العام الدراسي الجديد ١٤٤٦هـ (مترجمة إلى الأوردية🇵🇰)
تركي بن عبدالله الميمان
عنوانِ خطبہ: نیا تعلیمی سال1446 ھ بتاریخ: 16 اگست 2024
پہلا خطبہ:
یقیناً تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، ہم اس کی تعریف کرتے ہیں، اور اسی سے مدد مانگتے ہیں، اور اسی سے مغفرت طلب کرتے ہیں، اور اسی کی طرف توبہ کرتے ہیں۔ جس کو اللہ ہدایت دے، اسےکوئی گمراہ کرنے والا نہیں، اور جس کو وہ گمراہ کر دے، اس کو کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔
حمد وثناء کے بعد: میں آپ کو اور خود کو قول اور عمل، ظاہر اور باطن میں اللہ سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوں، ۔ یہی اللہ کی وصیت ہے تمام پہلے اور پچھلوں کے لیے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَلَقَدْ وَصَّيْنَا الَّذِينَ أُوتُوا الكِتَابَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَإِيَّاكُمْ أَنِ اتَّقُوا اللهَ﴾ ترجمہ:"اور ہم نے ان لوگوں کو بھی جو تم سے پہلے کتاب دیے گئے تھے اور تمہیں بھی، حکم دیا کہ اللہ سے ڈرتے رہو۔" (النساء: 131)
اللہ کے بندو! سب سے افضل عبادات میں سے ایک ،اور عظیم اطاعت ،علم حاصل کرنا اور اسے سکھانا ہے۔ابن مبارک رحمہ اللہ نے فرمایا: (نبوت کے بعد میں، علم پھیلانے سے افضل کسی چیز کو نہیں جانتا)۔تہذیب الکمال ، المزی 16/20
اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو کسی چیز کے بڑھانے کی درخواست کا حکم نہیں دیا سوائے علم کے، چنانچہ فرمایا:﴿وَقُلْ رَّبِّ زِدْنِي عِلْمًا﴾ (طہ: 114)ترجمہ:"اور دعا کرو کہ اے میرے رب! میرے علم میں اضافہ فرما۔"علماء نے فرمایا: (علم کے شرف کے لیے یہ کافی ہے کہ اللہ نے اپنے نبی کو اس میں اضافے کی دعا کا حکم دیا)۔مفتاح دار السعادۃ ، ابن القیم 50
امن و امان کے اسباب میں سے ایک نافع علم کا پھیلانا ہے، کیونکہ علم فتنے کے لیے حجاب اور حکمت کی بنیاد ہے۔ علامہ ابن القیم رحمہ اللہ نے فرمایا: (جب علم کسی بستی میں ظاہر ہوتا ہے تو اس کے اہل میں شر کم ہو جاتا ہے، اور جب علم چھپ جاتا ہے تو وہاں شر اور فساد ظاہر ہوتا ہے)۔اعلام الموقعین 2/182 باختصار
نئے تعلیمی سال کے آغاز کے ساتھ، اساتذہ تعلیم دینے اور پڑھانے کے لیے تیار ہو رہے ہیں، اور طلبہ سیکھنے اور بنیاد مضبوط کرنے کے لیے تیار ہو رہے ہیں؛ اور جس نے نیت کو درست کیا، اس نے جنت تک پہنچنے کا راستہ مختصر کر لیا۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مَنْ سَلَكَ طَرِيقًا يَبْتَغِي فِيهِ عِلْمًا؛سَلَكَ اللهُ بِهِ طَرِيقًا إِلَى الجَنَّةِ، وَإِنَّ الملَائِكَةَ لَتَضَعُ أَجْنِحَتَهَا رِضَاءً لِطَالِبِ العِلْمِ؛ وَإِنَّ العَالِمَ لَيَسْتَغْفِرُ لَهُ مَنْ في السَّمَوَاتِ وَمَنْ في الأَرضِ؛ حَتَّى الحِيتَانُ في المَاءِ!). ترجمہ: (جو شخص علم کے حصول کی طلب میں کوئی راستہ اختیار کرتا ہے، اللہ اس کے لیے جنت کا راستہ آسان کر دیتا ہے، اور بے شک فرشتے علم کے طلبگار کے لیے اپنے پر بچھا دیتے ہیں؛ اور بے شک آسمانوں اور زمینوں کی مخلوقات، حتی کہ پانی کی مچھلیاں بھی اس کے لیے استغفار کرتی ہیں)۔ رواہ الترمذی 2682
