اللہ کے اسماء وصفات پر ایمان

سيف الرحمن التيمي
1442/08/21 - 2021/04/03 03:22AM

موضوع الخطبة: الإيمان بأسماء الله وصفاته

الخطيب : فضيلة الشيخ ماجد بن سليمان الرسي/حفظه الله

لغة الترجمة: الأردو

المترجم : سیف الرحمن التيمي (@Ghiras_4T)

خطبہ کا موضوع:

اللہ تعالى کے اسماء وصفات پر ایمان

پہلا خطبہ:

إن الحمد الله، نحمده ونستعينه،ونعوذ بالله من شرور أنفسنا ومن سيئات أعمالنا،من يهده الله فلا مضل له،ومن يضلل فلا هادي له،وأشهد أن لا إله الإ الله وحده لا شريك له وأشهد أن محمدا عبده ورسوله.

حمد وصلاة کے بعد:

سب سے بہترین کلام اللہ کا کلام ہے،اور سب سے بہترین طریقہ محمد ﷐  کا طریقہ ہے،سب سے بدترین چیز دین میں ایجاد کردہ بدعتیں ہیں،اور(دین میں)ہر ایجاد کردہ چیز بدعت ہے،اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے۔

·       اے مسلمانو! اللہ تعالی کا تقوی اختیار کرو اور اس سے ڈرتے رہو، اس کی نافرمانی سے گریز کرو او رجان رکھو کہ اسلامی عقیدہ میں اللہ کے اسماء وصفات پر ایمان لانے کا  بڑا مقام ومرتبہ ہے،  اللہ نے اپنی معزز  کتاب میں اپنے اسماء وصفات کی بڑی تعریف وتوصیف  کی ہے، جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: (وَكَانَ اللَّهُ سَمِيعًا بَصِيرًا)

ترجمہ: اللہ بہت سننے والا، بہت دیکھنے والا ہے۔

نیز فرمایا: (وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا)

ترجمہ: اللہ بڑا بخشنے واﻻ مہربان ہے۔

اس طرح  کی آیتیں بے شمار ہیں۔

·       نیز نبی کریم  صلى اللہ علیہ وسلم نے  حدیث شریف میں  بہت سے مقامات پر اپنے رب کی تعریف   اور اس کے  جلال وکمال کی صفات بیان کی ہے۔

·       اللہ تعالی کے اسماء وصفات پر ایمان لانے سے بندے کے اندر رب تعالی کی خشیت پیدا ہوتی ہے، جس کے نتیجے میں بندہ اللہ کی اس طرح عبادت کرتا ہے جس سے اللہ خوش ہوتا ہے ،  کیو ں کہ حقیقت یہی  ہے جیسا کہ کہا گیا ہے: (جو اللہ کو زیادہ جانتا ہےوہ اس سے زیادہ ڈرتا ہے)([1])۔اسی لئے  اللہ کے اسماء وصفات کی واقفیت رکھنے والے رب شناس لوگ اللہ تعالی سے زیادہ ڈرتے ہیں، جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: (إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ)

ترجمہ:  اللہ سے اس کے وہی بندے ڈرتے ہیں جو علم رکھتے ہیں۔

·       چونکہ اللہ کے اسماء وصفات پر ایمان لانے کی یہ اہمیت ہے ، اس لئے بندہ پر واجب ہے کہ وہ اسی طرح اسے بروئے عمل لائے جس طرح شریعت میں مطلوب ہے ، بایں طور کہ  اللہ نے اپنی کتاب میں اور رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے اپنی سنت میں جن اسماء وصفات کو ثابت کیا ہے ، انہیں  اسی طرح ثابت کیا جائے جس طرح کمال الہی کے شایان شان  ہے ۔

·       اے مومنو! اللہ کے اسماء وصفات پر ایمان لانے کے دو تقاضے ہیں: جس طرح وہ وارد ہوئے ہیں اسی طرح ان کے ظاہر ی معنی ومفہوم کو سمجھا جائے ، بغیر  کسی تحریف وتعطیل اور تکییف وتمثیل کے ، اس کی دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے: (وَلِلَّهِ الْمَثَلُ الْأَعْلَى)

