احساس وشعور اور دلجمعی کے ساتھ عبادت کرنا

سيف الرحمن التيمي
1443/07/03 - 2022/02/04 20:13PM

موضوع الخطبة            :استشعار التعبد وحضور القلب

الخطيب                   : حسام بن عبد العزيز/ حفظه الله

لغة الترجمة                 : الأردو

المترجم                     :سيف الرحمن التيمي((@Ghiras_4T

موضوع:

احساس وشعور اور دلجمعی کے ساتھ عبادت کرنا

 

پہلا خطبہ:

الحمد لله العفوِ الغفور العزيزِ الشكور الحليمِ الصبور، وأشهد ألا إله إلا الله وحده لا شريك له الفتاح الهادي الوهاب الشافي، وأشهد أن محمد عبده ورسوله خاتم الأنبياء له من ربه سبحانه الثناء وله الثناء من أهل الأرض والسماء، فصلى الله عليه وعلى آله وصحبه وسلم تسليماً كثيراً.

حمد وثنا کے بعد!

ایمانی بھائیو! میں آپ کو اور اپنے آپ کو اللہ کا تقوی اختیا ر کرنے کی وصیت کرتا ہوں کیوں کہ ہم میں سے ہر ایک کوآخرت کی طرف کوچ کرنا ہے ، البتہ یہ نہیں پتہ کہ وہاں پہنچیں گے کب!  اس سفر کا آغاز ہوتے ہی عمل کا سلسلہ منقطع ہوجاتا ہے۔

وما هذه الأيامُ إلا مراحلٌ

يحثُ بها داعٍ إلى الموتِ قاصدُ

وأعجبُ شيءٍ لو تأملتَ أنها

منازلُ تطوى والمسافر قاعدُ

ترجمہ:  یہ دنیا چند مراحل سے عبارت ہے۔ جسے موت کا پیغامبر طے کیے جا رہا ہے۔اگر آپ غور وفکر کریں گے تو سب سے زیادہ تعجب آپ کو اس بات پر ہوگا کہ  منزلیں طے ہور ہی ہیں اور مسافر بیٹھا ہوا ہے۔

عہد نبوی میں کچھ لوگ یمن سے مکہ کی طرف حج کے ارادے سے روانہ ہوئے ، لیکن ان کے پاس زاد راہ کے طور پر کچھ  نہ تھا، اس پر قرآن کی تنبیہ نازل ہوئی جس میں انہیں توشہ اختیار کرنے کا حکم دیا گیا، چنانچہ کفایتی توشہ ساتھ رکھنا شریعت میں مطلوب ہے ، اس کے بعد انہیں ایسے حقیقی توشہ کا حکم دیا گیا جس کا فائدہ ہمیشہ جاری وساری رہتا ہے، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اور وہی توشہ کامل ترین لذت اور ہمیشگی کی عظیم ترین نعمت  تک انسان کو پہنچا سکتا ہے : ﴿ وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَى وَاتَّقُونِ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ ﴾ [البقرة: 197].

ترجمہ:  اور اپنے ساتھ سفر خرچ لے لیا کرو ، سب سے بہتر توشہ اللہ تعالی کا ڈر ہے، اور اے عقلمندو! مجھ سے ڈرتے رہا کرو۔

رحمن کے بندو! دلوں کی عبادت اعضاء وجوارح کی عبادت کی بنیاد ہے، دل کا ایک عمل ایسا بھی ہے جس کے ذریعہ بندہ کے لیے اطاعت کے کام آسان ہوجاتے ہیں، وہ اگر موجود ہو تو مومن عبادت کو زیادہ حسن وخوبی سے ادا کرتا ہے، اس کی وجہ سے اجر وثواب میں اضافہ ہوتا ہے، وہ عبادت کی روح ہے، اس کا تعلق اخلاص، یقین، تعظیم، امید، خوف اور احترام وغیرہ سے ہے! ..میری مراد عبادت کا شعور اور دل جمعی ہے، آئیے ہم اپنے آپ کی تذکیر کرتے ہیں: ﴿ فَإِنَّ الذِّكْرَى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِينَ ﴾ [الذاريات: 55]