تعلیم کا پیشہ ایک شریف اور عظیم امانت ہے، جس کے تقاضے یہ ہیں کہ معلم اپنے قول اور فعل میں بہترین نمونہ ہو، اپنے علم اور عمل میں ماہر ہو، اپنے دین اور شناخت پر فخر کرے، اپنے منہج میں معتدل ہو، اپنے طرز عمل میں میانہ روی اختیار کرے، اور اپنے طلبہ اور رعایا کے ساتھ نرم ہو۔
معاویہ بن الحکم رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ کی تعلیم کا وصف بیان کرتے ہوئے فرمایا: مَا رَأَيْتُ مُعَلِّمًا قَبْلَهُ وَلَا بَعْدَهُ أَحْسَنَ تَعْلِيمًا مِنْهُ، فَوَاللهِ مَا كَهَرَنِي، وَلَا ضَرَبَنِي، وَلَا شَتَمَنِي ۔ ترجمہ: (میں نے آپ سے پہلے اور آپ کے بعد کسی معلم کو نہیں دیکھا جو آپ سے بہتر تعلیم دے سکے۔ اللہ کی قسم! آپ نے مجھے نہ ڈانٹا، نہ مارا، اور نہ ہی برا بھلا کہا)۔رواہ مسلم 537
حضرت سعدی رحمہ اللہ نے فرمایا: (حکمت میں یہ ہے کہ دعوت علم کے ساتھ ہو، جہالت کے ساتھ نہیں، اور اہم ترین چیز سے ابتدا ہو، اور وہ چیز اختیار کی جائے جو ذہنوں اور فہم کے قریب ہو، اور جس کا قبول سب سے زیادہ ہو، اور نرمی اور شفقت کے ساتھ ہو)۔ تفسیر السعدی 452
خوشخبری ہے اس مخلص معلم کے لیے، جب وہ اپنے طلبہ کو خیر کی طرف رہنمائی کرے، اور انہیں شر سے بچائے۔بلاشبہ (مَنْ دَلَّ عَلَى خَيْرٍ فَلَهُ مِثْلُ أَجْرِ فَاعِلِهِ) ۔ ترجمہ:(جو شخص کسی خیر کی طرف رہنمائی کرے، اس کے لیے اس عمل کرنے والے کے برابر اجر ہے)۔ رواہ مسلم 1893 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: )إِنَّ اللهَ وَمَلَائِكَتَهُ، وَأَهْلَ السَّمَوَاتِ وَالأَرَضِينَ،حَتَّى النَّمْلَةَ في جُحْرِهَا، وَحَتَّى الحُوتَ؛ لَيُصَلُّونَ عَلَى مُعَلِّمِ النَّاسِ الخَيْرَ(. ترجمہ: (بے شک اللہ، اس کے فرشتے، آسمانوں اور زمینوں کے رہنے والے، حتی کہ بل میں رہنے والی چیونٹی اور مچھلی بھی لوگوں کو خیر کی تعلیم دینے والے پر درود بھیجتی ہے)۔رواہ الترمذی 2685 اور امام البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو صحیح کہا۔
بہترین نمونہ وہ معلم ہے جو اپنے افعال سے زیادہ اثر ڈالے بجائے اقوال کے؛ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی سیرت میں آیا ہے کہ (آپ کے مجلس میں پانچ ہزار یا اس سے زیادہ لوگ جمع ہوتے، جن میں سے تقریباً پانچ سو لکھتے، اور باقی آپ سے حسن ادب اور سلوک سیکھتے)۔ سیر اعلام النبلاء الذھبی 11/316
امام ابن الجوزی رحمہ اللہ نے فرمایا: (میں عبد الوہاب انماطی سے ملا، وہ سلف صالحین اور سلفیوں کے اصولوں پر تھے، ان کی مجلس میں کبھی غیبت کی بات نہیں سنی گئی، جب میں ان کے پاس رقائق احادیث پڑھتا تو وہ روتے اور ان کا رونا مسلسل ہوتا! تو ان کا رونا، حالانکہ میں اس وقت چھوٹی عمر کا تھا، میرے دل میں اثر کرتا اور آپسی رابطہبناتا)۔صید الخاطر 158