ترجمہ: اللہ کے لیے تو بہت ہی بلند صفت ہے۔

یعنی اس کے لئے  کامل صفت ہے ، نیز فرمان باری تعالی ہے: (لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ)

ترجمہ: اس جیسی کوئی چیز نہیں وه سننے اور دیکھنے واﻻ ہے۔

·       اللہ کے اسماء وصفات پر ایمان لانے کا دوسرا تقاضہ یہ ہے کہ   جو اسماء وصفات کتاب وسنت میں وارد  ہوئے ہیں، ان پر ہی توقف کیا جائے ، اور کوئی ایسا اسم اورایسی  صفت نہ ایجاد کی جائے جو کتا ب وسنت میں وارد نہیں ہے،  امام احمد فرماتے ہیں:  اللہ تعالی نے اپنی عزیز وبرتر ذات کی جو صفت بیان کی ہے ، اس سے زیادہ  اس کی صفت بیان نہیں کی جا سکتی ([2])۔

·       اے اللہ کے بندو! اللہ کے اسما ء وصفات پر ایمان لانے کی ضد یہ ہے کہ ان میں الحاد کیا جائے ، لغت میں الحاد کے معنی ہیں مائل ہونے کے ، اسی سے قبر میں جو لحد ہوتی ہے ، اسے لحد سے موسوم کیا جاتا ہے،  کیوں کہ وہ قبر کی ایک جانب مائل ہوتی ہے، اس بنا پر اسماء وصفات میں الحاد کے معنی یہ ہیں کہ ان کے معنی ومفہوم کو سمجھنے میں اس  درست فہم سے اعراض برتا جائے جو عربی زبان اور فہم سلف  کا تقاضہ ہے۔

·       الحاد کی مختلف قسمیں ہیں، ان سب کا دار ومدار اس پر ہے کہ  یا تو صحیح معنی کو ایسے معنی کی طرف پھر دیا جائے جو مقصود ومرا د نہ ہو، یا اسے کلی طور پر بے معنی کردیا جائے، یہ دونوں ہی اللہ کے اسماء وصفات پر ایمان لانے کے منافی ہیں، یہ   بغیر علم کے اللہ  کی طرف کسی بات کو منسوب کرنا  ہے ،  ان بدعات میں سے ہے جن کے قائلین کی سلف صالحین اور ان کے متبعین نے سخت نکیر کی ہے، اور ان معاصی میں سے ہے جن پر اللہ نے وعید سنائی ہے ، اللہ کی پناہ، فرمان باری تعالی ہے: (وَلِلَّهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى فَادْعُوهُ بِهَا وَذَرُوا الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِي أَسْمَائِهِ سَيُجْزَوْنَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ)

ترجمہ: اچھے اچھے نام اللہ ہی کے لیے ہیں سو ان ناموں سے اللہ ہی کو موسوم کیا کرو اور ایسے لوگوں سے تعلق بھی نہ رکھو جو اس کے ناموں میں کج روی کرتے ہیں، ان لوگوں کو ان کے کئے کی ضرور سزا ملے گی۔

 (وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا)

ترجمہ: جس بات کی تجھے خبر ہی نہ ہو اس کے پیچھے مت پڑ۔ کیونکہ کان اور آنکھ اور دل ان میں سے ہر ایک سے پوچھ گچھ کی جانے والی ہے۔

