دو عظیم ترین اماموں میں سے ایک عظیم ترین امام کی امامت

سيف الرحمن التيمي
1443/06/04 - 2022/01/07 16:18PM

موضوع الخطبة             :صلاة بأعظم إمامين

الخطيب                     : فضيلة الشيخ حسام بن عبد العزيز الجبرين/ حفظه الله

لغة الترجمة                  : الأردو

المترجم                     :سيف الرحمن التيمي((@Ghiras_4T

موضوع:

دو عظیم ترین اماموں میں سے ایک عظیم ترین امام کی امامت

پہلا خطبہ:

الحمد لله الخافض الرافع، امتنَّ علينا بالعقول والأبصار والمسامع، وأشهد أن لا إله إلا الله أنزل الهدى وفي الناس محجوب وسامع وأشهد أن نبينا محمدًا عبده ورسوله اتباع سبيله وهُداه طريق إلى النَّعيم الواسع صلى الله وسلم عليه وعلى آله وأصحابه وأتباعه إلى يوم الدين.

حمد وصلاۃ کے بعد:

میں آپ کو اور اپنے آپ کو اللہ کے تقوی ، نفس کے محاسبہ اور ایسے اعمال کے لئے کوشش کرنے کی وصیت کرتا ہوں جن سے دل میں اللہ پاک کی محبت، اس کے اجر وثواب کی امید اور اس کا خوف پیدا ہوتا ہے، یہی وہ امور ہیں جو گناہوں سے روکتی اور اطاعتوں کو آسان کرتی ہیں، اللہ عزیز وبرتر نے ان مومنوں کی تعریف بیان کی ہے جو اپنی نمازوں کی پابندی کرتے ہیں، اپنے شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں اور ان کے مال میں مانگنے والوں اور محروم حضرات کا بھی حق ہوتا ہے،  وہ اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں، اور اپنی گواہیوں پر کاربند رہتے ہیں۔ اللہ نے یہ خبردی ہے کہ وہ نمازوں کے پابند ہوتے ہیں، دوسری  جگہ پر  اللہ نے ان عقلمندوں کی تعریف کی ہے جو اپنے پروردگار سے ڈرتے اور حساب وکتاب کے برے انجام سے خوف کھاتے ہیں۔

ایمانی بھائیو!آج ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک مختصر واقعہ پر غور وفکر کریں گے، اس سے ہمارے دلوں کو رفعت وموعظت اور فقہ وبصیرت حاصل ہوگی، یہ واقعہ دو عظیم ترین اماموں میں سے ایک عظیم ترین امام کی نماز سے متعلق ہے، یہ واقعہ عصر کے وقت مدینہ منورہ میں واقع ہوا۔

بخاری ومسلم نے سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عمر وبن عوف قبیلے میں صلح کرانے کے لیے تشریف لے گئے۔ جب نماز کا وقت ہوا تو مؤذن نے حضرت ابوبکر ؓ کے پاس آ کر کہا: اگر آپ نماز پڑھائیں تو میں اقامت کہہ دوں؟ انہوں نے فرمایا: ہاں۔ اس کے بعد حضرت ابوبکر ؓ نماز پڑھانے لگے۔ اتنے میں رسول اللہ ﷺ تشریف لے آئے جبکہ لوگ نماز میں مصروف تھے۔ آپ صفوں میں سے گزر کر پہلی صف میں پہنچے۔ اس پر لوگوں نے تالیاں پیٹنا شروع کر دیں، لیکن ابوبکر ؓ اپنی نماز میں ادھر ادھر دیکھنے کے عادی نہ تھے۔ جب لوگوں نے مسلسل تالیاں بجائیں تو حضرت ابوبکر ؓ متوجہ ہوئے اور رسول اللہ ﷺ پر ان کی نظر پڑی (وہ پیچھے ہٹنے لگے) تو رسول اللہ ﷺ نے اشارہ کیا: تم اپنی جگہ پر ٹھہرے رہو۔ اس پر حضرت ابوبکر ؓ نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں امامت کا اعزاز بخشا ہے، تاہم وہ پیچھے ہٹ کر لوگوں کی صف میں شامل ہو گئے اور رسول اللہ ﷺ نے آگے بڑھ کر نماز پڑھائی۔ فراغت کے بعد آپ نے فرمایا: "اے ابوبکر! جب میں نے تمہیں حکم دیا تھا تو تم کھڑے کیوں نہ رہے؟"۔ حضرت ابوبکر ؓ نے عرض کیا: ابوقحافہ کے بیٹے کی کیا مجال کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے آگے نماز پڑھائے۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا: "کیا وجہ ہے کہ میں نے تمہیں بکثرت تالیاں بجاتے ہوئے دیکھا؟ (دیکھو!) جب کسی کو دوران نماز میں کوئی بات پیش آئے تو سبحان اللہ کہنا چاہئے کیوں کہ جب وہ سبحان اللہ کہے گا تو اس کی طرف توجہ دی جائے گی اور تالی بجانا تو صرف عورتوں کے لیے ہے"۔