ترجمہ: یقینا یہ نصیحت ایمان والوں کو نفع دے گی۔

اللہ سے دعا ہے کہ اس نصیحت کو متکلم اور سامع دونوں کے لیے مفید بنائے ۔

ایمانی بھائیو! جو شخص عبادت انجام دیتے ہوئے اس کی فضیلت کو ذہن میں زندہ رکھتا، اس پر  ثواب کی امید کرتا اور اپنے رب کی قربت محسوس کرتا ہے  تو اسے عبادت میں لذت حاصل ہوتی ہے، اس کی عادتیں بھی عبادتوں میں بدل جاتی ہیں،  لیکن جو شخص اعضاء وجوارح سے عبادت تو انجام دیتا ہے لیکن اس کا دل غافل ہوتا ہے تو وہ بہت سی بھلائیوں سے محروم ہوجاتا ہے! اور اس کی عبادتیں بھی عادتوں کی طرح ہی ہوتی ہیں!

رحمن کے بندو! نماز  اسلام کا ستو ن ہے، اس کے بیش بہا فضائل وارد ہوئے ہیں، ہم ہر دن کئی دفعہ نماز ادا کرتے ہیں، لیکن کیا   ہر رکعت میں  ہم  اللہ سے سرگوشی کو محسوس کرتے ہیں؟!صحیح مسلم میں حدیث قدسی آئی ہے: "اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں نے نماز اپنے اور اپنے بندے کے درمیان آدھی آدھی تقسیم کی ہے اور میرے بندے نے جو مانگا، اس کا ہے جب بندہ ﴿الحمد لله رب العالمين﴾ کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میرے بندے نے میری تعریف کی۔ اور جب وہ کہتا ہے: ﴿الرحمن الرحيم﴾   تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میرے بندے نے میری ثنا بیان کی۔ پھر جب وہ کہتا ہے: ﴿ مالك يوم الدين﴾  تو (اللہ) فرماتا ہے: میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی... " الحدیث

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم رحمن کے جواب کو محسوس کرتے ہیں؟! کیا جب ہم  سورۃ الفاتحہ پڑھنے کے بعد آمین کہتے ہیں تو  اس دعا کو محسوس کرتے ہیں جس پر ہم آمین کہہ رہے ہوتے ہیں؟ ! ہم آمین تو کہتے ہیں لیکن اس کے اس  معنی سے غافل ہوتے ہیں: اے اللہ ! قبول فرما۔ اور معلوم بات ہے کہ ایسے دل کی دعا قبول نہیں ہوتی جو غافل ہو۔

حدیث ہےکہ: "جب تم میں سے کوئی نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو وہ اپنے پروردگار سے سرگوشی کرر ہا ہوتا ہے، اس لیے اچھی طرح دیکھ لے کہ وہ اس سے کیسے سرگوشی کرر ہا ہے"۔اس حدیث کو البانی نے صحیح قرار دیا ہے۔

کیا ہم رکوع  میں اللہ کی تعظیم کو محسوس کرتے ہیں؟  سجدہ کی حالت میں عاجزی اختیار کرتے  ہیں جب کہ ہم اللہ پاک سے اس حالت میں سب سے زیادہ قریب ہوتے ہیں!

کیا ہمیں یاد رہتا ہے کہ جو شخص جماعت کے ساتھ عشاء کی نماز ادا کرتا ہے اسے نصف رات تک قیام اللیل کرنے کا ثواب ملتا ہے اور جو شخص نماز فجر با جماعت ادا کرتا ہے تو وہ گویا پوری رات قیام کرتا ہے!

اللہ کے بندے! جب آپ والدین کی، یا رشتہ داروں کی زیارت کریں یا ان کی خدمت کریں یا جب آپ کو یہ عمل مشکل لگنے لگے تو اللہ تعالی کا یہ فرمان یاد کرلیں جو اللہ پاک نے رشتہ داری کے تعلق سے فرمایا ہےجیسا کہ صحیحین میں ہے: "کیا تجھے پسند نہیں کہ جو تجھ سے جوڑے میں بھی اس سے اپنا تعلق جوڑوں اور جو تجھ سے توڑے میں بھی اس سے توڑ لوں؟" ۔ اس حدیث  کی روشنی میں ہمارے اندر   صلہ رحمی  کی تحریک پیدا ہونی چاہئے ، بے تعلقی سے ہمیں  ہوشیار وخبردار ہوجانا چاہئے   اور خواہشات نفس کی پیروی سے اجتناب کرنا چاہئے : ﴿ فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِنْ تَوَلَّيْتُمْ أَنْ تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَتُقَطِّعُوا أَرْحَامَكُمْ * أُولَئِكَ الَّذِينَ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فَأَصَمَّهُمْ وَأَعْمَى أَبْصَارَهُمْ﴾ [محمد: 22، 23]

