اللہ ہی کی عبادت کریں، اسی  کے لئے دین کو خالص کرتے ہوئے

سيف الرحمن التيمي
1443/06/04 - 2022/01/07 16:15PM

(اللہ ہی کی عبادت کریں، اسی  کے لئے دین کو خالص کرتے ہوئے)

الحمد لله الشهيد الخبير، الرقيب البصير، الرحيم الستِّير، وأشهد ألا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك وله الحمد وهو على كل شيءٍ قدير، وأشهد أن محمداً عبد الله ورسوله؛ بعثه للإيمان منادياً، وإلى دار السلام داعياً، ولكتابه تالياً، ولخليقته هادياً، وبالمعروف آمراً وعن المنكر ناهياً.

حمد وصلاة کے بعد:

اے ایمانی بھائیو!میں آپ کو اور خود کو تقوی کی وصیت کرتا ہوں،کیوں کہ اللہ نے اپنی مخلوق کو بے کار پیدا نہیں کیا،اور انہیں یونہی نہیں چھوڑا بلکہ انہیں ایک ایسے عظیم مقصد کے لیے پیدا کیا جسے آسمان وزمین اور پہاڑوں پر پیش کیا گیا تو سب نے اسے اٹھانے سے انکار کردیا اور اس سے ڈر گئے: ﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا * يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا * إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَيْنَ أَنْ يَحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْإِنْسَانُ إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا ﴾ [الأحزاب: 70 – 72]

ترجمہ:اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور سیدھی سیدھی (سچی) باتیں کیا کرو،تاکہ اللہ تعالیٰ تمہارے کام سنوار دے اور تمہارے گناه معاف فرما دے اور جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی تابعداری کرے گا اس نے بڑی مراد پالی،ہم نے اپنی امانت کو آسمانوں پر زمین پر اور پہاڑوں پر پیش کیا لیکن سب نے اس کے اٹھانے سے انکار کردیا اور اس سے ڈر گئے (مگر) انسان نے اسے اٹھا لیا وه بڑا ہی ظالم جاہل ہے.

ایک عظیم ترین عبادت یعنی عبادت قلبی پر آج ہماری گفتگو ہوگی، دل جمعی اور قوت کے ساتھ اسے انجام دینے سے حسنات میں اضافہ ہوتا ہے،اس سے پریشانیاں ختم ہوتی ہیں،اور اس کی وجہ سے بندہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت سے فیض یاب ہوگا،یہ عبادت دوسری تمام عبادتوں سے جڑی ہوئی ہے ،اس کے ذریعے بندہ بندگی کی چاشنی محسوس کرتا ہے۔ اس سے مراد اللہ کے لیے عبادت کو خالص کرنا ہے۔

برحق پاک ذات فرماتا ہے: ﴿ فَاعْبُدِ اللَّهَ مُخْلِصًا لَهُ الدِّينَ ﴾ [الزمر: 2]

ترجمہ:اللہ ہی کے لیے دین کو خالص کرتے ہوئے اسی کی ہی عبادت کریں۔

مزید اللہ عز وجل فرماتا ہے: ﴿ أَلَا لِلَّهِ الدِّينُ الْخَالِصُ ﴾ [الزمر: 3].

ترجمہ:خبردار!اللہ تعالی ہی کے لیے خالص عبادت کرنا ہے۔

نیز اللہ ارشاد فرماتا ہے: ﴿ وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاءَ ﴾ [البينة: 5]

ترجمہ:انہیں اس کے سوا کوئی حکم نہیں دیا گیا کہ صرف اللہ کی عبادت کریں اسی کے لئے دین کو خالص رکھیں۔ ابراہیم حنیف کے دین پر.

شیخین نے ایک حدیث روایت کی ہے: "تمام اعمال کا دارومدار نیت پر ہے اور ہر عمل کا نتیجہ ہر انسان کو اس کی نیت کے مطابق ہی ملے گا"۔امام بخاری نے اسی حدیث کے ذریعے اپنی صحیح کا آغاز کیا ہے، آپ علیہ الصلاة والسلام مزید فرماتے ہیں:"قیامت میں سب سے زیادہ فیض یاب میری شفاعت سے وہ شخص ہو گا، جو سچے دل سے یا سچے جی سے «لا إله إلا الله» کہے گا"۔ اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔

نیت اور رضائے الہی کی چاہت کے باب میں بہت ساری احادیث وارد ہوئی ہیں۔

عز بن عبد السلام فرماتے ہیں کہ: "اخلاص یہ ہے کہ اللہ کی اطاعت وفرمابرداری کے ذریعے اس کی خوشنودی طلب کی جائے اور اس کے ذریعے اللہ کے علاوہ کسی  دوسرے کی خوشنودی کا ارادہ نہ کیا جائے"۔انتہی