·       اے مسلمانو! اللہ کے اسماء وصفات میں الحاد کی سب سے مشہور قسم یہ ہے کہ ان میں تحریف کی جائے ، یعنی  ان  کے معانی کوان  حقیقی معنوں سے پھیر دیا جائے   جن کا تقاضہ عربی زبان اور سلف صالح کی فہم کرتی ہے ، جیسے صحابہ او راخلاص کے ساتھ ان کی اتباع وپیروی کرنے والے لوگ، جنہوں نے نبی صلى اللہ علیہ وسلم سے فہم حاصل کی ، ان کی فہم کا کیا کہنا، خود نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم نے  ان کی خیریت وبہتری  کی گواہی دی ہے، آپ کی حدیث ہے:" سب سے اچھے اور بہتر لوگ ہمارے زمانے والے ہیں، پھر وہ لوگ جو ان کے بعد ہوں گے، پھر وہ لوگ جو ان کے بعد ہوں گے"([3])۔ہر وہ بات جو فہم صحابہ کے خلاف ہو اس کا دین الہی سے کوئی تعلق نہیں، بلکہ وہ (دین میں ) ایجاد کردہ من گھڑت طریقہ ہے، اسلام سے اس کا کوئی واسطہ نہیں۔

اللہ کے اسماء وصفات میں تحریف کی ایک مثال یہ ہے کہ  عرش پر   رب تعالی کے مستوی ہونے کی تفسیر یہ کی جائے کہ وہ اس پر حاوی وغالب ہے  ،  اور اس کا انکار کیا جائے کہ اس کا معنی اللہ کا عرش  پر بلند ہونا ہے ، اللہ تعالی بلند وبرتر ہے۔

·       اللہ کے اسماء وصفات میں الحاد کی ایک قسم یہ ہے کہ  ان میں تکییف کی جائے ، یعنی اللہ کی کسی صفت کی کیفیت وماہیت  معلوم کی جائے، جوکہ حرام ہے،  اس لئے کہ اللہ نے اس بات کی نفی کی ہے کہ اس کے بندے اس کی کسی صفت کا احاطہ کریں، اللہ تعالی فرماتا ہے: (وَلَا يُحِيطُونَ بِهِ عِلْمًا)

ترجمہ: مخلوق کا علم اس پر حاوی نہیں ہو سکتا۔

اس آیت کریمہ میں اللہ نے اس بات کی قطعی نفی کردی ہے کہ اس کی صفات کی کیفیت وماہیت جاننے کی چاہت رکھی جائے۔

سلف صالحین رحمہم اللہ نے اس شخص کی شدید نکیر کی ہے جو اس کا علم حاصل کرنا چاہتاہے، ایک شخص امام مالک بن انس رحمہ اللہ کے پاس آیا اور عرض کرنے لگا: اے ابو عبد اللہ !   (رحمن عرش پر مستوی ہے) ، وہ کیسے مستوی ہے؟

راوی کہتے ہیں: امام مالک نے سر جھکا لیا یہاں تک کہ پسینے سے شرابور ہوگئے ، پھر فرمایا: (استواء  کا معنی معروف ومشہور ہے ، اس کی کیفیت انسان کی عقل سے پر ے ہے، اس پر ایمان لانا واجب ہے، اس کے بارے میں سوال کرنا بدعت ہے، مجھے تو تم بدعتی معلوم پڑتے ہو) چنانچہ آپ نے انہیں باہر نکالنے کا حکم دیا ([4])۔

·       ابن عثیمین رحمہ اللہ نے امام مالک کے قول پر تبصرہ کرتے ہوئے  جو بات عرض کی اس کا خلاصہ یہ ہے کہ: مالک کا قول تمام صفات کا میزان ومعیار ہے، جو لوگ صفات الہی کی کیفیت کے بارے میں سوال کرتے ہیں، ان کا سوال کرنا بدعت ہے، کیوں کہ صحابہ خیر وبھلائی  اور اللہ کے لئے جن صفات کو ثابت کرنا واجب ہے ، ان کا علم حاصل کرنے کے سب سے  زیادہ حریص تھے،  اس کے باوجود کبھی بھی انہوں نے اللہ عزیز وبرتر کی کسی صفت کے بارے میں سوال نہیں کیا"([5])۔آپ رحمہ اللہ  کا قول ختم ہوا۔

·       اللہ کے اسماء وصفات  میں الحاد کی ایک قسم تشبیہ ہے، جیسے رب تعالی کے ہاتھ کو مخلوقات کے ہاتھ سے تشبیہ دینا، اللہ تعالی اپنے بندوں کی مشابہت سے بری وبرتر ہے۔