تعلیم ایک مشترکہ ذمہ داری ہے: مدرسہ، گھر، معلمین، اور اولیاء امور کے درمیان؛ہر وہ شخص جس کے پاس رعایا ہو، اس پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:(كُلُّكُمْ رَاعٍ، وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ: الإِمَامُ رَاعٍ وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، وَالرَّجُلُ رَاعٍ فِي أَهْلِهِ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، وَالمَرْأَةُ رَاعِيَةٌ فِي بَيْتِ زَوْجِهَا وَمَسْئُولَةٌ عَنْ رَعِيَّتِهَا) ترجمہ: (تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور ہر ایک سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال کیا جائے گا: امام اپنی رعایا کا نگہبان ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال کیا جائے گا، اور مرد اپنے گھر والوں کا نگہبان ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال کیا جائے گا، اور عورت اپنے شوہر کے گھر کی نگہبان ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال کیا جائے گا)۔بخاری 853، مسلم 1829
ایک اور حدیث میں فرمایا:( إِنَّ اللهَ سَائِلٌ كُلَّ رَاعٍ عَمَّا اسْتَرْعَاهُ: أَحَفِظَ أَمْ ضَيَّعَ، حَتَّى يَسْأَلَ الرَّجُلَ عَنْ أَهْلِ بَيْتِهِ)ترجمہ: (بے شک اللہ ہر نگہبان سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال کرے گا کہ اس نے حفاظت کی یا ضائع کیا، یہاں تک کہ مرد سے اس کے گھر والوں کے بارے میں بھی سوال کیا جائے گا)۔رواہ ابن حبان 4493 امام البانی رحمہ اللہ نے حسن کہا۔
علامہ ابن القیم رحمہ اللہ نے فرمایا: (جو شخص اپنے بچے کو اس کے نفع کی چیزیں سکھانے میں غفلت برتے اور اسے بےکار چھوڑ دے، وہ اس کے ساتھ انتہائی زیادتی کرتا ہے، اور زیادہ تر بچوں کی بگاڑ ان کے والدین کی طرف سے ہی ہوتا ہے، ان کی بے پرواہی، اور انہیں دینی فرائض اور سنتوں کی تعلیم نہ دینے سے، وہ انہیں چھوٹی عمر میں ضائع کر دیتے ہیں؛ چنانچہ وہ نہ اپنی ذات کے لیے نفع مند ہوتے ہیں، اور نہ ہی اپنے والدین کے لیے بڑے ہو کر)۔ تحفۃ المودہ 229
اور وطن کی طاقت صرف عسکری قوت میں نہیں ہے ،بلکہ علمی قوت میں بھی ہے؛اللہ تعالیٰ نے فرمایا:﴿وَأَعِدُّوا لَهُم مَا اسْتَطَعْتُمْ مِن قُوَّةٍ﴾ (الأنفال:60 ))"اور ان کے مقابلے کے لئے اپنی طاقت بھر قوت تیار رکھو")
سعدی رحمہ اللہ نے قوت کے معنی میں فرمایا: (جو کچھ بھی قوت عقل و بدن کے لحاظ سے تیار کر سکتے ہو)۔
میں اپنی بات کہہ رہا ہوں، اور اللہ سے اپنے اور آپ کے لئے ہر گناہ کی مغفرت طلب کرتا ہوں؛ اس سے مغفرت مانگیں، بے شک وہ غفور الرحیم ہے۔
دوسرا خطبہ:
اللہ کا شکر ہے اس کی احسانات پر، اور اس کا شکر ہے اس کی توفیق اور عنایت پر، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، اور محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں۔
اللہ کے بندو! نافع علم تقویٰ کا پھل ہے؛اللہ تعالیٰ نے فرمایا:﴿وَاتَّقُوا اللهَ وَيُعَلِّمُكُمُ اللهُ﴾ (البقرة: 282) ترجمہ: اور اللہ سے ڈرو، اور اللہ تمہیں سکھائے گا" امام شوکانی رحمہ اللہ نے فرمایا: (اس میں وعدہ ہے کہ جو اللہ سے ڈرتا ہے، اللہ اسے علم سکھائے گا)۔فتح القدیر 1/348
علم کی قدر اس طرح ممکن ہے کہ اس کے اہل اور اس کے حاملین کی تعظیم اور اس کے لیے قربانی دینے والوں کی قدر کرنے سے ہی ممکن ہے؛رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:(مَنْ لاَ يَشْكُرُ النَّاسَ؛ لاَ يَشْكُرُ الله) ترجمہ: (جو لوگوں کا شکر ادا نہیں کرتا، وہ اللہ کا شکر ادا نہیں کرتا)۔الترمذی 1954 اور کہا یہ حدیث صحیح ہے۔