اللہ تعالی ہمارے نبی محمد پر درود وسلام بھیجے، ہمیں آپ کے حوض پر پہنچائے اور ہمیں آپ کی شفاعت سے سرفراز فرمائے۔

اے میرے احباب! اس قصہ سے بہت سے فوائد حاصل ہوتے ہیں، ان میں سے چند فوائد حسب ذیل ہیں:

-                   لوگوں کے درمیان صلح کرانے کی فضیلت اور امام کے چلنے کا جواز وغیرہ۔

-                   امام اگر نماز میں امامت کی جگہ سے پیچھے ہٹ جائے تو دوسرا آدمی ان کی جگہ پر بڑھ کر  امامت کرا سکتا ہے  بشرطیکہ فتنہ کا خوف نہ ہو اور امام منع نہ کرے۔

-                   نعمتوں کی تجدید کے وقت اللہ کی حمد وثنا بیان کرنا چاہئے ، الحمد للہ اور سبحان اللہ نماز کے الفاظ میں سے ہیں، اور اس سے نماز کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔

-                   ایک فائدہ یہ بھی حاصل ہوتا ہے کہ: معمولی حرکت سے نماز باطل نہیں ہوتی۔

-                   جب بات سمجھ میں آجائے تو اشارہ پر اکتفا کرنا چاہئے۔

-                   بڑوں کے ساتھ ادب سے پیش آنا چاہئے۔

-                   ضرورت کے وقت نماز میں توجہ پھیرنا جائز ہے۔

-                   ضرورت کے وقت نماز کی حالت میں ایک دو قدم چلا جا سکتا ہے۔

-                   پیروکار کو  جب قائد ومرشد کسی بات کا حکم دے اور اس سے اس کا اعزاز سمجھ میں آتا ہو تو وہ کام کرنا ضروری نہیں، بلکہ اس کے لئے اس کام کو ترک کرنا درست ہے، اور یہ اس کے حکم کی خلاف ورزی نہیں ہے، بلکہ ادب اور تواضع کا تقاضہ ہے۔

-                   مسنون طریقہ یہ ہے کہ نماز میں اگر امام سے کوئی غلطی سرزد ہوجائے تو مقتدی حضرات ان کو سبحان اللہ کہہ کر متنبہ کریں گے ، جبکہ عورتیں تالی بجا کر اپنے امام کو متنبہ کریں گی۔

امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "عورت اپنی دائیں ہتھیلی کو بائیں ہتھیلی کی پشت پر مارے"۔

-                   اس سے ایک فائدہ یہ حاصل ہوتا ہے کہ: نماز کو اول وقت پر ادا کرنا چاہئے۔

-                   اس واقعہ سے ابو بکر رضی اللہ عنہ کے بہت سے فضائل حاصل ہوتے ہیں۔

اللہ تعالی مجھے اور آپ کو قرآن وحدیث کی برکت سے بہرہ وہ فرمائے، اور ان میں ہدایت ورحمت کی جو باتیں ہیں ، ان سے ہمیں فائدہ پہنچائے، آپ سب اللہ سے مغفرت طلب کریں، یقینا وہ خوب معاف کرنے والا ہے۔

دوسرا خطبہ:

الحمد لله ذي الجلال والإكرام وأشهد ألا إله إلا الله الملك القدوس السلام وأشهد أن محمداً عبده ورسوله صلى الله وسلم عليه ما أشرق ضياء وأدبر ظلام.