نعیم بن حماد الخزاعی  رحمہ اللہ –جو بخاری کے استاد ہیں- وہ کہتے ہیں: جس نے اللہ کو اس کی مخلوق سے تشبیہ دی وہ کافر ہے، جس نے ان صفات کا انکار کیا جن سے اللہ نے اپنی ذات کو متصف کیا ہے تو وہ بھی کافر ہے، اللہ  اور اس کے رسول نے اللہ کی  جو صفات بیان کی ہیں، ان میں کوئی تشبیہ نہیں پائی جاتی ([6])۔

·       اے مومنو! اللہ کے اسماء وصفات کو بغیر کسی تحریف کے  اسی طرح سمجھنا جیسے وہ وارد ہوئے ہیں،  ان عقائد میں سے ہے جن پر مذاہب اربعہ وغیر ہ کا اجماع ہے، امام محمد بن حسن الشیبانی –جوکہ امام ابو حنیفہ کے شاگرد ہیں-کا قول ہے:مشرق سے لے کر مغرب تک کے تمام فقہائے اسلام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم سے ثقہ راویوں کے ذریعے جو قرآن اور احادیث ہم تک پہنچی ہیں، ان میں عزیز وبرتر رب کی جو صفات وارد ہوئی ہیں، ان پر بغیر کسی تفسیر، توصیف اور تشبیہ کے ایمان لانا ضروری ہے،  جس نے ان میں سے کسی صفت کی (من چاہی) تفسیر بیان کی وہ نبی صلى اللہ علیہ وسلم کے طریقے اور جماعت اسلامیہ سے خارج ہے ،  کیوں کہ انہوں نے  ان صفات کی (من چاہی ) تفسیر نہیں بیان کی ہے ، بلکہ کتاب وسنت میں جو کچھ وارد ہوا ہے ، ان پر ہی اکتفا کیا اور اس کے بعد خاموشی اختیار کی ہے([7])۔

·       اما م شافعی رحمہ اللہ کا قول ہے: میں اللہ پر اس کی مراد کے مطابق اور رسول اللہ پر ان کی مراد کے مطابق ایمان لاتا ہوں([8])۔

·       ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:قرآن کریم میں صفات الہی پر مشتمل جتنی بھی آیات ہیں، ان کی تفسیر میں صحابہ کے درمیان کو ئی اختلاف نہیں پایا جاتا ہے، میں نے صحابہ سے منقول تمام تفاسیر اور ان سے مروی احادیث کا مطالعہ کیا، اس تعلق سے چھوٹی بڑی سو سے زائد تفاسیر کا  میں نے  مشیئت الہی سے جائزہ لیا،  میں نے  اب تک کسی صحابی کے تعلق سے یہ نہیں پایا کہ انہوں نے  صفات الہی پر مشتمل کسی بھی آیت یاحدیث کی ایسی تفسیر کی ہو جو اس کے معروف معنی ومفہوم  اور مشہور تقاضے کے مخالف ہو،   بلکہ   ان آیات واحادیث میں وارد صفات کے اثبات میں ان سے  بے شمار اقوال   منقول ہیں جن سے تاویل کرنے والوں کی مخالفت  (اور تردید) ہوتی ہے([9])۔آپ رحمہ اللہ کا قول ختم ہوا۔