اے شریفوں کی جماعت!اخلاص کے کئی مراتب اور مختلف درجات ہیں، زیادہ تر بندے اللہ کے ثواب  کو حاصل کرنے کی غرض سے اور اس کے عقاب سے  خوف کھاتے ہوئے اس کی قربت حاصل کرتے ہیں، اور یہ ایک عظیم اور جلیل القدر صفت ہے،اس سے بڑا مرتبہ یہ کہ اللہ کا تقرب محض اللہ کی خاطر حاصل کیا جائے، اسی لیے آپ ایسے شخص کو( جس کے اندر یہ صفت پائیداری کے ساتھ موجود ہو) پائیں گے کہ وہ تمام طرح کے اوامر کو بڑا سمجھتا ہے اور انہیں بجا لاتا ہے،چاہے وہ اوامر واجب ہوں یا مسنون،چاہے اس کے تعلق سے کوئی ایسی فضیلت آئی ہو جو اس کی ترغیب دیتی ہو،یا اس بارے  میں کوئی فضیلت وارد نہیں ہوئی ہو،وہ ان اوامر کا حکم دینے والی پاک ذات کی تعظیم واحترام میں انہیں بجالاتا ہے،اسی طرح وہ نواہی سے بھی اجتناب کرتا ہے خواہ وہ نواہی حرام ہوں یا مکروہ، چاہے اس تعلق سے کوئی وعید آئی ہو یا نہیں آئی ہو،وہ ان نواہی سے اجتناب صرف اس غرض سے کرتا ہے تاکہ وہ اللہ  کی تعظیم واکرام بجالائے۔

اے اللہ کے بندو!جب تعظیم،اخلاص اور اطاعت وبندگی مضبوط ہوتی ہے تو اللہ سے حیا اور نفس کو کوتاہ سمجھنے کا احساس بڑھ جاتا ہے،اسی لیے بندہ اپنے اعمال کی عدم قبولیت سے خائف رہتا ہے: ﴿ وَالَّذِينَ يُؤْتُونَ مَا آتَوا وَّقُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ أَنَّهُمْ إِلَى رَبِّهِمْ رَاجِعُونَ ﴾ [المؤمنون: 60]

ترجمہ:اور جو لوگ دیتے ہیں جو کچھ دیتے ہیں اور ان کے دل کپکپاتے ہیں کہ وه اپنے رب کی طرف لوٹنے والے ہیں۔

جب بندگی بجالانے والے کے دل میں اخلاص مضبوط ہوتا ہے تو وہ عمل کی نمائش اور خود پسندی سے دور ہوجاتا ہے،اس حال میں کہ اس کے اندر  اللہ کے اس فرمان کا احساس جاگزیں ہوتا ہے: :﴿ وَلَكِنَّ اللَّهَ حَبَّبَ إِلَيْكُمُ الْإِيمَانَ وَزَيَّنَهُ فِي قُلُوبِكُمْ وَكَرَّهَ إِلَيْكُمُ الْكُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْيَانَ أُوْلَئِكَ هُمُ الرَّاشِدُونَ ﴾ [الحجرات: 7]

ترجمہ:لیکن اللہ تعالیٰ نے ایمان کو تمہارے لئے محبوب بنا دیا ہے اور اسے تمہارے دلوں میں زینت دے رکھی ہے اور کفر کو اور گناه کو اور نافرمانی کو تمہاری نگاہوں میں ناپسندیده بنا دیا ہے، یہی لوگ راه یافتہ ہیں۔

اور اللہ جل شانہ کے اس فرمان کا بھی احساس ہوتا ہے: ﴿ وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ مَا زَكَى مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ أَبَدًا وَلَكِنَّ اللَّهَ يُزَكِّي مَنْ يَشَاءُ ﴾ [النور: 21].

ترجمہ:اور اگر اللہ تعالیٰ کا فضل وکرم تم پر نہ ہوتا تو تم میں سے کوئی کبھی بھی پاک صاف نہ ہوتا۔ لیکن اللہ تعالی جسے پاک کرنا چاہے، کر دیتا ہے۔ اور اللہ سب سننے واﻻ سب جاننے واﻻ ہے۔

اور اللہ پاک نے ہمیں ایسے متقی اور تہجد گزار حضرات کے بارے میں خبر دی جو رات میں بہت کم سویا کرتے تھے،کہ وہ صبح کے وقت استغفار کیا کرتے ہیں، نیز فرض نماز کے بعد ہمارے لئے استغفار مشروع قرار دیا گیا ہے اور حج کی عظمت کے باوجود اس میں بھی حاجیوں کو استغفار کا حکم دیا گیا: ﴿ ثُمَّ أَفِيضُواْ مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ وَاسْتَغْفِرُواْ اللّهَ إِنَّ اللّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴾ [البقرة: 199]