ترجمہ: اور تم سے یہ بھی بعید نہیں کہ اگر تم کو حکومت مل جائے تو تم زمین میں فساد برپا کردو اور رشتے ناتے توڑ ڈالو۔یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ کی پھٹکار ہے اور جن کی سماعت اور آنکھوں کی روشنی چھین لی ہے۔

رحمن کے بندو! جب آپ کسی مریض کی عیادت کریں تو   آپ کچھ فضیلتوں کی امید  ضرور رکھیں، جن میں سے یہ بھی ہے کہ فرشتے آپ کے لیے دعا کرتے ہیں  اور آپ کو جنت کے پھل ملتے رہتے ہیں جب تک کہ آپ لوٹ نہ آئیں، حدیث میں ہے: "جو شخص کسی مریض کی عیادت کرتا ہے وہ واپس آنے تک مسلسل جنت کی ایک روش پر رہتا ہے"۔(مسلم)

اگر شام کے وقت مریض کی عیادت کریں تو یہ خیر کا ایک دروازہے ، کیوں کہ آپ کو فرشتے کی دعا صبح تک ملتی   رہتی ہے جیسا کہ صحیح حدیث میں آیا ہے۔

اے میرے احباب! احد پہاڑ کو تصور میں رکھنے سے مسلمان کے اندر جنازہ میں شریک ہونے اور اس کے پیچھے پیچھے  قبرستان تک جانے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے  خواہ وہ جنازہ کسی اجنبی اور مسافر  کا ہی کیوں نہ ہو!

رحمن کے بندو! منجملہ طور پر تمام انسان اس معاملہ میں متفق ہیں کہ وہ حسن اخلاق کی تعریف کرتے ہیں جیسے ہنس مکھ چہرہ سے ملنا، ملکر مسکرانا، سچ بولنا، تعاون کرنا، سخاوت وفیاضی، اور اچھی بات وغیرہ۔ لیکن مسلمان کی خوبی یہ ہے کہ جب اس کی نیت نیک ہوتی ہے تو اسے اللہ کی عبادت کا اجر ملتا ہے، اس کی وجہ سے اللہ کے نزدیک اسے مقام ملتا ہے اور اتنے اجر وثواب ملتے ہیں کہ اس کا نامہ اعمال وزنی ہوجاتا ہے۔

اللہ کے بندے! جب آپ خرید وفروخت کریں تو معقول منافع لیں  ، جتنا آپ خود دینا پسند کرتے ہوں، کیوں کہ ایسا کرکے آپ ایمانی   اقدار اور بلند اخلاق کو بروئے عمل لاتے ہیں، اس لیے  اس کو یاد رکھیں تاکہ  آپ بڑے اجر وثواب سے ہمکنار ہوں: "تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن (کامل) نہیں بن سکتا جب تک کہ اپنے بھائی کے لیے بھی وہی پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے" (صحیح بخاری)

ایمانی بھائیو! نوکری اور کام کاج امانت ہے، ممکن ہے کہ آپ اپنے کام میں کوتاہی کریں اور کسی کو معلوم بھی نہ ہوپائے! اور اگر معلوم بھی ہوتو آپ کو نظر انداز کردیا جائے، جو شخص امانت کی عظمت کو محسوس کرے گا اور یہ یاد رکھے گا کہ اس سے محاسبہ ہونے والا ہے تو شخصی طور پر خوب محنت سے کام کرے گا  تاکہ مطلوبہ عمل کو انجام دے کر اپنی ذات کو نجات سے ہمکنار کرسکے، چنانچہ خوف وامید کا احساس اور اللہ  کے  عالم الغیب ماننے کا عقیدہ اسے اپنے کام کو اچھے ڈھنگ سے ادا کرنے پر آمادہ کرے گا ۔اللہ ہی سے ہم مدد کی دعا کرتے ہیں۔

اللہ کے بندو! صدقہ ایک عظیم ترین عبادت ہے، اس سے مسلمان کا تزکیہ ہوتا اور نفس کو پاکیزگی حاصل ہوتی ہے اور مال میں برکت آتی ہے: ﴿ خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا ﴾ [التوبة: 103]