حمد وصلاۃ کے بعد:

اس عظیم فرضیت کو جماعت کے ساتھ ادا کرنے سے متعلق ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ صفوں کو درست رکھا جائے بایں طور کہ تمام مصلی اعتدال کے ساتھ ایک ہی طرز پر کھڑے ہوں، دور حاضر میں اس پر عمل کرنا پرماننٹ مصلّی (جائے نماز) کی وجہ سے مزید آسان ہوگیا ہے، الحمد للہ۔

نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری صفوں کو اس قدر سیدھا اور برابر کراتے تھے گویا آپ ان کے ذریعے سے تیروں کو سیدھا کر رہے ہیں، حتی کہ جب آپ کو یقین ہو گیا کہ ہم نے آپ سے اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیا ہے تو اس کے بعد ایک دن آپ گھر سے نکل کر تشریف لائے اور نماز پڑھانے کی جگہ کھڑے ہوگئے اور قریب تھا کہ آپ تکبیر کہیں اور نماز شروع کردیں کہ آپ نے ایک آدمی کو دیکھا اس کا سینہ صف سے کچھ آگے نکلا ہوا تھا، آپ نے فرمایا: "اللہ کے بندو! تم لازمی طور پر اپنی صفوں کو سیدھا کرو ورنہ اللہ تمہارے رخ ایک دوسرے کے خلاف موردے گا"۔ اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا: "اپنی صفوں کو برابر کیا کرو کیوں کہ صفوں کا برابر کرنا نماز کی تکمیل کا حصہ ہے"۔اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

بخاری کے الفاظ صفوں کو درست رکھنے کے سلسلے میں زیادہ پرزور اور تاکیدی ہیں: "صفوں کو برابر کروں کیوں کہ صفوں کا برابر کرنا نماز کا قائم کرناہے"۔

صفوں کو برابر کرنے سے متعلق ایک بات یہ بھی ہے کہ صف میں موجود خلا کو دور کیا جائے۔ یہ بھی مشاہدہ کیا جاتا ہے کہ کچھ نمازی –اللہ انہیں ہدایت دے- دوسری صف میں کھڑے ہوجاتے ہیں جبکہ پہلی صف نا مکمل ہی ہوتی ہے، بلکہ بسا اوقات مسلسل دو تین صفیں نا مکمل ہوتی ہیں اور لوگ صف در صف بناتے جاتے ہیں۔اس کا خیال رکھنا چاہئے۔

اللہ کے بندے! اگلی صفوں میں نماز پڑھنے کا خاص اہتمام کریں، ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اگر تم جان لو یا لوگ جان لیں کہ اگلی صف میں کیا فضیلت ہے تو اس پر قرعہ اندازی ہو"۔اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

آپ تصور کریں کہ یہ کتنی بڑی فضیلت ہے کہ اگر لوگ اسے جان لیں تو اس پر قرعہ اندازی کرنےلگیں اور اسے چھوڑنے کے لئے تیار نہ ہوں!

ایمانی بھائیو! نماز ایک عظیم الشان عبادت ہے، اس کی بہت سی فضیلتیں آئی ہیں، بلکہ اس کے فضائل فی نفسہ نماز کے علاوہ  اس سے قبل اور ما بعد کے اعمال کو بھی محیط ہیں۔

آخری بات: اللہ کے بندے! کثرت سے ابراہیم خلیل کی یہ دعا پڑھا کریں: ﴿ رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلاَةِ وَمِن ذُرِّيَّتِي رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَاء ﴾ [إبراهيم: 40]

ترجمہ: اے میرے پالنے والے ! مجھے نماز کا پابند رکھ اور میری اولاد سے بھی ، اے ہمارے رب! میری دعا قبول فرما۔

 

 

مترجم:

سیف الرحمن تیمی

[email protected]

المرفقات

1641572292_دو عظیم ترین اماموں میں سے ایک کی امامت.pdf

المشاهدات 536 | التعليقات 0