·       ابن کثیر رحمہ اللہ رب تعالی کے فرمان (ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ) کی تفسیر میں لکھتے ہیں:  رہی بات اللہ تعالی کے فرمان: (ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ) کی تو اس سلسلے میں لوگوں کے اتنے اقوال ہیں کہ اس مقام پر انہیں بیان نہیں کیا جا سکتا، بلکہ اس مقام پر سلف صالح کا طریقہ اختیار کیا جائے، جیسے مالک ، اوزاعی، ثوری، لیث بن سعد، شافعی ، احمد ، اسحاق بن راھویہ اور ان جیسے دیگر قدیم وجدید ائمہ اسلام کا طریقہ، وہ طریقہ یہ ہے کہ  ان اسماء وصفات  کو اسی طرح ثابت کیاجائے جس طرح وہ وارد ہوئے ، ان میں کوئی تکییف وتشبیہ اور تعطیل نہ کی جائے ، ان اسماء وصفات کا جو ظاہری معنی  تشبیہ کرنے والوں کے ذہن میں آتا ہے، وہ اللہ سے اس معنی کی نفی کرتے ہیں، کوئی بھی مخلوق  اللہ کی ہم  مثل نہیں ہوسکتی :   (لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ)

ترجمہ: اس جیسی کوئی چیز نہیں وه سننے اور دیکھنے واﻻ ہے۔

بلکہ حقیقت وہ ہے جس کی وضاحت ائمہ نے کی ہے جن میں امام بخاری کے استاد نعیم بن حماد الخزاعی بھی ہیں، وہ کہتے ہیں: (جس نے اللہ کو مخلوق سے تشبیہ دی  اس نے کفر کیا ، جس نے کسی ایسی صفت کا انکار کیا جس سے اللہ نے اپنی ذات کو موصوف کیا ہے، اس نے کفر کیا، اللہ اور رسول اللہ نے جن صفات سے اللہ کو متصف کیا ہے، ان میں کوئی تشبیہ نہیں پائی جاتی ہے) ، چنانچہ جو شخص اللہ تعالی کےلئے ان صفات کو جو واضح آیتوں اور صحیح احادیث میں وارد ہوئی ہیں،اسی طرح ثابت کرے جو اس کی عظمت وجلال کے شایان شان ہے، نیز اللہ تعالی سے ہر قسم کے عیب ونقص کی نفی کرے تو وہ  ہدایت کے راستے پر گامزن ہے۔آپ رحمہ اللہ کا قول ختم ہوا۔

·       عبد الرحمن  بن القاسم المکی رحمہ اللہ ([10]) فرماتے ہیں: کسی انسان کے لئے یہ درست نہیں کہ وہ کسی ایسی صفت سے اللہ کو متصف کرے  جس سے اللہ نے اپنی ذات کو قرآن میں متصف نہیں کیا ہے ،  اور نہ اس کے ہاتھوں کو کسی چیز سے تشبیہ دے ، بلکہ یہ کہے کہ : (اس کے دو ہاتھ ہیں، جیسا کہ قرآن میں اس نے اپنی ذات کی صفت بیان کی ہے، اور اس کا ایک چہرہ ہے جیسا کہ اس نے اپنی یہ صفت بیان کی ہے)۔اللہ نے قرآن میں اپنی جو صفات بیان کی ہے ، ان پر توقف اختیار کرے ، کیوں کہ اللہ تبارک وتعالی کا کوئی ہم مثل اور مشابہ نہیں، بلکہ وہ اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ، جیسا کہ اس نے اپنی یہ صفت بیان کی ہے، اس کے دونوں ہاتھ کھلے ہوئے ہیں، جیسا کہ اللہ نے اپنے ہاتھوں کی صفت بیان کی ہے اور یہ بھی صفت بیان کی ہے کہ : (وَالْأَرْضُ جَمِيعًا قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَالسَّمَاوَاتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ)

   ترجمہ: ساری زمین قیامت کے دن اس کی مٹھی میں ہوگی اور تمام آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لپیٹے ہوئے ہوں گے۔

آپ رحمہ اللہ کا قول ختم ہوا([11])۔

·       اللہ تعالی قرآن عظیم کی برکتوں سے ہمیں اور آپ کو بہرہ مند فرمائے ، مجھے اور آپ کو اس کی آیتوں اور حکمت پر مبنی نصیحت سے فائدہ پہنچائے، میں اپنی یہ بات کہتے ہوئے اللہ تعالی سے اپنے لئے اور آپ سب کے لئے تمام گناہوں سے  مغفرت طلب کرتاہوں  ،  آپ بھی اس سے مغفرت طلب کریں، یقینا وہ   خوب توبہ قبول کرنے والااور بخشنے والا ہے۔