ترجمہ :آپ ان کے مالوں میں سے صدقہ لے لیجئے  ، جس کے ذریعہ سے آپ ان کو پاک صاف کردیں۔

کیا ہم اس فضیلت کو محسوس کرتے ہیں؟ کیا صدقہ کرنے والا یہ محسوس کرتا ہے کہ رحمن اس کا صدقہ لیتا ہے ، اللہ پاک اس  کے بعد   کی آیت میں فرماتا ہے: ﴿ أَلَمْ يَعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ هُوَ يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ وَيَأْخُذُ الصَّدَقَاتِ وَأَنَّ اللَّهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ ﴾ [التوبة: 104]

ترجمہ:  کیا ان کو یہ خبر نہیں کہ اللہ ہی اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور وہی صدقات کو قبول فرماتا ہے اور یہ کہ اللہ ہی توبہ قبول کرنے میں اور رحمت کرنے میں کامل ہے۔

حدیث ہے کہ: "جو شخص حلال کمائی سے ایک کھجور کے برابر بھی صدقہ دیتا ہے اور اللہ تعالی حلال وپاکیزہ چیزوں کو ہی قبول کرتا ہے...اللہ تعالی اس صدقہ کو اپنے دائیں ہاتھ میں لیتا ہے، پھر اسے دینے والے کی خاطر بڑھاتا ہے جس طرح تم میں سے کوئی اپنے گھوڑے کے بچے کو پال کر بڑھاتا ہے ، حتی کہ وہ کھجور پہاڑ کے برابر ہوجاتی ہے"۔(بخاری ومسلم)

اللہ تعالی مجھے اور آپ کو قرآن وسنت کی برکت سے بہرہ ور فرمائے، ان میں جو آیت اور حکمت کی  بات آئی ہے، اس سے ہمیں فائدہ پہنچائے، آپ اللہ سے مغفرت طلب کریں، یقینا وہ خوب معاف کرنے والا ہے۔


 

دوسرا خطبہ:

الحمد لله القائل ﴿ وَمَنْ يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوبِ ﴾ [الحج: 32] والقائل ﴿ لَنْ يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَكِنْ يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنْكُمْ ﴾ [الحج: 37] وصلى الله وسلم على نبيه القائل " ألا وإن في الجسدِ مُضغَةً: إذا صلَحَتْ صلَح الجسدُ كلُّه، وإذا فسَدَتْ فسَد الجسدُ كلُّه، ألا وهي القلبُ ".

حمد وصلاۃ کے بعد:

اللہ کی عبادت کا احساس وشعور زندہ رکھنا اور دلجمعی کے ساتھ عبادت  کرنا مرتبہ احسان تک پہنچنے کا راستہ ہے جو کہ دین کا اعلی ترین مرتبہ ہے، احسان کے دو مراتب ہیں، پہلا مرتبہ: " آپ اللہ کی عبادت اس طرح کریں گویا کہ آپ اسے دیکھ رہے ہوں" ، یہ مرتبہ اس وقت حاصل ہوتا ہے جب آپ اس مرحلہ سے گزر جاتے ہیں :"اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے ہو تو وہ تمہیں دیکھ رہا ہے"۔

احباب گرامی!یہ ایک عظیم نعمت ہے کہ اللہ تعالی بندہ کو یہ توفیق دے کہ وہ رات کی تنہائی میں اپنے پروردگار کے سامنے کھڑا ہو، اپنے دل میں آخرت کا خوف اور اپنے رب کی رحمت بسائے ہوا ہو، اور اگر رات کے تیسرے پہر میں قیام کرے تو اللہ کی قربت اور ربانی وعدہ کو یاد رکھے: " کیا کوئی دعا کرنے  والا ہے کہ اس کی  دعا قبول کروں، کیا کوئی مانگنے والا ہے کہ اسے نوازوں، کیا  کوئی بخشش کا طلب گار ہے کہ اسے بخش دوں" (بخاری ومسلم)

اللہ پاک  کے اس فرمان پر غور کریں: ﴿ وَتَوَكَّلْ عَلَى الْعَزِيزِ الرَّحِيمِ * الَّذِي يَرَاكَ حِينَ تَقُومُ * وَتَقَلُّبَكَ فِي السَّاجِدِينَ * إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ ﴾ [الشعراء: 217 - 220].