ترجمہ:پھر تم اس جگہ سے لوٹو جس جگہ سے سب لوگ لوٹتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے طلب بخشش کرتے رہو یقیناً اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔

اے اللہ کے بندو!اخلاص کے بہت سے فائدے ہیں،اخلاص کی وجہ سے جنت میں داخلہ ملتا اور جہنم سے نجات ملتی ہے،اخلاص کی بنیاد پر پریشانیاں ختم ہوتی ہیں اور دعا قبول ہوتی ہے،ان تین اشخاص کا واقعہ مخفی نہیں،جن پر چٹان حائل ہو گیا،چنانچہ سبھوں نے کہا:اے اللہ! اگر میں نے وہ عمل تیری خوشنودی کی چاہت میں  کیا تھا تو تو ہم سے پریشانی کو دور کردے،اللہ نے ان سے(پریشانی)کو دور کردیا،اخلاص کی وجہ سے علم میں اضافہ ہوتا ہے: وَاتَّقُواْ اللّهَ وَيُعَلِّمُكُمُ اللّهُ ﴾ [البقرة: 282]

ترجمہ:اللہ سے ڈرو اللہ تمہیں تعلیم دے رہا ہے۔

اخلاص فتنے اور بد کاریوں سے بچاتا ہے: ﴿ كَذَلِكَ لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوءَ وَالْفَحْشَاء إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِينَ ﴾ [يوسف: 24]

ترجمہ:یونہی ہوا اس واسطے کہ ہم اس سے برائی اور بے حیائی دور کردیں بیشک وہ ہمارے چنے ہوئے بندوں سے تھے۔

ایک قراءت میں مخلَصین کی بجائے مخلِصین پڑھا گیا ہے۔

اخلاص کی وجہ سے مباح چیزوں پربھی بندہ کو اجر سے نوازا جاتا ہے، معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:"جس طرح بیداری میں جس ثواب کی امید اللہ تعالیٰ سے رکھتا ہوں سونے کی حالت کے ثواب کا بھی اس سے اسی طرح امیدوار رہتا ہوں"۔

اخلاص کی وجہ سے بندہ قیامت کے دن سائے تلے ہوگا،اخلاص کی قوت کی وجہ سے ظاہری طور پر برابر اعمال کا اجر وثواب متفاوت ہوتا اور ان کا اجر بڑھ جاتاہے،اخلاص علم وعمل میں برکت ڈال دیتا ہے،اخلاص کی وجہ سے بندہ عبادت وبندگی کی چاشنی محسوس کرتا ہے اور اخلاص کی وجہ سے ریا ونفاق ختم ہوتا ہے۔

اے اللہ! ہمیں معاف فرما،ہماری مغفرت فرما،اے دونوں جہان کے پالنہار! ہمیں ہدایت سے سرفراز فرما اورتو ہمیں اپنے مخلص بندوں میں سے بنا۔

دوسرا خطبہ:

الحمد لله ﴿ لاَ يَخْفَىَ عَلَيْهِ شَيْءٌ فِي الأَرْضِ وَلاَ فِي السَّمَاء ﴾ [آل عمران: 5]، وأشهد ألا إله إلا الله وحده لا شريك له، ذو الجلال والإكرام والعظمة والكبرياء، وأشهد أن محمداً عبده ورسوله خاتم الرسل والأنبياء صلى الله عليه ما هلّ قطْرٌ وأسفر ضياء.

حمد  وصلاة کے بعد!

اخلاص زندگی کے لیے ایک وسیع وعریض میدان ہے، جس میں زندگی کے تمام شعبے  داخل ہیں: ﴿ قُلْ إِنَّ صَلاَتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ﴾ [الأنعام 162]

ترجمہ:آپ فرما دیجئے کہ بالیقین میری نماز اور میری ساری عبادت اور میرا جینا اور میرا مرنا یہ سب خالص اللہ ہی کا ہے جو سارے جہان کا مالک ہ۔

اخلاص سماج ومعاشرہ میں مسلمان کی سرگرمیوں کو بڑھا دیتا ہے،اس لیے کہ وہ کار خیر اللہ کی خوشنودی کے لئے انجام دیتا ہے، گرچہ کوئی دوسرا اس کے اس عمل سے آگاہ نہ ہو۔

اخلاص مسلمان کو عمل کرنے اور اس میں ہمیشگی برتنے کی قوت و توانائی عطا کرتا ہے،اس لیے کہ اس کی نگرانی کوئی ذمہ دار نہیں کرتا ہے بلکہ اس کا رب کرتا ہے، اور وہ اپنے عمل کے اجر وثواب کی امید سمیع(سننے والے)،وبصیر(دیکھنے والے) اور علیم (جاننے والے)و خبیر(خبر رکھنے والے) پروردگار سے کرتا ہے۔