دوسرا خطبہ:

الحمدلله وكفى، وسلام على عباد ه الذين اصطفى، أما بعد:

اے مسلمانو! انسان کی عقل، دل اور اس کے اعضاء وجوارح کے لئے  اللہ تعالی کے اسما ء وصفات کے معانی کو جاننے کے بہت سے فوائد ہیں ، ابن القیم رحمہ اللہ رقم طراز ہیں:  (اللہ تعالی کے ) خوبصورت ناموں او ر بلند وبالا صفات،   عبودیت وبندگی اور معاملات زندگی پر انہی اثرات کا تقاضہ کرتے ہیں،  جو اثرات تخلیق اور تکوین پر مرتب ہوتے ہیں،   ہر صفت کی ایک خاص عبودیت وبندگی ہے،  جس سے یہ لازم آتا ہے کہ اس کو جانا جائے اور ا س کی معرفت حاصل کی جائے ، اور یہ چیز  دل اور اعضاء وجوراح  سے ادا کی جانے والی   عبودیت کی تمام قسموں میں عام ہے ، چنانچہ بندہ کا یہ جاننا کہ اللہ تعالی نفع ونقصان، نوازش اور محرومی، تخلیق اور رزق، زندگی اور موت دینے میں تنہا ومنفرد ہے، اس کو  جاننے  کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے باطن میں اللہ پر توکل کرنے کی بندگی پیدا ہوتی ہے اور ظاہر میں توکل کے لوازمات اور ثمرات اس پر عیاں ہوتے ہیں۔

بندہ کا  اللہ تعالی کے سمع وبصر او رعلم ومعرفت سے آشنا ہونا اور یہ جان لینا کہ آسمانوں اور زمین میں رائی کے دانے کے برابر بھی کوئی چیز اس سے مخفی نہیں، وہ تمام پوشیدہ اور ظاہر چیزوں کو جانتاہے، وہ نگاہوں کی خیانت اور دل کے راز ہائے سر بستہ سے بھی واقف ہے،    یہ جاننے کا فائدہ یہ ہوتاہے کہ بندہ اپنی زبان ، اعضاء وجوارح اور  دل کے خیالات کو ایسی باتوں سے محفوظ رکھتا ہے جو اللہ کو ناپسند ہیں، نیز ان اعضاء وجوارح کو ایسے امور سے وابستہ رکھتا ہے جو اللہ کو محبوب اور پسندیدہ ہیں، اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے باطن میں حیا پیدا ہوتی ہے، اور یہ حیا اسے حرام اور ناشائستہ  کاموں سےباز رکھتی ہے۔

اسی طرح بندہ کا اللہ کی عظمت وجلال اور عزت وشوکت سے آشنا ہونا‘  اس کے اندر خضوع وانکساری اور عاجزی ومحبت پیدا کرتا ہے او رظاہری عبادت کی ایسی قسموں سے اس کی زندگی کو معمور کرتا ہے جو معرفت الہی سے لازم آتی  ہیں۔اسی طرح بندہ کا اللہ کے کمال وجلال اور بلند وبالا صفات سے آشنا ہونا اس کے اندر  ایسی  محبت پیدا  کرتا ہے جو مقام عبودیت کے ساتھ خاص  ہوتی ہے، اس طرح تمام قسم کی عبودیت وبندگی اسماء وصفات کے تقاضوں کی طرف ہی لوٹتی  ہیں اور ان سے اسی طرح ربط رکھتی  ہیں جس طرح مخلوقات ان سے مربوط ہیں،  اللہ پاک وبرتر کا پیدا کرنا اور ( ہر طرح کا ) حکم دینا  اس کائنات میں اس کے اسماء وصفات کے لوازمات، اثرات اور تقاضے ہیں([12])۔ آپ رحمہ اللہ کا قول ختم ہوا۔