ترجمہ: اپنا پورا بھروسہ غالب مہربان اللہ پر رکھ۔جو تجھے دیکھتا رہتا ہے جبکہ تو کھڑا ہوتا ہے۔اور سجدہ کرنے والوں کے درمیان تیرا گھومنا پھرنا بھی۔

رحمن کے بندو! اللہ کو یاد کرنا ایک عظیم ترین اور مہتم بالشان عبادت ہے، تو کیا ہم ذکر الہی کے وقت ان عبادتوں کے معنی ومفہوم کو محسوس کرر ہے ہوتے ہیں، کیوں کہ  الحمد للہ کہنا  شکر وثنا بجا لانا  ہے،  اللہ اکبر کہنا تعظیم کرنا ہے،سبحان اللہ کہنا تقدیس ہے  اور لاحول ولا قوۃ الا باللہ  پڑھنا مدد طلبی کی دعا ہے۔

اہل علم کہتے ہیں کہ سب سے افضل ذکر وہ ہے جسے  ایک ساتھ دل اور زبان دونوں  سے ادا کیا جائے۔

کیا ہم اس بیش بہا فضیلت کو یا د رکھتے ہیں کہ ذکر کرنے والے کو اللہ یاد کرتا ہے! حدیث قدسی ہے کہ: "اگر وہ مجھے اپنے نفس میں یاد کرے تو میں بھی اسے اپنے نفس میں یاد کرتا ہوں ۔ اگر وہ مجھے بھری محفل میں یاد کرے تو میں اسے اس سے بہتر محفل میں یاد کرتا ہوں" ۔ (بخاری ومسلم) اگر اللہ کو یاد کرنے کی صرف یہی ایک فضیلت ہوتی تو بھی کافی ہوتی۔جیسا کہ ابن القیم نے فرمایا ۔

جب روزہ دار اللہ پاک کے اس فرمان کو  محسوس کرتا  ہے جو حدیث قدسی میں آیا ہے ، تو  اسے اپنے رب کی قربت محسوس ہوتی ہے اور روزہ  کی رغبت مزید بڑھ جاتی ہے: "وہ  میری خاطر اپنی خواہشات اور کھانا پینا چھوڑتا ہے " (صحیح بخاری)

احباب گرامی! کیا ہم قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے اللہ کے ان اوامر کو محسوس کرتے ہیں جن کے مخاطب ہم خود ہیں؟! ایک شخص عبد اللہ بن مسعود کے پاس آیا او رکہنے لگا: "مجھے کچھ نصیحت کیجئے۔ آپ نے فرمایا: جب تم اللہ تعالی کو  (قرآن میں) یہ فرماتے  ہوئے سنو: اے ایمان والو!  تو (اس کے بعد ) خوب غور سے سنو! کیوں  کہ یا تو کوئی بھلائی ہوگی جس کا اللہ حکم دے گا یا کوئی برائی ہوگی جس سے منع فرمائے گا"  (اس کی سند کو احمد شاکر نے صحیح کہا ہے)۔

رحمن کے بندو!  فطری طور پر  ان معانی ومفاہیم کا احساس وشعور مختلف ہوتا ہے، دل ایمان کے حقائق اور اس کے درجات سے  جس قدر معمور ہوگا ، اسی قدر اس  کا احساس وشعور بھی مکمل اور مدام ہوگا، ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے نفس سے لڑتے رہیں،  اس کام پر  تعاون کرنے  والا امر یہ بھی ہے کہ ان درجات وحقائق  سے ہم آگاہ رہیں،  نفس سے مجاہدہ کریں، دعا کا اہتمام کریں اور ذکر کی مجلس کو لازم پکڑیں، شاید انہی مقاصد کے پیش نظر ایک دوسرے کو نصیحت اور وصیت کرنا مشروع قرار دیا گیا ہے: ﴿ وَذَكِّرْ فَإِنَّ الذِّكْرَى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِينَ ﴾ [الذاريات: 55].

ترجمہ: اور نصیحت کرتے رہیں یقینا یہ نصیحت ایمان والوں کو نفع دے گی۔

 

آپ﷐ پر درود وسلام بھیجتے رہیں۔

صلى اللہ علیہ وسلم

 

از قلم:

فضیلۃ الشیخ حسام بن عبد العزیز الجبرین

مترجم:

سیف الرحمن تیمی

[email protected]

المرفقات

1644005587_احساس وشعور اور دلجمعی کے ساتھ عبادت کرنا.pdf

المشاهدات 710 | التعليقات 0