ماجہ کے ہیں‘ نیز شیخ البانی نے "صحیح ابن ماجہ" (۱۳۴۰) میں اسے صحیح کہا ہے۔
 ([18])  اسے بخاری(۱۸۹۹) اور مسلم (۱۰۷۹) نے روایت کیا ہے۔
 ([19])  اسے احمد: (۲/۱۷۴) نے روایت کیا ہے اور البانی نے صحیح الترغیب (۹۸۴) اور صحیح الجامع (۷۳۲۹) میں روایت کیا ہے۔
 ([20])  بخاری (۱۹۰۴)‘ مسلم (۱۱۵۱)
 ([21])  بخاری (۱۹۰۴)‘ مسلم (۱۱۵۱)
 ([22])  شفاء العلیل:۱/۱۱۰‘ طباعت: مکتبۃ العبیکان-ریاض
 ([23])   ان اقوال کے لئے  ملاحظہ کریں: "أحادیث الصیام" :۱۴۰‘ تالیف: شیخ عبد اللہ الفوزان
 ([24])  اسے بخاری (۱۹۰۱) اورمسلم (۷۵۹) نے روایت کیا ہے۔
 ([25])   اسے نسائی (۱۹۰۱) نے ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے۔
 ([26])   بخاری (۲۰۲۶) ‘ مسلم (۱۱۷۲)
 ([27])   مسلم (۱۱۶۷)
 ([28])   اسے ابوداود ( ۱۶۰۹) نے روایت کیا ہے اور "السنن" کی تحقیق میں ارناؤوط نے اسے حسن کہا ہے۔

المرفقات

1621424812_رمضان كي بيس خصوصيات.pdf

المشاهدات 1229 | التعليقات 0