·       نیز یہ بھی جان رکھیں –اللہ آپ پر اپنی رحمت نازل فرمائے - کہ اللہ  تعالی نے آپ کو ایک بڑی چیز کا حکم دیا ہے، فرمان باری تعالی ہے:

(إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا)

ترجمہ: اللہ تعالی اور اس کے فرشتے اس نبی پر رحمت بھیجتے ہیں ۔اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود بھیجو اور خوب سلام بھی بھیجتے رہا کرو۔

اے اللہ !تو اپنے بندے اور رسول محمد پر رحمت و سلامتی بھیج،تو  ان کے  خلفاء ،تابعین عظام اور قیامت تک اخلاص کے ساتھ ان کی  اتباع کرنے والوں سے راضی ہوجا۔ اے اللہ!  ہر مصیبت گناہ کی وجہ سے نازل ہوتی ہے اور توبہ کے ذریعے ہی دور ہوتی ہے، ہم گناہوں کا اعتراف کرتے ہوئے تیرے دربار میں اپنے ہاتھ پھیلائے کھڑے ہیں، ہماری پیشانیاں توبہ کے ساتھ تیرے در پر جھکی ہیں، اے اللہ ! یمن ، عراق، شام ، فلسطین اور لیبیا اور دیگر اسلامی ممالک میں امن وآشتی پھیلادے۔ اے ہمارے رب! ہمیں دنیا  میں نیکی دے اور آخرت میں بھی بھلائی عطا فرما،اور عذاب جہنم سے نجات بخش۔

سبحان ربك رب العزة عما يصفون وسلام على المرسلين والحمد لله رب العالمين

از قلم:

ماجد بن سلیمان الرسی

۲۱  رجب  ۱۴۴۲

شہر جیبل-سعودی عرب

ترجمہ: سیف الرحمن حفظ الرحمن تیمی

[email protected]

 

 

 



 ([1])  اسے محمد بن نصر المروزی نے "تعظیم قدر الصلاۃ" (۷۸۶) میں احمد بن عاصم الانطاکی سے روایت کیا ہے۔
 ([2])  قاضی ابو یعلى نے "طبقات الحنابلۃ" (۱/۳۸۶) کے اندر حنبل بن اسحاق کی سوانح میں یہ قول روایت کیا ہے۔
 ([3])  اسے بخاری(۲۶۵۲) اور مسلم (۲۵۳۳) نے عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔
 ([4])  اسے بیہقی نے (الأسماء والصفات) : ۸۶۶-۸۶۷ میں روایت کیا ہے۔
 ([5])  شرح العقیدۃ الواسطیۃ سے اختصار کے ساتھ ماخوذ: ۱/۱۰۰
 ([6])  "العلو": ۴۶۴
 ([7])  "شرح أصول اعتقاد أہل السنۃ والجماعۃ" از: اللکالکائی:۳/۴۸۰
 ([8])   اس قول كو عبد الله بن احمد بن قدامہ (۶۲۰ھ) نے اپنی کتاب"ذم التأویل" (ص:۲۲۲‘ ۲۵۶) میں ذکر کیا ہے۔
 ([9])   "مجموع الفتاوی": ۶/۳۹۴
 ([10])  آپ امام عبد الرحمن بن القاسم ہیں‘ ان کے بارے میں امام ذھبی نے "تاریخ الإسلام":۴/۱۱۴۹ میں لکھا ہے: وہ بڑے علماء میں سے ہیں‘ اور امام مالک کے ان کبار شاگردوں میں ان کا شمار ہوتا ہے جنہوں نے ان کے مذہب کو رواج دیا....ان کی وفات سنہ ۱۹۱ھ میں ہوئی۔
 ([11])  "أصول السنۃ": ۴۲‘ تحقیق: احمد بن علی القفیلی‘ ناشر: دار الفرقان-مصر
 ([12])  "مفتاح دار السعادۃ":۲/۵۱۰-۵۱۱

المرفقات

1617420127_اللہ کے اسماء وصفات پر ایمان.pdf

المشاهدات 2307 | التعليقات 0