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: (علم کے اہل کا فضل وہی جانتا ہے جو خود صاحب فضل ہو)۔ادب الدنیا والدین الماوردی 67
علم عمل کی اصلاح کا ذریعہ ہے، اور نیک عمل دنیا اور آخرت میں نجات کا سبب ہے۔ سب سے عظیم اعمال میں سے ایک عمل جس کے ساتھ طالب علم اپنے تعلیمی دن کا آغاز کرتا ہے وہ فجر کی نماز کو وقت پر ادا کرنا ہے۔ جو شخص اپنے بچوں کو اسکول کے لیے جگاتا ہے لیکن نماز کے لیے نہیں جگاتا، تو اس نے ان کو عظیم رزق سے محروم کر دیا! اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَأْمُرْ أَهْلَكَ بِالصَّلاةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا لا نَسْأَلُكَ رِزْقًا نَّحْنُ نَرْزُقُكَ﴾. ترجمہ:"اور اپنے اہل خانہ کو نماز کا حکم دو اور اس پر صبر کرو، ہم تم سے رزق نہیں مانگتے، ہم تمہیں رزق دیں گے۔" ابن کثیر نے فرماتے ہیں: "یعنی جب تم نماز قائم کرو گے تو تمہیں ایسے راستے سے رزق ملے گا جہاں سے تمہیں توقع بھی نہیں ہوگی۔" تفسیر ابن کثیر 5/288
سب سے عظیم نفع بخش علم وہ ہے جو دنیا اور آخرت میں اس کے صاحب کو فائدہ پہنچائے، اور اسے نیک لوگوں کے مستقبل کی طرف لے جائے، اور اسے جہنم کے خطرے سے بچائے! اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيْكُمْ نَارًا﴾. "اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل خانہ کو اس آگ سے بچاؤ!" مفسرین نے کہا: "انہیں ادب سکھاؤ اور انہیں علم دو"، تفسیر ابن کثیر 8/189
اور بعض نے کہا: "مسلمان پر لازم ہے کہ اپنے اہل خانہ کو وہ سکھائے جو اللہ نے ان پر فرض کیا ہے، اور جس سے اللہ نے انہیں منع کیا ہے۔" المصدر السابق 8/189
ابن کثیررحمہ اللہ نے فرمایا: "انہیں نیکی کا حکم دو، اور برائی سے روکو، اور انہیں لاپرواہ نہ چھوڑو؛ ورنہ قیامت کے دن آگ انہیں کھا جائے گی۔" المصدر السابق 5/240
**************************
• اے اللہ! ہمیں وہ علم عطا فرما جو ہمیں نفع دے، اور ہمیں اس علم سے نفع پہنچا جو تو نے ہمیں سکھایا۔
• اے اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو عزت عطا فرما، اور شرک اور مشرکین کو ذلت دے۔
• اے اللہ! پریشان حال لوگوں کی پریشانی دور فرما، اور مصیبت زدہ لوگوں کی مصیبت کو دور کر۔
• اے اللہ! ہمیں ہمارے وطنوں میں امن عطا فرما، اور ہمارے اماموں اور حکمرانوں کی اصلاح فرما، اور (ہمارے حاکم اور اس کے ولی عہد) کو اپنی پسندیدہ اور مرضی کے کاموں کی توفیق عطا فرما، اور ان کی رہنمائی نیکی اور تقویٰ کی طرف فرما۔
• اے اللہ کے بندو! بے شک اللہ انصاف، احسان، اور قرابت داروں کو دینے کا حکم دیتا ہے، اور بے حیائی، برائی، اور زیادتی سے منع کرتا ہے، وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔ پس اللہ کو یاد کرو، وہ تمہیں یاد کرے گا، اور اس کی نعمتوں پر شکر ادا کرو، وہ تمہیں زیادہ عطا فرمائے گا۔ اور بے شک اللہ کا ذکر سب سے بڑا ہے، اور اللہ تمہارے اعمال کو جانتا ہے۔
خطیب : الشیخ / ڈاکٹر ترکی بن عبداللہ المیمان
مترجم: محمد زبیر کلیم )داعی ومدرس جمعیت ھاد جالیات عنیزہ۔ سعودی عرب(
1
المرفقات
1723659174_نیا تعلیمی سال 1446 ھ.docx
1723659184_نیا تعلیمی سال 1446 ھ.pdf