اخلاص کو بروئے عمل لانے میں بندوں کے درجات مختلف ہوتے ہیں،اور اخلاص کو بروئے عمل لانے کے اس تفاوت کا سبب مخلصین کے درجات کا تفاوت ہے،اسی لئے کہا جاتا ہے کہ نیت علماء کی تجارت ہے، مثال کے طور جو شادی کی دعوت قبول کرتا ہے اس کے لئے ممکن ہے کہ شرعی دعوت کو قبول کرنے پر جو اجر وثواب مرتب ہوتا ہے،اس کی نیت کرے، اور دعوت دینے والوں کو خوش کرنے کی نیت رکھے، لوگوں سے مصافحہ اور ان سے سلام کرنے کی نیت رکھے، اور اگر شادی کسی رشتہ دار کی ہو تو صلہ رحمی کی بھی نیت کرے، اس طرح ایک عمل میں چار نیتیں شامل ہوگئیں۔

اے دوستو!اخلاص پیدا کرنے کے کئی طریقے ہیں:اللہ کی تعظیم بجا لانا، اس سے اخلاص کی دعا کرنا،انسان کی خلوت وجلوت یکساں ہو،اور اگر پردہ خفا میں اس کا عمل زیادہ بہتر ہوتو یہ زیادہ عظیم الشان عمل ہے۔

اے ایمانی بھائیو!اعمال صالحہ کی دو قسمیں ہیں:پہلی قسم:لازمی اعمال ہیں جن کافائدہ دوسرے کو نہیں ملتا،جیسے نماز،روزہ ،یہ ایسے اعمال ہیں جن میں نیت ضروری ہے،اگرچہ عمل کرنے والے کی نیت یہ ہو کہ واجب ادا ہوجائے، پھر بھی اسے ثواب دیا جائے گا۔

دوسری قسم:متعدی اعمال جن کا فائدہ دوسرے کو بھی حاصل ہوتاہے،جیسے تکلیف دہ چیز کو ہٹانا ،علمائے کرام کا اس تعلق سے اختلاف ہے،بعض کا کہنا ہے کہ اگر وہ نیت کرے گا تب ہی اسے اجر دیا جائے گا، اس لیے کہ حدیث ہے "انما الاعمال بالنیات" اس کے علاوہ بھی اس کی دلیلیں موجود ہیں،بعض اہل علم نے کہا کہ دوسرے لوگوں کا اس سے فائدہ اٹھانے پر اسے اجر دیا جائے گا، اگرچہ اسے انجام دیتے وقت اس نے اس کی نیت نہ کی ہو،اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ جو شخص کوئی بیج بوئے یا کوئی پودہ لگائے پھر اس میں سے کوئی جانور کھاجائے یا اس کی چوری ہوجائے تو اسے اس کی وجہ سے اجر ملے گا۔اس کی دوسری دلیل اللہ کا یہ قول ہے: ﴿ لَا خَيْرَ فِي كَثِيرٍ مِنْ نَجْوَاهُمْ إِلَّا مَنْ أَمَرَ بِصَدَقَةٍ أَوْ مَعْرُوفٍ أَوْ إِصْلَاحٍ بَيْنَ النَّاسِ ﴾ [النساء: 114]

ترجمہ:ان کے اکثر خفیہ مشوروں میں کوئی خیر نہیں, ہاں! بھلائی اس کے مشورے میں ہے جو خیرات کا یا نیک بات کا یا لوگوں میں صلح کرانے کا حکم کرے۔

اور اگر بندہ صرف اصلاح کی خاطر اسے انجام دے تو بھی اس میں خیر ہے،اللہ مزید فرماتا ہے : ﴿ وَمَن يَفْعَلْ ذَلِكَ ابْتَغَاء مَرْضَاتِ اللّهِ فَسَوْفَ نُؤْتِيهِ أَجْراً عَظِيماً ﴾ [النساء: 114]

ترجمہ:اور جو شخص صرف اللہ تعالی کی رضامندی حاصل کرنے کے ارادے سے یہ کام کرے اسے ہم یقینا بڑا ثواب دیں گے۔

یہ اس خیر پر ایک اضافی چیز ہے جسے اللہ نے آیت کے شروع میں ذکر کیا ہے،اور اس میں کوئی شک نہیں کہ نیت کے ساتھ عمل کرنے کا ثواب سب سے زیادہ ہوتا ہے۔

ابن مبارک رحمہ اللہ کے اس قول سے ہم گفتگو کا اختتام کرتے ہیں: "بسا اوقات چھوٹے عمل کو نیت بڑا کردیتی ہے،اور کبھی بڑے عمل کو نیت چھوٹا کردیتی ہے"۔

المرفقات

1641572132_(اللہ ہی کی عبادت کریں‘ اسی کے لئے دین کو خالص کرتے ہوئے).pdf

المشاهدات 1567 | التعليقات 0